نصابی کتابوں میں انسانی حقوق کے منشور کی تعلیم کے اثرات تباہ کن ہو سکتے ہیں
پروفیسر سید خالد جامعی
مغرب سے اصل جنگ آزادی کے عقیدے کی جنگ ہے۔ آزادی کے عقیدے کا انکا ر کیے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ توہینِ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اصل سبب آزادی کا عقیدہ ہے، اس کے خلاف جنگ ہونی چاہیے۔ اسلامی تحریکوں، مذہبی جماعتوں بلکہ پورے عالمِ اسلام کو منشورِ انسانی حقوق کے عقیدۂ آزادی کا انکار کر دینا چاہیے کہ تمام فتنے اسی سے پیدا ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں ۱۹۸۵ء سے اب تک توہین رسالت کے پانچ ہزار مقدمات کا اندراج آزادی کے عقیدے کا نتیجہ ہے۔ یہ عقیدہ ہمیں اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے لیکن اس کی تنقید نہیں پڑھائی جاتی۔ ساتویں جماعت کے نصاب میں بچوں کو ’’ہیومن رائٹس‘‘ پڑھائے جا رہے ہیں۔ Peak Publishingکمپنی کی کتاب Social Studeis For Today (Vol2)کو پڑھیے، یہ کتاب پاکستان کے کئی اسلامی اسکولوں میں پڑھائی جا رہی ہے، اس کا آٹھواں باب ہے: Our Rights and Responsibilities (ہمارے حقوق و فرائض)۔ اس میں ذیلی سرخی ہے: What are Human rights ( انسانی حقوق کیا ہیں؟)۔ اس سرخی کے بعد بتایا گیا ہے کہ ’’ہر شخص کو مکمل آزادیٔ اظہارِ رائے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو مذہب بدلنے کی آزادی ہے۔ ہر شخص کو ہر جگہ جانے کی آزادی ہے۔ ہر شخص کو کسی کے ساتھ بھی باہمی رضا مندی سے تعلق (association) رکھنے کی آزادی ہے۔ ہر شخص کو تنقید کی مکمل آزادی ہے‘‘۔
آزادی کے یہ اسباق پڑھنے کے بعد اگر نوجوان سیکولر ، لبرل ہو رہے ہیں تو کیا غلط ہے؟ نوجوان پوچھ رہے ہیں کہ مکہ مدینہ میں غیر مسلم کیوں نہیں جا سکتے؟ ہندو اور قادیانی سے شادی کیوں نہیں ہو سکتی؟ دین پر تنقید، اعتراض کی آزادی کیوں نہیں ہے؟ اسکولوں میں اسلامیات اور مطالعہ پاکستان پڑھانے والے اساتذہ کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب ہی نہیں ہے۔ حالانکہ ایک سادہ جواب یہ بھی ہے کہ کیا اس منشورِ حقوقِ انسانی پر تنقید کرنے کی، اسے مسترد کرنے کی، اس کے خلاف بغاوت کرنے کی آزادی ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ مگر اسلامی اسکولوں میں یہ بھی نہیں بتایا جا رہا۔
علماء، انسانی حقوق کے منشور کی حقیقت سے واقف نہیں:
نوجوان نسل کو اسکولوں میں کیا پڑھایا جا رہا ہے، علماء اس سے واقف ہی نہیں۔ اگر واقف ہیں تو ان سوالات و مسائل سے واقف نہیں اور اگر ان سوالات سے واقف ہیں تو ان کے جوابات سے ناواقف ہیں۔ کسی دینی مکتبِ فکر کی جانب سے منشور انسانی حقوق کی کی تکفیر، تردید، تنقید ہمارے علم میں نہیں۔
منشورِ انسانی حقوق کی تنقید لازماً پڑھائی جائے:
ہماری درخواست دینی جماعتوں، اسلامی اسکولوں سے یہ ہے کہ اسکول، کالج، مدرسے، یونیورسٹی میں اگر منشورِ انسانی حقوق کے اسباق پڑھائے جا رہے ہیں تو آپ اس کی تنقید ہی پڑھا دیں، لیکن ہم تو اس منشور پر ایمان لا چکے ہیں اور بعض علماء اسے اسلام اور خطبہ حجۃ الوداع سے ثابت کر رہے ہیں۔ ’’ہیومن رائٹس‘‘ جب اسکولوں کے نصاب میں شامل کر لیا گیا اور بچوں کو پڑھا دیا گیا اور اس ’’منشورِ انسانی حقوق‘‘ کے کفر سے بچوں کو آگاہ بھی نہیں کیا گیا تو جوبچے مطلق آزادی کے اصول کو پڑھ کر عملی زندگی میں آئیں گے اور تمام انسان اس منشور کی روشنی میں برابر (equal) ہوں گے تو وہ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے برابر، اپنے جیسا سمجھیں گے یا اپنے سے برتر؟ جب وہ پڑھیں گے کہ ہر شخص کو اپنے ہر قسم کے خیالات، افکار، جذبات پیش کرنے، پھیلانے کی اور کسی پر بھی تنقید کرنے کی آزادی ہے اور ہر شخص جب چاہے، جو چاہے مذہب اختیار کرنا چاہے، اختیار کر سکتا ہے اور اختیار کردہ مذہب میں جو چاہے ترمیم کر سکتا ہے، جس سے مرضی چاہے شادی کر لے، خواہ اس کا مذہب، نسل کوئی بھی ہو، تو ہماری نئی نسل کیا کرے گی؟ اس کے کفر کی ذمہ داری کس پر ہو گی؟
ممکن ہے کہ کوئی شخص ہر کسی کو کافر بناتا ہو اوریہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص کفر کو کفر ہی نہ کرے۔ یعنی تکفیر میں غلو بھی ممکن ہے اور تساہل بھی۔ مگر یہاں تو حال یہ ہے کہ منشور ِ حقوق انسان کی تکفیر تو دور کی بات ہے، اس پر نہ کوئی تنقید ہو رہی ہے نہ تفکیر ہو رہی ہے۔ اسے پورے عالمِ اسلام میں نہایت عزت سے دیکھا جا رہا ہے اور اس کی احمقانہ مذہبی توجیہات پیش کی جا رہی ہیں۔ عالمِ عرب اور ہندوستان اس کام میں سب سے آگے ہیں۔
اے لیول، او لیول کی لڑکیوں سوالات:
مسئلہ صرف انسانی حقوق کے منشور کی تعلیم پر ختم نہیں ہو جاتا۔ اے لیول، او لیول اسکولوں میں اسلامیات کے نصاب میں ایسی کتابیں پڑھائیں جا رہی ہیں، جن سے پوری اسلامی تاریخ اور اسلامی علمیت پر سوالات، شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اﷲ عنہا کے بارے میں ان کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی نعوذ باﷲ concubine (بالجبر رکھیل)تھیں۔ لڑکیاں اسلامیات کے اساتذہ سے سوال پوچھتی ہیں: کیا واقعی ایسا تھا؟ لیکن وہ جواب نہیں دے سکتے۔ کچھ کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ sex slave تھیں۔ طالبات اس پر بھی سوالات پوچھتی ہیں، مگر انھیں کوئی جواب نہیں ملتا۔ اسلامیات کی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بہت خوبصورت تھیں، اس لیے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے تھے۔
فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایک مرتبہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کو بلا کر یہی سوال کیا تا کہ ایک انگریزی کتاب میں حضرت ماریہ قبطیہ رضی اﷲ عنہ کو concubineکیوں لکھا ہے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب لے کر آؤ۔ قریشی صاحب نے مولانا حسن مثنیٰ ندوی اور مولانا عبدالقدوس ہاشمی کو طلب کیا اور بتایا کہ ایوب خان سخت ناراض ہیں، اس کا جواب مانگا ہے۔ دونوں حضرات دن رات تحقیق کرتے ہے اور آخر میں ایک مقالہ حسن مثنیٰ ندوی نے تیار کیا جس میں ثابت کیا گیا تھا کہ ماریہ قبطیہ رضی اﷲ عنہا رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکاح میں آئی تھیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اہلیہ تھیں۔ یہ واقعہ خود حسن مثنیٰ نے ہمیں سنایا۔ افسوس ہے کہ اکیسویں صدی میں ہم ایسے جاہلانہ سوالات کا جواب بھی نہیں دے سکتے! غلط سلط تحقیقات پیش کر کے غلام احمد پرویز طرح لوگوں کو مطمئن کر دیتے ہیں۔
مطالعۂ پاکستان میں کیا پڑھایا جا رہا ہے؟
مطالعۂ پاکستان میں مسلمان بادشاہوں کے واقعات کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے کہ طلبہ بادشاہوں اور بادشاہت سے نفرت کرنے لگتے ہیں، لیکن ان کتابوں میں جمہوریت کی خونی تاریخ پر ایک لفظ نہیں لکھا جاتا۔ مثلاً شاہ جہاں کے بارے میں اورنگ زیب کے طرز عمل کو کتاب میں اس طرح لکھا گیا ہے جیسے اورنگ زیب ایک بہت ظالم حکمران تھا، جس نے اپنے بھائی کو جان بوجھ کر اقتدار کے لیے قتل کر دیا تھا۔ میدانِ جنگ کے واقعات کو غلط تناظر دے کر یہ بتایا گیا ہے کہ اورنگ زیب نے باپ کو پینے کا پانی بھی نہیں دیا اور جب باپ نے دہائی دی تو اس نے مختصر جواب میں کہا: It is your own fault (یہ آپ کی اپنی غلطی ہے)۔ کتاب میں تمام تاریخی حقائق کو نظر انداز کر کے صرف یہ لکھا ہے کہ بے گناہ شاہ جہاں جو اورنگ زیب کا باپ تھا، آگرہ کے قلعہ میں نظر بند تھا اور پھر بتایا گیا کہ وہ اپنے اپارٹمنٹ سے حسرت کے ساتھ تاج محل کو دیکھتا تھا۔
“His eyes fixed on Taj Mahal which he could see from his aprtment.”
(اس کی آنکھیں تاج محل پر جمی رہتی تھیں، جسے وہ اپنے اپارٹمنٹ سے دیکھ سکتا تھا)
پہلے قلعہ (Fort) کا ذکر ہوا، پھر قلعے کو مصنف نے ایک ہی لمحے میں apartmentمیں تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد کتاب میں ایک تصویر دے دی، ایک جھروکا ہے، جس سے تاج محل نظر آ رہا ہے۔ اس تصویر کو غم انگیز اور درد انگیز بنانے کے لیے عبارت لکھی گئی:
“The view from Shah Jehan’s prison looking towards Taj Mahal.”
(شاہ جہاں کے قید خانے سے تاج محل کا منظر)
دارا شکوہ کے عقائد، سازش، جنگ، اورنگ زیب کو قتل کرنے کی کوشش، اس تمام پس منظر کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ کتاب میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ شاہ جہاں کو ممتاز محل سے بہت محبت تھی، لہٰذا شاہ جہاں کو خاص طور پر تاج محل کے قریب رکھا گیا تھا۔ مگر تحریر اور تصویر اورنگ زیب کے رویے کو ظالم بتا رہی ہے۔
تاریخ کیسے پڑھائی جائے؟ تاریخی واقعات کس طرح سمجھائے جائیں، یہ خود ایک نہایت اہم موضوع ہے، جس پر غور و فکر ضروری ہے۔ ہماری کتابوں میں بچوں کو یہ کچھ پڑھایا جا رہا ہے اور اس کا جواب ہمارے اساتذہ کے پاس نہیں ہے۔ نہ نصابی، تحقیقی، تعلیمی ادارے اس موضوع پر کام کر رہے ہیں۔ بچے جب تاریخ، مطالعہ پاکستان، اسلامیات پڑھتے ہیں تو ان کے ذہن میں بے شمار سوالات، شبہات اور اشکالات متن میں بچھی ہوئی بارودی سرنگوں کے ذریعے پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ استاد بھی ان سے لاعلم ہوتا ہے۔ اس پر بھی غور و فکر ضروری ہے کہ بچوں کو اسلامیات، تاریخ، تاریخِ پاکستان اور تاریخِ اسلام کیسے پڑھائی جائے؟
اساتذہ، دینی اسکولوں اور نصابی تحقیقاتی اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے تمام سوالات کا ایک Data Bank (ذخیرۂ معلومات) بنائیں اور اہلِ علم سے رجوع کر کے ان کے جوابات لکھوائیں۔ آج کا طالب علم جب اپنی تہذیب، علمیت، اسلام اور تاریخ کے بارے میں یہ کچھ پڑھے گا تو وہ لبرل ہو گا یا مسلمان؟ اسے اسلامی تاریخ سے محبت ہو گی یا نفرت؟ وہ اپنے ماضی پر فخر کرے گا یا شرم سے پانی پانی ہو گا؟
’’منشورِ انسانی حقوق‘‘ میں بیان کردہ حقوق، اﷲ کی طرف سے آئے ہیں؟
ساتویں جماعت کی اسکول کی کتاب میں ’’منشورِ انسانی حقوق‘‘ کا خالق امریکہ کو بتایا گیا ہے۔ USAکا اعلانِ آزادی ۱۷۷۶ء اس منشور کی بنیاد بنا۔ بچوں کو اس باطل منشورِ انسانی حقوق کے ماخذ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ حقوق خالقِ کائنات خدا کی طرف سے آتے ہیں، یعنی ’’منشورِ انسانی حقوق‘‘ کے کفر کا ماخذ (معاذ اﷲ) اﷲ تعالیٰ ہے۔
“That rights come from the Creator God”.(p.113)
سبق میں لکھا ہے:
“Where do human rights come from?”.(p.113)
اس سوال کے جواب میں کہ انسانی حقوق کہاں سے آتے ہیں؟ پہلے کتاب بتاتی ہے کہ خدا کے یہاں سے۔ پھر اس کے بعد بتاتی ہے کہ اس سوال کا کوئی مطلق (Absolute)جواب موجود نہیں، بس مختلف نظریات، خیالات اور افکار ہیں۔
“There is no definite answer to this question, only theories….”(Doreen Crawford social studies for Today-2. peak publishing London, p.113.Pakistan Edition 2017)
حقوقِ انسانی کہاں سے آئے، کچھ معلوم نہیں۔ مختلف نظریات (ideas)ہیں۔ البتہ امریکی اعلانِ آزادی بتاتا ہے کہ یہ حقوق خدا کے پاس سے آئے ہیں۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مسلمان قرآن کو انسانی حقوق کا ماخذ ثابت کرتے ہیں، ان عبارتوں سے یہ ثابت کر دیاگیا ہے کہ انسانی حقوق کے منشور کا ماخذ اﷲ اور اسلام ہے۔ یہی اس کتاب کا اصل مقصد ہے، یعنی منشور کے ماخذپر حقوق پر، امریکہ، اسلام اور پوری دنیا، پوری انسانیت متفق ہے۔ اسکول کے نصاب میں ’’منشورِ انسانی حقوق‘‘ کے بارے میں اتنے تضادات موجود ہیں، لیکن اسکول کے اساتذہ ان تضادات کو بھی واضح نہیں کر سکتے۔ وہ خود اس منشور سے مرعوب ہیں اور اسے عین اسلامی سمجھتے ہیں۔
اوباما نے اپنی تقریر میں ’’آزادی‘‘ کا اصل مطلب بتایا:
کیا اسکولوں میں اوباما کی تقریر پڑھائی جاتی ہے؟
مشال خان کے قتل پر راقم نے مفتی منیب الرحمن صاحب کی خدمت میں صدر اوباما کی اقوامِ متحدہ میں توہینِ رسالت کے حق میں تقریر کا متن پیش کر پوچھا تھا: حضرت اس کا حکم کیا ہے؟ اس تقریر کی روشنی میں مغرب سے عالمِ اسلام کے تعلقات کی کیا نوعیت ہو گی؟ نئی ’’ کتاب السِیَر‘‘ مرتب کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اوباما کے اس فتوے پر اسلام کا فتویٰ کیا ہو؟ ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا۔ حالانکہ امام غزالی رحمہ اﷲ سے شہرستانی رحمہ اﷲ تک سب کا اجماع ہے کہ تکفیر حکم شرعی ہے، لیکن ہم اس میں بھی مداہنت برتنے لگے ہیں۔
صدر اوباما نے اقوام متحدہ میں ترکی کے ’’عظیم‘‘ خلیفہ طیب اردوان، مصر کے محمد مرسی، ایران کے انقلابی صدر احمدی نژاد، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر آصف زرداری کے سامنے اعلان کیا کہ:
’’آزادی پوری دنیا کا عقیدہ ہے، سب اس عقیدے کو مانتے ہیں، یہ عالمی، آفاقی عقیدہ ہے۔ منشورِ انسانی حقوق میں آزادی کے عقیدے کے مطلب میں رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی توہین کی آزادی بھی شامل ہے اور توہینِ رسالت کے مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ توہینِ رسالت کی اور آزادی دو، اور آزادی دو!‘‘
امریکی صدر کی یہ تقریر تمام انقلابی مسلم حکمرانوں نے سنی، سب خاموش رہے۔ یہ ہے آزادی کا مطلب۔ کیا ’’منشورِ انسانی حقوق‘‘ میں آزادی کا یہ مطلب اسلامی اسکولوں میں نہیں پڑھایا جا رہا ؟
انسانی حقوق بنانے اور مسلط کرنے والی قوموں نے دنیا پر کتنے مظالم کیے اور کیوں کیے؟
ساتویں جماعت میں ان کافرانہ عقیدوں کو پڑھنے اور ان کو ایک عالمگیر سچائی تسلیم کرنے کے بعد کیا بچے کا دین، ایمان، عقیدہ، اسلام رہ سکتا ہے؟ علماء اور مذہبی جماعتیں ان مباحث سے بالکل لاتعلق ہیں۔
ایک جانب مغرب کوانسانی حقوق کا علمبردار ثابت کیا جا رہا ہے، کیونکہ ساتویں جماعت کی اس کتاب میں انسانی حقوق کے منشور کے بارے میں یہی لکھا ہے کہ اس منشور نے انسانوں کو ظلم و استیصال سے بچایا ہے۔ مگر کتاب میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس منشور کی بنانے والی قوموں نے اور دنیا بھر پر اس کو مسلط کرنے والوں نے دنیا پر کتنے مظالم کیے ہیں اور کیوں کیے ہیں؟ انسانی حقوق کے نام پر اربوں لوگوں کا قتلِ عام کیا گیا ہے۔ مغرب کی لبرل اقوام نے دنیا کے ساتھ کیا کیا؟ لبرل از م اصلاً دہشت گردی ہے۔ دہشت گردی کے لیے کسی عقلی دلیل کی ضرورت نہیں، وہ تو taken for granted ہے۔
اسی اصول کے تحت امریکہ اور تمام مغربی استعماری قوموں نے گزشتہ پانچ سو سالوں میں دنیا میں تاریخ انسانی کی سب سے بدترین دہشت گردی کی ہے۔ حیرت ہے کہ یونیورسٹی میں پڑھنے والوں کو بلکہ اسلامی تحریکوں کو بھی لبرل ازم کا یہ چہرہ نہیں معلوم!
وہ شخص پاگل ہے، جو کام نہ کرے اور پیسے نہ کمائے!
لبرل ازم کا سب سے بڑا فلسفی جان رالز کہتا ہے: ’’عورتوں کو عورتوں والے کام کرنے سے روکنے کا طریقہ جبر و تشدد اور ظلم نہیں، اسے بس مرد جیسا بنا دو۔ یہ کام، تعلیم، ترقی اور نوکری کرے گی، تو خود ہی عورت والے کام ختم کر دے گی، اس سے معاشی ترقی ہو گی۔ یہ عورت خود بچہ پیدا نہیں کرے گی‘‘۔ وہ لبرل ازم جس کا ’’منشورِ حقوقِ انسانی‘‘ آزادی، مساوات، ترقی کے عقیدوں میں مبتلا کر کے عورت کو بچہ پیدا نہ کرنے پر اُکسا رہا ہے، مجبور کر رہا ہے، اس پر اسلامی اسکولوں میں کوئی تنقید نہیں ہو رہی۔ جان رالز نے اپنی کتاب میں اس صورت حال کا بہترین تجزیہ کیا ہے کہ عورت کو بچے پیدا کرنے سے کیسے روکو، اُسے مرد جیسا بنا دو۔ جدید تعلیم، جدید ریاست، آزادی، مساوات، ترقی کے ذریعے رالز کے لبرل ازم کو مسلط کر رہی ہے۔ پوری دنیا میں یہی ہو رہا ہے۔ عورت تعلیم حاصل کرتی ہے، نوکری کرتی ہے، گھر سے نکلتی ہے اور بچے پیدا کرنا نہیں چاہتی کہ آزادی اور ترقی متاثر ہوتی ہے۔ اسے تعلیم اور نوکری پر کون مجبور کر رہا ہے؟ لبرل معاشرے، لبرل ریاست اور منشورِ حقوقِ انسانی کے تحت لوگوں کو ’’عبد‘‘ (اﷲ کا نیک بندہ) بنانے کی بجائے ’’ہیومن‘‘ (نفس کا پجاری انسان) بننے پر مجبور کرنے کا جبری طریقہ تعلیم اور نوکری ہے۔ اسی لیے اس صدی کا سب سے بڑا فلسفی فوکالٹ لکھتی ہے کہ ’’کام کا نہ ہونا پاگل پن (madness)ہے‘‘۔ اور مغرب میں کام (work)کا مطلب وہ عمل ہے، جس سے آمدنی، سرمایہ، capitalپیدا ہو۔ کیونکہ جان رالز نے لکھا ہے کہ وہ شخص اپنی نظروں میں خود عزت کے قابل نہیں ہے، اگر اسے چار بنیادی خیر حاصل نہ ہوں:
۱۔ آمدنی (income) ۲۔ دولت(wealth)
۳۔ قوت (power) ۴۔ اقتدار (authority)
اگر عورت گھریلو ہے، گھر کے کام کرتی ہے تو اسے ورکر (worker)تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہ پاگل ہے جو سرمایہ نہیں کماتی۔ اسی لیے ایسی عورت کو ورکنگ وومن (working weman)نہیں کہلاتی۔
کیا اسلامی جماعتیں، ان کے مفکرین، تعلیمی ادارے، ان consultanst، آفاق، CEF,ERDC، سب دیگر کاموں میں مصروف رہیں گے یا ان مسائل پر بھی کچھ لکھیں گے؟
اسلامی تحقیقی، علمی نصابی کام کرنے والے اداروں کو جدید ذہن میں پیدا ہونے والے شبہات، سوالات کی فہرست تیار کر کے اہلِ علم سے ان کے جوابات لکھوائے جا سکتے ہیں۔ خصوصاً ’’منشورِ انسانی حقوق‘‘ کی سادہ، سہل، عام فہم تنقید پر مشتمل کتابچے، guidesاساتذہ کے لیے تیار کر کے ان کی باقاعدہ تربیت کرنی چاہیے۔ یہ فکری کام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
’’منشورِ حقوقِ انسانی‘‘ میں جس ’’انسان‘‘ کو حقوق (rights)دیے گئے ہیں، اس ’’انسان‘‘ کی تعریف پہلے کانٹ نے اپنے مضمون “What is enlightenment”میں پیش کر دی ہے۔ ’’حقوقِ انسانی‘‘ صرف اُس انسان کے لیے ہیں، جو ’’مذہبِ حقوقِ انسانی‘‘ کو مانتا ہے اور جو اس مذہب کو نہیں مانتا، اس کے کوئی حقوق نہیں ہیں‘‘۔
کانٹ جدید، روشن خیال انسان اُسے سمجھتا ہے ’’جو اﷲ، کتاب، وحی، عالم دین سے علم حاصل کرنے کا محتاج نہیں، جو علم میں خود کفیل ہے۔ جو ہدایت، روشنی کے لیے اپنے سے باہر نہیں، اپنے اندر دیکھتا ہے۔ لہٰذا کانٹ نے صرف عقلیت اور تجربیت کے حاصل کو علم قرار دیا اور میٹا فزکس کے علم کو جہالت قرار دیا۔ عہدِ حاضر کی جدید تدریسات اسی لیے صرف تعلیم یافتہ، ترقی یافتہ انسان پیدا کرتی ہے، ہدایت یافتہ انسان پیدا نہیں کرتی۔ اسی لیے یہ ہدایت سے محروم انسان پورپ، امریکہ، چین، بھارت میں بوڑھے ماں باپ کو گھر سے باہر نکال کر سڑکو ں پر یا اولٹ ہوم میں پھینک رہا ہے۔ چین اور بھارت میں اسی لیے”Parents Protection Act”بنائے گئے ہیں۔ یہ جدید تعلیم، ترقی، آزادی کا نتیجہ ہے۔
کانٹ کی طرح فوکالٹ نے بھی جدید انسان پر روشنی ڈالی ہے، وہ بھی پڑھ لیجیے۔ اس کے خیال میں روشن خیال انسان، حقیقی انسان اور عہدِ روشن خیالی کا مطلب یہ ہے کہ یہ انسان اور اس کا عہد، عہدِ تنقید (Age of the Critique)ہے۔ یہ ایمان و یقین کا نہیں، اعتراض، تنقید، سوال، شبہ، شک کا دور ہے، جس سے علم بڑھتا ہے۔
من الظلمٰت الی النور
’’جناح کالونی عبد الحکیم ضلع خانیوال میں بیس سال تک قادیانی مذہب میں رہنے والے افتخار احمد ولد بشیر احمد نے اپنے پورے خاندان (بیوی، تین بیٹے، تین بیٹیاں) سمیت قادیانی مذہب ترک کر کے حضرت مولانا سید محمد اسعد شاہ ہمدانی مدظلہ کے ہاتھ پر دین اسلام قبول کرلیا۔ اس موقع پر دار العلوم کبیر والا میں متعدد علماء کرام نے شرکت کی اور مبارک باد دی۔ اﷲ پاک نو مسلمین کو دین اسلام پر استقامت عطا فرمائیں اور ہمیں باقی غیر مسلموں کی ہدایت کا ذریعہ بنائیں۔‘‘ (آمین)