عطا محمد جنجوعہ
انبیا ء کرام علیہم السلام کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ ہر نبی گزشتہ انبیاء کی تصدیق کرتا رہا اور آنے والے ہر نبی کی خوشخبری دیتا رہا۔ قرآن حکیم میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ موجود ہے۔
(ترجمہ) اور وہ وقت یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے کہا تھاکہ اے بنی اسرائیل ! میں تمہارے پاس اﷲ کا ایسا پیغمبر بن کر آیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو تورات (نازل ہوئی)تھی میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں۔ اور اس رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہے۔(سورہ: الصف، آیت:۶)
سرور کائنات محمدصلی اﷲ علیہ وسلم نے گذشتہ انبیاء کرام کی تصدیق کی لیکن کسی نئے نبی کے آنے کی بشارت نہ دی بلکہ اعلان فرمایا کہ میں آخری بنی ہوں اور میرے بعد قیامت ہو گی۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’میں محمد ہوں‘‘میں احمد ہوں، ماحی ہوں کہ میرے ذریعے کفر کو ختم کیا جائے گا میں حاشر ہوں کہ میرے بعد حشر بر پاہو گا میں عاقب ہوں کہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں‘‘ (صحیح بخاری 3532، صحیح مسلم 2354 )۔
خاتم النبیین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کسی نبی کے مبشر نہیں اس بنا پر آپ کا مصدق کوئی نبی بھی آپ کے بعد نہیں۔ جبکہ امت میں سے ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے تصدیق کی۔ اِدھر شمع رسالت چمکی اُدھر ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے سینہ میں اُتری اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے صدیق کا اعزاز حاصل کیا۔
سیدنا انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اُحد پہاڑ پر چڑھے تو آپ کے ساتھ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمر اور سیدنا عثمانؓ بھی تھے۔ پہاڑ لرزنے لگا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا پاؤں مار کر اسے فرمایا ’’احد! ٹھہر جا کیونکہ تجھ پر ایک نبی ایک صدیق اور دوشہید ہیں‘‘ (صحیح بخاری کتاب فضائل النبی ۳۶۸۷)۔
خاتم النبیین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم قصرِ نبوت کی آخری اینٹ ہیں اور ابوبکر صدیق ؓ قصر امت کی پہلی اینٹ ہیں۔ صدیقؓ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ اس طرح رہے جس طرح سایہ اصل کے ساتھ چلتا ہے اور دور خلافت میں سیدنا عمرؓ سمیت دیگر صحابہ کرامؓ سے اختلاف گوارا کرلیا لیکن نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کو مقدم رکھا۔ انہوں نے لشکر اسامہ کو روانہ کیااور منکرین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کیا۔ جن کے دور خلافت میں اسلام کو تقویت حاصل ہوئی اور سلطنت میں امن واستحکام نصیب ہوا جن کی شان اقدس میں دور حاضر کے کسی بدباطن شخص نے ہرزہ سرائی وگستاخی کی ہے۔
اقوام عالم میں مذہبی اور قومی سطح پر کئی قائد گزرے ہیں۔ جن کی تعلیم وتحریک سے کچھ لوگ متاثر ہوئے وہ اپنے قائد اور اُنکے ساتھیوں کا ادب کرتے ہیں۔ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نقباء، عیسائی حضرت مسیح علیہ اسلام کے حواریین کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔ اس طرح سکھ گورونانک کے چیلوں کااحترام کرتے ہیں۔ مذاہب عالم میں رافضی گروہ منفرد حیثیت کا حامل ہے جو ماسوائے تین چار کے باقی اصحاب الرسول علیہم الرضوان سے تبرا کرتا ہے، اظہار برأت کرتا ہے۔ بدر کے میدان میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے حدیبیہ میں جان قربان کرنے کا عزم کرنے والے اور غار کا ساتھی مزار کے رفقاء اُن کی نظروں میں صاحب ایمان نہیں۔
قابل غور نکات :
گزشتہ انبیاء کرام کی نبوت ایک بستی تک محدود تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم کو کائنات کے لیے رحمت بنا کر معبوث فرمایا۔ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَا رَحْمَۃً لِّلْعٰلمِیْنَ ’’اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘ (سورہ: انبیاء: آیت: 107)
رحمت کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم قیامت تک بنی نوع انسان کوہدایت کاراستہ دکھانے کے لیے تشریف لائے قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے:
(ترجمہ)آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اﷲ تعالیٰ کابھیجا ہوا ہوں۔ اس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے(الاعراف 158)
اﷲ سبحانہ نے آپ پرجو عالمی صابطہ حیات نازل کیا اس کے بارے میں ارشاد فرمایا،
اِنْ ھُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ
’’یہ تو تمام جہان والوں کے لیے سراسر نصیحت ہے‘‘۔ (سورہ: ص، آیت: ۸۷)
قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر نازل کردہ دائمی وآفاقی اعزاز کا تذکرہ فرمایا۔
’’بہت بابرکت ہے وہ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لیے آگاہ کرنے والے بن جائے‘‘۔ (سورہ: الفرقان، آیت:۱)
تمام انبیاء کرام کی تعلیم میں عقیدہ توحید کی دعوت کی یکسانیت رہی۔ تا ہم اﷲ تعالیٰ کی طرف سے شرعی احکام میں ترمیم ہوتی رہی۔ رحمت عالم کی بعثت سے قبل کسی نبی یارسول کو تکمیل دین کی نعمت سے نہیں نوازا گیا، کیونکہ انبیاء کرام کا سلسلہ جاری وساری تھا۔ جبکہ اب کائنات نے دین کی تکمیل کی نعمت وعظمت اور رفعت کو رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل فرمایا
آج میں نے تمہارے لیے دین کوکامل کردیا اور تم پر اپنا انعام پورا کردیا اور تمہارے لیے اسلام کو دین کو طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا۔ (سورہ: المائدہ، آیت:3)
اﷲ تعالیٰ نے تکمیل دین کے نعمت عطا کرنے کے بعد بنی نوع انسان کو واشگاف الفاظ میں آگاہ فرمایا۔
(لوگو) تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نہیں لیکن آپ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے۔ (سورہ: الاحزاب، آیت:40)
اﷲ تعالیٰ سبحانہ نے دین اسلام کے آفاقی وہمہ گیر ضابطہ حیات کی علمی وعملی پہلوؤں کی حفاظت کے لیے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو صحابہ کرام ؓکی جماعت کی رفاقت نصیب فرمایا۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں :
اِن اﷲ نظر فی قلوب العباد فوجد قلب محمد ﷺ خیر قلوب العباد، فاصطفاہ لنفسہ فابتعثہ برسالتہ ، ثم نظر فی قلوب العباد بعد قلب محمدﷺ فوجد قلب اصحابہ خیر قلوب العباد فجعلھم وزراء نبیہ۔
اﷲ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو تمام بندوں کے دلوں سے بہترین دل محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا پایا۔ تو اسے اﷲ نے اپنے لیے چن لیا اور اسے اپنی رسالت کے ساتھ مبعوث کیا۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل کو منتخب کرنے کے بعد بندوں کے دلوں کو دیکھا تو ان کے صحابہ کا دل تمام بندوں کے دلوں سے بہترین پایا۔ تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی کا وزراء بنا دیا۔ (الطیالسی: ص ۲۳، مسند احمد ص ۳۷۹ ج ۱، شرح السنہ: ص ۲۱۴ ج ۱، الشریعہ: ص۱۶۷۵ ج ۴)
صحابہ کرام دین اسلام کے وارث ہیں ۔وہی اﷲ تعالیٰ کے منتخب بندے ہیں جنہیں خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کی مصاحبت اور اپنی کتاب کی حفاظت کے لیے پسند فرمایا۔ صحابہ کرام نے دعوت وجہاد کے میدان میں وفا و شجاعت کی لازوال داستانیں رقم کی۔ غزوہ بدر میں صحابہ کرام کی تعداد تین سو تیرہ تھی، حدبیہ میں پندرہ سو، فتح مکہ میں دس ہزار، حنین میں بارہ ہزار، حجۃ الوداع میں چالیس ہزار ، غزوہ تبوک میں سترہزار اور بوقت وفات نبوی ؐایک لاکھ چوبیس ہزار تھی۔ جن صحابہ کرام سے کتب حدیث میں روایات منقول ہیں ان کی تعداد ساڑھے سات ہزار ہے۔
صحابہ کرام میں مہاجرین وانصار کا مرتبہ باقی صحابہ کرام سے زیادہ ہے۔ مہاجرین وانصار میں سے اہل حدبیہ کا مرتبہ سب سے زیادہ ہے اور اہل حدبیہ میں اہل بدر اور اہل بدر میں سے عشرہ مبشرہ کا اور عشرہ مبشر میں سے ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا مرتبہ سب سے فائق ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا ’’(لوگو) اﷲ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف پیغمبر بنا کر بھیجا لیکن تم نے کہا تو جھوٹ بولتا ہے جب کہ ابوبکررضی اﷲ عنہ نے کہا آپ سچ کہتے ہیں اور اس نے اپنی جان اور مال سے میری مدد کی۔ (صحیح بخاری کتاب الفضائل اصحاب النبی ۳۶۶۱)
خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم قصرِ نبوت کی آخری اینٹ ہیں آ پ پر نازل ہونے والا دین سماجی ومعاشی ،معاشرتی، عدالتی، قومی وبین الاقوامی مسائل و ضروریات سے متعلق ہر لحاظ سے اکمل وکامل احکام و ہدایات پر مشتمل دین ہے جو قیامت تک مشرق و مغرب میں پیش آمدہ مسائل پر راہ نمائی کرتا رہے گا۔
یہ کامل اکمل آفاقی دین صحابہ کرام کے توسّط سے امت تک پہنچا ،اگر صحابہ کرام کو درمیان سے نکال دیا جائے تو یہ دین (قرآن ،سنت) جس پر امت مسلمہ عمل پیرا ہے اس پر اعتقاد متزلزل ہو جائے گا۔ صہیونی تحریک کے پس منظر میں یہی مقصد کار فرما ہے کہ امت مسلمہ کے افراد قرآن وسنت کو پس پشت ڈال کر ریاستی قانون سازی میں منشأ عام کے نظریے کے پیرو کار بن جائیں۔
صحابہ کرام پر تنقید کرنے اور ان پر الزام تراشی کا مقصد ان ہی تک نہیں رہتا بلکہ اﷲ، رسول ،کتاب وسنت اور پورا دین اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور دین کی ساری عمارت منہدم ہوجاتی ہے۔
اﷲ سبحانہ نے قرآن حکیم میں منصب رسالت کے اہم مقاصد بیان فرمائے ہیں
حقیقت یہ کہ اﷲ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان ان ہی میں ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اﷲ کی آیتوں کی تلاوت کرے اور انھیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے۔ (سورہ:آل عمران، آیت: ۱۶۴)
درندہ صفت انسان کیونکر فرشتہ صفت سیرت بن گئے۔جنھیں کوئی اپنا غلام بنانا پسند نہیں کرتا تھا ،کیونکر آئین جہانبانی میں دنیا بھر کے استاد ہو گئے۔جن کی گھٹی میں شراب تھی،ظلم و ستم جن کا شعار تھا ، کفر وشرک اور فسق و فجور کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکتے بھٹکتے صدیاں گزر گئی تھیں،ان میں یہ اکمل تبدیلی اور ہمہ گیر انقلاب کیونکر آیا۔جنھوں نے کبھی ان حقائق پر غور کیا ہے وہی اس نبی معظمؐ کی شان رفیع کو جان سکتے ہیں ۔تلاوت آیات ،تعلیم کتاب و حکمت کے علاوہ تزکیہ نفس اور ترتیب صالحہ سے یہ مبارک انقلاب روپذیر ہوا۔(ضیاء القرآن)
محسنِ انسانیت سیدنا ومولانا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم و تزکیہ کی اثر پذیری کا ثمر ہے کہ صحابہ کرام تپتی ریت اوردہکتے کوئلوں پر لیٹ کر بھی اَحد اَحد پکارتے رہے۔ وہ رات کو اٹھ کر اﷲ کی حمد و ثنا کرتے تو دن میں جہاد فی سبیل اﷲ کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔اسی طرح صحابہ کرام کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت و محبت تھی۔
ہجرت کے سفر کے دوران رات کا وقت تھا پتھریلی زمین تھی پاؤں میں نعلین نہ رکھتے تھے۔اس رات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم انگلیوں کے بل چلتے رہے تاکہ زمین پر پاؤں کے نقوش ظاہر نہ ہوں، یہاں تک کہ آپ ؐ کے دونوں پاؤں زخمی ہو گئے۔پھر جب ابو بکر ؓ نے یہ حالت دیکھی تو اپنے کندھے پر سوار کر لیا اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اٹھا کر دوڑنے لگے یہاں تک آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اُس غار کے دروازے پر جا اُتارا۔ سیرت حلبیہ جلد نمبر 2صفحہ نمبر 36
قابل غور پہلو ہے کہ رسالت محمدی کی تصدیق کرکے ’’صدیق‘‘ کا اعزاز حاصل کرنے والے اور اذ یقول لصاحبہ (التوبہ 40) کے مصداق ابوبکرؓ اوردیگر صحابہ کرام( اُولیک ھم الرشدون (الجرات:7)کے ایمان پر شک کرنے سے لازم آئے گا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تزکیہ نفس کے منصب کی بجا آوری سے قاصر رہے جو قرآنی آیت کی صریح تکذیب ہے۔ جس طرح قرآن مجید کی تفسیر وتعبیر سید الکونین صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی بالکل اسی طرح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی تعبیر وتکمیل صحابہ کرام کے عمل وکردار کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ عقیدہ ختم نبوت اور اسلام کے اکمل وکامل ہونے کے دعویٰ کویقینی بنانے کے لیے قصر امت کی پہلی اینٹ سیدنا ابوبکرؓ اور دیگر صحابہ کرام کے صدق وصفا پر ایمان رکھنا ہم پر لازم ہے یہی دعوت فکر ہے۔
اعلان
مجلس احرار اسلام ڈیرہ اسماعیل خان کی مقامی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں تمام اراکین کی متفقہ رائے سے جامعہ عربیہ دار العلوم نعمانیہ صالحیہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا اشرف علی صاحب کو سرپرست اعلیٰ مجلس احرار ڈیرہ اسماعیل خان مقرر کردیا گیا ہے۔
ملک عاصم عطاء (ترجمان مجلس احرار اسلام ڈیرہ اسماعیل خان)