خطاب: مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اﷲ علیہ قسط: اوّل
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی
میرے بزرگو اور دوستو! یہ امر ایک حقیقت ہے ‘ اس میں کسی تواضع کا دخل نہیں کہ ابتداءِ عمر سے نہ کبھی کوئی خطیب رہا نہ واعظ اور نہ بڑے مجمعوں کو خطاب کرنے کا عادی۔میری پوری عمر پڑھنے پڑھانے میں گزری یا پھر کچھ کاغذ کالے کرنے میں۔ عام مسلمانوں کی ضرورت کے مطابق مختلف رسائل پر تصنیف کا سلسلہ رہا اور میرے بزرگوں نے اپنے حسنِ ظن سے خدمت ِ فتویٰ میرے سپرد فرما دی۔ عمر کا ایک بہت بڑا حصہ اس میں صَرف ہوا۔
ہمارے محترم حکیم عبدالرشید اشرف صاحب نے اپنے حسن ِ ظن اور کرم فرمائی سے مجھے یہاں لا بٹھایا اور جو عنوان مجھے کلام کرنے کے لیے حوالہ فرمایا ‘وہ جس طرح اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایسا یقینی اور واضح ہے کہ اس میں دو رائے ہونے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں اس کا وجود ایسا کمیاب ہے کہ اپنے معاشرہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس موضوع پر زبان کھولنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ مجھے عنوان یہ دیا گیا ہے کہ اُمت ِ اسلامیہ ایک ناقابل تقسیم وحدت ہے۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح اور ناقابل ِ انکار حقیقت ضرور ہے ‘مگر ہمارے حالات و واقعات دنیا کو اس کے خلاف یہ دکھلا رہے ہیں کہ یہ اُمت ایک ناقابل اجتماع تشتت ہے۔ اپنے حالات و خصوصیاتِ وقت سے صرفِ نظر کر کے مسئلہ کے دلائل پر بحث ایک نرا فلسفہ ہے جس سے ہماری کوئی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ اس لیے مجھے اس مسئلہ کے مثبت پہلو پر کچھ کلام کرنے سے زیادہ اس کے منفی پہلو افتراق و تشتت اور اس کے اسباب پر غور اور اس کے علاج کی فکرکرنا ہے۔
جہاں تک اسلام کی دعوتِ اتحاد اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو بلکہ کل انسانوں کو ایک قوم ‘ایک خاندان اور ایک برادری قرار دینے کا معاملہ ہے ‘وہ کوئی ایسی چیز نہیں جو کسی مسلمان پر مخفی ہو۔ قرآن کریم کے واضح الفاظ:﴿خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ﴾میں تمام بنی نوع اور بنی آدم انسان کو‘﴿ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ﴾ میں مسلمانوں کو ایک برادری قرار دیا گیا۔
حجۃ الوداع
حجۃ الوداع کے آخری خطبہ میں رسول کریمﷺ نے جو اُس وقت کے مسلمانوں کے سب سے بڑے اجتماع میں ہدایتی اصول ارشاد فرمائے ان میں اس بات کو بڑی اہمیت سے ذکر فرمایا کہ:
’’اسلام میں کالے گورے‘ عربی عجمی وغیرہ کا کوئی امتیاز نہیں۔ سب ایک ماں باپ سے پیدا ہونے والے افرادہیں۔‘‘
اس ارشاد کے ذریعے جاہلانہ وحدتیں جو نسب اور خاندان کی بنیاد پر یا وطن اور رنگ اور زبان کی بنیاد پر لوگوں نے قائم کر لی تھیں‘ ان سب کے ُبتوں کو توڑ کر صرف خدا پرستی اور دین کی وحدت کو قائم فرمایا۔
یہی وہ حقیقی وحدت ہے جو مشرق و مغرب کے تمام بنی آدم اور نوع انسان کے تمام افراد کو متحد کر کے ایک قوم اور ایک برادری بنا سکتی ہے اور سعی و عمل کے ذریعہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ نسب اور وطن یا رنگ اور زبان کی بنیاد پر جو وحدتیں اہل جاہلیت نے قائم کر لی تھیں اور آج کی مزعومہ روشن خیالی کے دور میں پھر انہی کی پرستش کی جا رہی ہے ان وحدتوں کی بنیاد پر ہی انسانوں کے طبقات میں تفرقہ ہے اور تفرقہ بھی ایسا جس کوکسی عمل اور کوشش سے مٹایا نہیں جا سکتا۔ جو کالا ہے وہ گورا نہیں بن سکتا‘جو نسب میں سید یا شیخ نہیں وہ کسی سعی و عمل سے شیخ یا سید نہیں بن سکتا۔
اسلام نے ایک ایسی وحدت کی طرف دعوت دی جس میں تمام انسانی افراد بلا کسی مشقت کے شریک ہو سکتے ہیں ‘اور یہ وحدت چونکہ ایک مالک حقیقی وحدہٗ لا شریک لہٗ کے تعلق اور اس کی اشاعت سے وابستہ ہے‘ اس لیے بلاشبہ ناقابل ِ تقسیم ہے۔
جو عنوان اس مجلس میں مجھے دیاگیا ہے اس کے مثبت پہلو پر تو اتنی گزارش بھی کافی سمجھتا ہوں ۔ مگر اب یہ دیکھتا ہوں کہ یہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے جو زبانوں پر جاری اور کتابوں میں لکھا ہوا ہے‘ لیکن جب اپنے گردوپیش ہی نہیں‘ بلکہ مشرق و مغرب کے انسانوں کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس کے برعکس یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ ملت ایک تفرقہ ہے‘ جس میں اجتماع کا امکان دُور دُور نہیں۔ وہ ملت جس نے دنیا کے تمام انسانوں کو ایک خدا کی اطاعت پر جمع کر کے ایک برادری بنانے کی دعوت دی تھی:
﴿یٰٓـاَیـُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ﴾ (النساء:۱)
اور پھر مسلسل دعوت اور افہام و تفہیم کے باوجود لوگ اس برادری سے کٹ گئے‘ ان کو ایک جداگانہ قوم قرار دے کرخدا تعالیٰ کے ماننے والوں کو حسبِ دستور ایک قوم‘ ایک ملت اور ایک برادری بنا کربنیانِ مرصوص ‘سیسہ پلائی ہوئی ناقابل شکست دیوار بنایا تھا‘ آج وہ ملت ہی طرح طرح کے تفرقوں میں مبتلا‘ ایک دوسرے سے بیزار اوربرسر ِ پیکار نظر آتی ہے۔ اس میں سیاسی پارٹیوں کے جھگڑے‘ نسبتی برادریوں کی تفریق‘ پیشوں اور کاروبار کی تقسیم اور امیر غریب کا تفرقہ تو بنیادِ منافرت تھی ہی‘ زیادہ افسوس اس کا ہے کہ دین اور خدا پرستی غیروں کو اپنا بنانے اور نسبی‘ نسلی‘ وطنی اور لسانی تفرقوں کو مٹانے ہی کا نسخہ ٔ اکسیر تھا‘ آج وہ بھی ہمارے لیے جنگ و جدل ‘عداوتوں اور جھگڑوں کا ذریعہ بن گیا‘ جس نے پوری ملت کو دینی و دُنیوی ہر اعتبار سے ہلاکت کے غار میں دھکیل دیا اور اس سے بچنے کا کوئی علاج نظر نہیں آ رہا۔ ہماری ہر تنظیم تفریق اور ہر اجتماع افتراق کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔ اور یہی وہ روگ ہے جس نے ملت ِ اسلامیہ کو اس عظیم الشان عددی اکثریت کے باوجود پسماندہ بنایا ہوا ہے۔ ہر قوم ہمیں اپنے میں جذب کرنے کی طمع رکھتی ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبہ پر عقائد سے لے کر اعمال و اخلاق تک‘ ثقافت ومعاشرت سے لے کر معاملات وا قتصادیات تک ہر قوم کی یلغار ہے۔ ایک طرف حکومت و اقتدار اور اقتصادیات و تجارت میں ان پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ملحدانہ تلبیسات کے ذریعہ ان کے عقائد و نظریات کو متزلزل اور ان کی خدا پرستی کے اصول کو نئی تعلیم و تہذیب اور خیر خواہی اور ہمدردی کے عنوان سے ہوا پرستی میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ہمارے عوام انگریز کے ڈیڑھ سو سالہ دورِاقتدار میں مختلف تدبیروں کے ذریعہ علم دین سے محروم اور حقائق سے نا آشنا کر دیے گئے ‘ اب گھر کی دولت علم و فکر گنوا کر جو کچھ دوسروں کی طرف سے آتاہے‘ اسی کو سرمایۂ سعادت سمجھنے لگے‘ خصوصاً جب کہ اس تعلیم و تہذیب کے سایہ میں نفس کی بے لگام خواہشات اور عیش و عشرت کا میدان بھی کھلا نظر آتا ہے ‘اور ہمارے علماء اہل فکر و نظر اپنے جزوی اور فروعی اختلافات اور بہت سے غیر ضروری مسائل میں ا یسے اُلجھ گئے کہ ان کو اسلام کی سرحدوں پر ہونے والی یلغار کی گویا خبر ہی نہیں۔
اسبابِ مرض اور علاج
آج کی اس مجلس میں ملت کا درد رکھنے والے علماء ‘فضلاء اور مفکرین کا اجتماع نظر آتا ہے‘ دل چاہتا ہے کہ ملت کے اس مرض کے اسباب اور اس کے علاج پر کچھ غور کیاجائے
امیرؔ! جمع ہیں احباب دردِ دل کہہ لے
پھر التفاتِ دلِ دوستاں رہے نہ رہے!
سب سے پہلے مَیں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ نظری مسائل میں آراء کا اختلاف نہ مضر ہے‘ نہ اس کے مٹانے کی ضرورت ہے اور نہ مٹایا جا سکتا ہے۔ اختلافِ رائے نہ وحدتِ اسلامی کے منافی ہے نہ کسی کے لیے مضر ‘بلکہ اختلاف رائے ایک فطری اور طبعی امر ہے ‘جس سے نہ کبھی انسانوں کا کوئی گروہ خالی رہا ‘نہ رہ سکتا ہے۔ کسی جماعت میں ہر کام اور ہر بات میں مکمل اتفاقِ رائے صرف دو صورتوں میں ہو سکتا ہے‘ ایک یہ کہ ان میں کوئی سوجھ بوجھ والا انسان نہ ہو جو معاملہ پر غور کر کے کوئی رائے قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو‘ اس لیے ایسے مجمع میں ایک شخص کوئی بات کہہ دے تو دوسرے سب اس پر اس لیے اتفاق کر سکتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی رائے اور بصیرت ہی نہیں۔ دوسرے اس صورت میں مکمل اتفاقِ رائے ہو سکتا ہے کہ مجمع کے لوگ ضمیر فروش اور خائن ہوں کہ ایک بات کو غلط اور مضر جانتے ہوئے محض دوسروں کی رعایت سے اختلاف کا اظہار نہ کریں۔اور جہاں عقل بھی ہو اور دیانت بھی یہ ممکن نہیں کہ ان میں اختلافِ رائے نہ ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ اختلافِ رائے عقل و دیانت سے پیدا ہوتا ہے‘ اس لیے اس کو اپنی ذات کے اعتبار سے مذموم نہیں کہا جا سکتا ۔اور اگر حالات و معاملات کاصحیح جائزہ لیا جائے تو اختلافِ رائے اگر اپنی حدود کے اندر ہے تو وہ کبھی کسی قوم و جماعت کے لیے مضر نہیں ہوتا ‘بلکہ بہت سے مفید نتائج پیدا کرتا ہے۔ اسلام میں مشورہ کی تکریم اور تاکید فرمانے کا یہی منشاء ہے کہ معاملہ کے متعلق مختلف پہلو اور مختلف آراء سامنے آجائیں تو فیصلہ بصیرت کے ساتھ کیا جا سکے۔ اگر اختلافِ رائے مذموم سمجھا جائے تو مشورہ کا فائدہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔
صحابہؓ و تابعین ؒمیں اختلافِ رائے اور اس کا درجہ
انتظامی اور تجرباتی امورمیں تواختلافِ رائے خود رسول کریمﷺ کے عہدِ مبارک میں آپﷺ کی مجلس میں بھی ہوتا رہا اور خلفائے راشدین اور عام صحابہ کرامj کے عہد میں امورِ انتظامیہ کے علاوہ جب نئے نئے حوادث اور شرعی مسائل سامنے آئے‘ جن کا قرآن و حدیث میں صراحتاً ذکر نہ تھا یا قرآن کی ایک آیت کا دوسری آیت سے یا ایک حدیث کا دوسری حدیث سے بظاہر تعارض نظر آیا اور ان کو قرآن و سنت کی نصوص میں غور کرکے تعارض کو رفع کرنے اور شرعی مسائل کے استخراج میں اپنی رائے اور قیاس سے کام لینا پڑا تو ان میں اختلافِ رائے ہوا ‘جس کا ہونا عقل و دیانت کی بنا پر ناگزیر تھا۔
اذان اور نماز جیسی عبادتیں جو دن میں پانچ مرتبہ میناروں اور مسجدوں میں ادا کی جاتی ہیں‘ ان کی بھی جزوی کیفیات میں اس مقدس گروہ کے افراد کا خاصا اختلاف نظر آتا ہے‘ اور اس کے اختلافِ رائے پر باہمی بحث و مباحثہ میں بھی کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ ایسے ہی غیر منصوص یا مبہم معاملات حلال و حرام‘ جائز و ناجائز میں بھی صحابہ کرامj کی آراء کا اختلاف کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں۔ پھر صحابہ کرامj کے شاگرد حضراتِ تابعین کا یہ عمل بھی ہر اہل ِ علم کو معلوم ہے کہ ان میں سے کوئی جماعت کسی صحابی کی رائے کو اختیار کر لیتی تھی اور کوئی ان کے مقابل دوسری جماعت دوسرے صحابی کی رائے پر عمل کرتی تھی‘ لیکن صحابہؓ و تابعین کے اس پورے خیر القرون میں‘اس کے بعد ائمہ مجتہدین اور ان کے پیروؤں میں کہیں ایک واقعہ بھی اس کا سننے میں نہیں آیا کہ ایک دوسرے کو گمراہ یا فاسق کہتے ہوں‘ یا کوئی مخالف فرقہ اور گروہ سمجھ کر ایک دوسرے کے پیچھے اقتداء کرنے سے روکتے ہوں‘ یا کوئی مسجد میں آنے والا لوگوں سے یہ پوچھ رہا ہو کہ یہاں کے امام اور مقتدیوں کا اذان و اقامت کے صیغوں میں‘ قراء تِ فاتحہ اور رفع یدین وغیرہ میں کیا مسلک ہے۔ ان اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کے خلاف جنگ و جدل یا سب و شتم‘ توہین ‘استہزاء اور فقرہ بازی کا تو ان مقدس زمانوں میں کوئی تصور ہی نہ تھا۔
امام ابن عبدالبرقرطبی نے اپنی کتاب ’’جامع بیان العلم‘‘ میں سلف کے باہمی اختلافات کا حال الفاظِ ذیل میں بیان کیا ہے:
عن یحییٰ بن سعید قال ما برح اہل الفتویٰ یفتون فیحل ہذا ویحرّم ہذا فلا یریٰ المحرم المحل ہلک لتحلیلہ ولا یریٰ المحل ان المحرم ہلک لتحریمہ (۱)
’’یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ ہمیشہ اہل فتویٰ فتوے دیتے رہے ۔ایک شخص غیر منصوص احکام میں ایک چیز کو حلال قرار دیتا ہے‘ دوسرا حرام کہتا ہے‘ مگر نہ حرام کہنے والا یہ سمجھتا ہے کہ جس نے حلال ہونے کا فتویٰ دیا وہ ہلاک اور گمراہ ہو گیا‘ اور نہ حلال کہنے والا یہ سمجھتا ہے کہ جس نے حرام ہونے کا فتویٰ دیا وہ ہلاک اور گمراہ ہو گیا۔‘‘
اسی کتاب میں نقل کیا ہے کہ حضرت اسامہ بن زید ؒنے فقیہہ مدینہ حضرت قاسم بن محمد ؒسے ایک مختلف فیہ مسئلہ کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ان دونوں آراء میں سے آپ جس پر عمل کر لیں کافی ہے ‘کیونکہ دونوں طرف صحابہ کرامؓ‘ کی ایک جماعت کا اُسوہ موجود ہے۔
ایک شبہ اور جواب:
یہاں اصولِ دین اور اسبابِ اختلاف سے ناواقف لوگوں کو یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شریعت اسلام میں ایک چیز حلال بھی ہو اور حرام بھی ہو‘ جائز بھی ہو اور ناجائز بھی ہو۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں میں سے ایک غلط اور ایک صحیح ہو گی ‘ پھر دونوں جانب کا یکساں احترام کیسے باقی رہ سکتا ہے؟ جس کو ایک آدمی غلط سمجھتا ہے اس کو غلط کہنا عین دیانت ہے۔جواب یہ ہے کہ کلام مطلق حلال و حرام اور جائز و ناجائز میں نہیں‘ کیونکہ قرآن و سنت کے منصوصات اور تصریحات کے اعتبار سے کچھ چیزیں واضح طور پر حرام ہیں۔ جیسے سود‘ شراب‘ جوا‘ رشوت وغیرہ۔ ان میں دو رائے نہیں ہو سکتیں اور سلف صالحین کا ان میں کہیں اختلاف ہو سکتا تھا؟ اور ان میں اختلاف کرنا تو دین کے بینات اور واضح نصوص کا انکار کرنا بہ اتفاقِ اُمت گمراہی اور الحاد ہے‘ اور جو ایسا کرے اس سے بیزاری اور براء ت کا اعلان کرنا عین تقاضائے ایمان ہے۔ اس میں رواداری ممنوع ہے۔
یہ رواداری کی تلقین اور اختلاف رائے کے باوجود اپنے مخالف کی رائے کا احترام صرف ایسے مسائل میں ہے جو یا تو قرآن و سنت میں صراحتاً مذکور نہیں ‘یا مذکور ہیں مگر ایسے اجمال یا ابہام کے ساتھ کہ ان کی تشریح و تفسیر کے بغیر ان پر عمل نہیں ہو سکتا‘یا دو آیتوں یا دو روایتوں میں بظاہر کچھ تعارض نظر آتا ہے۔ ان سب صورتوں میں مجتہد عالم کو قرآن و سنت اور تعاملِ صحابہ وغیرہ میں غور و فکر کر کے یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ اس کا منشاء اور مفہوم کیا ہے اور اس سے کیا احکام نکلتے ہیں؟ اس صورت میں ممکن ہے کہ ایک عالم مجتہد اصولِ اجتہاد کے مطابق قرآن و سنت اور تعامل صحابہؓ وغیرہ میں غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ فلاں کام جائز ہے اور دوسرا عالم مجتہد اِن ہی اصولوں میں پورا غور و فکر کر کے اس کے ناجائز ہونے کو صحیح سمجھے۔ ایسی صورت میں یہ دونوں اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اجر و ثواب کے مستحق ہیں‘ کسی پر کوئی عتاب نہیں۔ جس کی رائے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک صحیح ہے اس کو دوہرا اجر و ثواب اور جس کی صحیح نہیں اس کو ایک اجر ملے گا۔ اسی سے بعض اہل علم کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اجتہادی اختلافات میں دونوں متضاد قول حق و صحیح ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ بے نیاز ہیں‘ تمام احکام‘ عبادات و معاملات سے اﷲ تعالیٰ کا مقصود کوئی خاص کام نہیں ‘بلکہ بندوں کی اطاعت شعاری کا امتحان ہے۔ جب دونوں نے اپنی اپنی غور و فکر اور قوتِ اجتہاد شرائط کے ساتھ خرچ کر لی تو دونوں اپنا فرض ادا کر چکے۔ دونوں صحیح جواب ہیں ‘مگر جمہور اُمت اور ائمہ مجتہدین کی تحقیق یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علم میں تو ان دونوں میں سے کوئی ایک حق و صحیح ہوتا ہے ‘تو جو لوگ اپنے اجتہاد سے اس حق کو پا لیں وہ ہر حیثیت سے کامیاب اور دوہرے اجر کے مستحق ہیں‘ اور جو مقدور بھر کوشش کے باوجود اس حق تک نہ پہنچیں تو معذور ہیں ‘ان پر کوئی ملامت نہیں ‘بلکہ ان کے سعی و عمل کا ایک اجر اُن کو بھی ملتا ہے۔
ایک اہم واقعہ‘ اہم نکتہ:
ایک اہم واقعہ بھی آپ کے گوش گزار کروں جو اہم بھی ہے اور عبرت خیز بھی۔ قادیان میں ہر سال ہمارا جلسہ ہوا کرتا تھا اور سیّدی حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب ؒبھی اس میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔ ایک سال اسی جلسہ پر تشریف لائے‘ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ ایک صبح نماز فجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت مغموم بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا: حضرت کیسا مزاج ہے؟ کہا ہاں! ٹھیک ہی ہے ‘میاں مزاج کیا پوچھتے ہو‘ عمر ضائع کر دی۔
میں نے عرض کیا حضرت! آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں‘ دین کی اشاعت میں گزری ہے۔ ہزاروں آپ کے شاگرد علماء ہیں‘ مشاہیر ہیں‘ جو آپ سے مستفید ہوئے اور خدمت ِ دین میں لگے ہوئے ہیں‘ آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کس کی عمر کام میں لگی؟
فرمایا: میں تمہیں صحیح کہتاہوں: عمر ضائع کر دی!میں نے عرض کیا: حضرت بات کیا ہے؟
فرمایا: ہماری عمر کا‘ ہماری تقریروں کا‘ ہماری ساری کدوکاوش کا خلاصہ یہ رہا ہے کہ دوسرے مسلکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کر دیں‘ امام ابو حنیفہؒ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں۔ یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا‘ تقریروں کا اور علمی زندگی کا!
اب غورکرتاہوں تو دیکھتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی ؟ ابوحنیفہؒ ہماری ترجیح کے محتاج ہیں کہ ہم ان پر کوئی احسان کریں؟ ان کو اﷲ تعالیٰ نے جو مقام دیا ہے وہ مقام لوگوں سے خود اپنا لوہا منوائے گا‘ وہ تو ہمارے محتاج نہیں۔
اور امام شافعیؒ ‘امام مالکؒ اور احمد بن حنبلؒ اور دوسرے مسالک کے فقہاء جن کے مقابلے میں ہم یہ ترجیح قائم کرتے آئے ہیں‘ کیا حاصل ہے اس کا؟ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے مسلک کو ’’صواب محتمل الخطا (درست مسلک جس میں خطا کا احتمال موجود ہے) ثابت کر دیں اور دوسرے کے مسلک کو ’’خطا محتمل الصواب‘‘ (غلط مسلک جس کے حق ہونے کا احتمال موجود ہے) کہیں۔ اس سے آگے کوئی نتیجہ نہیں ان تمام بحثوں‘ تدقیقات اور تحقیقات کا ‘جن میں ہم مصروف ہیں۔
پھر فرمایا:ارے میاں! اس کا تو کہیں حشر میں بھی راز نہیں کھلے گا کہ کون سا مسلک صواب تھا اور کون سا خطا۔ اجتہادی مسائل صرف یہی نہیں کہ دنیا میں ان کا فیصلہ نہیں ہو سکتا‘ دنیا میں بھی ہم تمام تر تحقیق و کاوش کے بعد یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی صحیح‘ یا یہ کہ یہ صحیح ہے لیکن احتمال موجود ہے کہ یہ خطا ہو ‘اور وہ خطا ہے اس احتمال کے ساتھ کہ صواب ہو۔ دنیا میں تو یہ ہے ہی ‘قبر میں بھی منکر نکیر نہیں پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترکِ رفع یدین حق تھا؟ آمین بالجہر حق تھی یا بالسر حق تھی؟ برزخ میں بھی اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا۔
حضرت شاہ صاحب رحمہ اﷲ کے الفاظ یہ تھے:
اﷲ تعالیٰ شافعی کو رسوا کرے گا نہ ابو حنیفہ کو نہ مالک کو نہ احمد بن حنبل کو‘ جن کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے دین کے علم کا انعام دیا ہے ‘جن کے ساتھ اپنی مخلوق کے بہت بڑے حصے کو لگا دیا ہے ‘جنہوں نے نورِ ہدایت چار سو پھیلایا ہے ‘جن کی زندگیاں سنت کا نور پھیلانے میں گزریں‘ اﷲ تعالیٰ ان میں سے کسی کو رسوا نہیں کرے گا کہ وہاں میدانِ محشر میں کھڑا کر کے یہ معلوم کرے کہ ابو حنیفہ نے صحیح کہا تھا ‘یا شافعی نے غلط کہا تھا ‘یا اس کے برعکس ‘یہ نہیں ہوگا!
تو جس چیز کو نہ دنیا میں کہیں نکھرنا ہے ‘نہ برزخ میں اور نہ محشر میں‘ اسی کے پیچھے پڑ کر ہم نے اپنی عمر ضائع کر دی ‘اپنی قوت صرف کر دی اور جو صحیح اسلام کی دعوت تھی‘ مجمع‘علیہ اور سبھی کے مابین جو مسائل متفقہ تھے‘ اور دین کی جو ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں‘ جن کی دعوت انبیاء کرام ؑلے کر آئے تھے‘ جن کی دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا ‘اور وہ منکرات جن کو مٹانے کی کوشش ہم پر فرض کی گئی‘ آج یہ دعوت تو نہیں دی جا رہی۔ یہ ضروریاتِ دین تو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو رہی ہیں اور اپنے و اغیار ان کے چہرے کو مسخ کر رہے ہیں ۔اور وہ منکرات جن کو مٹانے میں ہمیں لگے ہونا چاہیے تھا‘ وہ پھیل رہے ہیں‘ گمراہی پھیل رہی ہے‘ الحاد آ رہا ہے ‘شرک و بت پرستی چلی آ رہی ہے‘ حرام و حلال کاامتیاز اٹھ رہا ہے‘ لیکن ہم لگے ہوئے ہیں ان فرعی و فروعی بحثوں میں!
حضرت شاہ صاحب نے فرمایا: یوں غمگین بیٹھا ہوں اورمحسوس کر رہا ہوں کہ عمر ضائع کر دی۔
سلف صالحین میں اختلاف ہوتو لوگوں کو کیا کرنا چاہیے؟:
ایسے ہی اختلاف کے متعلق جس میں صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم کی دو رائیں ہوں‘ امامِ اعظم ابوحنیفہؒ نے فرمایا:
احد القولین خطأ والاثم فیہ موضوع (۲)
’’متضاد اقوال میں سے ایک خطا ہے‘ مگر اس خطا کا گناہ معاف کر دیا گیا ہے‘‘۔
اور امام مالکؒ سے صحابہ کرامj کے باہمی اختلافات کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
خطأ وصواب فانظر فی ذٰلک (۳)
’’ان میں بعض خطا ہیں ‘بعض صواب و صحیح‘ تو عمل کرنے والے اہل اجتہاد کو غور کر کے کوئی جانب متعین کرنا چاہیے۔‘‘
امام مالکؒ نے اپنے اس ارشاد میں جس طرح یہ واضح کر دیا کہ اختلافِ اجتہادی میں ایک جانب صواب و صحیح اور دوسری جانب خطا ہوتی ہے‘ دونوں متضاد چیزیں صواب نہیں ہوتیں ‘اسی طرح یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اس اختلاف و خطا دونوں میں باہم جھگڑا اورجدال جائز نہیں۔ صرف اتناکافی ہے کہ جس کو خطا پر سمجھتا ہے ‘اس کو نرمی اور خیرخواہی سے خطا پر متنبہ کر دے۔ پھر وہ قبول کرے تو بہتر ورنہ سکوت کرے۔ جدال اور جھگڑا یا بدگوئی نہ کرے۔
حضرت امام ؒ کے ارشاد کا پورا متن یہ ہے:
کان مالک یقول المراء والجدال فی العلم یذہب بنور العلم من قلب العبد‘ وقیل لہ رجل لہ علم بالسّنۃ فہو یجادل عنہا‘ قال ولکن لیخبر بالسنۃ فان قبل منہ والاسکت (۴)
’’حضرت امام مالکؒ نے فرمایا کہ علم میں جھگڑا اورجدال نورِ علم کو انسان کے قلب سے نکال دیتا ہے ۔ کسی نے عرض کیا کہ ایک شخص جس کو سنت کا علم حاصل ہے‘ کیا وہ حفاظت ِ سنت کے لیے جدال کر سکتا ہے؟ فرمایا کہ نہیں!بلکہ اس کو چاہیے کہ مخاطب کو صحیح بات سے آگاہ کر دے‘ پھر وہ قبول کر لے تو بہتر ہے ورنہ سکوت اختیار کرے۔ (نزاع و جدال سے پرہیز کرے۔)‘‘
محمد بن عبدالرحمن صیرفی ؒ نے حضرت امام احمد بن حنبلؒ سے سوال کیا کہ جب کسی مسئلہ میں صحابہ کرامؓ باہم مختلف ہوں تو کیا ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ ہم ان میں غور و فکر کر کے یہ فیصلہ کریں کہ ان میں صحیح صواب کس کا قول ہے؟ تو فرمایا:
لا یجوز النظر بین اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
’’رسول اﷲﷺ کے صحابہ کے اختلاف میں لوگوں کو غور و فکرہی نہ کرنا چاہیے۔‘‘
صیرفی ؒنے کہا کہ پھر عمل کس کے قول پر اور کس طرح کریں؟
تقلّد ایہم شئتَ (۵) ’’ان میں سے جس کا چاہو اتباع کر لو ۔(یہی کافی ہے۔)‘‘
ائمہ مجتہدین کے ان اقوال میں ابو حنیفہ اور مالک رحمہما اﷲ کا مسلک تو یہ ہوا کہ جب صحابہ کرامؓ کا باہم کسی مسئلہ میں اختلاف ہو تو بعد کے فقہاء کو چاہیے کہ دلائل میں غور کر کے جس کا قول سنت سے زیادہ قریب تر سمجھیں اس کو اختیار کر لیں‘ اور امام احمدؒ کے نزدیک اس کی بھی ضرورت نہیں‘ دونوں طرف جب صحابہؓ ہیں تو جس کا قول چاہے اختیارکر سکتے ہیں۔
حضرت اُبی بن کعبؓ اور عبداﷲ بن مسعودؓ میں ایک مسئلہ میں باہمی اختلاف ہو رہا تھا۔ حضرت فاروق اعظمؓ نے سنا تو غضب ناک ہو کرباہر تشریف لائے اور فرمایا کہ ’’افسوس! رسول اﷲﷺ کے اصحاب میں ایسے دو شخص باہم جھگڑ رہے ہیں جن کی طرف لوگوں کی نظریں ہیں اور جن سے لوگ دین کا استفادہ کرتے ہیں۔‘‘ پھر ان دونوں کے اختلافات کا فیصلہ اس طرح فرمایا : صدق اُبیّ ولم یأل ابن مسعود یعنی ’’صحیح بات تو اُبی بن کعبؓ کی ہے مگر اجتہاد میں کوتاہی ابن مسعودؓ نے بھی نہیں کی‘‘۔پھر فرمایا کہ ’’مگر میں آئندہ ایسے مسائل میں جھگڑا کرتا ہوا کسی کو نہ دیکھوں‘ ورنہ اتنی سزا دوں گا‘‘۔ (۶)
حضرت فاروق اعظمرضی اﷲ عنہ کے اس ارشاد سے ایک تو یہ بات ثابت ہوئی کہ اجتہادی مسائل و اختلافات میں ایک قول صواب و صحیح ہوتا ہے‘ اور دوسرا اگرچہ صواب نہیں مگر ملامت اس پربھی نہیں کی جا سکتی۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ایسے اجتہادی مسائل میں خلاف و اختلاف پر زیادہ زور دینا مقتدایانِ اہل علم کے لیے مناسب نہیں‘ جس سے ایک دوسرے پر ملامت یا نزاع وجدال کے خطرات پیدا ہو جائیں ۔
امام شافعیؒ کے ایک مفصل کلام کو نقل کر کے ابن عبدالبرؒ نے فرمایا کہ امام شافعیؒ کے اس کلام میں اس کی دلیل موجود ہے کہ مجتہدین کو آپس میں ایک دوسرے کا تخطیہ نہ کرنا چاہیے۔ یعنی ان میں کوئی ایک دوسرے کو یہ نہ کہے کہ آپ غلطی اور خطا پر ہیں۔(۷) وجہ یہ ہے کہ ایسے اجتہادی مسائل میں کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنے قول کو یقینی طور پر صواب و صحیح اور دوسرے کے قول کو یقینی طور پر خطاو غلط کہے ۔ اجتہاد اورپورے غور و فکر کے بعد بھی جو رائے قائم کی ہے اس کے متعلق اس سے زیادہ کہنے کا کسی کو حق نہیں کہ رائے صحیح و صواب ہے‘مگر احتمال خطا اور غلطی کا بھی ہے اور ہو سکتا ہے کہ دوسرے کا قول صحیح و صواب ہو۔
خلاصہ یہ کہ اجتہادی اختلافات میں جمہور علماء کے نزدیک علم الٰہی کے اعتبار سے دو مختلف آراء میں سے حق تو کوئی ایک ہی ہوتی ہے ‘مگر اس کا متعین کرنا کہ ان میں سے حق کیا ہے‘ اس کا یقینی ذریعہ کسی کے پاس نہیں‘ دونوں طرف خطا و صواب کا احتمال دائرہے۔ مجتہد اپنے غورو فکر سے کسی ایک جانب کو راجح قرار دے کر عمل کے لیے اختیار کر لیتا ہے۔
جاری ہے