سید محمد کفیل بخاری
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے بنی گالہ میں تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ !
حکومت کے پاس اہلیت ہے نہ صلاحیت اور نہ ہی منصوبہ بندی۔ نیا پاکستان کیسے بنے گا نیب سب کو پکڑے یا سب کو چھوڑے، دونوں آنکھیں کیوں نہیں کھولتا، پکڑنے اور چھوڑنے کا فیصلہ کون کرتا ہے
منرل واٹر نہیں، بوتل میں بند پانی ہے، چار دفعہ میں نے منرل واٹر میں ملاوٹ پکڑی ہے، پانی کی کمپنیاں بند کردیں ، ہم گھڑے کا پانی پی لیں گے۔
سی ڈی اے، عدالتی حکم کی آڑ میں لوٹ مار کر رہا ہے، بہت ہی نیا پاکستان بن رہا ہے۔‘‘
(روزنامہ جنگ ملتان، 14 ؍ نومبر 2018ء)
موجودہ حکومت کے بارے میں یہ حزب اختلاف کے کسی رہنما کا بیان نہیں بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس ہیں۔ کیا فرماتے ہیں نئی نویلی سہ ماہی عمر یا حکومت کے وزراء اور ان کے حمایتی حاشیہ بردار
محترم چیف جسٹس کے ریمارکس حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت ایک خاص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہیں قائم ہوئی ہے۔ قانونِ توہین رسالت میں تبدیلی کی کوشش، آسیہ ملعونہ کی رہائی، قادیانیت کے تحفظ کی مذموم کوششیں، حکومت کے زیر اہتمام ختم نبوت کانفرنس کا اعلان اور پھر عنوان تبدیل کر کے ’’عالمی رحمۃ اللعالمین کانفرنس‘‘ کے انعقاد کا اعلان، اسرائیلی طیارے کی پاکستان میں خفیہ آمد کے سوال پر حکومتی ذمہ داران کی آئیں بائیں شائیں وضاحت، پی ٹی آئی کے حامی لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے حق میں ایک تقریب میں گفتگو، پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی عاصمہ حدید کی طرف سے اسرائیل کوتسلیم کرنے کے حق میں قومی اسمبلی میں تقریر اور قرارداد۔ کیا یہ سب کچھ ’’معمول کی مشقیں‘‘ ہیں یا استعماری ایجنڈے کی منظم منصوبہ بندی کے ساتھ تکمیل ہو رہی ہے۔ محترم چیف جسٹس نے جس اہلیت، صلاحیت اور منصوبہ بندی کے فقدان کا ذکر کیا ہے حکمران یقینا اس سے محروم ہیں کیونکہ اس کاتعلق تو اپنے دین ومذہب، ریاست کے نظریہ ومقصد اور اس کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی سے مشروط ہے۔ جبکہ موجودہ حکمران ریاست کی انہی بنیادوں کو منہدم کرنے کے درپے ہیں۔ ایجنڈا عالمی استعمار کا اور منصوبہ بندی بھی انہی کی، حکمران تو استعمار کے شو بوائے یا روبوٹ معلوم ہوتے ہیں۔
ملعونہ آسیہ مسیح کو سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ سے توہین رسالت کی سزا ہوئی، اب سپریم کورٹ نے ٹیکنیکل بنیادوں پر اُسے بری کردیا۔ پوری قوم نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے بیرونی دباؤ کا شاخسانہ قرار دیا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کیس کے لیے لارجر بینچ سماعت اور فیصلے سے پہلے تشکیل دیا جاسکتا تھا، فیصلے کے بعد ممکن نہیں، دوسرا یہ کہ فاضل جج صاحبان کو علماء سے رائے لینی چاہیے تھی، فیصلہ متفقہ دینی رائے سے ہونا چاہیے تھا۔ لیکن یہ بات محل نظر ہے کہ محفوظ فیصلہ 31؍ اکتوبر 2018ء کو سنایا گیا جو غازی علم دین شہید رحمۃ اﷲ علیہ کا یوم شہادت تھا۔ یہ مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اب کوئی لارجر بینچ بن سکتا ہے نہ جج تبدیل ہوسکے ہیں اورنہ حکومت نظر ثانی کی اپیل کر سکتی ہے۔ کیونکہ اپیل کا حق مدعی کو حاصل ہے۔ لہذا ملعونہ کو ملک سے باہر بھیج دیا جائے گا۔ ویٹی کن اور پوری صلیبی دنیا اس کی منتظر ہے۔ یہ ایک افسوسناک صورتِ حال ہے کہ عاشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ممتاز قادری شہید کو پھانسی دے دی گئی اور گستاخ رسول آسیہ ملعونہ کو رہا کردیا گیا۔ جس پر پاکستان کے عوام مضطرب، بے قراراور سراپا احتجاج ہیں۔ فوج، پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہے اور قوم کو فوج پر اعتماد ہے لیکن نظریاتی سرحدوں پر بیٹھے لوگ مشکوک اور ناقابل اعتماد ہیں۔ عالمی استعمار ان کے ذریعے پاکستان کی نظریاتی اساس منہدم کرنے کی سازش کررہا ہے۔ حکمران آئینی حلف کی پاسداری اور قانون پر عمل کریں، ہوش کے ناخن لیں اور مغربی ایجنڈے کی تکمیل سے باز آجائیں۔ ورنہ ملک میں انارکی، افراتفری اور انتشار پھیلے گا
بانیٔ پاکستان محمد علی جناح نے کہا تھا!
’’اسرائیل ناجائز ریاست ہے، یہ امت مسلمہ کے قلب میں جنجر گھسایا گیا ہے، پاکستان اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔‘‘
مصور پاکستان علامہ محمد اقبال نے فرمایا!
ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
لیکن حکمران، قائد اور مفکر پاکستان کے علی الرغم نیا پاکستان بنانے جارہے ہیں۔ یہی صورت حال رہی تو انجام گلستاں کیا ہوگا؟ اﷲ خیر کرے۔
آہ ! حضرت مولانا سمیع الحق شہید رحمۃ اﷲ علیہ
عظیم دینی ادارہ جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم، حمعیت علماء اسلام (س) کے امیر حضرت مولانا سمیع الحق رحمۃ اﷲ علیہ کو 23؍ صفر 1440ھ / 2 ؍ نومبر 2018ء بروز جمعہ عصر کے وقت بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں ان کی رہائش گاہ میں نامعلوم درندوں اور ظالموں نے شہید کردیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
حضرت مولانا سمیع الحق رحمۃ اﷲ علیہ اپنے عظیم والد محدث کبیر حضرت مولانا عبد الحق نور اﷲ مرقدہٗ کی عظیم نشانی اور ان کے علمی وسیاسی جانشین تھے۔ مولانا کی شخصیت سے تعارف بچپن میں ان کے جریدے ’’ماہنامہ الحق‘‘ کے ذریعے ہوا، ان کی علمی تحریروں نے جہاں اہلِ علم کو متأثر کیا وہاں ہم جیسے طالب علم بھی متأثر اور ان کے گرویدہ ہوئے۔ مولانا سے کئی مرتبہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ سیاسی اجتماعات میں بھی اور دار العلوم حقانیہ میں نجی مجالس میں بھی۔ وہ انتہائی خلیق اور ملنسار انسان تھے۔ انہوں نے جامعہ حقانیہ میں آخری ملاقات میں فرمایا کہ :
’’میں تو درس وتدریس اور قرطاس وقلم کا آدمی تھا، دوست مجھے سیاسی میدان میں گھسیٹ لائے۔ سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے میرے کئی علمی کام معلق ہوکر رہ گئے ہیں، میری خواہش ہے کہ سیاست سے جان چھڑا کر انہیں مکمل کروں۔‘‘
الحق کے اداریے، مشاہیر کے مکاتیب، مشاہیر کے خطبات ان کا عظیم علمی ورثہ ہے، جن سے نژادِ نواستفادہ کرتی رہے گی اور اپنے فکری راستوں کو اجالتی رہے گی۔ آخری دنوں میں وہ شیخ التفسیر امام احمد علی لاہوری نور اﷲ مرقدہٗ کے تفسیری افادات مرتب فرمارہے تھے۔ جو تقریباً تکمیل کے مراحل میں تھے۔ امید ہے کہ آپ کے جانشین مولانا حامد الحق حقانی، مولانا راشد الحق حقانی اور آ پ کے بھتیجے مولانا عرفان الحق اسے جلد مکمل کر کے مولانا کی روح کو تسکین پہنچائیں گے۔
حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کا حضرت مولانا عبد الحق رحمۃ اﷲ علیہ سے بہت گہرا تعلق تھا۔ وہ جامعہ حقانیہ کے سالانہ جلسے میں تشریف لے جایا کرتے، جامعہ میں امیر شریعت کی ایک تقریر حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ رحمۃ اﷲ علیہ نے مرتب کر کے شائع کی تھی۔ حضرت مولانا سمیع الحق شہید رحمۃ اﷲ علیہ نے وہ تقریر مجھ سے منگوائی اور پھر اپنی کتاب مشاہیر کے خطبات میں شامل کی۔ ابن امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اﷲ جامعہ حقانیہ میں حضرت مولانا عبد الحق رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انہیں سند حدیث اور اجازت حدیث عطاء فرمائی۔ حضرت مولانا سمیع الحق شہید نے اپنے والد ماجد رحمہ اﷲ کی محبت کو زندہ رکھا، وہ ابناء امیر شریعت اور مجھ عاجز کو بھی اسی شفقت سے سرفراز فرماتے۔ آخری ملاقات میں نماز ظہر جامعہ حقانیہ کی مسجد میں ان کے ساتھ ادا کی اور پھر وہ مجھے الوداع کرنے سواری تک آئے۔ یہاں تک کہ کار کا دروازہ خود کھولا۔ راقم تعزیت کے لیے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک حاضر ہوا تو حضرت مولانا شہید کے فرزندان مولانا حامد الحق، مولانا راشد الحق، آپ کے بھائی شیخ الحدیث حضرت مولانا انوار الحق آپ کے بھتیجوں، خاندان کے دیگر افراد، رفقاء واحباب اور طلباء کے مثالی صبر وحوصلہ کو دیکھ کر مجھے بھی حوصلہ ملا۔ اﷲ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور صبر پر اجر عظیم عطاء فرمائے۔ آمین
اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قتل کا سراغ لگائے اور قاتلوں کوگرفتار کر کے عبرتناک سزا دے۔