تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

نور العیون فی سیرۃ الامین المامون صلی اﷲ علیہ وسلم قسط: ۳

علامہ ابن سید الناس رحمہ اﷲ تعالی مترجم : ڈاکٹر ضیاء الحق قمرؔ
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کسی کو اپنے پیچھے نہ چلنے دیتے بلکہ فرماتے:
’’میری پشت فرشتوں کے لیے خالی چھوڑ دو۔‘‘ (1)
اگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کسی سواری پر تشریف فرما ہوتے تو کسی کو پیدل نہ چلنے دیتے بلکہ اسے اپنے ہمراہ سوار کر لیتے اگر وہ تعظیماً انکار کرتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اسے فرماتے جدھر جانا چاہتے ہو مجھ سے پہلے چلے جاؤ۔
جو شخص آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت کرتا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اس کی خاطر مدارت فرماتے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے غلام بھی تھے اور باندیاں بھی تھیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کھانے پینے اور لباس میں ان سے امتیاز نہ فرماتے۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ رویت کرتے ہیں کہ میں نے دس سال نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت کی۔ سفر و حضر میں مجھے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی معیت حاصل رہی۔ لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم میری خدمت گزاری سے بڑھ کر میرا خیال فرماتے۔ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے کبھی اف تک بھی نہیں فرمایا اور نہ ہی میرے کیے ہوئے کسی کام پر فرمایا کہ تونے ایسا کیوں کیا۔ اور نہ ہی میرے کسی کام کے نہ کرنے پر یہ فرمایا کہ تونے ایسا کیوں نہیں کیا۔ (2)
ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سفر میں تھے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بکری پکانے کا حکم فرمایا تو ایک صحابی نے کہا یا رسو اﷲ اس کا ذبح کرنا میرے ذمہ، دوسرے نے عرض کیا میں اس کی کھال اتارتا ہوں، تیسرے نے کہا اسے پکانے کا ذمہ میرا۔ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: لکڑیاں جمع کرنا میرے ذمہ۔ تو صحابہ رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا یا رسو ل اﷲ! ہم یہ سب کر لیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تم یہ سب کر لو گے لیکن مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میں تم سے ممتاز رہوں۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ کو یہ بات ناپسند ہے کہ کوئی شخص اپنے ساتھیوں میں ممتاز ہو کر بیٹھے۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اٹھے اور لکڑیاں جمع کیں۔ (3)
ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سفر میں تھے ، نماز کے لیے ٹھہرے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سواری کی طرف لوٹے، صحابہ رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا یا رسول اﷲ، کہاں کا ارادہ ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی اونٹنی کو باندھنے جا رہا ہوں۔ صحابہ رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا یا رسول اﷲ! ہم آپ کی سواری کو باندھ دیتے ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی کسی سے کوئی مدد نہ لے اگرچہ وہ مسکواک کے نرم کرنے کی ہی کیوں نہ ہو۔
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم جب مجلس میں بیٹھتے تو اﷲ کا ذکر کرتے اور جب مجلس برخاست فرماتے تب بھی اﷲ کا ذکر کرتے۔ جب کسی مجلس میں تشریف لاتے تو ایک طرف بیٹھ جاتے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کا حکم فرماتے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپی مجلس میں ہر رکن مجلس کو برابر توجہ سے نوازتے، کوئی یہ محسوس نہ کرتا کہ کوئی دوسرا اس سے بڑھ کر قابلِ تکریم ہے۔ اور جب کوئی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بیٹھتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس وقت تک نہ اٹھتے جب تک وہ خود نہ اٹھتا۔ ہاں اگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کوئی ضروی کام درپیش ہوتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے اجازت لے کر اٹھتے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مخاطب سے کبھی ایسی بات نہ فرماتے جو اسے پسند نہ ہوتی۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیا بلکہ معاف کر دیتے اور درگزر فرماتے۔ (4)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مریضوں کی عیادت فرماتے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مساکین سے محبت فرماتے، ان کے ساتھ نشست و برخاست کرتے اور ان کے جنازوں میں بھی شامل ہوتے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی کسی فقیر کو اس کے فقر کی وجہ سے حقیر نہیں جانا اور نہ ہی کبھی کسی بادشاہ کی بادشاہت سے مرعوب ہوتے۔
اﷲ کی نعمت کی قدر کرتے اگرچہ وہ کم مقدار میں ہی کیوں نہ ہوتی اور اسے کبھی حقیر نہ سمجھتے ۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا، اگر پسند ہوتا تو کھا لیتے ورنہ اسے چھوڑ دیتے۔ (5)
آپ صلی اﷲ علیہ پڑوسی کے حقوق کا بہت خیال رکھتے، اپنے مہمان کا اکرام فرماتے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سب سے زیادہ تبسم فرمانے والے اور خوش رو تھے۔
اﷲ کے کاموں اور ضروری امور کے علاوہ اور کسی کام میں اپنا وقت صرف نہ فرماتے۔ جب کبھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان میں سے آسان کام کو اختیار فرماتے۔ لیکن اگر آسانی والے کام میں قطع رحمی کا امکان ہوتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس عمل سے سب زیادہ بچنے والے ہوتے۔ (6)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے جوتے خود مرمت کرتے اور کپڑوں کو بھی خود پیوند لگا لیتے۔ (7)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم گھوڑے، خچر اور گدھے پر بھی سواری فرماتے۔ (اور بوقت ضرورت) سواری پر اپنے پیچھے اپنے غلام یا کسی اور شخص کو بھی بٹھا لیتے۔
اپنے گھوڑے کا منہ اپنی آستین یا چادر کے پلو سے صاف کرتے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نیک فال کو پسند فرماتے اور بدشگونی کو ناپسند فرماتے۔ (8)
جب کوئی پسندیدہ خبر ملتی تو الحمد للّٰہ رب العالمین فرماتے۔ اور جب کوئی ناپسندیدہ خبر ملتی تو الحمد للّٰہ علی کل حال پڑھتے۔ (9)
کھانہ کھانے کے بعد (جب) دسترخوان اٹھایا جاتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے:
اَلْحَمْدُ للّٰہِ الَّذِیْ أَطْعَمَنَا وَ سَقَانَا وَ أَرْوَانَا وَ جَعَلَنَا مُسْلِمِیْنَ۔( 10)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم عام طور پر قبلہ رخ تشریف فرما ہوتے، اکثر ذکر میں مشغول رہتے۔
نماز طویل کرتے اور خطبہ چھوٹا پڑھتے۔
ایک ہی مجلس میں سو سو بار استغفار فرماتے۔ (11)
نماز کے دوران خوفِ خدا کے غلبہ کے وجہ سے روتے ہوئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سینہ مبارک سے ہنڈیا کے ابلنے کی طرح آوازیں آتیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اکثر پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے۔ ہر مہینے میں تین دن (12) اور عاشوراء کا روزہ رکھتے۔ (13)
بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جمعہ کے دن روزہ نہ رکھتے۔ (14)
شعبان کے مہینے میں اکثر روزہ رکھتے۔ (15)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھیں سوتیں مگر قلب اطہر وحی الٰہی کا منتظر رہتا۔ (16) اور جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سوتے تو سانس کی ہلکی سی آواز آتی۔ (17) اور بلند آواز خراٹے نہیں ہوتے۔
اور جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نیند میں کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھتے تو فرماتے:
ہو اللّٰہ لا شریک لہ ۔ (18)
اور جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بستر پر تشریف لاتے تو فرماتے:
رَبِّ قِنِیْ عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ (19)
اور جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بیدار ہوتے تو یہ فرماتے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحَیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَ اِلَیْہِ النُّشُوْرُ (20)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے کھانے کا بیان
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی صدقہ کی چیز نہیں کھائی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہدیہ تناول فرم لیتے۔ (21) اور جواباً بھی ہدیہ عنایت فرماتے۔ (22) اور کھانے میں کوئی تکلف نہ فرماتے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر بھی باندھ لیتے۔ (23)
اﷲ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئیں، لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی۔ (24)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سرکہ کے ساتھ بھی روٹی تناول کی اور فرمایا کہ ’’سرکہ بہت ہی اچھا سالن ہے‘‘۔ (25)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مرغی (26) اور مرغابی کا گوشت بھی تناول فرمایا۔ (27)
کدو (28) اور بکری کی دستی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مرغوب غذا تھی۔ (29)
زیتون کا تیل کھانے میں بھی استعمال کرتے اور اس کی مالش بھی کرتے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’زیتون کھاؤ اور اس کی مالش کرو، بے شک یہ مبارک درخت کا تیل ہے‘‘۔ (30)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تین انگلیوں سے کھانا تناول فرماتے اور کھانے کے بعد ان کو چاٹ لیتے۔ (31)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جو کی روٹی خشک کھجور کے ساتھ، تربوز اور ککڑی تازہ کھجور کے ساتھ (32) اور خشک کھجور مکھن کے ساتھ تناول فرماتے۔ (33)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو شیرینی بھی پسند تھی۔ (34)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بیٹھ کر پانی پیتے اور(آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے) کبھی کبھی کھڑے ہو کر بھی پانی پیا۔ (35)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تین سانسوں میں پانی پیتے اور سانس لیتے وقت برتن کو منہ سے ہٹا لیتے۔ (36)
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم (اپنے اصحاب کو) جب (کبھی) پانی یا دودھ پلاتے تو اپنی داہنی جانب سے شروع فرماتے۔ (37)
حواشی
1۔مسند الامام احمد بن حنبل: 398/3۔
2۔صحیح بخاری، حدیث نمبر 2768۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2309
3۔کشف الخفاء، العجلونی: 292/1
4۔صحیح بخاری، حدیث نمبر 4838، سنن ترمذی، حدیث نمبر 2016
5۔صحیح بخاری، حدیث نمبر 3563۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2064۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 2031۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 3763، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3259
6۔ صحیح بخاری حدیث نمبر 3560۔صحیح مسلم، حدیث نمبر 2327، سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4785
7۔ المنتخب من مسند عبد بن حمید، حدیث نمبر 1482
8۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3536
9۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3803
10۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 3396۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 3850۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3283
11۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2702۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 1515
12۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 752۔ سنن ابی داؤد،حدیث نمبر 2450
13۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر 2003۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1129
14۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 742
15۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر 1969۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1156۔ سنن نسائی، حدیث نمبر 2350
16۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر 1147۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 738۔سنن ترمذی، حدیث نمبر 439
17۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر 689۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 763
18۔ السنن الکبریٰ الامام النسائی، حدیث نمبر 10418
19۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 3398۔سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 5046
20۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر 6312۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 5049۔ سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر 3880
21۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر 2576۔ صحیح مسلم ، حدیث نمبر 1077
22۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر 2585۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 1953
23۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2040۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 2371
24۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر 1344۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 523
25۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2051۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 1840۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 3821، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3316۔ سنن دارمی، حدیث نمبر 2048۔ سرح السنہ، الامام البغوی، حدیث نمبر 2861۔ الجامع الصغیر، الامام السیوطی، حدیث نمبر 9267
26۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر 5517۔ سنن ترمذی ، حدیث نمبر 1827
27۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 1828۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 3797
28۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر 2092۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2041۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 1850۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 3782
29۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر 3340
30۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 1851۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3319۔ مسند الامام احمد بن حنبل، 497/3، کشف الخفاء، العجلونی، حدیث نمبر 9
31۔ سنن دارمی، حدیث نمبر 2033
32۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر 5440۔ صحیح مسلم حدیث نمبر 2043۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 1844۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 3855۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3325
33۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 3837۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3334
34۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر 5268
35۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 1883۔ شرح السنہ، الام البغوی، حدیث نمبر 3048
36۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر 5631۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2028۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 1884۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3416
37۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر2351

(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.