علامہ ابن سید الناس رحمہ اﷲ تعالیٰ مترجم: ڈاکٹر ضیاء الحق قمر
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے معجزات میں سے چند ایک کا بیان :
کھجور کے درختوں کے پاس جائیں اور انہیں کہیں کہ اﷲ کے رسول تمہیں ایک جگہ اکٹھا ہو نے کا کہہ رہے ہیں(تا کہ پردہ ہوجائے) یہ سن کر سب درخت اکٹھے ہوگئے۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم حاجت سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہی صحابی سے فرمایا کہ درختوں کو اپنی جگہ لوٹنے کا کہہ دو تو وہ اپنی جگہ پر لوٹ گئے۔ (۱)
ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم آرام فرماتھے کہ ایک درخت زمین چیرتا ہوا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آکھڑا ہوا۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بیدارہوئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس درخت کے بارے میں بتایا گیا اس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اس درخت نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ وہ خود آکر مجھ پر سلام کہنا چاہتا ہے چنانچہ اﷲ نے اسے اجازت دی تو یہ آیا۔ (۲)
اسی طرح بعثت کی راتوں میں شجر وحجر اَلسَّلَامُ عَلَیکَ یاَرَسُولَ اﷲ کہتے ہوئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سلام پیش کرتے۔ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں مکہ کے اس پتھر کو اب بھی جانتا ہوں جو میری بعثت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا۔(۳)
کھجور کے خشک تنے کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فراق میں رونا۔ (۴)
کنکریوں کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتھیلی میں تسبیح پڑھنا۔اور اسی طرح کھانے کا بھی تسبیح پڑھنا۔(۵)
پکی ہوئی بکری کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بتانا کہ مجھ میں زہر ملایا گیا ہے۔ (۶)
ایک اونٹ کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کرنا کہ میرا مالک مجھ سے کام زیادہ لیتا ہے اور چارہ کم دیتا ہے۔
ایک مرتبہ رسی میں بندھی ہوئی ہرنی نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کی کہ مجھے کھول دیا جائے تاکہ میں اپنے بچوں کو دودھ پلا آؤں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے کھول دیا وہ (اپنے بچوں کو دودھ پلا کر) لوٹی ساتھ ہی اس نے آ پ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی۔
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں مشرکین کے قتل ہونے کی جگہوں کے بارے میں بتایا چنانچہ ہر مشرک اسی جگہ پر واصل جہنم ہوا جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ (۷)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی امت کے ایک گروہ کے بحری غزوہ کرنے کی پیشین گوئی فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ ام حرام بنت ملحان رضی اﷲ عنھا (۸)بھی ان میں شامل ہوں گی اور (حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما کے دور خلافت میں )ایسا ہی ہوا۔ (۹)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ان کو شدید مصیبت کاسامنا کرنا پڑے گا۔ (۱۰) چنانچہ ویسا ہی ہوا جیسا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اور حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے گھر میں شہید ہوئے۔
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا کہ میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی۔ (۱۱)
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما کے بارے فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سر دار ہے اﷲ عزوجل اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گرو ہوں کے درمیان صلح کر وائے گا۔ (۱۲)
اسی طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جس رات اسود عنسی کذاب قتل ہوا (اسی وقت) اس کے قتل کی خبر دی جبکہ اس وقت وہ صنعاء میں تھا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اس کو کس نے قتل کیا۔
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ثابت بن قیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ (۱۳) سے فرمایا آپ اچھی زندگی گزارو گے اور شہادت کی موت پاؤ گے۔ (۱۴) چنانچہ آپ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔
ایک شخص مرتد ہو کر مشرکین سے جا ملا جب اس کے مرنے کی خبر پہنچی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمین اس کو قبول نہیں کرے گا۔ (۱۵) چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بائیں ہاتھ سے کھانے والے شخص سے فرمایا کہ دائیں ہاتھ سے کھاؤ تو اس نے کہا کہ میں دائیں ہاتھ سے کھانے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
تجھے (واقعی) اس کی استطاعت (توفیق) نہ ہو۔ (۱۶)۔
اس کے بعد اس کے ہاتھ کو منہ تک جانے کی قدرت نہ رہی۔
فتح مکہ کے موقع پر جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو کعبہ کے قرب وجوار میں بت لٹکے ہوئے تھے آپ صلی اﷲ علیہ کے ہاتھ میں چھڑی تھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جس بت کی جانب اشارہ کرکے (قُل جَاْءَ الَحقُ وَزَھَقَ اْلَباطِلُ) (۱۷) فرماتے وہ بت (ا س اشارہ سے ہی) گرجاتا۔(۱۸)
اسی طرح مازن بن ا لغضوبہ الطائی اور سواد بن قارب رضی اﷲ عنہما (۱۹) کے قصے اور ان جیسے اور بھی قصے ہیں۔
ایک گوہ کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کی گواہی دینا۔
غزوہ خندق کے موقع پر ایک صاع (۲۰) جو کے ساتھ ہزاروں صحابہ رضی اﷲ عنہم کے سیر ہو کر کھاناکھانے کے بعد بھی کھانا پہلے سے زیادہ باقی تھا۔ (۲۱)
اسی طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تھوڑی سی کھجوریں بہت سے صحابہ رضی اﷲ عنہم کو کھلائیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سفر کے دوران صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے زاد راہ کو دستر خوان پر جمع کر کے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر اس کو تمام لشکر میں تقسیم کیا تو وہ سب کے لیے کافی ہوگیا۔
ایک موقع پر حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ انپے ہاتھ میں چند کھجوریں لیے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور برکت کی دعا کی درخواست کی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس میں سے کئی وسق کھجور خرچ کی اور خود بھی اس میں سے کھاتے رہے اور یہ برکت حضرت عثمان ذی النور ین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت تک باقی رہی ۔(۲۲)
ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اصحاب صفہ کو ایک پیالہ ثرید پر بلایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب اصحاب صفہ جانے لگے تو میں اس انتظار میں رہا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مجھے بھی بلائیں گے جب وہ لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو پیالہ میں صرف اتنا بچا جو کناروں پر لگا تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس بچے ہوئے کو اپنے دست مبارک سے اکٹھا کیا تو وہ ایک لقمہ بناآپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے اپنی انگلیوں پر رکھااور مجھے حکم فرمایا: بسم اﷲ پڑھ کر اسے کھاؤ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں اس ایک لقمہ سے ہی کھاتا رہا یہاں تک کہ میں سیر ہوگیا۔
ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہوا صحابہ رضی اﷲ عنہم نے اس سے پانی پیا اور وضو کیا جبکہ ان کی تعداد چودہ سو تھی۔ (۲۳)
ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پانی کا پیالہ لایا گیا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس میں اپنی انگلیاں ڈالنا چاہیں تو اتنی گنجائش نہ تھی جس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی چار انگلیاں ڈالیں تو ان سے پانی جاری ہوگیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا آؤ، سب آئے اور انہو ں نے وضو کیا ان لوگوں کی تعداد 70سے 80کے درمیان تھی۔ (۲۴)
غزوہ تبوک کے موقع پر صحابہ رضی اﷲ عنہم کا ایک جگہ پانی پر گزر ہوا۔ وہ پانی اتنا کم تھا کہ ایک آدمی کے لیے بھی ناکافی تھا۔ جبکہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم پیا سے تھے تو انہوں نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو پانی کے ناکافی ہونے کا بتایا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر اس پانی میں گاڑا تو پانی بہہ نکلا تمام لشکر اس سے سیراب ہوا۔ اور وہ لشکر 30افراد پر مشتمل تھا۔
ایک مرتبہ ایک قوم نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے پانی کے کھارے ہونے کی شکایت کی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اﷲ عنہم کے ہمراہ ان کے کنویں پر تشریف لے گئے اور کنویں میں اپنا لعاب دہن ڈالا تواس کی برکت سے کنویں سے میٹھا پانی پھوٹ پڑا۔
ایک مرتبہ ایک عورت اپنے بچے کو لیے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی وہ بچہ گنجے پن کے مرض میں مبتلا تھا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے سرپر ہاتھ پھیرا تو اس کامرض جاتا رہا اور سر پر پورے بال آگئے۔ جب اہل یمامہ کو اس معجزہ کی خبر پہنچی تو ایک عورت اسی طرح اپنے بچے کو لے کر مسیلمہ کذاب کے پاس لے گئی مسیلمہ نے اس کے سرپر ہاتھ پھیرا تو بچے کے سر پر موجود بال بھی جاتے رہے اور یہ گنجاپن اس کی نسل میں بھی باقی رہا۔
غزوہ بدر میں جب حضرت عکاشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ (۲۵) کی تلوار ٹوٹ گئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں لکڑی کی ایک شاخ دی جوان کے ہاتھ میں آکر تلوار بن گئی اور وہ تلوار ان کے پاس ہمیشہ رہی۔
غزوہ خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی کے دوران ایک اتنی سخت چٹان آگئی کہ جس پر کدال اثر نہیں کرتی تھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے ضرب لگائی تو وہ ریت کی طرح ہوگئی۔ (۲۶)
ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ابو رافع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ٹوٹے پاؤں پر ہاتھ پھیرا تو وہ اس طرح ٹھیک ہو اکہ جیسے اسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ (۲۷)
یہ نمونے کے طور پر چند معجزات ذکر کیے گئے ہیں ورنہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے معجزات تو شمار سے باہر ہیں وہ تو بڑی کتاب میں بھی نہیں سماسکتے۔ ان کے لیے تو کئی رجسٹر درکار ہیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کا بیان:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تریسٹھ برس کی عمر میں دنیا سے پردہ فرمایا۔ بعض نے اس کے علاوہ عمر مبارک بیان کی ہے۔ 12ربیع الاول بروز پیر دوپہر سے کچھ پہلے سانحہ ارتحال پیش آیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم چودہ دن بیمار رہے اور بدھ کی رات آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تدفین عمل میں آئی۔
جب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کا وقت آیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس پانی کا پیالہ تھا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس میں ہاتھ ڈالتے اور چہرہ انور پر پھیرتے اور فرماتے:
اَللّٰھُمَّ اَعِنِّی عَلٰی سَکَرَاتِ الْمَوْتِ (۲۸)
اے اﷲ موت کی تکلیف میں میری مدد فرما۔
سید ہ فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنھانے فرمایا :ہائے میرے باپ کی تکلیف تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :
فاطمہ تیرے باپ پر آج کے دن کے بعد کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ (۲۹)
دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو حبری( حِبْرَہْ۔ یمن کی دھاری دار چادر کا نام ) کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔ (۳۰) اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فرشتوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس کپڑے سے ڈھانپا۔
بعض صحابہ رضی اﷲ عنہم نے پریشانی کے عالم میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کو جھٹلایا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عمربن الخطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کا انکار کیا۔ حضرت عثمان ذی النورین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی آواز بند ہوگئی حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شدت غم سے زمین پر ہی بیٹھ گئے۔ حضرت عباس اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہما نے اس صدمہ کو حوصلہ اور تحمل سے برداشت کیا۔
پھر صحابہ رضی اﷲ عنہم نے حجرہ کے دروازے سے آواز سنی کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو غسل نہ دیاجائے کیونکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پاکیزہ ہیں۔ پھر ایک اور آواز آئی کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو غسل دیا جائے، پہلی آواز شیطان کی تھی اور میں خضر ہوں ۔ اور انہوں نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو تسلی دی اور فرمایا کہ اﷲ کی طرف سے ہر مصیبت میں صبر کی تلقین کی ہے۔ اور ہر جانے والے کاخلیفہ ہوتا ہے اور ہر فوت ہونے والے کے قائم مقام کوئی نہ کوئی ہوتا ہے۔ اﷲ کے ساتھ ہی جمے رہو اور اسی سے امید رکھو۔ تحقیق مصیبت زدہ تو وہ ہے جو (مصیبت پر بے صبری کرکے) اجر سے محروم رہے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسد اطہر کو غسل دینے کے بارے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں اختلاف رائے ہوا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو لباس سمیت غسل دیا جائے یا لباس ہٹا کر تو اﷲ نے ان پر نیند کی کیفیت طاری کردی اس دوران انہوں نے کسی کہنے والے کو سنا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو لباس سمیت غسل دیا جائے، اس آواز سے صحابہ رضی اﷲ عنہم بیدار ہوئے اور اسی پر عمل کیا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو غسل دینے کی سعادت حاصل کرنے والے حضرت علی حضرت عباس اور ان کے دوبیٹے حضرت فضل (۳۱) اور حضرت قثُم(۳۲) حضرت اسامہ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے غلام حضرت شقران اور انصار میں سے حضرت اوس بن خولی رضی اﷲ عنہم (۳۳)تھے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیٹ مبارک پر ہاتھ پھیرا لیکن کوئی چیز خارج نہ ہوئی تو انہوں نے فرمایا: اﷲ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر رحمتیں فرمائے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا میں بھی پاکیزہ رہے اور پاکیزہ ہی دنیا سے تشریف لے گئے۔
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سفید رنگ کے تین سحولی کپڑوں میں کفن دیا گیا۔ ان کپڑوں میں نہ کوئی قمیض تھی اور نہ ہی عمامہ تھا بلکہ وہ ان سلے کپڑے تھے۔ (۳۴)
مسلمانوں نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پر اکیلے اکیلے نماز پڑھی ان میں کوئی امام نہیں تھا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے غلام شقران رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قبرمبارک میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نیچے وہ سرخ چادر بچھائی جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم او ڑھا کرتے تھے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے لحد بنائی گئی اور اسے کچی مٹی کی ’’نو ‘‘اینٹوں سے ڈھانپ دیا گیا۔
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں اس بات پر اختلاف رائے ہوا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے لحدوالی (بغلی) قبر بنائی جائے یا سیدھی؟ تب مدینہ منورہ میں دو گورکن تھے ایک بغلی قبر بنانے والے وہ ابوطلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے، اور دوسرے سیدھی قبر بنانے والے جن کانام ابو عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھا۔ تو یہ طے پایا کہ ان دونوں میں جو پہلے آئے اس سے قبر مبارک تیار کروائی جائے تو بغلی قبر بنانے والے (ابوطلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ) پہلے تشریف لے آئے تو انہیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی لحد مبارک بنانے کی سعادت ملی (۳۵) اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر مبارک سیدہ عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اﷲ عنہا کے حجرہ مبارک میں بنائی گئی۔ اور وہیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی معیت میں حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمربن الخطاب رضی اﷲ عنہما بھی مد فون ہیں۔
واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعظم
تم الکتاب بعون الملک الوھاب
حواشی
(۱)سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 339(۲) المنتخب من مسند عبدبن حمید،حدیث نمبر 405(۳) صحیح مسلم، حدیث نمبر 2277، سنن ترمذی ، حدیث نمبر 3624(۴) صحیح بخاری، حدیث نمبر 918، سنن ترمذی،حدیث نمبر 505سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر 1414(۵) صحیح بخاری،حدیث نمبر 3579، سنن ترمذی،حدیث نمبر 3633(۶) سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4510(۷)صحیح مسلم، حدیث نمبر 1779،2873(۸) اُسد الغابہ، ابن الا ثیر: 435-36/5(۹) صحیح بخاری،حدیث نمبر 2789، صحیح مسلم، حدیث نمبر 1912، سنن ترمذی،حدیث نمبر 1645، سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 2490، سنن نسائی،حدیث نمبر 3169،مؤطا الام مالک (کتاب الجہاد، باب الترغیب فی الجہاد) ،ص296،295(۱۰) صحیح بخاری، حدیث نمبر 3674،صحیح مسلم ، حدیث نمبر 2403، سنن ترمذی،حدیث نمبر 3710(۱۱) صحیح بخاری، حدیث نمبر 2377،صحیح مسلم، حدیث نمبر 1061(۱۲) صحیح بخاری،حدیث نمبر 2789، صحیح مسلم، حدیث نمبر 1912، سنن ترمذی، حدیث نمبر 1645، سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 2490، سنن نسائی، حدیث نمبر 3169،مؤطا الامام مالک (کتاب الجہاد، باب الترغیب فی الجہاد) ص، 296،295(۱۳) اُسد الغابہ، ابن الاثیر: 263-65/1(۱۴)الا حادو المثانی، حدیث نمبر 3399(۱۵) صحیح بخاری، حدیث نمبر 3617، صحیح مسلم، حدیث نمبر 2781(۱۶) صحیح مسلم، حدیث نمبر 2021، سنن دارمی، حدیث نمبر 2032(۱۷) اُسد الغابہ، ابن الاثیر: 6-7/4(۱۸) صحیح بخاری،حدیث نمبر 2478، صحیح مسلم،حدیث نمبر 1781 سنن ترمذی،حدیث نمبر 3138(۱۹) اُسد الغابہ، ابن الاثیر:400/2(۲۰) صاع :3.5کلوتقریباً (۲۱) صحیح بخاری،حدیث نمبر 4102(۲۲) سنن ترمذی، حدیث نمبر 3839(۲۳) صحیح بخاری، حدیث نمبر 4152(۲۴) صحیح بخاری، حدیث نمبر 200، صحیح مسلم، حدیث نمبر 2279(۲۵) اُسد الغابہ، ابن الاثیر:268/3(۲۶) صحیح بخاری، حدیث نمبر 4101(۲۷)صحیح بخاری ،حدیث نمبر 4039(۲۸) صحیح بخاری، حدیث نمبر 4449، سنن ترمذی، حدیث نمبر 978، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1623(۲۹) صحیح بخاری،حدیث نمبر 4462، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1629(۳۰)صحیح بخاری، حدیث نمبر 5814، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1469(۳۱) اُسد الغابہ،ابن الاثیر:460-61/3(۳۲) اُسد الغابہ، ابن الا ثیر 476-77/3(۳۳) اُسد الغابہ، ابن الاثیر:169/1(۳۴) صحیح بخاری، حدیث نمبر 1264،صحیح مسلم، حدیث نمبر 941(۳۵) سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1628