تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

نعت

حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ

ہزار صبِح بہار از نگاہ می چکدش
جنوں زِ سایۂ زلفِ سیاہ می چکدش

چمن چمن گل و نسریں زِ عکسِ رخ ریزد
سبد سبد گلِ خنداں ز راہ می چکدش

بہ پیشگاہِ جمالش جلال سر بہ سجود
چہ خندہ و چہ تبسّم کہ جاہ می چکدش

صد آفتاب بہ زیرِ گلیم می رخشد
زِ دلقِ فقر چہ گویم کہ ماہ می چکدش

چہ شور ہاست بجانم ز خندہ نمکیں
چہ فتنہ ہا کہ ز چشمِ سیاہ می چکدش

ہزار حشر بدامن، ہزار فتنہ بجیب
ہزار فتنہ ز چشمِ سیاہ می چکدش

چہ گفتگو چہ تبسُّم شہادتے بحدوث
زِ نورِ چہرہ قِدم را گواہ می چکدش

قِدم بہ جلوہ بین و حدوث را بہ جبیں
چہ جلوہ و چہ جبیں، لا الٰہ می چکدش

نگہ کنید بہ بختِ بلندِ بیوہ زنے
کہ از کنارِ غریبش چہ ماہ می چکدش

حذر ز خاک نشینے، شکستہ دل ریش
کہ صد ہزار جہنّم ز آہ می چکدش

زِ مہر و ماہ سلام وز برگ برگ دُرود
چہ خاکِ طیبہ کہ شام و پگاہ می چکدش

بہ تو ندیمِ سیہ رو چہ ماجرا گوید
جز ایں کہ از سرِ ہر مو، گناہ می چکدش
ترجمہ
(یہ ترجمہ نظمِ معرّیٰ کی ہیئت میں ابن امیر شریعت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اﷲ نے فرمایا)
تری نگاہ سے پیدا ہزار صبحِ بہار
سیاہ زلفوں کے سائے میں عشق پیدا ہو
چمن چمن میں گلابوں میں آپ کا جلوہ
زمانہ بھر کی مہک ہے بس ایک نقشِ قدم
جمال آپ کا جلالِ سرمدی سے سوا
تبسّموں کی یہ فجریں ہیں مرتبوں کا عروج
تمھاری کملی میں سیکڑوں خورشید
ضیا ؤ نور میں ماہتاب سے کم
یہ جاں فزا سا تبسّم ہے رونقِ کونین
سیاہ آنکھ کا جلوہ ہے آزمائش بھی
ہزار حشر ہوں برپا، ہوا جو دامن دے
ہزاروں فتنے، اٹھے جو نگاہ مولیٰ کی

گفتگو میں تبسّم میں خُلق حادث ہے
مگر یہ چہرۂ انور قِدم شناسا ہے
قِدم علومِ نبوّت، حدوث عرقِ جبیں
کہ لا الٰہ عوم و جبیں سے ٹپکے ہے
اس ایک بیوہ کا بخت بلند کیا کہنے
کہ جس کی کوکھ سے ماہِ منیر پیدا ہو
نبی کے دل کو نہ زخموں سے چور چور کرو
کہ ان کی آہ سے پیدا جہنّموں کا وجود
چاند ستارے پتہ پتہ کہیں صلاۃ و سلام
مدینے کی وہ مٹی چمکے یارو صبح و شام
ترا ندیمِ خطا کار عرض کرتا ہے
گناہ میں لتھڑا ہوا ہے بال بال مرا
شانِ ورود
’’(محرّم 1365ھ/دسمبر 1945 ہی کا واقعہ ہے) الیکشن کے دنوں میں (یعنی انتخابات منعقد ہونے سے چند روز پہلے) سردار محمد شفیع کے حلقۂ انتخاب میں دورہ تھا، اور یہ دورہ پنجاب میں آخری تھا۔ لاری میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے میں نے دیکھا کہ سڑک کے دونوں کناروں میں سرسوں کے کھلے ہوئے پھولوں سے تختۂ زمین بسنتی بنا ہوا نگاہوں کے لیے ایک محشرِ بہار دکھائی دیتا تھا۔اتنے میں سڑک کے گہرے گڑھوں کے وجہ سے گردو غبار بہت اڑنے لگا تو میں نے چہرے پر رومال لپیٹ لیا۔ طبیعت اس نظّارے سے بہت متأثّر ہوئی، خیال مدینہ طیّبہ کی طرف منتقل ہو گیا اور منظرِ بہار سے حضور نبی کریم صلّٰی اﷲ علیہ وسلّم کے چہرۂ اطہر کا تصوّر پیدا ہو گیا۔ اسی کیفیت میں یہ ’’بہاریہ نعت‘‘ لکھنی شروع کی، اور پھر اسی سفر میں لاریوں پر ہی یہ نعت مکمّل ہوئی۔ یہ ہے نعت کا شانِ ورود

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.