محمد عبدالحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
ثنائے پاک نبی کا لکھنا ہے ایک کارِ نگینہ کاری
نہیں ہے لکھنے کا مجھ کو یارا، پَہ لکھ رہا ہوں ز لطفِ باری
عجب نہیں ہے کہ روز محشر یہ کارِ خوبِ ثنا نگاری
ہماری فردِ عمل سے دھو دے گناہ سارے خطائیں ساری
بلند سیرت ہے، شکل پیاری کہ جو بھی دیکھے وہ جائے واری
دراز گیسو کے زیر سایہ سکوں بہ دل ہے خدائی ساری
شجر شجر پہ بہار آئی نکھار دی اس نے کیاری کیاری
کہ باغِ اسلام کی شہِ دیں نے کی ہے خوں سے بھی آبیاری
نبیِّ آخر زماں محمد، نبی وہی اب ہے تا قیامت
ہے تاج وتختِ نبوّت اس کا، اسی کی قائم اجارہ داری
شغف ہے دینِ خدا سے اس کو ، بہ کارِ تبلیغِ دیں ہے ہر دم
مشقتیں ہیں عبادتیں ہیں ، نہ جسم پیارا نہ جان پیاری
میانِ شب میں زِ خواب راحت وہ جاگ اٹھے بفکرِ امت
حضورِ رب میں خلوص دل سے دعائیں لب پر بہ آہ و زاری
وہ زور آور ، بڑا دلاور ، وہ شیر افگن، شجیعِ دوراں
وہ تیغ زن ہے جہادِ حق میں، ہے قابلِ دید شہ سواری
وہ جبرئیل امیں کا آنا، وہ عرشِ اعظم پہ ان کا جانا
یہ خاص اکرام ہے انھی کا ، انھی کا حصہ یہ کام گاری
ہے قول انھی کا کہ میری دختر سے ہو جو سرزد گناہِ سرقہ
زِ روئے انصاف قطعِ ید کی ضرور اس پر بھی حد ہو جاری
اسی کا صدقہ یہ چار چیزیں، جو چار یاروں کو اس نے بخشیں
کسی کو تقویٰ ، حیا کسی کو، کسی کو سطوت، کسی کو یاری
نہ جانے قسمت میں کیا ہے لیکن نظرؔ ہماری یہ آرزو ہے
نکل رہی ہو جو روح تن سے ہو پہلا کلمہ زباں پہ جاری