محمد سلمان قریشی
آخری ہیں نبیؐ خاتمُ المرسلیں اُن پہ اُترا کلام آخری آخری
وہ ہیں خیر الوریٰؐ وہ ہیں بدر الدُجیٰؐ اُن کا جو ہے پیام آخری آخری
شرک و بدعت نے ڈیرے لگائے ہوئے، تھے اندھیرے جہالت کے چھائے ہوئے
ساری اُمت کو بس آپؐ ہی نے دیا رب کی وحدت کا جام آخری آخری
سب رسُومِ کُہن آپؐ نے توڑ دیں اور نکالا غلامی سے انسان کو
دے کے ہم کو مساوات کا اِک سبق دے گئے ہیں نظام آخری آخری
لوٹے معراج سے جب میرے مصطفیؐ اور اقصیٰ میں تھے منتظر انبیاء
بن گئے مقتدی سب کے سب انبیاء جب ہوئے آپؐ امام آخری آخری
آخری خطبے میں خود نبیؐ نے کہا تم پہ تکمیلِ دینِ مُبیں ہو چکی
کام رب نے جو سونپا تھا لوگو! مجھے کر چلا وہ میں کام آخری آخری
خود کریں تزکیہ اُنؓ کا میرے نبیؐ دولتِ علم و حکمت اُنہیؐ سے ملی
ہے رضا جن کو حاصل خُدا کی میرے وہ صحابہ کرامؓ آخری آخری
مال صدیقؓ نے گھر کا سارا دیا اِس عمل سے ہوا اُن سے راضی خُدا
اس کے بدلے میں رَبُّ العلیٰ عرش سے بھیجیں اپنا سلام آخری آخری
پہلے صدیقؓ کو ہے ِخلافت ملی پھر عمرؓ اور غنیؓ اور حضرت علیؓ
ابوسفیاںؓ کے بیٹے کو خود ہی حسنؓ دے گئے ہیں زمام آخری آخری
روح بے چین تھی، دل تڑپنے لگا سبز گُنبد کو سلمانؔ تکنے لگا
وقتِ رُخصت لگی آنسوؤں کی جھڑی جب تھی طیبہ میں شام آخری آخری