مولانا زاہد الراشدی
مسلمانوں کی نئی نسل کو اسلامی عقائد و احکام کی تعلیم سے آراستہ کرنا کسی بھی مسلم ملک کی حکومت و ریاست کی ذمہ داری ہے اور نوآبادیاتی غلامی سے قبل ہزار بارہ سو سال تک مسلمان حکومتیں اس فریضہ سے عہدہ برآ ہوتی چلی آرہی ہیں، البتہ بہت سے مسلم ممالک پر استعمار کے تسلط اور نوآبادیاتی ماحول قائم ہونے کے بعد قابض غیر مسلم حکومتوں نے اسے اپنی ریاستی و حکومتی پالیسی سے خارج کر دیا۔ جبکہ برصغیر پاک و ہند میں تو برطانوی حکومت نے جو نئی تعلیمی پالیسی دی اس پالیسی کے مرتب لارڈ میکالے نے صاف طور پر کہہ دیا کہ ہم ایک ایسا نظام تعلیم دے رہے ہیں جس سے تعلیم و تربیت پانے والا مسلمان اپنے دین پر قائم نہیں رہ سکے گا۔ چنانچہ اسی لیے مستقبل کے خدشات پر نظر رکھنے والے علماء کرام اور اہل دانش نے دینی تعلیم کا الگ سے پرائیویٹ نظام قائم کر کے مسجد و محلہ کی سطح پر قرآن کریم اور دینیات کی تعلیم کا ماحول بنایا اور دینی مدارس کا ایک وسیع جال پورے جنوبی ایشیا میں پھیل گیا، جو آج بھی پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ مسلمان بچوں کو دینی تعلیمات سے بہرہ ور کرنے اور ان کے عقیدہ و ثقافت کی حفاظت میں مصروف ہے۔
برطانوی استعمار سے ہندوستان کی آزادی کے بعد اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ و فروغ کے نام پر ایک الگ مسلم ریاست ’’پاکستان‘‘ قائم ہو جانے پر اس ملک کے حکمرانوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ نوآبادیاتی ماحول کو ختم کر کے ملک کے تعلیمی نظام کو ازسرِنو اسلام اور پاکستان کے تقاضوں کے مطابق استوار کریں، اور دستور پاکستان کی صراحت کے مطابق پاکستان کے بچوں اور بچیوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات سے آراستہ کرنے کا اہتمام کریں۔ مگر ستر سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا، حتیٰ کہ وفاقی محتسب اعلیٰ کی ہدایات کے باوجود ملک کا محکمہ تعلیم قرآن کریم کی ناظرہ تعلیم کو اپنے نظام و نصاب کا حصہ بنانے کے لیے ابھی تک تیار نہیں ہوا۔
اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ سکول، کالج اور یونیورسٹی میں کسی سطح پر بھی قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات و احکام کی تعلیم و تدریس کا کوئی باضابطہ نظم موجود نہیں ہے اور دینی تعلیم کی تمام تر ذمہ داری دینی مدارس کے سپرد رہی ہے جنہوں نے مسلسل کردارکشی اور دباؤ کے باوجود بحمد اﷲ تعالیٰ عوام الناس کے تعاون سے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ جبکہ موجودہ حکومت کی طرف سے دینی اور عصری تعلیم کے دونوں نصابوں کو یکجا کرنے کے بار بار اعلانات کے بعد وفاقی وزیر تعلیم کے حوالہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پرائیویٹ سکولوں کا وسیع تر سسٹم جو او لیول، آکسفورڈ اور کیمبرج جیسے مغربی ٹائٹلز کے ساتھ اپنا دائرہ دن بدن مزید وسیع کرتا جا رہا ہے وہ دونوں تعلیمی نصابوں کی یکجائی کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔ یعنی وہ اپنے نصاب کے ساتھ قرآن و سنت اور دینیات کی تعلیم کو اپنے تعلیمی نظام میں شامل کرنے سے گریزاں ہے جس سے دونوں نصابوں کو جمع کر کے مشترکہ نصاب تعلیم رائج کرنے کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ حالانکہ دینی مدارس نے اپنے نظام میں میٹرک تک نصاب کو شامل کر لیا ہے اور اپنے تشخص و امتیاز کو باقی رکھتے ہوئے اگلے مراحل سے بھی انہیں انکار نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ ریاستی نظام تعلیم میں دینی تعلیمات کا جو بہت تھوڑا حصہ شامل ہے اسے نہ صرف یہ کہ مسلسل کم کیا جا رہا ہے بلکہ اس میں ایسی تبدیلیاں بھی سامنے آرہی ہیں جو بنیادی اسلامی عقائد کے منافی اور مسلمانوں کے اجماعی عقائد و روایات سے متصادم ہیں۔ مثال کے طور پر بعض حلقوں کی طرف سے یہ شکایت کی گئی ہے کہ مطالعہ پاکستان کے جماعت نہم کے نصاب میں عقیدۂ ختم نبوت کو تبدیل کر دیا گیا ہے جس کی تفصیل یہ بیان کی گئی ہے کہ2017ء کی نصابی کتب میں ’’عقائد و عبادات‘‘ کے باب میں رسالتؐ کے بارے میں عقیدہ یوں درج ہے کہ:
’’عقیدہ رسالت کا مطلب تمام رسولوں پر ایمان لانا ہے، دائرۂ اسلام میں آنے کے لیے لازم ہے کہ عقیدہ رسالت کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے اور کسی اعتبار سے اس میں شک و شبہ نہ کیا جائے، حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ کا آخری رسول ماننا عقیدۂ رسالت کا لازمی جزو ہے۔‘‘
یہ عبارت پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور کی شائع کردہ نصابی کتاب میں موجود ہے مگر سالِ رواں میں جی ایف ایچ پبلشرز اردو بازار لاہور کی طرف سے جماعت نہم کے لیے مطالعہ پاکستان و اسلامیات کے لیے شائع کی جانے والی کتاب میں یہ عبارت اس طرح درج ہے کہ:
’’عقیدۂ رسالت کا مطلب رسولوں پر ایمان لانا ہے۔ دائرۂ اسلام میں آنے کے لیے لازم ہے کہ رسالت کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے اور کسی بھی اعتبار سے اس میں شک و شبہ نہ کیا جائے۔ قرآن اور اسوۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو سرچشمہ ہدایت ماننا عقیدۂ رسالت کا لازمی تقاضہ ہے۔‘‘
جبکہ اس کتاب کے ٹائٹل پر یہ عبارت درج ہے کہ:
’’مقابلے میں اول قرار پانے والی یہ کتاب حکومت پنجاب کی طرف سے تعلیمی سال 2019ء۔2020ء کے لیے پنجاب کے سرکاری سکولوں میں تقسیم کی گئی جیکٹ میں شامل ہے۔‘‘
اس طرح حکومت پنجاب کی منظوری سے نہم جماعت کے لیے تقسیم کی جانے والی اس نصابی کتاب سے ختم نبوت کا عقیدہ خارج کر دیا گیا ہے، جس پر صوبہ کے دینی حلقوں کی طرف سے شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان نے پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں میں اضافہ کے حوالہ سے زیر بحث ایک کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے ملک کے تعلیمی نظام کی طرف قومی اداروں کی عدم توجہی کا ذکر کیا تھا، ہم ان سے عرض کرنا چاہیں گے کہ یہ مسئلہ عدم توجہ سے کہیں زیادہ ریاستی نصاب تعلیم میں دینی مواد کو کم کرتے چلے جانے اور اسلام کے بنیادی عقائد سے نئی نسل کو بے خبر رکھنے کا ہے جو کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ کیا عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس محترم اس طرف بھی توجہ دے سکیں گے؟