شیخ الطاف الرحمن بٹالوی
انگریزی ماہ کے ہر پہلے اتوار کو، ایوان احرار لاہور میں پیرجی کا اصلاحی بیان ہوتا تھا۔ مجلس ذکر بھی ہوتی میں اُنہیں سُننے کے لیے باقاعدہ گوجرانولہ سے جایا کرتا۔ اگست 2009ء کی بات ہے، میں نے پیرجی سے گزارش کی کہ گوجرانوالہ کے لیے بھی وقت نکالیں۔ مہربانی ہوگی، اتوار کو آپ لاہور تشریف لاتے ہیں تو سوموار کا دن، گوجرانوالہ کے لیے رکھ لیں۔ ستمبر، اکتوبر کے مہینے بھی گزر گئے۔ نومبر کا بیان سُن کر آیا تو خیال آیا شاید میں اپنی بات صحیح طور پر بیان نہیں کرسکا۔ لہٰذا پیرجی کی خدمت میں خط لکھا کہ جمعہ کے دن بزرگ حضرات ہی مساجد کو رونق بخشتے ہیں اور نوجوان طبقہ اکثر دوسری اذان کے وقت مسجد میں آتا ہے۔ اگر آپ ہر ماہ گوجرانوالہ میں بھی پروگرام رکھیں تو آپ کی نوازش ہوگی، بہت فائدہ ہوگا۔ تا آنکہ ہمارے استاد جی سید ذوالکفل بخاری 15نومبر، 2009ء کو مکہ مکرمہ میں ایک ٹریفک حادثہ میں اﷲ کو پیارے ہوگئے خاندان کے غم میں شریک ہونے کے لیے دوسرے دن میں ملتان روانہ ہوگیا۔ تعزیت سے فارغ ہوئے تو پیرجی نے اپنا بیگ منگوایا اور میرا خط نکال کر دکھایا اور فرمایا: دسمبر کے پہلے سوموار کو درس قرآن کا پروگرام رکھ لو۔ ان شاء اﷲ ہر ماہ کے پہلے سوموار کو نماز مغرب کے فوراً بعد درس قرآن ہوا کرے گا۔ میں مطمئن ہوگیا۔ مگر اچانک ایک سوچ کی لہر دماغ میں آئی مجھے چُپ لگ گئی۔ فرمانے لگے ’’خاموش کیوں ہوگئے ہو؟ ‘‘میں نے درخواست کی کہ خاص مجمع نہیں ہوگا۔ فرمایا’’ دس پندرہ آدمی جمع کر لوگے؟‘‘ میں نے کہا ’چالیس پچاس لوگ ہوجائیں گے فرمانے لگے۔ ’’گھبراؤ مت ہم نے تو دین کی بات پہنچانی ہے چاہے ایک آدمی ہو۔‘‘
پہلے سوموار مورخہ 7دسمبر 2009ء کو پیرجی وعدے کے مطابق گوجرانوالہ تشریف لائے اور درس قرآن کا پہلا پروگرام ، نماز مغرب تا عشاء جامع مسجد رشیدیہ میں انعقاد پذیر ہوا اور میں یہ بات لکھتے ہوئے بہت خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ 4جنوری 2010ء کو پیر جی نے ہمارے غریب خانے کو رونق بخشی، بیٹھک میں درس قرآن کی بابرکت تقریب منعقد ہوئی۔ 8فروری اور 8مارچ 2010ء جامع مسجد مکی جناح روڈ میں درس قرآن ہوا۔ 5اپریل کے درس قران کا انتظام ، جامع مسجد القمر، کالج روڈ میں ہوا۔ درس سے فراغت کے بعد ہمارے بزرگ دوست صوفی محمد عالم، پیرجی کو اپنی رہائش گاہ پر لے گئے اورکھانے کے دوران، دونوں بزرگوں کے درمیان، کافی دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ کھانا ختم ہوا تو پیرجی فرمانے لگے: بھائی الطاف الرحمن! یہیں ڈیرے لگا لو۔ درس قرآن، مستقل مسجد القمر میں ہوا کرے گا۔ دراصل صوفی محمد عالم کے بزرگ لدھیانہ میں مجلس احرار کے سرگرم کارکن تھے۔ پھر یہ درس قرآن پیرجی کی بیماری تک، سا لہا سال باقاعدگی سے جامع مسجد القمر میں ہوتا رہا۔ اور اہالیان گوجرانوالہ پیرجی کے بیان سے مسلسل مستفید ہوتے رہے۔
ہرمہینے کے پہلے سوموار کو میں بہت خوش ہوتا۔ صبح سے ہی میں اپنے پیرجی کے استقبال کی تیاری شروع کردیتا۔ دوست احباب کو اطلاع کرتا۔ اور حضرت پیرجی کو خوش آمدید کہنے کے لیے وقت سے پہلے۔چن دا قلعہ (شہر سے باہر) پہنچ جاتا، انتظار کرتا اور اس انتظار میں مجھے ایک لطف آتا جیسے ایک چاہنے والے کو اپنے محبوب کی آمد کا انتظار ہوتا ہے جیسے بلبل پھول کا انتظار کرتا ہے۔ ہرسواری کی طرف میں لپک کر جاتا۔ پھر وہ خوبصورت چہرہ نظر نہ آنے پر دل کو سمجھاتا :
ابھی نہیں، ابھی نہیں اے دل! دروازہ فقط تیز ہواؤں سے کھُلا ہے
اب پیرجی کے جانے کے بعد صرف یہی یادیں میرا سرمایہ حیات ہیں۔ پھر ایک دن پیرجی نے مجھے حکم دیا کہ اتنی دور مت آیا کرو! میں نے جنرل بس سٹینڈ پر انتظار کرنا شروع کردیا۔ گوجرانوالہ میں پیرجی کے درس کا فیض اتنا عام ہوا کہ مجلس احرار اسلام کاباقاعدہ یونٹ قائم ہوگیا او رختم نبوت کانفرنس چناب نگر میں شہر کی جماعت مجلس احرار اسلام کے ،پیرجی کے چاہنے والے کوئی سو کے لگ بھگ افراد، ہر سال شریک ہونے لگے۔
گوجرانوالہ میں پیرجی کے درس قرآن کی آخری محفل اپریل 2013ء میں منعقد ہوئی تاہم پیرجی نے اپنی بیماری کے دوران بھی درس قرآن کو ختم نہیں ہونے دیا ہمیشہ رابطہ رکھا۔ اور مرکز سے کسی نہ کسی ساتھی کو ضرور بھیجتے رہے۔ 9فروری 2021ء کے پروگرام کے بارے میں بھی محترم ڈاکٹر محمد آصف نے اطلاع دی تھی کہ اب کی بار، جماعت کے نائب مرکزی امیر جناب سید محمد کفیل شاہ بخاری تشریف لائیں گے۔ ہم انتظار میں تھے، کہ 6فروری 2021ء کو پیرجی کے سانحۂ ارتحال کی خبر آگئی زندگی اندھیر ہوگئی۔ ہم لوگ پیرجی کی محبت سے محروم ہوگئے ہیں ہمارا بہت بڑا نقصان ہوگیا ہے۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا، دل ودماغ پر ایک بوجھ ہے ۔پیرجی چلے گئے، ہماری حیات ویران ہوگئی ،ہم دُکّھی ہیں، مگر اپنے کریم مالک کے سامنے دست بدعاء ہیں کہ وہ ہمارے محبوب قائد حضرت پیر جی کو اپنے شایانِ شان اکرام کی منازل میں رکھے اور ان کے بعد ہمیں ان کے فیوض و برکات سے محروم نہ فرمائے۔ آمین۔