ساغرؔ صدیقی مرحوم
میرے وطن کے راہنماؤ اِک ایسا آئین بناؤ!
جس میں ہو صِدّیق کی عظمت جس میں ہو فاروق کی جرأت
جس میں ہو عثمان کی غیرت جس میں ہو حیدر کی شجاعت
ملّت کے جذبات جگاؤ اک ایسا آئین بناؤ!
طارق کی تدبیر ہو جس میں خالد کی تقدیر ہو جس میں
امّت کی زنجیر ہو جس میں قرآن کی تاثیر ہو جس میں
مٹ جائیں ظلمات کے گھاؤ اک ایسا آئین بناؤ!
عقل و خرد کی آنکھ کا تارا طوفاں میں مضبوط کناہ
مفلس اور نادار کا پیارا جہد و عمل کا بہتا دھارا
فکر و نظر کی شمع جلاؤ اک ایسا آئین بناؤ!
سر توڑے جو مغروروں کا ساتھی ہو جو مہجوروں کا
دارِ ستم کے منصوروں کا محکوموں کا مجبوروں کا
چل نہ سکے زردار کا داؤ اِک ایسا آئین بناؤ!
فیضِ سخاوت عام ہو جس کا خدمتِ انساں کام ہو جس کا
شانِ سَلَف پیغام ہو جس کا نام فقط اسلام ہو جس کا
خونِ جگر سے پھول کھلاؤ اِک ایسا آئین بناؤ!