مفکرِ احرار چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ
’’میرا اَفسانہ‘‘ مفکر احرار چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ کی خود نوشت ہے۔ ذخیرۂ ادب میں خود نوشت یا آپ بیتی ایک مستقل موضوع ہے۔ بڑے لوگوں کی آپ بیتیاں آئندہ نسلوں کی تعلیم وتربیت کا ذریعہ ہوتی ہیں۔
’’میرا اَفسانہ‘‘ خود نوشت اور آپ بیتی کے مروجہ اسلوب سے قطعی مختلف ہے۔ چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی ابتدائی زندگی کے حالات، تعلیم، ملازمت اور قومی واجتماعی معاملات میں شرکت وجدوجہد کو بڑے لطیف پیرائے میں قلم بند کیا ہے۔ مجلس احرار اسلام کی تاریخی جدوجہد، تحریک آزادی اور ہندوستان کی سیاسی تاریخ کو جس اختصار اور دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے اپنی مثال آپ ہے۔
’’میرا اَفسانہ‘‘ ایک شخص کی آپ بیتی بھی ہے اور ایک قوم وملک کی تاریخ بھی۔
مجلس احرار اسلام کے کارکنان خصوصاً اور دیگر سیاسی وقومی کارکنان اس کتاب سے بہترین فکری رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی خیال اور جذبے کے تحت اسے ماہنامہ ’’نقیب ختم نبوت‘‘ میں قسط وار شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)
بابِ اوّل: یادِ ایاّم :
بچپن کی بھولی ہوئی کہانیوں کو یادکرنے کوئی بیٹھے تو شاید ہی کسی کو دایہ کے دوش اور ماں کی آغوش کا کوئی واقعہ یاد ہو۔ میرے بچپن کی کہانی استاد کی مار پیٹ سے شروع ہوتی ہے۔ زندگی کا پہلا واقعہ یوں یاد ہے کہ تعلیم کے ابتدائی درجہ میں داخلے کا پہلا دن تھا۔ پیشاب جو لگا، میں جماعت سے باہر چلا گیا۔ فارغ ہو کر واپس آیا تو خلیفہ جی سے آزار بند باندھنے کی فرمائش کی، مجھے معلوم نہ تھا کہ خلیفہ کو بچوں کے آزار بند باندھنے سے چڑ ہے۔ پہلے ہی دن مجھ پر پیغمبری وقت آن پڑا۔ خلیفہ جی کا غصہ ان کی عقل اور فرض سے زیادہ تھا۔ آزار بند باندھنے کے بجائے مجھے پنکھے کے رسے سے باندھ کر مارنا شروع کیا۔ اس بدسلوکی کا سزاور میں ہی نہ تھا بلکہ خلیفہ کئی ایک کا پیشاب پہلے بھی خطا کر چکے تھے۔ غرض پہلا سبق جو استاد نے پڑھایا اور جسے میں عمر بھر نہ بھولا وہ یہ تھا ’’مدرسہ میں پیشاب نہ کرو‘‘۔
اس پہلے دن کی بدشگونی کی نحوست سکول کے ابتدائی چند سال رہی۔ میں رمضانی مار کھانے کی نشانی ہو گیا۔ ایک تو ان دنوں میں یوں بھی مدرس باتوں کی نسبت لاتوں اور ہاتھوں سے زیادہ کام لیتے تھے۔ دوسرے ‘میں ہم جماعتوں میں جسمانی لحاظ سے کمزور تھا۔ کمزور پر رحم کا کہیں بھی قاعدہ نہیں۔ نتیجہ یہ تھا کہ عموماً استاد پیٹا کرتے تھے۔ کبھی کبھی لڑکے مارتے تھے اور گاہے ماہے گھر پر تواضع ہو جاتی تھی۔
اسی طرح پٹتے پٹاتے پانچویں جماعت میں پہنچے۔ یہاں کے ماسٹر صاحب کی ایک آنکھ تھی۔ مگر خلیفہ صاحب سے غصہ دوگنا تھا۔ وہ جماعت میں گھنٹی سے پانچ منٹ پہلے ہی آ بیٹھتے۔ میں اور چند لڑکے سکول سے گھر دور ہونے کے باعث ایک آدھ منٹ بعد پہنچے ماسٹر صاحب نے نہایت اطمینان سے فرمایا: ’’کان پکڑ لو‘‘۔ ہم معذرت کیا ہی چاہتے تھے کہ اس نے اچانک لڑکوں پر ڈنڈا برسانا شرگوع کیا۔ فوراً سب کان پکڑ کر کھڑے ہو گئے۔ البتہ ایک تربیت یافتہ لڑکا جھکا، ٹانگوں کے اندر سے ہاتھ ڈال کر کان پکڑ کر ایک ٹانگ پر ، کبھی دوسری ٹانگ پر بوجھ دیتا ہوا جھولنے لگا۔ ہم اس دلچسپ نظارے کو زیادہ دیر تک دیکھنے نہ پائے تھے کہ ماسٹر کا غصہ طوفان بن گیا اور وہ بری طرح ہم پر برسا۔ اس نے ایک سانس میں سو گالیاں دیں، دست ستم پیشہ کو ہم پر ہزار بار آزمایا۔ ہم رونا چاہتے ہیں تو مہلت نہیں دیتا۔ اب اس کی منشا کے مطابق کان پکڑ کر خوش کرنا چاہتے، وہ مطمئن نہیں ہوتا۔ پیٹتا چلا جاتا ہے۔ کوئی عذر اور کوئی عرض نہیں سنتا۔ جب وہ زور آزمائی کرتے کرتے تھک گیا تو ہمیں اتنی مہلت نصیب ہوئی کہ ٹانگوں کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر، کان پکڑ کر آسمان اور زمین متوازی ہو گئے۔ اسی پر بس نہیں کی بلکہ اس نے تھوڑی دیر کے بعد اسی حال میں کتابیں کھول کر پڑھنے کا حکم دیا۔ قیاس کرو کہ کان یوں پکڑے ہوئے کوئی سبق کیا پڑھے گا، ہم تھک چکے تھے۔ اتنا آرام غنیمت ہو گیا کہ ہم نے کتابیں بستے سے آہستہ آہستہ نکالیں۔ سامنے کھول کر رکھ لیں اور بروں کی جان کو رو کر پھر کانوں کو اسی طرح پکڑ لیا۔ سر نیچا ہونے کے باعث آنکھیں سرخ ہو گئیں، ایک ایک کے دس دس حرف نظر آنے لگے، ٹانگیں جسم کا بوجھ برداشت نہ کریں، آنکھوں سے کچھ نظر نہ آئے۔ ایسے معلموں سے کوئی پوچھے یہ کیاتعلیم کا طریقہ ہے۔
پندرہ منٹ کی اس انوکھی ورزش سے جنوری جون میں تبدیل ہو گئی۔ سردیوں میں پسینہ آ گیا، دنیا آنکھوں تلے اندھیر دکھائی دی۔ دوسروں پر رحم یا اپنی عاقبت کا خوف اسے ہماری حالت بدلنے کے حکم کی تحریک نہ کرتا تھا۔ جب جان سے تنگ آ گئے تو کھڑے ہو کر ہاتھ جوڑ دیے۔ ماسٹر خوب جانتا تھا کہ اب ان میں سکت باقی نہیں رہی لیکن معلوم ہوتا تھا کہ اسے اذیت میں مزہ آتا ہے، چنانچہ اب حکم ہوا کہ ایک دوسرے کے کان پکڑ کر اٹھو بیٹھو ۔ ہمیں معلوم ہوا کہ دوزخ سے نکل کر اعراف میں آ گئے ہیں۔ ہر چند ہم تھک کر چور چور ہو گئے تھے مگر یہ سزا پہلی سے ہلکی تھی، جب اٹھنے بیٹھنے کی طاقت نہ رہی تو بنچ پر کھڑے رہنے کی ہدایت ہوئی۔ باقی وقت کھڑے کھڑے گزر گیا۔
ماسٹر صاحب نے تعلیم کا کام اتنا کیا کہ لڑکوں سے چند سوالات پوچھ کر ان کی لیاقت کے مطابق ان کی نشستیں معین کر دیں۔ باقی تمام وقت ہم ہی ان کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ دوسرے روز ہم سب ایک گھنٹہ پہلے ہی آ گئے۔ عرصہ محشر کی طرح دم بخود ہو کر اس فرشتہ جہنم کا انتظار کرنے لگے۔ وہ وقت پر آیا۔ لڑکوں کو یہ امر پورے طور پر ذہن نشین نہ کرایا گیا تھا کہ ہر روز اپنی نشستوں پر نہ بیٹھنا ماسٹر کی ناراضگی کا باعث ہو گا۔ کل کی ہدایت سے لا پروا ہو کر کوئی کہیں بیٹھا تھا، کوئی کہیں۔ مختار مطلق ماسٹر کی طبعِ نازک کو یہ امر بھی گراں گزرا۔ وہ آگ بھبھوکا ہو گیا۔ حکم سے لا پروا لڑکوں کو عدمِ تعمیل کے جرم میں پہلے دو زانوں ہونے کا حکم دیا۔ کیا جانے طبیعت میں پھر کیا لہر اٹھی کہ کان پکڑ لینے کا فرمان دیا۔ ذرا سی دیر میں اور دیر ہو جانے کے خوف سے لڑکوں نے بلا چون و چرا کان پکڑ لیے۔ نشستوں کی روز گزشتہ ترتیب میں ہم کسی شمار میں نہ تھے۔ ہمیں سب سے آخر بیٹھنے کا اشارہ ہوا۔ وہاں یارائے دم زدن کسے تھا؟ فوراً تعمیل کی گئی۔ خدا جانے اس کی طبیعت میں دیوانگی تھی۔ کل دیر سے آنے والوں کو کہا کہ کل کی طرح ہو جاؤ۔ لا حول ولا قوۃ۔ کل کی طرح ہو جانے کے سوا چارہ کار کیا تھا۔ آج پھر کل کی افسوسناک اذیت دہرائی گئی۔ مصیبت کی گھڑیوں کی طرح ماسٹر صاحب کے اوقات تعلیم بہت گراں بار آہستہ خرام ایک ایک منٹ قیامت ہو کر گزرتا تھا۔ فرزند آدم کی مشکلیں آخر آسان ہو گئیں۔ وہ وقت بھی گزرا تیسرا دن آیا۔ تو کل پرسوں والے دونوں گروہوں کو پہلے جرموں کے سلسلہ میں پھر کان پکڑنے کا حکم ہوا۔ آج ان مشقتیوں کی تعداد میں اور اضافہ بھی ہو گیا کیونکہ چند اورلڑکے ماسٹر کے غصہ کا شکار ہو کر ہماری قطار میں شمار ہونے لگے تھے۔ مجھ پر کیا موقوف تمام کی تمام جماعت نے کان پکڑتے اور توبہ توبہ کرتے سال گزارا۔ کسی معقول وجہ پر کبھی کبھار سزا قابلِ برداشت ہو سکتی ہے لیکن دماغی عوارض میں مبتلا ایسے شخص کو بچوں کا استاد مقرر کرنا ان کی صحت اور اخلاق کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔ ایسے ماحول میں کون بچہ قوی ارادہ اور عمدہ صحت لے کر نکلے گا حالانکہ تعلیم کے ساتھ انسانیت کی تکمیل کے لیے ان دو اجزاء کا ہونا نہایت ضروری ہے۔
چھٹی جماعت میں پہنچ کر قدرے اطمینان کا سانس نصیب ہوا۔ مار پیٹ کا قاعدہ تو یہاں بھی جاری تھا۔ لیکن ایک دن کے قصور پر مہینہ بھر سزا نہ ملتی تھی۔ یہ ۱۹۰۴ء کے واقعات ہیں۔ اسی سن میں صبح کے وقت کانگڑہ کا قیامت خیز زلزلہ آیا۔ جس نے پنجاب بھر کو خوابِ غفلت سے بیدار کر دیاکچھ عرصہ تو سب نے سمجھا کہ قیامت آ گئی۔ مائیں بچوں کو گھروں میں چھوڑ کر جان بچانے کھلی جگہ کی طرف بھاگیں تاکہ عمارتوں میں دب کر نہ رہ جائیں۔ نفسا نفسی کا وہ عالم تھا کہ بجز اپنی ذات کے کسی کو۔ کسی کا خیال نہ رہا۔ مجھے گھبراہٹ میں والدہ کی آواز سنائی دی کہ چوک میں چلے جاؤ۔ میں اور میرا بڑا بھائی فضل حق مرحوم دونوں سر پر پاؤں رکھ کر گلی کے چوک کی طرف بھاگے۔ ہمارے پہنچتے پہنچتے وہاں اچھا خاصا ہجوم ہو چکا تھا۔ سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ سب خدا کا رحم مانگتے تھے۔ ناگاہ محلہ کی مسجدکا ملا بھاگا بھاگا آیا۔ اس نے آتے ہی اذان کہنا شروع کر دی پھر کیا تھا خورد اور بزرگ کانوں میں انگلیاں دے کر اذانیں دیتے تھے اور خوف سے ادھر ادھر دوڑتے تھے، کسی کو زندگی کا یقین نہ تھا۔ ان میں ایک مادر زادہ برہنہ حسین عورت باحال پریشان کانوں میں انگلیاں دے کر ’’لوکو! اﷲ اکبر وے ، لوکو! اﷲ اکبر کہتی سراسیمہ ہو کر ادھر ادھر بھاگتی پھرتی تھی۔ برہنگی کی طرف میں تو اب اشارہ کر رہا ہوں۔ اس پریشانی میں کسی کو کچھ ہوش نہ تھا۔ ننگے اور لباس والے برابر تھے۔ چند منٹ کے بعد لوگوں نے محسوس کیا کہ جھٹکے بند ہو گئے تب جان میں جان اور دماغ میں عقل آئی۔ مردوں نے تعجب سے برہنہ بی بی کو دیکھا، عورت کو اچانک اپنی برہنگی کا احساس ہوا۔ وہ ہائے ہائے کہتی پس و پیش ہاتھ رکھ کر بھاگی۔ شریروں کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ لیکن خدا کا غضب قریب سمجھ کر نظریں جھکا لیں۔ ایک دو دن گزرے وہ نوجوان اور حسین عورت اہل محلّہ کا مذاق بن گئی۔ عورتیں اس کے پاس سے گزرتیں تو چڑانے کے لیے کان میں انگلیاں دے کر ’’ وے لوکو! اﷲ اکبر وے، وے لوکو! اﷲ اکبر‘‘ کہنا شروع کر دیتیں۔ اس واقعہ کے بعد قیامت اور اس کی تفصیلات پر مجھے کبھی شبہ نہیں ہوا۔ قیامت کے دن تمام نبیوں کا نفسی نفسی پکارنا اور پیغمبر آخر الزمان کا اُمّتی اُمّتی پکارنا آپ کی عظمت اور خدا کی مخلوق کے لیے بے پایاں محبت کا ثبوت ہے۔ جو اپنے نفس کو بھول کر اہل دنیا کی نجات متمنی ہے۔ وہی سب سے برگزیدہ ہے۔ جب میں اس زلزلے کا خیال کر کے قیامت کا قیاس کرتا ہوں تو بجز رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سب نبیوں کا نفسی نفسی پکارنا بعید از قیاس معلوم نہیں ہوتا۔ سیرت رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) کو دیکھ کر مجھے دنیا کی اور شخصیت ایسی نظر نہیں آتی جو بنی نوع انسان کی ہمدردی میں آپ کی ہمسری کا دعویٰ کر سکے۔ افسوس ہے کہ مسلمان نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوہ کو بھول گئے۔ اس کا نامۂ اعمال بنی نوع انسان کی خدمت سے خالی ہو رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ قوم کے نوجوانوں کے ذہن نشین کرایا جائے کہ اﷲ اور اس کے رسول کے نزدیک اچھا وہ ہے جس کے وجود سے مخلوق کو نفع پہنچے۔
کچھ عرصہ ہوا، ایک مقام پر قربِ قیامت کا ذکر جاری تھی کہ قیامت کے لوگ ننگے رہیں گے۔ نہ ان کو خود ننگے ہونے کا احساس ہو گا نہ لوگوں کو ہوش ہو گا۔ کانگڑہ کے زلزلے کی پرہیبت داستان سنائی اور اس برہنہ بی بی کا ذکر کیا۔ مولانا عبدالقادر قصوری نے فرمایا کہ ہمارے یہاں ایک دہقان مہمان ٹھیراتاکہ صبح شہر کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرے۔ ہمارے مکان کے سامنے برف کا بڑا کارخانہ تھا۔ صبح کے وقت انجن اس زور سے کوکتا تھا تھا کہ در و دیوار ہل جاتے تھے۔ دہقان نے انجن کی قیامت خیز آواز سنی اور در و دیوار تھرتھراتے دیکھے تو کلمہ شہادت پڑھتا ہوا ننگا ہی باہر نکل کر صحن میں بھاگا بھاگا پھرنے لگا اور مضطرب ہو کر مجھے آواز دی کہ مولوی صاحب قیامت آ گئی۔ قرنا پھونکی گئی، وہ قیامت قیامت پکار رہا ہے۔ لوگ اسے برہنہ دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ جمعہ کے دن بڑے انجن کی ایسی دل دہلا دینے والی آواز اس کے لیے صورِ اسرافیل سے کیا کم تھی۔ اسے اپنا ننگا ہونے کا بالکل خیال نہ تھا۔ وہ یونہی بے قرار ہو کر ادھر ادھر بھاگتا رہا۔ جب تک اس کو یقین نہ دلایا گیا کہ یہ کارخانہ ہے، یہاں ہرصبح یونہی آواز ہوتی ہے۔
یہ زمانہ دنیائے اسلام پر بدترین ابتلا کا عہد تھا۔ روس اور انگلستان کی پالیسی ایشیا کی آزاد مسلم سلطنتوں کا خاتمہ کرنے پر مصر تھی۔ روس کی نسبت انگلستان کے اقدامات اسلام کی ذلت کا باعث بن رہے تھے۔ انگلستان کے ارباب بست و کشاد ہندوستانی مسلمان کی حسیات سے بے پرواہ ہو کر نشۂ غرور میں وہ باتیں کہہ دیتے تھے جنھیں آج ہندوستان کا آزاد خیال مسلمان سننے کا متحمل نہیں۔ اس وقت ساری قوم انگریز کی عبودیت پر فخر کرتی تھی۔ مساجد میں خدا کی حمد کے ساتھ انگریز کی تعریف کی جاتی تھی۔ ایسے گندے رجحانات اب بھی نام نہاد خدا پرست مسلمانوں کے مذہبی اور روحانی رہنماؤں میں موجود ہیں۔ آزادی خواہ نوجوان ان علماء اور صوفیاء کی انگریز پرستی کو دیکھ کر خدا پرستی پر پھبتیاں اڑانے کا عادی ہو رہا ہے۔ قصر حکومت اسلامی کی اینٹ سے اینٹ بجتی دیکھ کر بچپن میں میرا غصہ جوان ہو گیا۔ اس وقت تک میں اپنی طبیعت کو انگریزی حکومت سے تعاون پر آمادہ نہیں کر سکا۔
یادِ شیریں:
شوخی اور شرارت میں بندر اور بچے برابر ہوتے ہیں۔ ہر سوراخ میں انگلی ڈالنا ان کی خوشی ہے۔ ہر ایک کے لتے لینا ان کی فطرت ہے۔ ہندوستانی مدرسوں کی بے جان اور اداس فضا میں مدرسین حوصلہ مندیوں کا سبق کیا دیں گے۔ بات بات پر کا اینٹھنا، بے عذ ر ڈنڈے برسانا، یہ اس زمانے کی استادی تھی۔ باوجود اس کے فطرت اپنے جوہر دکھا جاتی ہے۔ ہندوستانی مکاتب کے پٹے ہوئے بچے انسانی اولو العزمی کے وہ جوہر نہیں دکھا سکتے جو قومی عظمت کو چار چاند لگا کر اسے ہدایت بخشتے ہیں۔ ان کی ماؤں کو میدان مقابلہ سے کامیاب لوٹنے والے نوجوانوں کی ماؤں کی طرح خوشی کے آنسو بہانے کا موقع نہیں ملتا، کیونکہ ہندوستانی بچوں کے سارے ولولے کچل دیے جاتے ہیں اور وہ تنگ دلی کی پیداوار خود غرضی کی کاشت اور برداشت کے لیے رہ جاتے ہیں۔ باوجود فطرت کے تقاضوں کو کچلنے کے سارے سامانوں کے طبعی شوخی شرارت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ طالب علمی کی ساری تلخ اور خشک زندگی مسکراتا مرغزار آنکھوں کے سامنے آ جانے کے برابر ہے۔ جس سے سفر زندگی رنگین اور پربہار نظر آنے لگتا ہے۔ استاد ہزار کان اینٹھیں مگر یہ بھی ان کے کان کترتے ہیں، دھماکوں سے ڈرتے ہیں، مگر اوکھلی میں سر دینے سے باز نہیں رہتے۔ مبادا کوئی دیکھ پائے وہ اکثر کتابوں کو منہ کے سامنے رکھ کر ایک دوسرے کا منہ چڑاتے ہیں اگر ماسٹر کی توجہ ادھر ہو تو ادھر کتاب اپنے منہ سے ہٹا کر اس کا بھی منہ بناتے ہیں۔ ہر چند ہمارے سکولوں میں معلم تعلیم دیتے وقت دماغ کی بجائے ہاتھوں سے زیادہ کام لیتے تھے اسی لیے لڑکوں کے دل میں اس تشدد اور نفرت اور سختی سے بغاوت پیدا ہو گئی تھی۔ ساتویں جماعت کے اردو کے استاد بڑے جابر اور تیز طبیعت تھے، چھڑی اندھے کے لٹھ کی طرح گھما کر بلاوجہ مارتے تھے۔ ایک لڑکے نظیر حسین کو معمولی بات پر غیر معمولی پیٹا تو وہ پٹ کر شوخ ہو گیا اور ہر وقت شرارت کی سوچنے لگا۔
ایک دن اس نے لڑکوں کو اپنی راہ پر لگایا۔ درمیانی بنچ پر بیٹھے طالب علموں کو پٹی پڑھائی کہ اردو کی پہلی کتاب کی نظم ’’صبح کی سیر‘‘ کا پہلا مصرعہ استاد کے آتے ہی مل کر بلند آواز سے پڑھنا۔ جب مولانا درمیانی بنچ کے لڑکوں کی طرف متوجہ ہوں تو پہلی بنچ کے لڑکے دوسرا مصرعہ اسی طرح بلند آواز سے پڑھیں۔ دوسرے شعر کا پہلا مصرعہ چوتھی بنچ والے۔ اس طرح استاد صاحب شیش محل میں کتے کی طرح کبھی اِدھر کی کبھی اُدھر کی بنچوں کو پیٹنے کے لیے بھاگیں گے۔ یارو بڑا تماشا ہو گا۔ جابر استاد اگر دنیا کا تماشا بنے تو کس طالب علم کو خوشی نہیں ہوتی۔ سیر تماشے کے لیے کس نے مار نہیں کھائی مگر کھیل تماشے کا ذوق پھر بھی ختم نہیں ہوتا۔ سب کو معلوم تھا کہ اس تماشے کا نتیجہ مار پیٹ ہے مگر باوجود اس کے سب نے یہ تماشا کرنے پر رضا مندی کا اظہار کیا۔
مولانا محترم اک شاہی شان سے جماعت میں جلوہ افروز ہوئے۔ سب لڑکے تعظیم کے لیے سروقد کھرے گئے۔ مولانا نے کمال فخر و غرور سے نظر اٹھا کر سب کا جائزہ لیا۔ آنکھوں کے اشاروں سے سب کو بیٹھ جانے کو کہا۔ لڑکوں کے بیٹھتے ہی شریر نظیر نے اشارہ کیا۔ درمیانی بنچ کے طالب علموں نے اونچی سُروں میں الاپنا شروع کیا
سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
اجی …… عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی
مولانا حیران رہ گئے اور گردن اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ ابھی وہ وادیٔ حیرت میں سرگردان تھے اور درمیانی بنچ کے لڑکوں پر حملہ آور نہ ہونے پائے تھے کہ پہلی بنچ کے لڑکے مل کر گانے لگے
عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی
اہا جی …… عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی
مولانا کی آنکھوں سے غیض و غضب سے شراے نکلنے لگے۔ پہلی بنچ پر ہاتھ اٹھانے کی مہلت نہ پائے تھے کہ چوتھی بنچ سے آواز آئی
یہی جی میں آئی کہ گھر سے نکل
ہاں جی …… یہی جی میں آئی کہ گھر سے نکل
مولانا چوتھی بنچ کی سرزمین کے لیے بڑھے ہی تھے کہ پانچویں بنچ سے صدا بلند ہوئی
ٹہلتا ٹہلتا ذرا باغ چل
جی ہاں …… ٹہلتا ٹہلتا ذرا باغ چل
مولانا کمرے کے درمیان کھڑے حیران ہو رہے تھے کہ اچانک ان کی نظر نظیر پر پڑی۔ جو مولانا کی سراسیمگی پر بغلیں بجا رہا تھا، بس پھر کیا تھا مولانا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ سب کو چھوڑ کر نظیر کو پکڑ لیا۔ چھڑی ٹوٹ کر ٹکڑے اڑ گئے، مولانا گھونسوں اور مکوں سے کام لینے لگے۔ مولانا نے جسم تول کر ایک گھونسا جو مارا تو نظیر نے جسم چرایا، وار خطا جا کر مولانا کا گھونسا پورے زور سے دیوار پر لگا۔ شدتِ درد سے مولانا کے منہ ’’ہی اے‘‘کی آواز نکلی اور انھوں نے زخمی ہاتھ بغل میں دے لیا اور نیم جان سے ہو کر کرسی پر جا بیٹھے۔ ذرا جان میں جان آئی تو پھر اٹھے اور نظیر کو ساتھ لے کر ہیڈ ماسٹر کے ہاں گے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب یورپین تھے، وہ اردو نہ جانتے تھے۔ مولانا انگریزی زبان سے بے خبر تھے۔ نظیر ہی دونوں کے درمیان ذریعہ گفتگو تھا جو مولانا کہتے یہ الٹی سمجھاتا، نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا سرفگندہ اور نظیر فاتحانہ انداز میں کلاس میں داخل ہوا۔
اس واقعہ کے کئی دن بعد امرتسر میں چھاجوں مینہ برسا۔ ندی نالے ایک ہو گئے۔ امرتسر کی سڑکیں نشیب میں واقع ہونے کے باعث کیچڑ کا سیرا بن گئیں۔ ایسے میں ایک لڑکا سلیپر اور جرابیں پہن کر سکول آیا۔ کیچڑ اڑ اڑ کر سر کو پہنچا، سارے کپڑے لت پت تھے، جرابوں کا کیا حال ہو گا۔ اس نے کھول کر جرابیں اپنے سامنے میز پر رکھ لیں، ایک لڑکے کو جو نظیر کی طرح ہر روز کی مار سے تنگ آیا ہوا تھا۔ شرارت جو سوجھی، ان جرابوں کو جو گلے سڑے چوہے کی طرح تھیں، اٹھا کر مولانا کی میز پر دے مارا۔ کیچڑ کے چھینٹوں سے مولانا کی آنکھیں مود گئیں، چہرہ اور داڑھی الگ داغدار ہوئے۔ مولانا نے کچھ دیر بعد آنکھیں صاف کر کے چھڑی گھما کر زور سے لڑکے کے مارے۔ اس نے ہاتھ پر روکالیکن آنکھ پکڑ کر بیٹھ گیا اور دہائی دے کہ ہائے مولانا نے میرے آنکھ نکال دی۔ قریب کی کلاسوں کے استاد سن کر لپکے، مولانا کو اس حال خراب میں پایا، کچھ لڑکے کو دلاسا دیا، کچھ مولانا سے ہمدردی کی۔ اس کے بعد مولانا نے وطیرہ بدل لیا اور لڑکوں کے محبوب ہو گئے۔
نظیر لڑکوں کا قدرتی لیڈر تھا۔ اپنے محلے اور ارد گرد کے محلوں کے طالب علموں کا وہ کماندار تھا۔ جو اس سے باغی تھا وہ اس کا دشمن تھا۔ اپنے ساتھیوں سے بھائیوں کی طرح محبت کرتا تھا، جو ان کو مارے وہ اس سے بدلہ لینے کے لیے آمادہ تھا۔ تاہم وہ بلاوجہ جھگڑنے سے باز رہتا تھا۔ سکول سے واپسی پر وہ سب کو اپنی زیر نگرانی لے کر چلتا تھا۔ ایک دن ہم کئی ایک لڑکے واپس گھروں کو جا رہے تھے کہ اچانک ہمیں معلوم ہوا کہ کسی قریب کے مکان کی دیوار دھم سے گر گئی اور ساتھ ہی چند آوازیں آئیں کہ بچو بچو! ہم سب بستے چھوڑ کر جان بچا کر بھاگے۔ خطرے سے اپنے آپ کو باہر پاکر جو پلٹ کر دیکھا تو چند قالین بافوں کو ہنستے پایا۔ انھوں نے شرارت کی تھی۔ ان سب نے مل کر زمین پر زور سے دھم دھم پاؤں مارے اور ساتھ ہی ’’بچو بچو‘‘ کی آواز دی تھی۔ یہ شرارت ہم نے بھی مل کر شروع کر دی۔ جب نظیر ون ، ٹو ، تھری کہتا تھا ہم تھری کی آواز پر مل کر دھم دھم زمین پر دونوں قدم مارتے اور ساتھ ہی ’’بچو بچو‘‘ کہہ کر دوڑتے۔ بے خبر چلے جانے والوں کو گمان ہوتا کہ کوئی عمارت آن گری ہے۔ وہ بے تحاشا بھاگتے اور ہم سب ان کی ہنسی اڑاتے۔ ایک ہفتہ میں سکول سے گھر تک سب لوگ اس شرارت سے تنگ آ گئے۔ ایک دن دو شخص بازار کے کنارے کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں مٹھائی کو ڈونا تھا۔ دوسرے کے بغل میں چھوٹا بچہ تھا۔ وہ دو شخص اتفاق سے بوسیدہ مکان کے نیچے کھڑے باتوں میں مصروف تھے، لڑکوں کے پاؤں کی آواز کے ساتھ بچو بچو کا شور سن کر ایسے سراسیمہ ہو کر بھاگے کہ مٹھائی کے ڈونے کی تو خیر تھی ، بدحواسی میں بچہ بھی موری میں گر گیا۔ وہ خوفناک دھاڑیں مار کر بھاگے، بچہ جان سے بچ گیا مگر بہت زخم آئے۔ لوگوں نے نظیر کو پکڑ کر سب سے زیادہ پیٹا، سب کو علم تھا کہ شرارت کا یہی حکم دیتا ہے۔ نظیر اس مار سے بڑا مؤدب ہو گیا پھر اس نے ون۔ ٹو تھری کا حکم نہیں دیا۔ (جاری ہے)