تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

میرا اَفسانہ

چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ

قسط:۶

باب دوم
تیر پر تیر چلاؤ تمھیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے میری جان جگر کس کا ہے
برٹش حکومت کی مسلسل ناانصافیوں کی تاریخ میں جب مارشل لا کے خونیں باب کا اضافہ ہوا اور ہندوستان کے صبر و سکون کا پیمانہ جلیانوالہ باغ کے خون شہدا سے لبریز ہو گیا تو عین اس وقت جبکہ آتش انتقام بدیشیوں کے سامان عاقبت کو جلا کر خاک کر دینے کے لیے بے تاب ہو رہی تھی، ہنٹر کمیشن کو ہندوستان بھیجا گیا تاکہ بھڑکتے ہوئے شعلوں کو فرو کرے۔ انگلستان کے وقار او شہنشاہیت کے دوام کی غرض سے اصلاحات کا دام پھیلایا گیا۔ محبان وطن میں سے ہندوستان کا آئندہ قائد اعظم مہاتما گاندھی تن تنہا انگریزی عدل و انصاف کے حق میں نعرہ زن تھا۔ ہنٹر کمیشن کی سفارشات اور گورنمنٹ کی کارروائیوں سے انگریزی اہلہ فریبی کی قلعی کھل گئی، برٹش گورنمنٹ کا ممد و معاون مہاتما حصولِ انصاف کی جملہ امیدوں کو قطع کر کے ستیہ گرہ کا علمبردار ہوا۔ لذت انتقام کی دنیا شیدا ہے، عفو جرمِ شجاعت ہے، مگر خنجر بکف قاتل کے سامنے خندہ رو کھڑے رہنا منزلِ عشق ہے۔ بسمل کی طرح خاک و خون میں لوٹ کر قاتل کے دل میں رحم کا جذبہ اور آنکھوں میں ندامت کے آنسو پیدا کرنا مظلوم کی کامرانی اور ظالم کی بے بسی و شکست ہے اور اصول سیاست میں مذہب نہیں بلکہ عشق کا پیوند لگا کر ستیہ گرہ کا محیر العقول حربہ ایجاد کیا گیا۔ مطمح نظر کسی خاکی کا حسن نظر فریب نہ تھا، بلکہ شاہد آزادی کے دیدار عام کی امید تھی۔ نوجوانانِ ملک، ہمہ تن ذوق و شوق ہو کر مہاتما کے زیرِ ہدایت میدان سرفروشی میں آ کر اترے۔ تعزیر جرم عشق میں قانون کی ترکش سے تمام زہر آلود تیر یکے بعد دیگرے برسائے گئے۔ ایکٹ مجالس باغیانہ، ترمیم ضابطہ فوجداری کا اجراء دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ عام ہوا، شیدایان وطن پر ڈنڈوں کی بارش ہوئی وہ گر کر سنبھلے، پٹ کر ہنسے، نازک بدن ضربِ بید سے روئی گالوں کی طرح اڑا دیے گئے۔ مگر چشم نرگس گریاں نہ ہوئی، دہن غنچہ شرمندہ شور نہ ہوا۔ میدان امتحان میں سرفروشوں کی آنکھ سے آنسو اور زبان سے شکوہ و شکایات، شایانِ شان عاشقاں کب ہے، ان کے لیے تو حکم ہی اور ہے ؂
ہے سنت اربابِ وفا صبر و توکل
چھوٹے نہ کہیں ہاتھ سے دامان خدا دیکھ
شاہد مقصود سامنے دکھائی دیتا تھا، پروانوں کے لیے فدائے شمع ہونے کا موقع تھا اور دیوانوں کے لیے ہوس تھی۔ ملک کے نوجوان وقت امتحان ایک دوسرے سے آگے بڑھے۔ تعزیر عشق اگر ہلکی یا مجرم محبت پر جرمانہ کم تھا تو بدنصیبی شکوہ تھا۔ تعزیرات کی بیشی جرمانہ کی زیادتی فال نیک تصور ہوتی تھی اور ہر نوجوان نقد جان جنس ایمان پر قربان کر رہا تھا۔ وفور شوق اور ازدیاد عشق کا یہ عالم تھا کہ ذکور کا تو ذکر کیا، صنف نازک وقت کے لیے تیار ہو رہی تھی۔ یک بیک واقعہ ہائلہ چوری چوری نے ہمارے رہنما کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے کر دیے، جس بارد دلی پر فتح کی آروز مند آنکھیں لگی ہوئی تھی، اسی جگہ سے رجعت قہقہری کی روح فرسا خبر آئی۔ تمام سرگرمیوں کے تعطل نے کمر ہمت توڑ دی، سول نافرمانی کا تیز گام رہوار زمین بوس ہوا۔ اپنی چال میں مات کھا گیا، چال باز دشمن سے امید نیک کیا ہو سکتی تھی۔ نظم و قانون کے نام پر جو خلاف ورزیاں حکام نے کیں اس کی دردناک داستان فرصت طلب ہے۔
گرفتاری:
چلو سکھی رل چلیے سجناں نے جیل وسائے
پیریں کڑیاں تے گل وچ ہسلی ملک دی خاطر
کوئی کولہوا گے جپدا اسکھی ری کوئی چکی چلائے
اوپر کمبل پھٹے پرانے وڈھ وڈھ مچھر کھائے
تحریک ترک موالات جوبن پر تھی، آزادی کے دیوانے، شمع حق و حریت پر پروانے کی طرح گر رہے تھے۔ احباب ایک ایک کر کے دار الامان میں پہنچ چکے تھے۔ اب سوراج مندر کے باہر رہنا بہادروں کی کسر شان تھی۔ ملک ویران اور جیل خانے رشک جنت بن رہے تھے، جو پابند کیا جاتا خوش قسمتی پر فخر و ناز کرتا۔ جو باہر رہتا، اپنی نامرادی پر سر دھنتا، غرض باہر کا ہندوستان دلچسپیوں سے خالی ہو رہا تھا اور قید خانوں کی کشش بڑھ رہی تھی۔ دو برس کی مسلسل دعوت اسیری و خواہش پابندی کے باوجود میں ابھی آزاد تھا۔ اس لیے ہر دم مغموم و ناشاد تھا۔ اپنی شکستہ پائی پر افسوس اور ہم سفروں کے منزل و مقصود تک رسائی پر رشک آتا تھا۔ دل درد مند کی زاری نے پر پرواز پیدا کیا اور یک بیک در اجابت کھلا، جس گھڑی کا انتظار تھا، وہ آ پہنچی۔ اور قلعہ پھلور کے ایک ہمدرد اور ہم جلیس سب انسپکٹر پولیس کے ہاتھوں کام سرانجام کو آ پہنچا، جو ان دنوں تھانہ گڑھ شنکر کا افسر انچارج تھا۔ تھانہ میں پہنچ کر میں نے وارنٹ دیکھنا چاہا، تاکہ افسرا جراء کنندہ، تاریخ و مقام سماعت مقدمہ کا پتہ چل سکے، مگر میرے دوست سب انسپکٹر نے حق دوستی و قانونی فرض، جواب صاف سے ادا کر کے مجھے وہاں داخل کیا، جہاں میں اپنی قوت فیصلہ کو کام میں لا کر خوف زندان سے ہراسا و لرزاں انسانوں کو بند کر دینے کا خود حکم دیا کرتا تھا۔ ارگرد کے
دیہات سے لوگ گروہ در گرو آتے تھے اور گاہے بگاہے حوالات کے سامنے کھڑے ہو کر مؤثر انداز سے مل کر قومی نظمیں گاتے تھے ؂
نت دی غلامی کولوں جیل چنگی پیاریا
جس دن دی غلامی آئی

منہ تے پلیتن چھائی
اُڑ گئی لالی بھائی

بھکھ تینوں ماریا
نت دی غلامی کولوں جیل چنگی پیاریا
رکھیاں دی اولاد کہاویں

در در دھکے کھاویں
دیس تے پردیس جاویں

جگ دے در کاریا
نت دی غلامی کولوں جیل چنگی پیاریا
جرمن نوں مار مکایا

دس تیرے کی ہتھ آیا
رولٹ بل انعام پایا

سوچ وے ہتیاریا
نت دی غلامی کولوں جیل چنگی پیاریا
بڑے بڑے لیڈر سارے

جیلاں وچ پے گئے پیارے
ہن تاں توں جاگ نکارے

نیندراں دے ماریاں

نت دی غلامی کولوں جیل چنگی پیاریا
ایک سب لیڈر انسپکٹر پولیس کی حوالات میں شب اول کا بیان کسی شاعر کی زبان میں موزوں تھا۔ اس سناٹے کی رات میں قدرت غافلوں کے لیے گویا اوراق عبرت کھولے بیٹھی تھی۔ حوالات کے لیمپ کی مدھم روشنی سے اس جگہ حسرت سی برس رہی تھی۔ ہوا کے سرد جھونکے تلوار سے زیادہ تیز اور کمبل حیوانوں کے جھول تلوار بوسیدہ دور دیدہ تھی۔ منہ باہر رکھوں تو ہوا کھائے۔ اور اندر کروں تو تعفن سے سر چکرائے۔ وہ رات زلفِ یار سے زیادہ تاریک وطولانی ہوگئی۔ میں اٹھ اٹھ بیٹھ بیٹھ کے اٹھا اور کباب سیخ کی طرح کروٹ پر کروٹیں بدلیں نہ اس کل آرام تھا۔ نہ اس کل چین غرض منتیں مان کر صبح کی۔ آج لاپروائی کی آنکھ سے غرور کی پٹی کھلی۔ میرے سلسلہ ملازمت میں بیسیوں ملزموں کی زبان بے زبان پر وہ شکایتیں آئیں جو آج یہاں قلم سے شکوۂ بیداد ہو کر بیان ہو رہی ہیں۔ مگر میں نشۂ غرور نخوت میں چورتھا۔ میرے گوش حق نیوش نہ تھے اور نہ چشم چشمِ بینا تھی۔ اب جو اپنے گھر کو لگی تو آگ ورنہ دوسروں کی بستر دیوی سمجھی۔ البتہ حوالات کی اس داستان درد کے لیے میں منت کش درمان نہیں تھا۔ ظاہری دکھ کے اس دوزخ نے میرے لیے اطمینان قلب کی ایک جنت کھول دی۔
روانگی
آفتاب عالمتاب جب جانبروں کی ستم آرائیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے نکلا تو مجھے بھی ہتھکڑی کے زیور سے آراستہ کر کے حوالات سے نکالا۔ احباب نے پھولوں کے ہار پہنائے اور برسائے، سپرنٹنڈنٹ پولیس کا معہ گارد پولیس بطور گارڈ آف آنرز پیدل آگے آگے اور میں ٹانگہ پر سوار جا رہا تھا۔ آج نگاہِ عبرت آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی اور تحریک سے کچھ بے خبر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ جس طرح کبھی میں ترقی درجات کی امید پر شوق گرفتاری پر پھولا نہ سماتا تھا، آج خود زنجیر سلاسل میں بندھا ہوں اور دوسرے بھائی اب میری گرفتاری پر حکومت کی چشم کرم پر امید انعام لگائے بیٹھے ہیں۔
بدیشی حکومت جس قدر ہندوستان فریبی پر ناز کرے بجا ہے، جب جملہ بدیشی قوانین کا احترام دیسی لوگ اپنے اوپر لازم سمجھ لیں اور خصوصاً ان قوانین کی خلاف ورزی پر بھی آتش زیر پا ہوں، جو غیر ملکی گورنمنٹ کے اثر و اقتدار کو کم کرنے کے لیے کی جائے تو غلامی کی اور کیا انتہا ہو سکتی ہے۔ بدیشی قوانین کا احترام ہی تو غلامی ہے، چونکہ یہ بحث کا موضوع نہیں، اس لیے اس پر خامہ فرسائی تضییع اوقات ہے۔
سماعت مقدمہ
غرض ایک غیر معروف مقام پر مجسٹریٹ منتظر آمد تھا۔ پولیس کے دستے مجسٹریٹ کے ارد گرد پہرہ دے رہے تھے۔ وہاں پہنچتے ہی مجھے کھانا دیا گیا، روٹی گندم کی معلوم ہوتی تھی، مگر سالن طرفہ چیز تھی۔ جس کو دیکھ کر جی باہر کو آتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے سماعت مقدمہ کے لیے بلایا گیا۔ باوجود حکام کی راز داری کے معلوم نہیں کہ لوگوں کو سماعت مقدمہ کا کیونکر علم ہوا، آدھ ہی گھنٹہ میں مردوں کا میلہ لگ گیا۔ قومی نعرے اس زور سے لگاتے اور شبد بھجن اس زور سے گاتے تھے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی، نہ مجسٹریٹ گواہوں کی سن سکے، نہ گواہ مجسٹریٹ کی۔ آخر مجسٹریٹ کو مجھ سے استدعا کرنا پڑی کہ اس شور محشر کو بند کرنے میں مجھے آپ مدد دیں۔ ہندوستان جیسے طویل و عریض ملک کی ایسی وسیع آبادی کو ایک سلسلہ میں مربوط رکھنا کم اعجاز نہیں، مگر اس تحریک کی تاریخ میں اکثر دیکھا گیا ہے، ہزاروں انسانوں کا آپے سے باہر مجمع ایک ادنیٰ کارکن کانگرس و خلافت کے اشاروں کی تعمیل کرتا ہے۔ گویا ملک ایک تار میں بندھا ہے۔ میری معروضات کو لوگوں نے توجہ سے سنا اور دور ہٹ کر خاموشی سے بیٹھ گئے میرے برخلاف مقدمات زیر دفعہ ۱۷ (الف و ب) ترمیم ضابطہ فوجداری کی سماعت شروع ہوئی۔ عشق صادق اور تعزیر جرم عشق سے سرتابی ممکن نہ تھی، مگر اثبات عشق بازی میں اتمام حجت کے طور پر سرکاری گواہ پیش ہوئے۔ حسن اتفاق کہو یا شو مئی قسمت کہ شاہد خود کبھی مجرم کے شرکائے کار رہے تھے، ایک تو گرفتار کنندہ افسر، جس کی توصیف ہو چکی ہے، دوسرے شہر ہوشیار پور کے افسر انچارج، جن کے ساتھ تھانہ صدر لدھیانہ میں ایک جگہ اکٹھ رہنے کا اتفاق ہوا۔ اوّل الذکر سے مؤخر الذکر میری گرفتاری سے زیادہ متاثر تھے، مگر ملازمت کی بے بسی میں مرغ رشتہ برپا تھے، ان کی شرمائی ہوئی آنکھیں اور افسردہ چہرہ، اُن کی دلی کیفیت کا آئینہ دار تھا۔ عدالت کے انصاف کے متعلق شبہ کیا جا سکتا ہے، مگر مجسٹریٹ کی شرافت میں کلام نہیں ہو سکتا۔
روسیاہی
شہادت چند منٹوں میں ختم ہو گئی اور مجھے تحریری بیان کے داخل کرنے کے لیے دو دن کی مہلت دے کر ماہل پور سے ہوشیار پور جیل روانہ کر دیا۔ بوقت روانگی، ہجوم نے ٹانگہ کے گرد گھیرا ڈال لیا اور مجھ سے تقریر کی خواہش کی۔ گرفتاری کے بعد میں پبلک کام کا خاتمہ سمجھتا تھا، اس لیے میں نے معذر ت کی، میرے انکار پر ان کا اصرار بڑھ گیا، اُن کا جوش اعتدال سے زیادہ تھا، میں انھیں آئندہ پیشی پر اپنی رہائی کی امید دلا کر ٹھنڈا کرتا تھا۔ مگر ہجوم چھلاوا تھا کہ بات کرتے کرتے تتر بتر ہو گیا، میں سمجھا کہ سر سے عذاب ٹلا، یک بیک منتشر ہو جانے کی وجہ دو دن بعد تاریخ پیش پر معلوم ہوئی۔ وہ یہ کہ انسپکٹر پولیس و تحصیلدار علاقہ و گواہان استغاثہ ٹمٹموں پر واپس گڑھ شنکر جا رہے تھے کہ انھوں نے ان کو جا لیا اور کہا کہ شام ہو رہی ہے، جلدی اتر جائیے تاکہ ہم بھی جھوٹے گواہوں کا منہ کالا کر کے جلدی گھر جائیں۔ سنا ہے کہ سب نے گواہی سے کانوں پر ہاتھ دھرے، مگر ایک نمبر دار گواہ کے منہ پر جاتے جاتے ہاتھ پھیر ہی گئے۔ افسران اور گواہان مجمع کے ہاتھ میں اس طرح بے بس تھے، جس طرح عام تارکین موالات ان افسروں کے پنجہ میں۔ روسیاہی کی ناخوشگوار کارروائی کو دم بخود ہو کر دیکھنے کے سوا ان افسروں کے پاس اور کیا چارہ کار تھا۔ مزاحمت کے معنی اپنی رو سیاہی کی دعوت تھی، اگرچہ چھوٹا منہ بڑی بات تھی، تاہم میں نے جیل میں سے لوگوں کو تنبیہ کر کے بھیجی، کیونکہ کئی لحاظ سے اس تنبیہ کو میں اپنا حق سمجھتا تھا۔ ترک ملازمت کے بعد نام اور کام کے دو راستے تھے۔ نام کی بڑائی شہر اور کام کی عظمت و دیہات میں، الحمد ﷲ! میرے اعمال کا محور رضا جوئی تھی نہ کہ نمود و نمائش، اس لیے ملازمت کے چند سکوں سے جو میری کل کائنات تھی بے نیاز ہو کر دیہات کو اپنے خون سے سینچا ہوا نخل ثمر ور سمجھتا تھا۔ اس واقعہ کو نخل کی جڑ پر تیشہ سے کم نہ سمجھتا تھا۔
خفیف حرکتیں
حرص و ہوا کے شکار ہر ملک میں موجود ہوتے ہیں، مگر بدیشی حکومت بجائے اس میلان طبع کی روک تھام کے ان نفع و لالچ کے شکاروں کو جلب منفعت اور ترقی درجات کا شکار بنا دیتی ہے۔ بد خواہان ملک و ملت کو خیر خواہان دولت و سلطنت کا نام دے کر حوصلہ بڑھاتی رہتی ہے، محکوموں میں ایسی جماعت کو معرض وجود میں لا کر ایک رشتہ میں منضبط کرنے میں ہی غیر ملکی گورنمنٹ کے دوام و استحکام کا راز مضمر ہے۔ پنجاب گورنمنٹ نے مربعہ جات کا مسلسل لالچ دے کر پنجابیوں کے اخلاق و عادات کو اور صوبوں سے زیادہ تباہ و برباد کیا ہے۔ کامل و مکمل جھولی چکوں کی ایسی کثیر جماعت پیدا کی کہ جسے ہر رات عطیات اراضی کے خواب آتے ہیں اور ہر دن مربعہ پر رال ٹپکتی ہے۔ اس جماعت کا بڑا حصہ نمبر دار، ذیلدار، سفید پوش اور اس قسم کے گورنمنٹ کے ٹکسالی گواہوں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ حکومت کا اشارہ پا کر فوراً ایمان فروشی پر تیار ہو جاتے ہیں، اس امید پر کہ مربع کا ایک ٹکڑا یا پروانۂ خوشنودی کا پھٹا پرزہ مل جائے گا، یہ لوگ بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ بنا کر حکام کے مزاج میں دخیل ہوتے ہیں۔ ایسے طائفے میں سے اگر کسی کا منہ کالا ہو جائے تو خوشی سے چہرہ لال ہو جاتا ہے۔ فضل خداوندی اور عطائے الٰہی سے زیادہ اپنی فیروز مندی پر گمان ناز ہوتا ہے۔ حکام رسی کا اس سے موزوں ذریعہ کیا، روسیاہی سے زیادہ خدمت کیا، لوگوں کی لالی اڑانے اور اپنی سرخروئی کی دلفریب داستان اور دلنشین پیرایہ میں گوش گزار حکومت کر کے خواہان داد و فریاد در اصل زر و انعام ہوتا ہے، اس کے اشارے پر اس کے حاشیہ نشین بے تعلق گواہ کے بھیس میں لوگوں کی دست درازی کی کہانی رقت خیز و درد انگیز طور پر دربار حکومت میں جا جا کر بیان کرتے ہیں۔ مطلب براری و جاہ طلبی کے جو جو طریقے ان دنوں استعمال کیے گئے۔ وہ اس کتاب کے منشاء سے دور ہیں، البتہ تاریخ حریت کے وقائع نگار کو حامی سرکار جماعت کی خفیف الحرکتی میں تفنن طبع کا بہت سامان ملے گا۔
مقام محمود یا منزل محبوب
۱۴؍ فروری ۱۹۲۲ء غروب آفتاب سے قبل ہی میں وہاں پہنچا دیا گیا۔ اطمینان قلب کے لحاظ سے فردوس جس کا ایک کوچۂ غیر آباد ہے۔ درجاناں یعنی جیل خانہ کے سامنے پھلواری مشک ریز و عنبر بیز تھی، بیچوں بیچ صاف ستھری سڑکیں کٹی تھیں۔ پتوں سے لدی ٹہنیاں عروس نو کی طرح خمیدہ و محبوب پودے پھولوں کا زیور پہنے ہوئے تھے، جیل خانہ تو عبرت گاہ ہے، نہ عشرت خانہ، اس لیے سامان عبرت کی جگہ اہتمام راحت پا کر خوش ہو گیا۔ دھک سے دروازہ کا دریچہ کھلا، دربان نے اندر آنے کے لیے اشارہ کیا، سب انسپکٹر پولیس مجھے لے کر اندر داخل ہوا، دریچہ بدستور بند کر دیا گیا۔ ڈیوڑھی کا یہ خوشنما صاف ستھراحصہ تھا، جس کے دائیں بغل میں داروغہ مجھے کرسی پر بٹھا کر مزاج پرسی کرنے لگا۔ یہ اس آمر کی شرافت کے قرین اور فرض سے دور تھا، میں نے اس کی توجہ کا شکریہ ادا کیا، اس نے مجھے بتایا کہ حکومت کی بندہ نوازی نے سیاسی قیدیوں کو اے (A) کلاس کے حقوق امتیازی عطا کیے ہیں، جنھوں نے کہ سپیشل کلاس کے قیدیوں کی آپ کو مراعات دی ہیں۔ تنگی وقت کے سبب معذرت کی کہ آپ کے کھانے کا کوئی خاص انتظام اس وقت نہیں ہو سکتا۔ وہ اسی طرح مجھے اور باتوں میں مشغول رکھنا چاہتا تھے، مگر میری عجوبہ پسند طبیعت اندرون جیل خانہ کے لیے بے تاب تھی۔ نماز مغرب سے فارغ ہو کر مجھے اندر پہنچایا گیا، خورشید دامن افق میں چھپ چکا تھا، گورستان کی سی خاموشی جیل پر طاری تھی۔
دھوکہ
مجھے ایک کوٹھڑی میں بند کر کے تالا لگا دیا گیا۔ میں اس کوٹھڑی میں ایک قبر دیکھ کر حیران رہ گیا، خیال کیا کہ یہ کسی قیدی بزرگ کی خانقاہ ہے اور فیوض روحانی سے بہرہ اندوز ہونے کا ارادتاً موقع دیا گیا ہے۔ قبر پر بڑا رعب و جلال برس رہا تھا، تاریکی اور سناٹے نے منظر کو اور بھی مؤثر بنایا، مجھے محسوس ہو رہا تھاکہ اس بزرک کی خوابگاہ ابدی پر ضرور برکتوں کا نزول ہو رہا تھا۔ اگر مجھے پنے اعتقاد پر اصرار نہ ہوتا، تو ضرور سر بسجود ہو کر حصول سوراج اور بحالی خلافت کے لیے اس بزرگ سے ملتجی ہوتا۔ میں ابھی اصرار و انکار کی کشمکش میں مبتلا تھا کہ ہیڈ وارڈ روشنی اور کمبل لے کر آیا، دیکھنے سے پتہ چلا کہ قبر تعویذ ہے۔ گستاخ وارڈرنے کمبل قبر پر بچھا کر کہا کہ اس پر آرام فرمایے، وہ یہ کہ کر چھلاوے کی طرح نکل گیا اور میرے لیے یہ معمہ حل طلب ہی رہا، میر طبیعت پر ابھی ابتدائی اثر باقی تھا اور پاس ادب سے پاس کھڑا تھا۔ اتنے میں لانگری کھانے لے کر آیا، اس سے میں نے پوچھا’’یہ کس بزرگ کی قبر ہے‘‘؟ بولا کہ آپ جیسے مہاتما پرش کی۔ اس بے ساختہ جواب پر بلا تامل تھپڑ مارنے کو جی چاہا، مگر اصول عدم تشدد آڑے آیا، میں مثل آئینہ حیران کھڑا تھا کہ باہر سے کسی نے لانگری کو للکارا کہ قیدی سے باتیں نہ کر، باہر آ۔ وہ بھیگی بلی کی طرح خاموشی سے باہر نکل گیا۔ مجھ پر قبر کا عقدہ اب بھی نہ کھلا، میں دیر تک غرق حیرت رہا۔ اتنے میں مؤذن نے عشا کی اذان دی، میں مولوی عنایت اﷲ کی آواز پہچان کر اچھلا، خاتمہ پر انھیں بلایا، ساتھ کی کھڑکی میں اچھل کود شروع ہوئی کہ آپ بھی آ گئے۔ میں نے جان لیا کہ میرے پیشرو اسیران فرنگ سردار بھگت سنگھ، وریام سنگھ بھی یہاں ہی ہیں۔ میں نے سب سے پہلے اس قبر کے متعلق سوال کیا، معلوم ہوا کہ یہ مٹی کا چبوترا، قیدی پلنگ ہے جو اپنی ظاہری بناوٹ کے سبب سے قبر معلوم ہوتی ہے اور عام طور پر اسے کھڈی پکارتے ہیں۔ مجھے اس معمہ کے حل سے ہنسی آئی، شب گزشتہ کی بے خوابی اور کوفت سفر سے چور چور تھا، اس کھڈی پر مردے کی طرح لیٹ گیا۔
سزا
صبح نے جب پھولوں کے بستر سے سر اٹھایا، تو میں نے بھی خواب گراں سے سر اٹھایا۔ آواز دی تو ساتھی ندارد، دریافت پر معلوم ہوا کہ مولوی عنایت اﷲ اور وریام سنگھ دوسری جیل میں منتقل کر دیے گئے اور بھگت سنگھ باقی ہے۔ میں دو روز تحریر بیان میں مصروف رہا، کیونکہ ۱۶؍ فروری ۱۹۲۲ء کو عدالت میں عدل کی تماشا گری ہونی تھی، تاروں کی چھاؤں میں پولیس مجھے جیل سے لے کر روانہ ہوئی۔ اس غیر معمولی کارروائی سے گمان گزرا کہ شاید اندھیرے ہی اندھیرے میں مجسٹریٹ عدالت کی کرسی کو زینت دے کر اندھیر نگری چوپٹ راج کا ثبوت پیش کرے گا، مگر نہیں مجھے دفتر پولیس میں بٹھلا کر ارد گرد کے دروازے بند کر دیے گئے۔ سورج انصاف کو دن کی روشنی میں لانے کے لیے نکلا ہی تھاکہ سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس معہ دیگر افسران پولیس باوردی اندر آئے، کھڑے میری طرف دیکھتے رہے اور چلے گئے۔ ٹھیک گیارہ بجے عدل کا ڈراما عدالت میں کھیلا گیا۔ پولیس جا بجا سڑکوں پر پہرہ دے رہی تھی، عدالت میں آنے کی کسی کو مجال نہ تھی، بدقت تمام چند وکلاء اور دو نا مہ نگار اندر آ سکے۔ مجسٹریٹ نے کہا کہ بیان دیجیے، میں نے کہا کہ پولیس کا لیجیے، جو رات ہی رات مجھے جیل سے لے آئی اور ترتیب بیان کا موقع نہیں دیا۔ مجھ سے مجسٹریٹ نے پوچھا کہ کتنی سزا دوں؟ جواب دیا کہ حکومت کی نافرمانی کے مرض کی شدت ہے، اگر سزا اس مرض کی دوا ہے تو پوری خوراک دیجیے۔ مجسٹریٹ نے ہنس کے کہا، نہیں کم از کم سے شروع کیجیے۔ یعنی چھے ماہ تک متواتر جیل جاترا۔ وکلاء میں سے چند ایک نے پوچھا کہ قید محض ہے یا سخت، کہا جیسا ان کا بخت۔ وقائع نگاران موجود عدالت نے اس اختصار کی تفصیل جملہ اخبارات میں یوں شائع کی ہے:
’’۱۶؍ فروری ۱۹۲۲ء چودھری افضل حق مستعفی سب انسپکٹر و سیکرٹری ڈسٹرکٹ کانگرس کمیٹی کا مقدمہ زیر دفعہ ۱۷ ۔ ر ضمن او ۲) ترمیم ضابطہ فوجداری لالہ لبھو رام صاحب مجسٹریٹ درجہ اوّل کی عدالت میں گیارہ بجے پیش ہوا۔ مسلح پولیس کی خوب نمائش کی گئی۔ پہلے ان کا مقدمہ ۱۴ ماہ حال کو پیش ہوا تھا، جبکہ عدالت نے ان کو ۱۶؍ فروری ۱۹۲۲ء بجے تک بیان کی تیاری کا وقفہ دیا تھا۔ آج صبح ۵ بجے انھیں جیل میں بیدار کیا گیا اور ۶ اور ۷ بجے کے درمیان پولیس دفتر میں بٹھا رکھا۔ کمرہ عدالت میں چودھری صاحب نے کہا مجھے پولیس نے بیان تحریر کرنے کا وقت نہیں دیا۔ میں حیران ہوں کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے۔ گرفتاری کے وقت جو گڑھ شنکر میں عمل میں آئی تھی، کوئی وارنٹ نہیں دکھایا گیا۔ مجھے نہیں بتلایا گیا تھا کہ کس جرم میں اور کہاں میرا مقدمہ ہو گا۔ میرے رشتہ داروں اور دوستوں کو بالکل بے خبر رکھا گیا ہے۔ اس پر عدالت نے اصرار کیا کہ اب ہی بیان دیا جائے اور کہا کہ ایک کلرک بیان لکھنے کے لیے مہیا کر دیتے ہیں۔ چودھری صاحب نے کہ کامل غور کیے بغیر بیان دینے کے لیے تیار نہیں ہوں، مجھے تمام سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔
مجسٹریٹ: کیوں مقدمہ طویل کیا جائے
چودھری صاحب: پھر حکم سنائیں
مجسٹریٹ: آپ کتنی سزا پسند کرتے ہیں
چودھری صاحب: پوری مقدار میں کیونکہ میرا فرض بھی سخت ہے
مجسٹریٹ: آخر کتنی
چودھری صاحب: جتنی بھی ہو
مجسٹریٹ: اس جرم میں ۳ سال اور ۲ ماہ ہے
چودھری صاحب: تین سال
اس پر مجسٹریٹ نے ۶ ماہ قید کا حکم دیا۔ ایک صاحب نے سوال کیا کہ آیا یہ قید بامشقت ہے یا محض، تشریح فرمائی جائے۔ مجسٹریٹ نے جواب دیا کہ یہ حکامِ جیل کا اختیار ہے کہ بامشقت کو محض کر سکتے ہیں۔ پھر چند وکلا صاحبان نے سوال کیا کہ اس امر کے متعلق فیصلہ ہونا چاہیے، لیکن عدالت کی طرف سے کوئی جواب باصواب نہ ملا۔
چودھری صاحب بالکل ہشاش بشاش تھے، آپ نے ہنسی خوشی کو الوداع کہا، کمرہ عدالت میں صرف نامہ نگاروں کو آنے کی اجازت تھی
پھرنی
سزا کی کمی سے آرزوئیں خون ہو گئیں۔ تعزیز کی بیشی ہی اس وقت ہر محب وطن کو محبوب تھی۔ سرمایہ صحت سے بے مایہ ملزم پر مجسٹریٹ نے رحم کا اظہار نہ کیا تھا، یہ فرشتہ اجل کی عنایت و رعایت ہے کہ وہ مہربانی سے مجھے موت سے مہلت دیتا رہتا ہے۔ زندان سے زندہ واپسی کی امید حلقہ احباب میں کم تھی اور مجھے زندہ درگور رہنے یا مردہ بگور ہونے کی چنداں پروا نہ تھی۔ دوست آشنا اس عارضی فراق سے بے تاب تھے، مگر میں منزل محبوب میں جا کر خوش تھا، ہر طرف پولیس کی لیفٹ رائٹ ہو رہی تھی، کچہری کا احاطہ پولیس کا میدان مہارت بنا ہوا تھا۔ سڑکوں پر دو رویہ پولیس ہجوم کو روکے ہوئے تھے، میں شوق کی بے تابی جیل میں داخل ہو کر اپنی کوٹھڑی کی طرف بڑھا اور میری حیرت کی یہ دیکھ کر کوئی حد نہ رہی کہ اسی کوٹھڑی میں سردار بھگت سنگھ سابق نمبر دار پھرنی (چکی) پر سوار ہیں۔ منہ پر ٹھاٹھا، ہاتھوں میں چکی کا ہتھہ اور دانت پیس پیس کر دانے پیس رہے ہیں۔ سردی میں پسینہ پسینہ ہو رہے تھے، مجھے اس ہیئت کذائی پر ہنسی آئی، اب تک بھی جب وہ اس کا لباس اور کسب معاش یاد آتا ہے، تو ہنس ہنس کے آنسو نکل آتے ہیں۔ میرے کھڑے کھڑے داروغہ آیا اور فرمایا کہ آپ دوسری کوٹھڑی میں منتقل کر دیے گئے ہیں، قدرتی طور سے مجھے اپنے انتقال پر ملال ہوا کیونکہ ساتھی سے کسی قدر دور ہو گیا تھا۔

(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.