تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

میرا افسانہ

قسط:۹
چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ

انسپکٹر جنرل پولیس کی آمد:
ایک دن سپرنٹنڈنٹ اور انسپکٹر جنرل پولیس جیل کے ملاحظہ کے لیے آئے۔ سب انسپکٹر قیدی، انسپکٹر جنرل پولیس کے لیے اچنبھا چیز تھی۔ اس لیے وہ مع مسٹر کنگ سیدھا میری کوٹھڑی میں آیا، ابھی باہر کی دہلیز کے اندر قدم نہ دھرا تھا، سپرنٹنڈنٹ نے واویلا شروع کر دیا۔ افضل حق کھڑے ہو جاؤ! میں کہتا ہوں کھڑے ہو جاؤ! ان کا اضطراب اور میری خاموشی ایک عجیب سماں تھا۔ دونوں انگریز افسر سلاخوں کے ساتھ حیرانی کے عالم میں سرنگوں کھڑے تھے اور میں بیٹھا بان بٹتا رہا۔ آخر انسپکٹر جنرل نے مہر سکوت کو توڑا۔ میرے متعلق سپرنٹنڈنٹ سے چند سوالات پوچھے، مگر مجھ سے کسی نے کچھ دریافت نہ کیا۔
دو روز ہوئے تھے کہ میرے بھتیجے کی سخت علالت کی خبر آئی۔ جس قدر مجھے اس سے محبت تھی، وہ انتساب سے ظاہر ہے۔ اس فکر کے ساتھ ایک اور پریشانی کا اضافہ ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ سپرنٹنڈنٹ کو میری یہ حرکت کھا گئی۔ اگلے روز اتوار تھا، پیر کے روز خود سپرنٹنڈنٹ تو میرے پاس نہ آیا۔ داروغہ ہتھکڑی لایا، مجھ سے کہا کہ جناب تشریف لائیے، میں نے کہا کہ فرمایے، بولے ہم حکم بردار بندے ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ کا حکم ہے کہ آپ کو کھڑی ہتھکڑی لگائی جائے۔ کہا عذر کیا ہے؟ سب شوق پورے کیجیے۔ میں نے ہاتھ بڑھائے، انھوں نے سلاخوں سے باندھے، چلے گئے، میرے بازو اونچے تھے اور سر بازوؤں میں جھکا تھا۔ سیاہ کمبل اوپر اٹھائے عجب صورت بنائے کھڑا تھا، مجھے اب اپنی حالت پر ہنسی آتی تھی، تمام غرور کافور ہو چکا تھا۔ ہاں قلب بالکل مطمئن تھا کہ دشمن کی نظر میں اگرچہ ذلت ہو، مگر اصول کی خاطر ذلت میں بھی عزت ہوتی ہے۔ میں ایسی ذلت کو خوش آمدید کہتا تھا کہ نفس کمزور ہوتا تھا ؂
راج کرتا تھا واں پہ راون نفس
دل کی لنکا جلی برا نہ ہوا
اتنے میں ڈاکٹر صاحب تشریف لائے،مجھے زنجیر سے بندھا دیکھ کر واپس چلے گئے۔ آدھ گھنٹہ کے بعد ایک عہدہ دار قیدی آیا، مجھے میرا ہسٹری ٹکٹ دکھایا کہ میڈیکل افسر کے مشورے سے آپ کے لیے بیڑیاں تجویز ہوتی ہیں، میں نے کہا سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔ چلو تمام سرکاری زیورات پہن کر دیکھیں۔ حسرت باقی نہ رہے، غرض ہتھکڑی اتروائی اور بیڑی پہنائی گئی۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اس گہنے کا شور خلخال پائے یار کی طرح محشر بپا کرتا تھا۔ اس تزویر سے تیز رو کو سبک سیر ہونا پڑتا ہے، بیڑی پہن بے ڈیل ڈول قیدی کے خرام ناز میں معشوقانہ انداز پیدا ہو جاتا ہے، مگر میری حالت عجیب تھی، جسم ہلکا، بیڑی بھاری، قدم اٹھانے میں دقت، چلنے میں مشکل، جب کبھی دل کڑا کر کے قدم اٹھاتا، در و دیوار زبان سے تمسخر اڑاتے کہ
آہستہ خرام …… بلکہ مخرام
زیر پایت ہزارہا جانست
گرمی کے دن، نہائے بغیر چارہ نہ تھا۔ بیڑی پہن کر پاجامہ اتارنے اور باندھنے کی ابتدا میں جو دقت ہوتی ہے، وہ وہی جانتے ہیں جن کو بدقسمتی سے ایسا اتفاق ہوا ہو۔ دو چار روز تو پختہ کار قیدی کو استاد بنا کر خود طفل مکتب بن کر پاجامہ اتارنے اور باندھنے کی پریکٹس کی ضر ورت ہے، عموماً قیدی کو بیڑی پہنا کر تہ بند دیا جاتا ہے، تاکہ قیدی کو یہ تکلیف نہ ہو، مگر باوجود میرے مطالبہ کے تہ بند مجھ کو نہ دیا گیا۔ اس لیے استاد کے آگے زانو تہ کرنے پڑے۔ رات کو ہر کروٹ پر بیڑی کی جھنکار سے آنکھ کھلتی ہے تو کبھی اس ٹانگ پر لگتا ہے تو کبھی دوسری پر۔ مگر یہ تمام دقتیں پہلے دو چار روز زیادہ محسوس ہوتی ہیں، چند دن کے بعد قیدی عادی ہو جاتا ہے۔
اگرچہ جیل میں پرندہ کو پر مارنے کی تاب نہ تھی، مگر پھر بھی خبریں پر پرواز پیدا کر کے تیر کی تیزی سے شہر میں مشتہر ہوئیں۔ کانگرس اور خلافت کے کارکن ہمیشہ گوش بر آواز رہتے، ادھر جیل میں مسٹر کنگ نے قیامت ڈھانے میں کوئی دقیقہ باقی نہ چھوڑا، ادھر میر غلام بھیک وکیل صدر مجلس خلافت انبالہ کے رشحات قلم۔ مسٹر بینی پرشاد وکیل و خان صاحب عبدالغفار خان صاحب جنرل سیکرٹری کانگرس انبالہ کی رات دن کی تگ و دو نے سپرنٹنڈنٹ کے مظالم کو بے نقاب کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، جیل میں ہنگامہ تھا اور پنجاب میں ایسا شور ہوا کہ حکومت کو بھی ہوش آئے۔ آنریبل سردار سندر سنگھ صاحب وزیر جیل خانہ جات سر پر پاؤں رکھ کر انبالہ پہنچے، جیل میں آ کر سردار صاحب نے مجھے بھی درشن دیے۔ پوچھا کہ کیا حال ہے؟ کہا شکر پروردگار ہے۔ پاؤں میں بیڑی پڑی دیکھ کر سپرنٹنڈنٹ سے پوچھا کہ یہ کیا؟ کہا کہ جناب یہ مجھے بہت ستاتا رہتا ہے۔ سردار صاحب نے سوال کیا کہ یہ کس طرح؟ بولے کے پریڈ لگانے سے قیدیوں کو منع کرتا ہے، اسی لیے سزا دی ہے۔ میرے فرشتہ کو بھی اس کا علم نہ تھا، اس لیے میں نے جرم سے انکار کیا اور پوچھا کہ آپ مجسٹریٹ ہیں؟ کیا سزا دینے سے پہلے دریافت کیا؟ جیل میں بھی پیشی کے بعد سزا دینے کا دستور ہے، مگر آپ نے مجھے سزا دی اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ میرا جرم کیا ہے؟ اس کا جواب کیا تھا، خاموش رہ گیا۔ سپرنٹنڈنٹ کے نامعقول ہونے سے سردار صاحب بھی متاثر معلوم ہوتے تھے، مجھے علیحدہ ملنے کا وعدہ کر کے چلے گئے۔ خیال عام تھا کہ حکام جیل کی سخت گیری کو سردار صاحب نے حق بجانب نہیں سمجھا اور سپرنٹنڈنٹ کو کسی دوسرے افسر کو چارج دینا پڑے گا۔
آخری کشمکش:
ملک الموت کو ضد ہے کہ میں جاں لے کے ٹلوں
سر بہ سجدہ ہے مسیحا کہ میری بات رہے
مجھے ایک افسر جیل نے بتایا کہ آپ کی صاف بیانی سے سپرنٹنڈنٹ نے بہت خار کھایا، آج عافیت نہ سمجھو۔ یہ مجھے کھٹکا تھا، کیونکہ ان کی نظر عتاب مجھے پہلے سے انتخاب کر چکی تھی۔ آئے مگر آندھی کی طرح، غصہ سے آگ بگولا۔ آتش مزاجی سے ہمہ تن شعلہ، در و دیوار پر رعب طاری تھا اور میری زبان پر الامان جاری تھا۔ میں سلاخوں کے اندر اور سپرنٹنڈنٹ کچھ کہنے کے لیے اور میں جواب دینے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔ آخرکنگ پر کپکپی سی چڑھی، دانت پیسے، آنکھیں لال کیں اور گرج کر کہا کہ افضل حق کھڑے ہو جاؤ، میں نے سنجیدگی سے کہا کہ کوئی قانون و قاعدہ بتاؤ، کہا کہ میرا حکم قانون ہے اور اس لیے اس پر اصرار ہے، میں نے کہا کہ مجھے آپ کا حکم ماننے سے انکار ہے، غصہ سے بولے کہ میں ملاحظہ کرنے آیا ہوں، میرے ملاحظہ پر آپ کو کھڑا ہونا پڑے گا، میں نے کہا کہ آپ دن میں سو بار ملاحظہ کو آئیں گے تو کیا سارا دن ڈنٹر پیلا کروں گا؟
ان کی طبع نازک پر یہ شوخی گراں گزری۔ گو آپ جامہ کے اندر تھے مگر آپے سے باہر ہو گئے، سلاخوں کو پکڑ کر کھینچا کہ دروازہ کھلے، شاید اندر آ کر دو ہاتھ دکھانے کا ارادہ تھا، مگر قسمت سے قفل بند تھا۔ غصہ میں کالے ناگ کی طرح لہرانے لگے اور غضب کے پیچ و تاب کھانے لگے۔ ایک دفعہ پھر جوش آیا اور کہا، کیا کھڑے نہیں ہو گے؟ میں نے تبسم زیر لب سے اپنے عزم کی وضاحت کر دی۔ اب کھڑے رہنے کی تاب کس کو تھی، غصہ سے جنگلہ پر ایک ہاتھ مارا اور چھلاوے کی طرح صحن سے نکل گیا۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ مسٹر کنگ بیڑی کی سزا چھے روز اور بڑھا کر اپنی دکان بڑھا گئے اور چارج مسٹر چارٹر کو دے گئے۔ میں نے کہا سستے چھوٹے۔ نیا سپرنٹنڈنٹ فرشتہ مزاج تھا، اس کا سلوک ہمارے ساتھ شریفانہ تھا، سب قیدیوں نے فیصلہ کر لیا کہ کوئی حرکت ایسی نہ کی جائے جو انھیں شاق گزرے۔ جب ہر روز کے جھگڑے سے اطمینان ہو گیا تو میں نے جیل کے اسرار و حالات پر غور و تفتیش شروع کر دی۔
دوزخ کا نقشہ
جیل کی اندرونی زندگی:
جیل خانہ کی عالی شان عمارتوں پر سرسری نظر ڈال کر کبھی قیدیوں کی ناقابل برداشت اور غلامانہ پابندیوں کا وہم بھی نہیں گزر سکتا۔ صاف ستھری روشوں اور پھول پھلواری کو دیکھ کر حکومت کے رحم و انصاف کا دل گرویدہ ہو جاتا ہے۔ خدا محفوظ رکھے، کسی کو قیدی کی زندگی بسر نہ کرنی پڑے۔ جس کی بے بسی و بے کسی کو دیکھ کر خون کے آنسو بہانے کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔ اعلیٰ افسران جیل کے سفیہانہ طرز عمل اور ادنیٰ ملازمین کے سفاکانہ سلوک کا حیوان بھی متحمل نہیں ہو سکتا، چہ جائیکہ انسان اس کی برداشت پر مجبور ہو۔ عدالت سے حکم سزا سن کر جیل میں صورت نباہ کی فکر پڑتی ہے، دنیا کے اس دوزخ میں قدم رکھتے ہی اعمال بد ملازمین کی صورت میں ہڈی بوٹی نوچ کھانے کو دوڑتے ہیں، وارڈر آنکھیں دکھا کر دھمکاتے ہیں۔ کپڑے اتار کر جیل کی وردی پہناتے ہیں، بازو کٹی گاڑھے کی کرتی، گھٹنوں تک پاجامہ، سر پر کانوں والی ٹوپی، کالے کمبل، لوہے کے دو برتن حوالہ کر کے قیدی نمبر دار کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ وہ عبرت مجسم بن کر بے بسی کے آنسو بہتا ہے، غمگین چہرہ حسن سلوک کا ملتجی ہوتا ہے، مگر حقارت آمیز تبسم سے اس پر یہ نکتہ روشن کر دیا جاتا ہے کہ جس چیز کی اسے تلاش ہے، وہ یہاں مفقود ہے۔ ڈاکٹری ملاحظہ کے بعد مشقت کا تعین ہوتا ہے، اکثر ۱۸، سیر پختہ پیسنے کو دیا جاتا ہے، ایک رحم کی تمام درخواستوں کا جواب نوکِ کفش ہی دیتا ہے۔ تشدد اور بدسلوکی کو روز افزوں دیکھ کر قیدی کا دل بیٹھ جاتا ہے، یاس وناامیدی کے ہجوم میں داروغہ جیل کا رشوت دلال پاس آ کر باتوں باتوں میں سمجھاتا ہے کہ جان بچے تو لاکھوں پائے، اگر کچھ سرمایہ ہے تو سر سے قربان کرو، ورنہ قربانی کا بکرا کب تک جان کی خیر منائے گا۔ اگر قیدی کے پاس کچھ اندوختہ ہوا تو تاریخ دے کر جان چھڑائی، اگر تنگ دست یا دل کا دلیر ہے تو چند دن کے بعد چکی سے ہٹا کر کولہو پر لگا کر پٹھان عہدہ دار قیدی کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ پناہ بخدا، ننگ انسان کھڑے ہو جاتے ہیں، ملازمین جیل کا اشارہ پا کر قیدی کو لے جاتے ہیں اور کولہو پر لگاتے ہیں۔ سرحدی جوتا قیدی کے چوتڑوں پر اس بے دردی سے پٹتے ہیں کہ ان کی سفاکی پر فلک بھی نفرین کرتا ہے۔ ہفتہ عشرہ کا ذکر کیا، ایک دن بھی کاٹنا قیامت ہو جاتا ہے۔ پولیس کے تشدد کے برخلاف داد رسی ممکن ہے، کیونکہ فریاد کرنے میں ہر شخص ہوتا ہے، مگر جیل کی چار دیواری کے اندر جہاں اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہوتے ہیں، وہاں بجز خدائے پاک کوئی فریاد رس نہیں بنتا۔ قیدی فریاد و فغاں بلند کرتا ہے، جس کے چیخنے چلانے کی آواز سے دل چھلنی ہوتا ہے، مگر سنگ دل ملازم اور بے درد پٹھان عہدہ داروں پر کچھ اثر نہیں ہوتا۔ اس امر کی توضیح کی زیادہ ضرورت نہیں ہے کہ سرحدی قیدی جہالت کی وجہ سے نیم وحشی ہوتے ہیں، انھیں ظلم و رحم کے درمیان امتیاز نہیں ہوتا۔ جیل میں زندہ رہنے کی صرف دو ہی راہ ہیں، یا دو یا دلاؤ۔ سرحدیوں کے بے زری محتاج بیان نہیں، اس لیے حکام کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مؤخر الذکر راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ بدیں وجہ سرحدی قیدی جیل میں ایک قابل نفرت شخص تصور ہوتا ہے، جس سے کبھی بھی رحم و حلم کی امید نہیں کی جاتی۔ ان کے تشدد سے جیل میں اموات کا وقوع میں آنا غیر اغلب نہیں ہوتا، مگر وہ اپنے شکار کو نہیں چھوڑتے، جب تک کہ داروغہ کو خوش کرنے کا قیدی سے اقرار نہیں لے لیتے۔ یہ ضروری نہیں کہ مشقت سے عاری قیدی سے رشوت حاصل کی جائے۔ ملازمان جیل کے دندان آز مشقت کے عادی اور عاری پر یکساں طور سے تیز ہوتے ہیں۔ کوئی خواہ کس قدر محنت کش کیوں نہ ہو، جیل کی آفات سے مامون و مصؤن نہیں ہوسکتا، جب تک ملازمان کی مٹھی گرمانے کی سبیل نہ کرے۔ داروغہ کے رشوت دلال گاہے بگاہے آتے ہیں۔ روزانہ مشقت میں نقص کی ہر چند کوشش کرتا ہے، مگر نگران کار قیدی کی آنکھیں بدستور پھری ہوئی دیکھ کر وجہ دریافت کرتا ہے، اسے جواب ملتا ہے کہ تمھارے کام میں نقص نہیں ہے، البتہ تم اندر سے صاف نہیں۔ جیل کی اصلاح میں اندرونی صفائی و طہارت کے معنی داروغہ سے صفائی کر لینے کے ہیں، جو اسے دوبارہ دریافت پر معلوم ہو جاتا ہے، بس یہی کہ مایہ سے رام اور گانٹھ کھولنے پر آرام ملتا ہے۔ ورنہ قیدی کی کھال اور پٹھان کا جوتا۔ جیل میں قیدی سے دو قسم کی رشوت لی جاتی ہے۔ ایک تو ماہواری رقم، جس کو تاریخ کہتے ہیں، دوسری خلاف ورزی قوانین جیل پر۔ یہ کھلی رشوت کہلاتی ہے۔ تاریخ سات اور دس روپیہ کے درمیان عموماً ہوتی ہے، مگر اس میں کمی بیشی قیدی کی حیثیت پر منحصر ہے۔ جس وقت تاریخ داروغہ کی جیب میں پہنچتی ہے تو باقی ملازمین بھی ڈانٹ بتلاتے ہیں اور دانت پیس پیس کر آتے ہیں۔ جو دھیلہ پیسہ پلے ہوا تو بھینٹ چڑھاتے رہے، منہ میں ہڈی دیتے رہے، ورنہ بس چلے پر اس کے حق میں بِس گھولتے رہتے ہیں۔ اگر سب کو خوش رکھ کر خوشی کے دن کاٹنے ہوں تو بیس روپیہ ماہوار کا بار اٹھانا پڑتا ہے۔ پوشیدہ نہ رہے کہ داروغہ ہی کو نذر نیاز دے کر امن نہیں مل سکتا، اصل میں قیدی پر آرام تب تک حرام رہتا ہے، جب تک ڈاکٹر، جمعدار بابو اور چکر منشی کو حسب مراتب بھینٹ نہ دے۔ جو قیدی اس طرح دھن لٹا سکتا ہے، وہ مشقت سے آزاد ہو سکتا ہے۔
پیٹ کا سوال:
جرائم پیشہ مجرموں کا مقولہ ہے کہ وہ جو بری کمائی باہر کماتے ہیں، اس کو وہ جیل میں بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ داروغہ کا دوزح شکم جس طرح بھرا جاتا ہے اس کا مختصر ذکر تو آ چکا ہے اور مفصل آگے آئے گا۔ جیل کے مروجہ قانون کے مطابق قیدی کو ۵ چھٹانک آٹا اور ایک وقت پیٹ پالنے کو ملتا ہے۔ غیروں کے مال مارنے والے کے تن و توش اور سخت مشقت کرنے والوں کو اشتہا اور اس کمی غذا کو مدنظر رکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہٹے کٹے قیدی کو شکم پری کے لیے اور کئی قسم کے دھندے بھی کرنے پڑتے ہوں گے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ ۵ چھٹانک آٹے کو کانٹے کے تول تول کر دی جاتی ہے، بلکہ گرام کا انچارج جمعدار اس میں بھی کاٹ کٹوتی کرتا ہے۔ ۵ کی بجائے۵۰؍۴ چھٹانک کے حساب سے آٹا تول کر دیتا ہے، لانگری بے چارے کی کیا مجال کہ چوں کرے۔ لنگر پر لگایا ہی اسی سمجھوتہ پر جاتا ہے کہ اشارے پر کام کرے، بلکہ لنگر پر لگنا بھی ایک بڑی رعایت ہے۔ جو اسی کی قسمت میں لکھی جاتی ہے جو معقول معاوضہ سے داروغہ کو مطمئن کرے۔ جہاں کسی نے ذرا سرتابی کی، اسے لنگر سے ہٹایا اور دوسرے کو اس کی جگہ لگایا جاتا ہے۔ جب کسی لانگری کی جگہ خالی ہوتی ہے تو جیل میں گرما گرم بحثیں اور خوب چہ مگوئیاں ہوتی ہیں۔ قیدی فریق بندیوں کے مرض سے جیل میں بھی خالی نہیں ہوتے۔ ہر فریق کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ان کا آدمی لنگر پر لگایا جائے، کیونکہ کامیاب فریق کو پیٹ بھر کر روٹی ملنے کی امید ہو جاتی ہے اور دوسرے قیدیوں کو روٹی کا لالچ دے کر مشکور کیا جاتا ہے۔ اس طرح فریق مخالف کو کمزور اور اپنے جتھہ کو طاقتور بنانے کا موقع ملتا ہے۔ جب تک لانگری کا تقرر عمل میں نہیں آتا ، جیل میں ایسی گہما گہمی رہتی ہے، جیسی انتخاب میونسپلٹی کے موقع پر شہروں میں۔ ان دنوں سونا داروغہ کے جوتوں میں آ پڑتا ہے، چاندی اچھلتی ہے، خالی خوشامد کی وہاں قدر نہیں۔ داروغہ کی جیب کو جو حوصلہ سے بھرتا ہے، وہی کامیابی کا منہ دیکھتا ہے۔ لنگر پر لگ کر نہ صرف تمام اخراجات پورے ہو جاتے ہیں، بلکہ کچھ پس انداز بھی کرتے ہیں، ان کے لیے تو دن عید، رات شب برات ہو کر گزرتی ہے، مگر عام قیدیوں کے لیے بارہ مہینے رمضان ہوتا ہے۔
روٹی پر جوا:
۵۰؍۴ چھٹانک آٹا ملا تو ملازموں کے بچوں کو رو کر خاموش رہے۔ ۵۰؍۴ چھٹانک کا ۴ چھٹانک آٹا ہوا تو لانگری قیدی کی جان کو صبر کیا۔ غور فرمائیے! جب جائز و سائل سے شکم پری نہ ہو تو کیا ناجائز طریقوں کے جواز کا دروازہ نہیں کھل جاتا؟ آخر مرتا کیا نہ کرتا۔ چنانچہ بھوکے قیدی پسائی کے آٹے میں ریت ملاتے ہیں، جیل کے آٹے میں ریت کا اکثر یہی سبب ہے، جو قیدی شریف یا ڈرپوک ہوتے ہیں اور اس کی جرأت نہیں کرتے، ان کو سوائے اس کے چارہ نہیں کہ وہ یا تو لانگریوں کے سامنے عجز و انکسار سے دست سوال دراز کریں یا کم بھوک والے قیدی کے بچے کھچے ٹکڑوں کا سودا اور مول کریں۔ اکثر قیدی اسی وجہ سے روٹی پر جوا کھیلتے ہیں کہ اگر قسمت نے ساتھ دیا تو پو بارہ پیٹ بھر جائے گا، ورنہ پتھر باندھ کر سو جائیں گے۔ جو جیتتا ہے، وہ پیٹ بھر کر کھاتا ہے، جو ہارتا ہے، وہ روزہ رکھتا ہے۔ روٹی فروخت کرنے والے صرف لانگری اور کم خورے نہیں ہوتے، بلکہ تمباکو اور سگریٹ نوش بھی ہوتے ہیں، جو بھوک کو بخوشی برداشت کر لیتے ہیں، مگر بدعادات سے مجبور ہیں۔
آپ حیران ہوں گے کہ آیا جیل میں ملازمان کی بداعتدالیوں کا محاسبہ و نگرانی ہوتی ہے یا نہیں؟ گورنمنٹ کے کس محکمہ کی نگرانی نہیں ہوتی، مگر جو ہیرا پھیری اس جگہ ہوتی ہے، اس کا بیان بڑا دل فریب ہے۔ سپرنٹنڈنٹ جیل کی دیانت داری پر اصرار کیا جا سکتا ہے، تاہم بالکل عنقا نہیں ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ دن میں ایک دفعہ جیل میں تشریف لاتے ہیں، اگر خیال آ جائے تو لنگر میں بھی چلے جاتے ہیں، ان کے سامنے تو آٹا پورا کر دیا جاتا ہے، مگر جب آپ جیل کے باہر جاتے ہیں تو پھر نکال لیا جاتا ہے، لنگر کے ملاحظہ پر بٹوں کی ہیرا پھیری میں چالاک لانگری پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے۔ ان کے پاس تولنے کے بٹے اور دکھانے کے اور ہیں۔ اکثر اوقات ترازوں کے پلڑٹے کے نیچے آٹا چپکا کر آنکھوں میں دھول ڈال دی جاتی ہے۔ آٹے کی چوری میں حیرت انگیز دلیری سے کام لیا جاتا ہے، افسر سر پر موجود ہوتا ہے۔ لانگری مذکورہ بالا طریقوں سے بے غل و غش پیٹ کاٹنے کا کام سرانجام دیتا ہے۔ اسی طرح سبزی ترکاری، دال، تیل، نمک، مرچ ، مسالہ سے حصہ وضع کیا جاتا ہے۔ مگر سب سے زیادہ شکایت سبزی ترکاری کی کمی پر نہیں ہوتی، بلکہ روٹی کی کمی پر واویلا ہوتا ہے۔ حالانکہ حساب لگا کر دیکھا جائے تو ان چھوٹی چھوٹی اشیاء کی بددیانتی سے ملازمین کو نفع کثیر ہوتا ہے۔ سپرنٹنڈنٹ کی نگرانی کے باوجود بھی شکایت جوں کی توں ہی رہتی ہے۔ اعتراض و شکایات سے تنگ آ کر بغیر تفصیلات میں پڑے سپرنٹنڈنٹ رفع شکایات کا حکم دیتا ہے کہ سبزی روٹی جیل میں مینول کے مطابق ہو۔ ورنہ لنگر سے علیحدہ کر دیے جائیں گے، اب لانگریوں کی چابکدستی ملاحظہ ہو کہ آٹے میں پانی اندازہ سے زیادہ ڈال کر روٹی کوئلوں پر سینکے بغیر توے سے اتار لی جاتی ہے۔ جو وزن میں زیادہ اوپر سے پختہ اندر سے کچی ہوتی ہے۔ دال کے دانے کم اور چھلکے زیادہ ڈال کر سالن کا اندازہ زیادہ ہو جاتا ہے، سبزی کی کمی اکثر اوقات درختوں کے پتے پورا کرتے ہیں۔ لوہے کے ڈولوں میں سالن کو ڈال کر تیل گرم کر کے سالن پر گرایا جاتا ہے، دیکھنے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ تیل کے بارے میں فیاضی برتی گئی ہے۔ لانگری اور ملازم کا گھونگھٹ ایک ہوتا ہے۔ اور قیدی کی کمی خوراک اور ناقابل خوردنی غذا کو دیکھ کر اپنی قسمت کو روتا ہے۔
اس کمی غدا اور خرابی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس کو زندگی بھر کبھی سردرد نہ ہوا تھا، نت نئے امراض کا مریض ہو جاتا ہے۔ مرض تو آزاد کے لیے بھی عذاب ہی ہوتا ہے، مگر مریض قیدی بے کسی اور بے بسی کی بولتی تصویر بن جاتا ہے۔ جس کا بجز خدا کے کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ نہ غذا خاطر خواہ، نہ طبی مشورہ۔ اگر موت منہ مانگے مل سکے تو قیدی اس کی خواہش سے بھی منہ نہ موڑے۔ اگرچہ طبی اخراجات جیل میں روز افزوں ہیں، مگر ہسپتال شرمندہ احسان نہیں، جب کبھی قیدی کسی مرض کی شکایت کرتا ہے تو ڈاکٹر اس کو مشقت سے پہلو تہی پر محمول کرتا ہے۔ جب تک انسان پاؤں پر کھڑے ہونے کی تاب رکھتا ہے، تب تک کوئی توجہ نہیں دی جا سکتی۔ ہاں جو ڈاکٹر کو مناسب ٹیکس ادا کرے، وہ دودھ ڈبل روٹی اڑا سکتا ہے۔ ہولناک اور خطرناک صورتوں میں غریب قیدی داخل ہسپتال کیا جاتا ہے، مگر تدبیر اور علاج کے متعلق لاپروائی برتی جاتی ہے۔ کمپونڈر جو مریضوں کا نگران ہوتا ہے، وہ بلا لیے دیے کاٹی انگلی پر پیشاب نہیں کرتا، بجائے حسن سلوک کے، انھیں ستاتا ہے۔ اور درشت کلامی سے پیش آتا ہے۔ بیماریوں کے لیے دودھ کمزروں کے لیے دلیا اکثر تجویز کیا جاتا ہے۔ بڑے جیل خانوں میں منوں دودھ قیدیوں کے نام پر آتا ہے، مگر ان کا حلق تشنہ رہتا ہے اور دودھ کی نہر ڈاکٹر کے گھر میں جاری رہتی ہے۔ کچھ کمپونڈر کے پیٹ میں پڑتا ہے اور حصہ رسدی داروغہ کے بچوں کے کام آتا ہے۔ ہسپتال کا قیدی اردلی دوستوں میں تقسیم کرتا ہے۔ کچھ فروخت کرتا ہے، باقی دودھ میں پانی ڈال کر مریض اور کمزوروں کو دیا جاتا ہے۔ جیل میں مشہور ہے کہ روٹی کی نسبت دودھ آسانی ارزانی سے میسر آ سکتا ہے۔ اگرچہ پانی کی اتنی آمیزش ہوتی ہے کہ دودھ کا نام محض بدنام ہوتا ہے۔ یہی کیفیت دلیا کی ہے، نام کا میٹھا نشان کا دودھ ڈالا جاتا ہے۔ جب یہ دلیا بے دودھ تیار ہو چکتا ہے تو تمام وارڈر، قیدی، نمبر دار، اردلی ہسپتال کے اور منہ ملاحظہ والے قیدی بالٹیاں لے کر آ حاضر ہوتے ہیں اور بچا کھچا دلیا، بیماروں، کمزروں کو تقسیم ہوتا ہے۔ حکومت کی لاپروائیوں کے صدقے، دودھ کی بجائے پانی اور دلیا قیدیوں سے حیوانوں کے سے سلوک کی بھی شکایت نہیں، مگر جس وقت بے بس بیمار قیدی سے بدسلوک اور لاپروائی کا خیال آتا ہے تو انسان کی شقاوت قلب پر بجز اشک ریزی چارہ کار نظر نہیں آتا۔ متمدن اور مہذب ممالک کے قیدیوں کا سا سلوک ہندوستانی قیدی کا خبط ہے۔ دفتری حکومت کے ہاتھوں سردست جیل کی اصلاح امیدموہوم ہے۔ البتہ انسانیت کے نام پر تمام ملازمین جیل سے اپیل کرنی چاہیے کہ کم از کم قیدیوں کو انسان سمجھ کر ان سے سلوک کریں۔
بدمعاشی اور تلاشی:
جیل کے قیدیوں کی اصطلاح میں تمام ناجائز در آمد کا نام بدمعاشی ہے تمام اشیائے خوردنی جو حکام جیل کی اجازت کے بغیر ادنیٰ ملازمین سے مل کر اندر لائی جاتی ہیں، بدمعاشی کہلاتی ہیں۔ قید خانہ بدمعاشوں کا مسکن ہے، مگر یہاں شریف سے شریف بھی بدمعاشی کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ قید و بند کی مصیبت اور خوراک کی خرابی سے یہاں زندگی دشوار ہوتی ہے۔ بڑے سے بڑے تپسوی کا تپ بھنگ ہو جاتا ہے، جیل جاتریلوں سے پوشیدہ نہیں کہ تندرست قیدی کی خوراک میں کبھی میٹھے کا جزو نہیں ہوتا۔ اس لیے گڑ اور شکر جیل کی نعمت عظمیٰ میں سے ہے۔ جس کے خیال سے ہی قیدی کی رال ٹپکنے لگتی ہے۔ انسان کی جائز خواہش کو دبانے کے معنی اس کے اندر بغاوت پیدا کرنے کے ہیں، میٹھے کو غدا سے خارج کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ اکثر قیدی میٹھا منگوانے کے جرم میں سزا یاب ہوتے ہیں۔ ایک دن سپرنٹنڈنٹ جیل نے باوجود سخت نگرانی کے بدمعاشی کی درآمد کو روکنے پر اپنی ناکامی پر افسوس کیا اور مؤثر ذرائع کی جستجو کے متعلق مجھ سے ذکر کیا۔ یہ بات انھوں نے تسلیم کی کہ ممنوع اشیاء میں سے شکر اور سگریٹ نہایت کثرت سے اندر لایا جاتا ہے، میں نے انھیں بتایا کہ کس طرح ان قوانین کے ماتحت قیدی بدمعاشی پر مجبور ہیں۔ ایک چودہ سالہ تندرست قیدی جو ایمانداری سے قواعد جیل کی پابندی کرنا چاہے، وہ عہد شکنی پر بحالات موجودہ مجبور ہو جاتا ہے۔ چودہ سال تک نمکین غذا پر انسان قانع نہیں رہ سکتا، کیونکہ میٹھا بھی اس کی غذا کا جزو ہے۔ ضبط انسانی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ میٹھے پر پابندی لگانا قانون شکنی کی جرأت دلانا ہے، اگر اس کی روک تھام مقصود ہے تو نمکین غدا کے ساتھ میٹھی اشیاء کو شامل کرنا لازم ہو گا۔ اس بات کی معقولیت میں شبہ نہیں ہو سکتا، انھوں نے میری اس تجویز کا شکریہ ادا کیا کہ واقعی یہ خلاف فطرت پابندی ہے۔ باقی رہا سگریٹ کا کثرت استعمال، اس کے ممنوع ہونے میں کلام نہیں۔ مگر سوال اس کے ترک استعمال کا ہے۔ جس طرح انسداد کیا جا رہا ہے،وہ طریقہ بالکل ناکام اور بوسیدہ ہے۔ بہتر ہو کہ سگریٹ کے استعمال کو بتدریج کم کیا جائے۔ محض سزا کی دھمکی اور درآمد کی پابندی کافی نہیں۔ جس طرح شراب اور افیون کے عادی قیدی کے ساتھ ڈاکٹری سلوک ہوتا ہے، اسی طرح حقہ اور سگریٹ نوشوں کی علیحدہ فہرست بنا کر آہستہ آہستہ ان کی عادت کو دور کرنا چاہیے۔
چالبازیاں:
مگر حکام بجائے حکمت کے حکومت سے کام لینا چاہتے ہیں، جس کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ اصلاح کی بجائے قیدی اور بداخلاق ہو جاتے ہیں۔ باوجود حکام کے انتظامات کے جیل میں سگریٹ کی خرید و فروخت عام ہے اور ہر قسم کی تجارت جاری اور تمام چیزوں کی دکانیں کھلی ہیں۔ جیل اور بازار میں صرف بھاؤ کا فرق ہے۔ باہر بازاروں میں ارزاں اور اندر ہر شے گراں ہے۔ اس کی وجہ عیاں ہے۔ اوّل تو چھٹتے ہی روپے کی خرید پر ۲ آنے دلالی دینی پڑتی ہے، باقی رہے چودہ آنے، بازار میں جا کر وارڈر کا ایمان بدل جاتا ہے۔ ۱۴ میں دو آنہ اڑاتا ہے۔ باقی ۱۲ کی چیز خرید لاتا ہے۔ اس میں کچھ خود کھاتا ہے، کچھ اپنے بچوں کو کھلاتا ہے۔ باقی اونی پونی قیدی کے حوالے کرتا ہے۔ قیدی بے چارہ مول تول نہیں پوچھتا، اس میں بھی کچھ لانے والے کے ہاتھ دھرتا ہے۔ روپیہ دے کر آٹھ آنے کی چیز لے کر بھی شکریہ ادا کرتا ہے کہ یہ کہیں آنکھیں نہ بدل لے۔ باہر سے بدمعاشی منگوا کر قیدی کی جان پر بن جاتی ہے، کچھ کھاتا ہے، باقی کو چھپاتا ہے۔ مبادا کسی اور کو خبر نہ ہو جائے اور بدمعاشی تلاشی میں نکل آئے۔ جیل کی عمارت میں کوئی جگہ اشیاء کے چھپانے کی نہیں ہوتی، اس لیے یا تو زیر زمین دفن ہو یا چھت کے شہتیر میں چھپائی جائے۔ جس کام کو کئی کئی آدمی مل ملا کر کرتے ہیں، بے چارے قیدی کی اشیاء آمدہ میں بھی سب کو شامل کرنا پڑتا ہے۔ لطف یہ کہ جہاں قیدی چیز کو چھپا کر مطمئن ہو جاتا ہے، وہاں تلاشی کنندہ وارڈر آسانی سے آ کر اشیاء نکال لے جاتا ہے۔ ۱۴ آنے کی چیز کے چار روپے رشوت دیے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ رقم رشوت پر فیصلہ نہیں ہوتا۔ قیدی چار دیتا ہے، وارڈر یا داروغہ آٹھ مانگتا ہے۔ اس لیے قیدی کو رقم رشوت اور سزا پر غور کرنا ہوتا ہے کہ دونوں صورتوں میں کونسی اختیار کرے۔ ملازم کی بن آتی ہے، بڑھ چڑھ کر بات بیان کرتا ہے۔ قیدی منت و زاری کرتا ہے، جب رشوت کا فیصلہ نہیں ہو سکتا تو داروغہ ہسٹری ٹکٹ پر جرم کا اندراج کرتا ہے اور صاحب سپرنٹنڈنٹ کے سامنے قیدی کو کارروائی مناسب کے لیے پیش کرتا ہے۔ اسی کا نام پیشی ہے۔ (جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.