تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

میرا افسانہ

مفکر احرار چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ

قسط:۷

فاقہ کشی:

اب میں ملزم سے مجرم بن گیا تھا۔ لباس جیل سے بندہ کو بندر بنانے کی کسر باقی تھی۔ شام کے قریب بھگت سنگھ کو چہل قدمی کے لیے کھولا گیا، اس کے ہاتھوں میں آبلے اور آنکھیں نم ناک تھیں۔ عام طور پر اکثر اضلاع میں نمبر دار نادار ہوتا ہے، مگر آپ کھاتے پیتے گھر کے خاصی جائیداد کے تن تنہا وارث تھے اور بیوہ ماں کے ایک ہی بیٹے تھے۔تحریک ترک موالات سے قبل آپ کی شان ملاحظہ طلب تھی، بوٹ سوٹ، کالر ، نکٹائی سے کام تھا۔ افسر جس کے ہمرکاب ہوتے ماتحت معلوم ہوتا۔ معافی موت تھی اور مشقت دشوار ، بے چارہ و حیران تھا۔ میں نے انھیں ڈھارس دی، وقت کو خوشی طبعی میں ٹالا، میری کوشش رائیگاں نہ گئی۔ آپ پل بھر کے لیے ’’تان توڑ خان‘‘ بن گئے۔ بہ آواز بلند شبد گانے لگے ؂
اساں نہیں چھڈناں سوراج سیس تک کر دینا قربان
جیہڑا حوالات دا جنگلہ ہے او قیدیاں دا بنگلہ            جتھے کرنی ہے گزران سیس تک کر دینا قربان
اساں نہیں چھڈناں سوراج سیس تک کر دینا قربان                ہتھکڑی دا گہنا اساں پا محلاں وچ بہنا

ودھے دونی اساں دی شان سیس تک کر دینا قربان            اساں نہیں چھڈناں سوراج سیس تک کر دینا قربان
جیہڑی پھرنی دی اسواری اوہ ورزش ہے ہماری                  رہے تکڑی اساڈی جان سیس تک کر دینا قربان
اساں نہیں چھڈناں سوراج سیس تک کر دینا قربان
اگرچہ خوش گلوئی کی نعمت خدا نے عطا نہیں کی تھی، مگر میں وجد میں آ کر جھومنے لگا۔ اتنے میں داروغہ نے آن کر ڈانٹا اور تنبیہ کی۔ دوسری صبح انھیں دیکھ کر معلوم ہوا کہ ساتھی زیادہ ساتھ نہ دے سکے گا، بعد میں آپ طعنوں پر اتر آئے کہ آپ آج حلوا ڑائیں گے۔ مجھے بجائے رنج کے دل پر ٹھیس سی لگی، کیونکہ میں اس مصیبت کا محرک تھا، میری سرگرمیاں ہی انھیں میدان وفا میں لائی تھیں، سپرنٹنڈنٹ نے اسے گزشتہ کمی مشقت پر ڈانٹا کہ یہ جیل ہے، کھیل نہیں، مشقت پوری کرو ورنہ ٹکٹکی باندھ کر بید لگیں گے۔ میرے ملال و احساس میں اس سے اور بھی اضافہ ہوا، چنانچہ اس پر میں نے سپرنٹنڈنٹ سے کہا کہ مجھے چکی پر لگایا جائے، جواب ملا، آپ ایسے کام پر لگائے جا سکتے ہیں نہ وہ اس سے ہٹائے جا سکتے ہیں۔ بیوہ کے بیٹے اور سوداگر کے گھوڑے کی طرح اے کلاس کے قیدی کو غذا اچھی، کام ہلکا دیا جاتا تھا۔ بی کلاس کا ہی غریب قیدی ہے، جو کسان کے بیل کی طرح کولہو و کنواں چلاتا اور چکی پیستا ہے۔ شام کو معلوم ہوا کہ آپ کی مشقت کل سے بھی کم تھی۔ ہاتھ مشقت سے آبلہ اور جسم تھکان سے پھوڑا بن گیا تھا۔ میرا دل ان کی حالت دیکھ کر خون ہو گیا۔ ان کی مصیبت کو کم کرنا میرے بس میں نہ تھا، مگر شرکت کے لیے تیار ہو گیا، جب شام کو سپرنٹنڈنٹ پھر آئے تو میں نے ان سے کہا کہ چکی کی مشقت منتقمانہ ہے اور اگرچہ علم تعزیرات پر مجھے عبور نہیں، تاہم تعلیم یافتہ سے چکی پسوانے اور کولہو چلوانے کا اصول میری سمجھ سے بالا ہے۔ اخلاق، برداشت، کام، قابلیت کے پہلو پر غور کرو، یہ مشقت کسی لحاظ سے موزوں نہیں معلوم ہوتی۔ نہ تو محکمہ کو ایسی مشقت سے منافع، نہ قیدی کو کوئی فائدہ۔ میری اس تقریر کو اس نے خاموشی سے سنا اور خاموش چلے گئے۔ آخر میں، مَیں نے اپنی تخریب میں ہر سردار صاحب کی تعمیر کا راز مضمر پایا، کیونکہ میری معروضات کے مطابق انھوں نے مجھے پیسنے کو نہ دیا۔ میں نے کھانا نہ لیا، داروغہ میرے پاس دوڑا آیا کہ کھانا ضرور کھاؤ، جواب دیا کہ انھیں چکی سے ہٹاؤ۔ کہا کہ یہ ہٹ بے جا ہے۔ میں نے کہا بجا ہے۔ میر ے ساتھ فاقہ کشی میں سردار صاحب نے آمادگی ظاہر کی، میں نے کہا کہ یہ مشکل اور گھاٹی سخت ہے۔ آپ چکی چلایے اور میری استقامت کے لیے پرار تھنا فرمایے۔ غرض تین وقت رنج کھا کر پیٹ بھرا۔ میں پہلے ہی کاغذی جوان تھا، اب ہوا کے جھونکے سے ہلنے لگا۔ حکام کو میری ہلاکت کا احتمال ہو گیا، میرے مہیا بقضا ہونے نے آنکھیں کھول دیں۔ شاید صاحب ضلع سے مشورے ہوئے کہ قیدی کفن مانگتا ہے، رات گئی پر مجھے کہا گیا کہ عذاب بن کر کھانا کھاؤ۔ صبح بھگت سنگھ کو اس کام سے ہٹا دیا۔ اس معاملہ میں اب تک افسران جیل ہوشیار پور کا شرمندہ احسان ہوں۔ کامل غور و فکر کے بعد اس مرحلہ پر پہنچا کہ میری فاقہ کشی تشدد کا پہلو لیے ہوئے تھی اور میں اپنی ضد میں برسر غلطی پر تھا۔
چالان یا تبدیلی:
اس واقعہ کے دو دن بعد بزرگ ہوشیار پور پنڈت شام داس صاحب عزیز پنڈت درگاداس اسسٹنٹ سیکرٹری ڈسٹرکٹ کانگرس کمیٹی کی گرفتاری عمل میں آئی، مجھے اور میرے ساتھی کو انبالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ ہر سٹیشن پر پیش کردہ پھل، مٹھائی اڑاتے شام کو انبالہ جیل پہنچے۔ میرے ساتھی کے دل میں ابھی چکی کا خوف باقی تھا۔ بدقسمتی سے جو کوٹھڑی ان کو ملی، اس میں چکی لگی ہوئی تھی۔ سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے۔ سردار صاحب لرزہ براندام ہو کر بولے چودھری صاحب یہاں بھی چکی ہے، ان کا سانس پھولا ہوا اور چہرہ زرد تھا۔ مجھے ان کی حالت پر ہنسی آئی، حسن اتفاق اور ساتھی کی خوش قسمتی سے چکی کا سوال یہاں حل ہو چکا تھا۔ رڑکاں کلاں کے احرار قومی پنچایت کے سلسلہ میں پانچ پانچ سال کی قید بھگت رہے تھے۔ انھیں بھی پھرنی کے پھیر میں لانے کی کوشش کی گئی، انھوں نے چکی کے یہ کہہ کر چار پاٹ کر دیے کہ چکی کسی چوڑی والی سے پسواؤ۔ دانے زمین پر پھینک کر کہا کہ ہم زمیندار یہ کام کر سکتے ہیں، مگر جلد ہی الجھتا معاملہ سلجھ گیا۔ داروغہ نے کہا، اس کار سے تم بے کار اچھے۔ ہمارے پہنچنے سے پہلے دو سو کے قریب سیاسی قیدی آ چکے تھے، دن عید، رات شب برات ہو کر گزرتی تھی۔ ہاں ایک ناخوشگوار بات سننے میں آئی کہ چند رضاکاروں کو وحشیانہ زدوکوب کر کے قید تنہائی میں ڈالا ہوا ہے۔ ہوشیار پور جیل کی نسبت یہ جیل نہایت خستہ و خراب تھی، کوٹھڑیوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ بول و براز کے برتنوں کو دیکھ کر بلا مبالغہ کہا جا سکتا تھا کہ تعزیرات ہند کے اوّل سزا یافتگان کے زیر استعمال رہ چکے ہوں گے، کھڈیاں ہوشیار پور جیل کی نسبت چوڑائی میں کم تھیں۔ مجھے اس کا تلخ تجربہ اوّل رات ہی ہو گیا۔ میرے برتن کھڈی کے پاس ہی پڑے تھے اور میں کھڈی پر سو رہا تھا۔ رات کا آدھ بجا ہو گا کہ میں کروٹ بدلتے ہی برتنوں پر آ گرا، برتنوں کے شور سے ہنگامہ بپا ہو گیا۔ دور نزدیک کے پہرہ دار یہ کہتے ہوئے دوڑے کہ ارے قیدی کیا کرتا ہے، میں نے کہا کہ کھڈی سے گر گیا ہوں۔ پوچھا کہ کیسے؟ جواب دیا کہ پھر گر کر بتلاؤں کہ ایسے۔ وہ اس شبہ پر دوڑے تھے کہ شاید کوئی فراری کے لیے نقب لگا رہا ہے۔ جب انھیں میرے سیاسی قیدی ہونے کا یقین ہو گیا تو یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ جو دوڑ دوڑ کر جیل میں آتے یہیں، وہ بھاگ دوڑ کر کب جاتے ہیں۔ چوڑائی میں یہ کھڈیاں گھوڑے کی پیٹھ سے زیادہ چوڑی نہ تھیں، اسی لیے اکثر قیدی گر کو سوار ہوتے تھے۔ میں اس رات میں تین دفعہ گرا، اس سے یہ ضرور ہوا کہ میں شاہ سوار ہو گیا۔ چھے مہینے بقیہ قید کے عرصہ میں پھر کبھی نہ گرا۔ جیل ہوشیار پور میں مصروفیتیں زیادہ تھیں، اس لیے دیگر قیدیوں کے حالات سے ناواقف رہا۔ صبح کو اٹھ کر عہدے دار قیدی بہ استثنا سیاسی قیدیوں کے کوٹھڑیوں کے تالے کھول کر گنتی پکا رہے تھے، جب دیر بعد مجھے کھولا اور میں باہر نکلا تو دیکھا کہ اخلاقی قیدی دو دو قطار میں زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ نظارہ عبرت زا روح فرسا تھا۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک بھی شخص ایسا نہ تھا جس کے کپڑے میلے اور گندے نہ تھے۔ وہ بھی اس حد تک وحشت ہوتی تھی، اگر ستر پوشی مقصود نہ ہوتی، تو اس تن پوشی سے میں برہنہ بدن کو ترجیح دیتا۔ کم از کم اشرف المخلوقات حیوان سے بدتر تو دکھائی نہ دیتا۔ سورج کے آنکھ کھولتے ہی اکثر جوؤں پر ناخن تیز کرنے اور جسم کھرچنے لگے۔ ایک عہدہ دار قیدی سے میں نے پوچھا کہ یہ کیا حالت ہے، بولا بابوجی پھوٹی قسمت کا کیا پوچھتے ہو۔ ۶ ماہ میں دو جوڑے کپڑوں کے ملتے ہیں، ہفتہ میں ایک دن دھلوائی کا ہوتا ہے۔ وہ بھی قسمت سے پانی ملا تو ملا، اسی لباس سے دن کی مشقت اسی میں رات کو آرام۔ کپڑے کیوں میلے نہ ہوں، جوئیں کیوں نہ پڑیں، میں نے کہا جب پانی ملے اور موقع لگے بدن صاف کیا، کپڑا دھولیا۔ ہنس کر جواب دیا کہ موقع لگنے کی ایک ہی کہی ہے جیل میں یہ گھر کی کھل کھیل نہیں۔ نئے آئے ہو، ابھی تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو۔ اس جیل میں نقل و حرکت پر پابندیاں نہ تھیں، اس لیے تنہائی کو کوٹھڑیوں میں نظر بند رضاکاروں کو دیکھنے کے لیے چلا گیا۔ تفریح طبع کے لیے جب کبھی چڑیا گھر میں میرا جانا ہوا۔ جانوروں کو تانا سا تنتے دیکھا کرتا۔ بالکل اسی طرح یہ والنٹیر کوٹھڑی کے اس سرے سے اس سرے تک تانا تنتے تھے اور جنگلے کے قریب جا کر مجھے اسی قسم کی بدبو آتی۔ جس طرح چڑیا گھر کے جانور کے پنجرہ سے آتی تھی۔ چڑیا گھر کے جانوروں کو مصروف تک ودو دیکھ کر حیرت سی ہوا کرتی تھی۔ والنٹیرؤں کو رواں دواں دیکھ کر بات کھل گئی کہ غذا کے ہاضمے اور خون کے دورہ کے درست کرنے کے لیے چلنے پھرنے پر انسان و حیوان مجبور ہوتے ہیں اور بند مکان میں پاخانہ پھرنے کی وجہ سے عفونت لازمی تھی۔ والنٹیرؤں نے میرے پاس صفائی کی کمی کی شکایت کی کہ بعض دن پاخانہ بالکل اٹھایا تک نہیں جاتا۔ نیز انھوں نے اپنے خون آلود کپڑے مار پیٹ کی کہانی سنا کر بطور ثبوت پیش کیے۔ اس وحشیانہ زبردستی پر افسوس ہے کہ میرے پیشرو اسیروں نے بروقت صدائے احتجاج بلند نہ کی۔ اس معاملہ میں اب خاموشی کو مصلحت سمجھا، کیونکہ کوئی ریکارڈ جیل میں موجود نہیں، جس میں اس دردناک واقعہ کی تفصیل مذکور ہو۔
میں نے کورنٹین کے دس دن ایک ہی کوٹھڑی میں کاٹے، اس کے ملحق و متصل اسی کوٹھڑیوں کی سیدھی قطار تھی، جن میں زیر تجویز اخلاقی حوالاتی تھے۔ جس طرح اندھوں میں کانا خواہ مخواہ راجہ بن بیٹھتا ہے، اسی طرح میں ان پر حق حکومت جمانے لگا۔ ان سب کا بلامحنتانہ وکیل تھا۔ زیر تجویز قیدی یکے بعد دیگرے اپنے معاملہ میں مشورہ طلب کرتے تھے، میں بھی وہ پیر تھا جو ہر آئی بیوی کو بیٹا ہی دے کر دلبری کرتا ہے۔ کمزور مقدمات میں بریت کا ثبوت دلا کر مضبوط مقدمہ میں ملزموں کو ٹال دیا کرتا، تاکہ دل شکنی نہ ہو۔ انھی ایام میں کئی مقدمات میں میرے رائے کے مطابق فیصل ہوئے، پھر کیا تھا۔ قیدیوں کے سر پر میرا سایہ دراز رہنے کی دعائیں مانگی جانے لگیں۔ کچھ تو مٹھی چاپی میں مصروف اور کچھ حالات سنا کر جنبش لب کے منتظر رہتے۔ یہ دن بھی خوب کٹے۔ آخر کوٹھڑی سے نکال کر مجھے سیاسی قیدیوں کے ساتھ بارک (ایک لمبا والان) میں رکھا گیا۔ وہاں بھی دن کو علمی تذکرے رات کو سیاسی مناظرے رہتے۔ ملکی چال ڈھال پر گھنٹوں گفتگو رہتی، افسوس وہ دن بھی ہوا ہو گئے اور خواب خوش کی کی طرح ان کی خوشگوار سی یاد باقی رہ گئی۔ اس کے بعد وہ دور فرعونی شروع ہوا، جس کی داستان افسانہ درد بن کر پنجاب میں مشہور ہوئی۔ قبل اس کے کہ میں اس ماجرائے غم کو بیان کروں، مناسب ہو گا۔ اگر ان صحبتوں کا سرسری ذکر آ جائے، جو یاد جیل کی بہترین سرمایہ دار ہیں۔
لائحہ عمل:
خفتگان خواب گراں کو سحر شانہ ہلا کر جگاتی تو سب مصروف عبادت ہو جاتے۔ مسلمان نماز سے فارغ ہو کر تلاوت قرآن ہندو سندھیا کے بعد گیتا اور سکھ شبد کہتے۔ اسی طرح سیاسی قیدیوں کی بارکیں برکت سے معمور رہتیں۔ چائے کے وقت یعنی ۸ بجے کے قریب گلہ یعنی بیسنی روٹی ملتی۔ گورنمنٹ ریوڑ کی طرح لوگوں کو جیل میں بھر رہی تھی۔ کچھ وقت تو اوروں کی مزاج پرسی وحال پرسی میں گزر جاتا۔ کچھ لوگ مصروف مطالعہ اور کچھ بحث و مباحثہ میں وقت کاٹتے۔ ۱۲ بجے روٹی ملتی، پیٹ بھر کر سو جاتے۔ سو کر اٹھتے تو کھیل کود میں لگ جاتے۔ شام کے بعد پھر طعام۔ طعام کے خاتمہ پر کلام۔ ختم کلام کے بعد آرام کو سوجھتی۔ لیل و نہار کا یہی مختصر لائحہ عمل تھا، مگر رات اپنی گونا گوں دلفریبیوں میں دن سے بڑھ کر تھی۔ عسرت و فلاکت زدہ ہندوستان کی بے بسی کے ڈرامے کھیلے جاتے۔ رات کے سمے شاعر کا کلام اور خوش گلو کی زبان، تاثیر میں سحرِ سامری سے زیادہ مؤثر ہو ہو جاتی۔ سب کے سب سرمست و بے قرار، ہائے وائے کرتے، وجد میں آ کر جھومتے ؂
تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے               پر غیب سے سامان بقا میرے لیے ہے
پیغام ملا تھا ، جو حسینؓ ابن علیؓ کو        خوش ہوں کہ وہ پیغام قضا میرے لیے ہے
یہ حور بہشتی کی طرف سے ہے بلاا          لبیک ! کہ مقتل کا صلہ میرے لیے ہے
میں کھو کے تیری راہ میں سب دولت دنیا        سمجھا کہ کچھ اس سے بھی سوا میرے لیے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے                   یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
سرخی میں نہیں دست حنا بستہ بھی کچھ کم                 پر سر شوخی خون شہدا میرے لیے ہے
راحل ہوں مسلمان بہ صد نعرہ تکبیر                        یہ قافلہ یہ بانگ درا میرے لیے ہے
اﷲ کے رستے میں ہی موت آئے مسیحا                          اکسیر یہی ایک دعا میرے لیے ہے
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف               کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
سیاسی مباحثوں میں دھڑے بنتے، خوب ہی ٹھنتی تھی۔ مہاتما جی کا عدم تشدد کا اصول، مولانا حسرت کا پرتشدد پروگرام، حربہ و ہتھیار ہو کر ٹکراتے۔ حسرت کے حامی جب دلیل میں دب جاتے، تو مہاتما پرستوں کو ہاتھ دکھاتے۔ عدم تشدد کے داعی خاموشی سے مقابلہ کرتے، جلسہ برخاست ہو جاتا ہے، سب اپنی اپنی کھڈی پر جا کر سو جاتے۔ ایک دن یہی قضیہ درپیش تھا، بحث سے بات بڑھ گئی۔ دلدادگان آہنسا سر دینے کو تیار ہو گئے کہ یہ موری کی چھینٹ کی طرح سر آتے ہیں، ہم کیا کم ہیں۔ گھونسے کے مقابلے میں جوتا چلا ہی تھا کہ ہاتھ تھام لیے گئے۔ کسی نے کہا یارو! لڑائی حسرت کا مقام ہے، یہ فقرہ کئی دن کی بحث کا ثالثانہ فیصلہ تھا۔
آہنسا کی بطور دھرم کے کامیابی مشتبہ ہے، البتہ بطور پالیسی ایک لاثانی حربہ ہے۔ میں عدم تشدد پر اس حد تک یقین رکھتا ہوں کہ ہندوستان اسی اصول پر عمل کر کے آزادی حاصل کر سکتا ہے۔ مگر ایسی حالت پیدا ہونے کا بھی امکان ہے کہ ملک کو اپنی جدوجہد میں کوئی اور طریقہ اختیار کرنا پڑے۔ پُرامن ترک موالات آزادی تک پہنچنے کی مختلف راہوں میں سے آسان گزار راہ ہے۔ انفرادی اور اجتماعی مقابلہ کے تمام فطرتی جذبات کی معدومی کو ممکن سمجھ کر نفی انتقام کے اصول کا پرچار کرنا درست نہیں۔ انسانی برداشت کی آخر حد ہونی چاہیے، جب ہم قوت برداشت کو بڑھانے کی تبلیغ کرتے ہیں تو اس امر کا ضمناً اقرار کرتے ہیں کہ برداشت کی حد ہے۔ جب ظلم صبر سے بڑھ جاتا ہے تو مظلوم کی قوت مقابلہ چوگنی ہو جاتی ہے۔ بشرطیکہ صبر کے ساتھ علم شامل ہو، یعنی مظلوموں کی غفلت کو علم ہو کہ میں ظلم برداشت کر رہا ہوں۔ اگر ظلم کے ساتھ مظلوم کی غفلت شامل ہے تو یہ غلامی کی انتہا ہے، قرآن حکیم نے جہاں ظلم کے مقابلہ میں صبر کی ہدایت فرمائی ہے۔ وہ اس لیے کہ اگر ظالم جلد پشیمان ہو جائے تو معاملہ سلجھ جائے، اس میں دوسرا یہ راز مضمر ہے کہ اگر ظلم حد سے بڑھ جائے، تو جذبہ غضب مظلوم کی کمزوری کو پورا کر دے۔ الہامی کتابوں میں صبر کا یہ مفہوم نہیں کہ قوم کو ہمیشہ کے لیے تختہ مشق ظلم بنا رکھا جائے، بلکہ یہی کہ ظالم کو اصلاح اعمال کا جائز موقع مل جائے۔ ہندوستان آہنسا کی جنم بھومی اور مہاتما بدھ اس کے جنم داتا ہیں، گو تم راج پاٹ چھوڑ کر جب فرش خاک پر آبراجا تو کمزور کی صنف میں ایک گراں قدر اضافہ ہو گیا۔ اس کی تعلیم زور آوروں کو تنبیہ اور کمزور کی ڈھال تھی۔ کیونکہ آہنسا کے مخاطب زبردست ہیں نہ کہ زیر دست، بدھ کی ذاتی کشش اور قربانی نے آہنسا کو ہندوستان کا مذہب بنا دیا، مگر شہنشاہ پرستوں کی چشم دنیا دار منتظر موقع رہی۔ گوتم کی آنکھ بند ہوتے ہی سرمایہ داروں کی ہوس رانیاں جولانیاں دکھلانے لگیں، گورو شنکر اچاریہ جی کی جادو بیانی جب ہندوستان میں سحر طراز ہوئی، تو نسل انسانی کے دشمنوں نے گھات سے سر نکالا۔ احیاء مذہب کی اوٹ میں جوبن آیا کیا، برسوں کی کسر مہینوں میں پوری ہو گئی۔ سرزمین ہند خون غریباں سے لالہ زار ہوئی، گوتم بدھ مذہب کا بزور شمشیر جلاوطن کر کے آہنسا کے دعوے کا عملاً خاتمہ کر دیا گیا، مگر انفرادی طور سے کچھ نہ کچھ اثر باقی رہ گیا۔ اب تک ہندوؤں میں ماس کی جگہ گھاس، جیو ہتیہ کی جگہ جیو رکھشا اس کا ثبوت ہے، جماعتی طور سے سرمایہ داروں نے آہنسا کے اصول پر علی الاعلان عملدر آمد شروع کر دیا۔ راجگان ہند کی خانہ جنگیاں اس کی شاہد عادل ہیں، گوتم بدھ کے نروان کے بعد مسیح ناصری مددگار مظلوماں بن کر آیا، حفاظت خود اختیاری کی نفی مطلق کا ناکام وعظ ہوتا رہا، کمزروں سے ہمدردی دل میں رکھ کر زور آوروں سے عافیت کی توقع غلط ثابت ہوئی۔ حکومت کے غصہ کا شکار ہو کر سولی کا تختہ دیکھنا پڑا۔ عیسیٰ مسیح کی کمزور جماعت کی قسمت نے پلٹا کھایا، وہ زیردست سے زبردست ہو گئی۔ وہی مسیح کی بے چارہ بھیڑیں حکمران ہو کر خوانخوار بھیڑیے بن گئے۔ اقوام عالم کی آزادی آج جن کی آہنی ایڑی کے نیچے مسلی جا رہے اور وہ مظلوموں کی شور و پکار سے بالکل بے پرواہ ہے۔ قدرت ہمیشہ دنیا کی متضاد طاقتوں کو اعتدال پر لانے کی کوشش کرتی ہے، جب تشدد میں غلو کیا جاتا ہے تو عدم تشدد کا پیغام بر پیدا ہو جاتا ہے۔ جب کسی غلام قوم پر ظلم اس کی برداشت سے بڑھ جائے اور وہ ہاتھ نہ ہلائے تو حربی رہنما ظہور میں آتا ہے۔ اسرائیلیوں کے غلامانہ عدم تشدد کو اعتدال پر لانے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام پیغمبر بن کر آئے۔ جب خانہ جنگیوں سے دنیا میں اینٹ سے اینٹ بجنے لگی تو حضرت مسیح علیہ السلام پیغام امن لائے۔ ہندوستان میں اسی تاریخ کا اعادہ کرشن و گوتم سے ہوا۔ آہنسا اور ہنسا دونوں افراط و تفریط کی راہیں ہیں، جو ایک طرف انسان کو بھیڑ، دوسری طرف بھیڑیا بنا دیتی ہیں۔ خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم اُمّی و عربی ہجوم و دفاع کے اس سلسلہ میں آخری و کارگر علاج بن کر آئے۔ ان کی زبان معجز بیان پر ظالم و مظلوم دونوں کے لیے پیام تھا، ظالم کو ظلم سے ڈرایا، مظلوم کو فرش خاک سے اٹھایا۔ آہنسا و ہنسا کی دو انتہاؤں کے درمیان دنیا کو ایک اعتدال کا راستہ بتایا کہ دانت کا بدلہ دانت، آنکھ کا بدلہ آنکھ ہی ہے۔ ہاں جبر پر صبر کر سکو تو مستحسن ہے۔ گویا ظلم پر حلم کی اجازت بھی ہے اور حق حفاظت محفوظ بھی ہے۔ مقام مسرت ہے کہ تمام ملک کا عدم تشدد پر بطور پالیسی یقین تھا نہ کہ بطور دھرم کے اعتقاد۔
باردولی ریزولیوشن:
احباب کا سمند فکر بارہا رواں دواں باردولی پہنچا۔ التوائے سول نافرمانی پر کئی بار نقد و نظر ہوئی، وہاں بھی موہن و مولانا سرگرم کار تھے۔ اس ریزولیوشن کے حامی کہتے تھے کہ مہاتما کا شیشہ دل چورا چوری کی ہلکی سی ٹھیس سے چُور چُور ہو گیا، اس لیے رجعت کا حکم دیا، ایسا کرنے میں وہ برحق تھے، الا ملک میں انقلاب عظیم برپا ہوتا، کشتوں کے پشتے لگ جاتے، خون کے ندی نالے بہہ نکلتے۔ اس پر ایک شوخ مخالف بولا کہ اگر مہاتما کے آبگینہ دل کو ایک ٹھیس کی کسر تھی تو رہنمائی کی سل کیوں سینے سے لگا رکھی تھی؟ مگر یہ بحث بھی اس سوال کا ضمن تھی، جس کا ذکر صحبت اوّل میں گزر چکا ہے۔ اس لیے ایک صاحب نے بات اٹھائی کہ ملک سول نافرمانی کے لیے تیار ہی نہ تھا، یہ بات تھی بلا دلیل، بڑی لے دے ہوئی۔ کیونکہ یہ محترم رہنما کی دانائی پر برملا پھبتی تھی، جس نے حکومت کے الٹی میٹم کا احمد آباد کے ریزولیوشن سے جواب دیا۔ دشمن کے صف بہ صف مقابل ہو کر مقابلوں کی تدبیروں پر پانی پھیرتے رہے، عین اس وقت جبکہ حریف کا مخزن تدبیر خالی ہو چکا تھا اور احرار استبداد پر فتح حاصل کرنے والے تھے، سالار جنگ کو اپنی جماعت کی عدم تیاری کا خیال آ گیا اور حکم رجعت سے فتح کو شکست میں بدل دیا۔ مناظر کی تقریر اس کے اپنے برخلاف ایک دلیل تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ باوجود مہاتما کی تصریحات کے، اس کی پسپائی کی وجہ سمجھنے سے قاصر رہا اور اسے حق بجانب نہیں کہہ سکا۔ میں بار دولی کی قرار داد کو بزدلی پر محمول کرنے کی جرأت نہیں کرتا، مگر اس تلخ حقیقت کا صاف اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں کہ ملک پر اس کا نتیجہ وہی ہوا ہے، جو شاید شکست کی انتہائی ذلت بھی پیدا نہ کر سکتی۔ ملک بھر پر سکوت طاری ہے اور کانگرس کمیٹیاں دم توڑ رہی ہیں، قومی خزانہ یکسر خالی ہو چکا ہے۔ تیس ہزار نفوس کو پابندِ بلا کر کے پسپائی پر کوئی مبارکباد نہیں دے سکتا۔
خوش اعتقادی:
باوجود ان تمام باتوں کے ایک فریق تو مہاتما کو قطعی خالی از خطا سمجھتا تھا، چند نفوس ایسے تھے جو مہاتما کو خاطی سمجھنے کے باوجود بھی کسی نکتہ چینی کے متحمل نہ ہو سکتے تھے۔ نکتہ چینی نوک نشتر ہو کر دلوں میں چبھتی تھی، وہ ہر اعتراض پر یہی کہتے تھے کہ اس ظاہری شکست میں فتح کا راز مضمر ہے۔ بلاشبہ فتح تو اوالو العزم ہندوستان کی قسمت میں لکھی جا چکی ہے۔ جلدی یا بدیر۔ یہ ہماری سرگرمیوں پر منحصر ہے، ہندوستان غیروں کی غلامی سے تنگ آ گیا ہے، اس کی خواہش آزادی پر کوئی کارگر رکاوٹ زیادہ دیر تک نہیں لگائی جا سکتی۔ گورنمنٹ نے اصلاحات دے کر گویا حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی۔ سردست وہ کسی ایجی ٹیشن سے مرعوب نظر نہیں آتی، یہی سلطنت کے لیے خطرناک ہے، کیونکہ جس حکومت میں لچک نہیں آتی، اسے انقلاب کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ اگرچہ اس وقت ملک بھر میں جمود و سکوت طاری ہے، مگر مجھے کامل یقین ہے، گورنمنٹ خود بخود لوگوں کو بھڑکانے کا سامان کر لے گی۔ یا تو وہ ترکوں سے الجھے یا کوئی نیا قانون ایجاد کر کے اپنی تباہی کا خود ہی موجب ہو گی، اگر سول نافرمانی کا مرحلہ دوبارہ پیش ہوا تو رہنماؤں کا فرض صاف ہے کہ مزاج میں وہم نہ بڑھنے دیں، عین ممکن ہے کہ آگ لگا کر بی جمالو پھر دور کھڑی ہو جائے۔
گاؤ کشی اور چھوت:
ہندو مسلمانوں میں گاؤ کشی مابہ النزاع ہے۔ اگرچہ اس وقت سطح ملک پر خاموشی ہے، مگر اس خاموشی کی گود میں سو طوفان کھیل رہے ہیں، آپس کے اشتراک عمل نے اگرچہ کارہائے نمایاں کیے ہیں، مگر سینے ہنوز صاف نہیں۔ مستقبل کے ہند پر جب کبھی بحثیں ہوئیں تو یہی معاملات راہ میں روڑے نظر آتے ہیں۔ میں ہمیشہ اسی ٹوہ میں لگا رہتا ہوں کہ مجھے گاؤ کشی پر اصرار مل کر کھانے پینے سے انکار کی کوئی معقول وجہ مل جائے۔ مگر سینہ زوری اور خدا واسطے کی نفرت کے سوا کوئی بات نہیں پاتا۔ ایک دن ہندو، مسلمان احباب کی زبان سے ان کے دلی خیالات کی ترجمان ہوئی۔ طرفین کی رگیں جوش سے پھول گئیں اور غصہ سے کف جاری تھی۔ ہندو گاؤ کشی کو دل آزاری اور مسلمان چھوت کو مسلم آزاری بتاتے تھے۔ دل آزاری و مسلم آزاری میں دوران گفتگو میں بھی شبہ نہ تھا۔ اظہار جذبات کے سوا کسی کے پاس معقول دلیل نہ تھی، آخر وہی انجام ہوا جو ایسی بحثوں کا ہوا کرتا ہے۔ یعنی محبت کی بجائے نفرت کا احساس بڑھا۔ اگلے روز میرے ایک ہندو دوست نے پھر اعتراض کیا کہ مسلمان روادار نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ حقیقت سے واقف کار نہیں۔ ہندو قوم کے سوا محبت، خلق اور حفاظت ہمسایہ میں کوئی قوم مسلمانوں کے ہم پایہ نہیں کہلا سکتی۔ تمام ممالک اسلامی میں جاؤ اور دیکھو کہ اقوام غیر کو مسلمانوں نے وہ مراعات دے رکھی ہیں جو خود مسلمانوں کو باوجود حکمران قوم ہونے کے حاصل نہیں۔ یہ کسی سے دب کر نہیں، بلکہ اس کی تاریخ اسلامی طاقت کے شباب سے شروع ہوتی ہے۔ عیسائی یورپ سے ستائی ہوئی چھوٹی چھوٹی اقوام کو اپنے آغوش امن میں لیا، ترکوں کے ما تحت کثیر تعداد میں چھوٹی چھوٹی اقوام کا قیام اس کے شاہد عادل ہیں۔ آج وہی عطا کردہ مراعات کی شکل میں الٹی آنتیں بن کر ترکوں کے گلے پڑی ہوئی ہیں۔ دور کیوں جاؤ، چھوت کو لو۔ کیا یہ مسلمان شہنشاہوں کے وقت سے مروج نہیں؟ یوں تو اسلامی
عہد کی تاریخ کا کوئی ورق تعصب کے ذکر سے خالی نہیں، مگر حیرت ہے کہ چھوت جیسے نفرت زار رواج پر کسی مسلمان کے بگڑنے کا ذکر تک مرقوم نہیں ملتا۔ اس زمانہ میں بھی بڑے سے بڑا زمین دار و سرمایہ دار مسلمان جب کسی ہندو دوست کے ہاں جاتا یا دکان سے کوئی چیز خریدتا ہے تو جہاں اسے بٹھایا جاتا ہے، بیٹھتا ہے، جس طرح چیز دی جاتی ہے، لیتا ہے۔ اگرچہ اس میں اس کی صریح ذلت ہے اور بطور انسان کے وہ محسوس کرتا ہے، مگر تمھارے جذبات کا لحاظ کر کے تمھارے اشاروں کا منتظر رہتا ہے۔ کیا چھوت کے سامنے گردن جھکا دینا مسلمانوں کی مسلسل رواداری کا ثبوت نہیں، معلوم ہوتا ہے کہ میری یہ بات میرے ہندو، دوست کے لیے بالکل نئی تھی۔ جس کا میری توقع سے بڑھ کر اس پر اثر ہوا۔
اسلام میں ماکولات کی حلت و حرمت پر اگر غور کیا جائے تو گاؤ کشی پر اصرار کی وجہ نظر نہیں آتی، آفتاب رسالت کے ریگستان عرب پر پرتو فگن ہونے سے پہلے عرب میں حلال و حرام کی کوئی تمیز نہ تھی۔ آخر سورہ انعام نے حرمت کی حد باندھی، گائے کے حلال ہونے میں کیونکر کلام ہو سکتی ہے، مگر کسی چیز کے حلال ہونے کے معنی یہ نہیں ہو سکتے کہ استعمال نہ کرنا حرام ہے۔ مرفہ الحال مسلمانوں میں بہت ہی قلیل تعداد ایسی ہے، جو اس کا استعمال کرتی ہے۔ میں سچائی سے اس امر کو باور کرتا ہوں کہ اس سلسلہ کشمکش کا خاتمہ مسلمانوں کی غیرت اور ہمسایہ نوازی پر منحصر ہے۔ اسلام امن و آتشی کا مظہر اور اقوام عالم لیے صاف دعوت اپنے اندر رکھتا ہے، حسن سلوک میں دوسروں کا منتظر نہیں کہ کوئی قدم بڑھائے، بلکہ نیکی اور صلح میں سبقت مسلمانوں کا فرض اوّل ہے۔ مگر قانون کے ذریعہ انسداد گاؤ کشی فی الحال خواہ مخواہ کی چھیڑ اور ناعاقبت اندیشی ہے۔
(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.