مفکر احرار چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ
مولوی جتی چور:
ہر شہر کے بے فکرے اور بے کار لوگوں نے کسی نہ کسی غریب کو تفریح کا سامان بنایا ہوتا ہے۔ امرتسر میں مولوی گاما عرف جتی چور لوگوں کا تختہ مشق تھا۔ بچے بوڑھے سب کی دل لگی کا سامان یہی شخص تھا۔ رؤسا اور امراء کی محفلوں میں زینت تھا، وہ اس کو جوتے لگاتے، یہ ان کو گالیاں دیتا۔ جب یہ تنگ آ کر سخت مشتعل ہو جاتا تو لوگ فوراً ہاتھ باندھ کر کہتے کہ مولوی صاحب معاف کر دو۔ یہ سن کر واقعی اس کا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا اور پھر بغیر حرف شکایت زبان پر لائے وہاں سے چلا جاتا۔ چند قدم پر جاتا تو اور بے فکر مل جاتے۔ اس کی ٹوپی اٹھا کر اس کی چندیا پر چپت جماتے۔ اکثر لوگوں کے تشدد سے کہیں پناہ نہ پا کر وہ عدالتوں میں چلا جاتا، وہاں وکلا کی کرسیوں پر بیٹھ جاتا۔ اس طرح مار پیٹ سے محفوظ ہو جاتا۔ کبھی کبھی وہ وکلا کو فرماتا کہ برخوردار ٹھیک بحث کرنا، کبھی عدالت قہقہوں میں گم ہو جاتی، گھڑی دو گھڑی عدالت میں بھی دل لگی ہوتی۔ نظیر کو مولوی موصوف سے بڑی دلچسپی تھی۔ جب دیکھو نظیر مولوی صاحب کا پتہ پوچھتا تاکہ دل و دماغ کی ضیافت کا سامان ہو جائے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کھیل کے میدان میں مسلمان سب قوموں سے نمایاں تھے، والدین کو خیال تھا کہ ہمارے بچے جسمانی تربیت میں کسی سے کم نہ ہوں،کہیں ایسا نہ ہو کہ ملّت کی ہوا خیزی کا باعث بنیں۔ کرکٹ کے سوا کسی اور کھیل کا رواج ابھی نہ ہوا تھا، اس لیے اسی میدان میں قوموں کی زور آزمائی ہوتی تھی۔ اسلامیہ ہائی سکول امرتسر شہر کے مسلمانوں کی عزت کا محافظ تھا۔ دس برس کے بعد شاید کہیں دوسروں کے سامنے خاک چاٹنا پڑتی تھیں، بس یہ قومی شکست کا دن سمجھا جاتا تھا۔ ہر چہرہ اداس نظر آتا تھا۔ جب جیت ہوتی تھی تو گھر گھر ’’ لا قہوہ‘‘ کی آواز سنائی دیتی تھی۔ کھلاڑیوں کا ہر زبان پر چرچا ہوتا تھا۔واہ صاحب واہ! فخر الدین کی کیا بات ہے، بس باؤلنگ اس پر ختم ہے ، کہہ کر وکٹ لیتا ہے، لیکن محمد سعید نے جو کیچ لیا بس اس نے کھیل کا پانسہ پلٹ دیا۔ یار وکٹ کیپر کو کوئی داد نہیں دیتا۔ اس نے ایک بھی تو گیند نکلنے نہیں دیا۔ بھئی ہمارے سکول نے فیلڈ میں تو کمال کیا، کس طرح جمے رہے۔ کرکٹ کے معرکے کا دن مولوی ’’جتی چور‘‘ کی خاص خوشی کا دن ہوتا تھا۔ خواہ کتنا پٹتا، کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے برابر شاباش شاباش کی آوازیں دیتا، وہ میدان کے گرد گھومتا، لوگ اس کے گرد گھومتے۔ کرکٹ گراؤنڈ کی دلچسپی بڑھ جاتی۔ لوگ کبھی کھیل دیکھتے، کبھی مولوی صاحب سے دل لگی کرتے۔ ایک سال سکھ سکول سے بڑا معرکہ پڑا۔ اسلامیہ سکول شکست سے بال بال بچا۔ شکست کی بھاری صورتیں پیدا ہو کر کھیل میں فتح ہو جائے تو فاتحین کی خوشی کا کیا اندازہ ہے۔ اسلامیہ سکول کے لڑکے خوشی سے اچھل پڑے، پگڑیاں ہوا میں لہرائیں، نعرہ تکبیر سے آسمان گونجا۔ مولانا کی اچھل کود کا تماشا قابلِ دید تھا۔ مولانا کا بھدا سا رقص، ان کا ہاتھ اٹھا کر چٹکیاں بجانا، حسین رقاصہ کے کمالِ فن سے زیادہ جاذب توجہ تھا۔ تماشائیوں کا ایک ہجوم تھا، مولوی صاحب پر ایک وجد اور خوشی کی کیفیت طاری تھی۔ اس کیفیت کے کیف سے دیکھنے والے بھی سرشارتھے۔ خلافِ عادت اس وقت ان کی چندی پر کوئی چپت نہ جماتا تھا۔ یک بیک نظیر بھیڑ کو چیرتا ہو آیا اور مولانا کے بازؤں کے گرد ہاتھ حمائل کر کے اس طرح جلدی جلدی زمین سے اس کو اٹھاتا اور اسے دھم سے گراتا رہا گویا کوئی پختہ کار مزدو ’’درمٹ‘‘ سے سڑک کوٹتا ہے۔ مولانا کو کسی نے آج سے پہلے ایسی مداخلت پر یوں غضبناک نہ دیکھا تھا، جونہی نظیر نے اس کو چھوڑا، وہ اس کے پیچھے بھوکے شیر کی طرح بھاگا۔ آمنے سامنے ہو کر ناک پر ٹکر ماری ، نظیر لڑکھڑا کر گرا اور ناک سے نکسیر بہنا شروع ہو گئی۔ وہ شرمندہ اور سرفگندہ خون صاف کرتا جا رہا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ سالا مولوی ٹکر خوب مارتا ہے۔
جیسا کہ اس سے قبل ذکر کر چکا ہوں، باتوں کی بجائے ہاتھوں سے زیادہ کام لینا اس زمانے میں تعلیم کا اہم گر سمجھا جاتا تھا۔ نرم دل استاد تعلیم کے ناقابل قیاس کیا جاتا تھا۔ ہماری جماعت کو جغرافیہ پڑھانے کے لیے ایک نیا ستم پیشہ شخص مقرر ہوا، گھنٹی بجی، اس استاد کے پڑھانے کا وقت آیا۔ میں بنچ کے نیچے پڑے بستے سے کتابیں نکالنے کے لیے جھکا ہی تھا کہ کسی نے آ کر اس زور سے کمر میں چابک رسید کیا کہ میں بلبلا اٹھا۔ کسی طالب علم کا ظلم سمجھ کر اس کو گلے سے پکڑنے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ سامنے ماسٹر صاحب نظر آئے۔ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کا معاملہ تھا۔ کمزور کی طرح جبر پر صبر کیا مگر سارا گھنٹہ کمر سہلاتا رہا۔ وقت گزر گیا، معلوم ہوا کہ ماسٹر صاحب کو مار پیٹ کی خاص مہارت تھی۔ جہاں وہ پہلے ٹیچر تھے وہاں بھی ان کا ہاتھ یوں ہی رواں تھا مگر آج انھیں شامتوں نے آن گھیرا۔ کسی بے گناہ کی بد دعا لگ گئی۔ دوسرے سیکشن میں جا کر میری طرح بے خبری میں کرکٹ کے کیپٹن کی کمر پر زور سے چابک رسید کیا، اس نے بھی میری طرح سمجھا کہ یہ کسی مخالف طالب علم کا وار ہے۔ شدتِ درد سے وہ بلبلایا اور مارے غصے کے آنکھوں سے شرارے نکلے۔ پلٹتے ہی اس نے مولانا کا ٹیٹوا دبوچا۔ وہ گبرو جوان مولانا اس کی ٹکر کے کہا ں تھے، اس نے آنکھ جھپکتے مولانا کو ہموار کیا اور چھٹتے ہی حضرت کی کنپٹی پر اس زور سے مکے رسید کیے کہ مولانا نے بے تاب ہو کر خدا اور رسول کی دہائی دی۔ کرکٹ کیپٹن نے غور سے دیکھا تو نئے ماسٹر صاحب کو فریاد و فغان کرتے پایا، پھر تو گھبرایا کہ میں نے استاد پر وار کیوں کر دیا۔ ندامت کے باعث دانتوں سے ہاتھ کاٹنے لگا مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ فوراً سب جماعتوں کو سکول ہال میں جمع ہونے کا حکم آیا، پھر مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مولوی صاحب کو پیٹ دیا۔ مولوی صاحب پٹ پٹا کر دنبہ ہو گئے۔ مدرسہ کے تمام طالب علموں کو جمع کیا گیا اور سب کے سامنے اس طالب علم کو بید لگوائے گئے، سکول کے منتظمین نے اچھا کیا کہ مولوی صاحب کو ایک ماہ کی تنخواہ دے کر مدرسہ سے رخصت کر دیا۔
عبادت:
گھر بھر کے مذہبی رجحانات کے باعث مجھے بھی بچپن میں عبادت کا شوق ہو گیا۔ اس زمانہ میں شاید ہی کوئی نماز قضا ہوتی ہو۔ فرض چھوڑ کر نوافل میں رغبت زیادہ تھی، اُس زمانہ میں اِس دور کی نسبت لوگوں کی مذہبی سیرت بہتر تھی۔ اس زمانہ میں بعض ایسے مذہبی علماء بھی تھے جو گو قولی عبادت میں مصروف تھے، مگر انگریزی سلطنت کے اثر و رسوخ سے بے پروا تھے۔ مجھ پر ان کی سیرت کا بے حد اثر تھا، میں محلہ کی مسجد میں گھنٹوں تنہا رہا کرتا تھا، ایک روز مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہوئی، یک بیک طبیعت میں اطمینان بڑھنا شروع ہوا، اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔ میں اس وقت پانی میں مچھلی کی طرح آسودہ تھا، میرے منہ کا ذائقہ ایسا خوش گوار ہو گیا کہ زندگی بھر میں کسی خوش ذائقہ پھل سے وہ حلاوت نصیب نہیں ہوئی، ذائقہ کی یہ صورت خاصی دیر قائم رہی۔ فرحت قلب کئی گھنٹے جاری رہی، کئی روز کے بعد ہمارے دینیات کے استاد جو شب زندہ دار بڑے پرہیز گار تھے، فرمانے لگے کے بعض اوقات خدا انسان پر مہربان ہو کر اس کی زبان کا ذائقہ ایسا بدل دیتا ہے، گویا وہ بہشت کے پھلوں سے لذت اندوز ہو رہا ہے، میں خوش خوش پھر مسجد میں گیا کہ خدا کی مہربانی کا پھل کھاؤں، طبیعت کو یکسو کرنے کی بڑی کوشش کی، کچھ مزا نہ آیا۔ ناکام اٹھا تو معلوم ہواکہ کوئی میرا جوتا اٹھا کر لے گیا ہے، اب تو پہلا مزا بھی کرکرا ہو گیا، ندامت سے گھر پہنچا تو جوتا کھو جانے پر سخت فہمائش ہوئی، میں پھر زبان کا مزا ڈھونڈنے کے ارادے سے مسجد میں نہیں گیا۔
اگرچہ میں عام بچوں کی طرح کھلنڈرا تھا، مگر انگریزی کھیلوں سے کوئی شغف نہ تھا۔ گلی ڈنڈا، کبڈی، کبھی کبھار، کشتی محبوب مشغلہ ہوتا۔ ایک دن ہم کبڈی کھیل رہے تھے، ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنے کے باعث کتا جو سڑک پر جا رہا تھا، ڈر سے بھاگا اور سادھو کی ٹانگوں سے لگا، جو کشکول میں آٹا لیے کھڑا کبڈی تماشا دیکھ رہا تھا۔ سادھو پٹاخ سے زمین پر گرا، آٹا مٹی میں مل گیا، سادھو کے پاس ایک اور تماشائی کھڑا تھا، اس نے اسے پکڑ لیا کہ مجھے تونے گرایا ہے۔ وہ بے قصور ہونے کی ہزار قسمیں کھاتا تھا لیکن سادھو ماننے میں نہ آتا تھا۔ ایک شخص نے کہا کہ کتے کے دھکے سے بڑے بڑا پہلوان گر جاتا ہے، مجھے یہ باور نہ آتا تھا۔ کئی سال کے بعد اتفاق سے مجھے اسی طرح کتے کا دھکا لگا، میں سٹ سے زمین پر گرا، اگر وہ واقعہ یاد نہ ہوتا تو میں بھی کسی راہ گیر کو پکڑتا۔ اس روز میں نے ایسی چوٹ کھائی کہ کتے کے دھکے سے سخت ڈر رہتا ہے، شکاری کتوں سے بھی دور رہتا ہوں۔ اسی طرح کتیا ایک دن بچے دیے پاس بیٹھی تھی، میں پاس سے گزرا، اس نے نہایت خاموشی اور تہذیب سے اٹھ کر میری ٹانگ لی۔ مجھے یوں معلوم ہوا کہ ٹانگ کسی نے شکنجے میں کس دی ہے،میں نے ہائے دہائی مچائی، پھر اسے خود ہی خدا کا خوف آ گیا۔ دانتوں کے کچھ تھوڑے سے گہرے زخم لگا کر چپ چاپ چھوڑ کر نہایت اطمینان سے اسی جگہ جا بیٹھی، گویا میرے ساتھ اس نے کوئی واقعہ ہی نہیں کیا۔
۱۹۰۸ء میں نویں جماعت میں داخل ہوا، یہاں خود استاد کم مارتے تھے، لیکن ایک دوسرے کی ناک پکڑ کر چپت مارنے کا حکم دیتے تھے۔ یا ایک دوسرے کے کان پکڑ کر اٹھنے بیٹھنے کو کہتے تھے، ایک روز سیکنڈ ماسٹر نے مانیٹر کو حکم دیا کہ ایک غبی لڑکے کو ناک سے پکڑ کر مارے۔ لڑکے کو ناک میں کھجلی ہوئی یا شرارت سوجھی کہ اس نے مانیٹر کے ہاتھ میں ناک چھینک دی، سیکنڈ ماسٹر نے اس کو بری طرح پیٹا۔ وہ لڑکا تو سکول سے چلا گیا، لیکن ناک پکڑنے کی سزا دینے کی رسم ختم ہو گئی۔ اس زمانے میں میرا مذہبی یقین شہادت کی نذر ہونے لگا اور ہستی باری تعالیٰ کے متعلق باوجود عقل کی گواہی کے دل بے یقین سا ہو گیا۔ اس کی عظمت و جلال کی شہادت کے لیے گو قدرت جلووں کی دنیا آنکھوں کے سامنے بے نقاب کر رہی تھی، لیکن دل سے اطمینان جاتا رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ یقین ایک جنت تھی جو مجھ سے چھین لی گئی ہے اور بے اطمینانی کے دوزخ میں ڈال دیا گیا ہوں، میں نہیں کہہ سکتا کہ کتنی دعائیں اس یقین کو واپس لانے میں صرف ہوئیں۔ ایک دن میں پریشان حال ملکہ کی مورت کے پاس سے گزر رہا تھا کہ ایک عورت جو حسن کا کشمیر تھی، سامنے سے گزری، ہر چند حسن و عشق نے دل میں جگہ نہ پائی تھی، مگر رنگ و نقش کے اس امتزاج کو دیکھ کر خدا یاد آ گیا۔ زبان سے نکلا یہ اشرف المخلوقات بغیر پیدا کرنے والے کے پیدا نہیں ہو سکتا، یقین نے پھر طبیعت پر اطمینان کی جنت کے دروازے کھول دیے۔
سنتا ہوں کہ بہت سے لوگ خدا کے قائل نہیں، میں اس کا یقین نہیں کر سکتا۔ دل میں شبہ کی عارضی کیفیت تو پیدا ہو سکتی ہے، لیکن ہزار در ہزار جلوؤں کی اس جنت گاہ دنیا میں ہستی باری تعالیٰ کا کوئی کب تک انکار کر سکتا ہے اور خدا کا انکار کر کے اطمینان کی زندگی کیسے بسر ہو سکتی ہے۔ خدا کی ذات میں شبہ میرے لیے ایک دردناک عذاب تھا۔ وہ بڑے ہی عجیب و غریب لوگ ہوں گے جو منکر خدا ہو کر مطمئن ہیں۔
بے اطمینانی کے اس دور میں، مَیں نے اس بزرگ کے ہاتھ پر بیعت بھی کی اور کئی سال تک ذکر و شغل جاری رہا۔ اسی سن میں شہر میں ہیضہ پھوٹا، ہمارے محلے میں بھی وبا پھیلی، لوگ دوسروں کے کندھے پر چڑھ کر خدا گنج پہنچنے لگے۔ مسلمان عام طور پر موت سے ہراساں نہیں ہوتے، سب مہیا بقضا تھے۔ ساتھ ہی معمولی کاروبار بھی جاری تھی، یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن وہ تقدیر کے ایسے قائل تھے کہ مناسب علاج و معالجہ اور ضروری صفائی سے بھی غافل رہتے تھے۔ یہ صورتِ حال صاف طور پر غیر اسلامی تھی، تقدیر سے آخری وقت تک جان توڑ لڑائی لڑنا مسلمان کی شان ہے۔ موت کا مقابلہ کرنا، وبا کو گھر میں گھسنے نہ دینا بھی ہمارے فخر کا سامان ہے، موت اور وبا کا آسان شکار ہو جانا اسلام نہیں۔ مسلمان ہی موت کے منہ میں لوہے کا چنا ہے، وہ موت سے نہیں ڈرتا۔ ہاں اس کے حملہ کو ہوشیاری سے بچا کر خطرے سے نکل جاتا ہے، اس کا پہلو بچانا بزدلی نہیں۔ وہ موت کے لیے میدان خالی نہیں چھوڑتا، بلکہ جم کر لڑتا ہے اور تن کر مقابلہ کرتا ہے، مسلمان موت سے خائف نہیں، البتہ اس کا بہادر دشمن ہے، بے شک اس کے حملہ سے کھیت بھی رہتا ہے۔ زندگی میں ہار جیت ہوتی ہی ہے، لیکن موت اور وبا کا مقابلہ میں ہاتھ پاؤں کا نہ ہلانا اس دشمنِ جان کے بلاوے پر ہنسی خوشی چلے آنا آدمیت نہیں۔ موت اور وبا آئے زور سے لے جائے، لیکن نامردوں کی طرح بغیر صدائے احتجاج بلند کیے ساتھ ہو لینا انسانیت کے لیے خطرہ ہے۔
کچھ عرصہ ہوا، میرے ایک غیر مسلم دوست نے کہا کہ مسلمان اپنی گندی عادات اور برے اعتقادات کے باعث موت اور بیماری کا تر نوالہ ہیں۔ اس طعنہ کو سچ کر دکھانے سے ہمیں شرمندہ ہونا چاہیے، ہمارا مذہب ان دونوں الزامات کی ضد ہے، لیکن مسلمانوں کا کیا کیا جائے کہ ان کے اعمال ایسی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ اپنے گھروں کی صفائی اور بری تقدیر سے لڑائی ہمارا شیوہ ہونا چاہیے، خواہ ہم اقتصادی طور سے کیسے بدحال کیوں نہ ہوں، ہمیں اپنی صحت اور صفائی پر توجہ دینی چاہیے، تاکہ ہم پر نفرت کی نگاہ نہ پڑے۔ اپنی کامیابی کے لیے تمام ذرائع اور سارے اسباب مہیا کرنے چاہئیں کہ نیکی اور بھلائی میں کوئی قوم ہمارا مقابلہ نہ کر سکے، خدمت کی بنا پر عظمت حاصل کرنے کا بچوں کو شوق دلانا چاہیے۔
میرے محلے میں وبا پھیلی، اس کی لپیٹ میں میں بھی آ گیا۔ مجھ پر موت کا کوئی خوف و ہراس نہ تھا، لیکن گھر کی صفائی اور علاج سے پرہیز نہ کیا، جان بچ گئی۔ صحت کے لحاظ سے زندہ درگور ہو گیا، خدا جانے ہیضہ ہونے سے جسم میں کیا زہر پھیلا کہ پھر طبیعت پورے طور پر بحال نہیں ہوئی۔
میرے حافظہ کا عجب حال ہے۔ بعض واقعات تو لوحِ دل پر پتھر کی لکیر کی طرح محفوظ رہتے ہیں اور بعض نقش بر آب ہوتے ہیں۔ خصوصاً نام اور پہچان بہت کمزور ہے، عزیز سے عزیز دوست کا نام بھول جاتا ہوں، کبھی ایسا بھی ہوا کہ اپنا نام بھی یاد نہیں رہا۔ میں ایک موقع پر مسلم لیگ کا ٹکٹ لینے لگا، روپے دے دیے، ٹکٹ داخلہ پر میرا نام لکھنا تھا۔ کلرک نے کہا کہ آپ کا اسم شریف؟ میں اپنا اسم شریف بھول چکا تھا، میں ناک صاف کرنے کے بہانے کھڑکی سے ہٹا، پرے جا کر جیب میں ہاتھ ڈالا کہ میرے نام کا کوئی کارڈ یا لفافہ ہو، مگر اس کوشش میں ناکامی ہوئی۔ میں بھولے بھٹکے کی طرح پریشان کھڑا تھا کہ مجھے ایک شخص نے نام پکار کر آواز دی، اپنا نام سن کر میں کھڑکی طرف لپکا اور نام بتا کر ٹکٹ لیا۔
باوجود خرابی صحت کی انٹرنس اسلامیہ سکول امرتسر میں پاس کر کے لاہور اسلامیہ کالج میں داخل ہو گیا۔ یہاں آ کر معلوم ہوا کہ صحت تعلیم کا ساتھ نہ دے سکے گی۔ تاہم کوشش جاری رکھی، غلطی سے سائنس اور حساب دونوں لے لیے، نتیجہ یہ ہوا کہ کالج میں کامیابی کی امید مشتبہ ہو گئی۔
میری سائیکل:
کالج میں آ کر میں نے بائیسکل سیکھنا شروع کیا۔ پرانی سی بائیسکل مل گئی، مجھے ایک ہفتہ کے اندر چڑھنے کی مہارت تو ہو گئی، مگر چلانے کی پوری مشق نہ ہوئی، نتیجہ یہ تھا کہ آدمی جدھر بچ کر جاتا تھا میری بائیسکل اس کا تعاقب کرتی تھی۔ توجہ آدمی کی طرف ہونے کے باعث بائیسکل کا رخ بھی ادھر ہو جاتا تھا، کئی دفعہ پر کئی شریفوں کی ٹانگوں میں بائیسکل پھنسانے کی نادانستہ کوشش کی، کئی مجھ پر غصہ ہوئے، کئی ایک پر میں ناراض ہوا۔ شہری لوگ مجھ کو اناڑی سمجھ کر میرے سر ہوتے تھے کہ ہاتھ سیدھا نہیں ہوا اور بابو صاحب سائیکل سوار ہو گئے۔ دہقانوں پر بے جا رعب جماتا تھا کہ راہ دیکھ کر نہیں چلتے، اس صورت سے تنگ تھا، خیر آہستہ آہستہ ترقی کی۔ ایک دن موچی دروازہ کی نشیب کی طرف سوار آ رہا تھا، پرانی سائیکل ہونے کے باعث نہ بریک لگتی تھی، نہ گھنٹی بجتی تھی، گھنٹی کا فرض زبان کو ادا کرنا پڑتا تھا۔ بائیسکل بدکے ہوئے گھوڑے کی طرح اوپر سے نشیب کی طرف سرپٹ روانہ ہوئی، میں برابر ہٹو پکار رہا تھا۔ شامت اعمال ایک برقعہ پوش عورت کٹے ہوئے پتنگ کی طرح سڑک کے کنارے کنارے جا رہی تھی، میرے شور سے گھبرا کر سرک کے دوسری طرف بھاگی، نہ بائیسکل میں بریک تھی، نہ میں ایسا مشاق تھا کہ بی بی سے بچ نکلتا، نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں راہ بیچ گرے۔ عورت نے پڑے پڑے ہزار صلواتیں سنائیں، کسی نے عورت کو سنبھالا، ایک نے میرے کپڑے جھاڑے، میں اس کی مہربانی کا شکریہ ادا کر کے پھر سائیکل پر چڑھ گیا۔ شومئی قسمت سے آگے سڑک پر چھڑکاؤ ہوا ہوا تھا، مجھے یہ علم نہ تھا کہ بائیسکل بھی پھسل جاتی ہے۔ بائیسکل جو پھسلی، میں پھر زمین پر آ رہا، اس دفعہ تو یوں معلوم ہوا کہ کوئی دیو زاد مجھے زمین پر پٹخ گیا۔ جگہ جگہ زخم لگے، بصد مشکل میں کالج پہنچا، اس دن سے اس شیطانی چرخہ پر چڑھنے سے توبہ کی۔ اگرچہ اب بھی لوگوں کی ٹانگوں میں بائیسکل پھنسانے کی مہارت رکھتا ہوں، لیکن بغیر اس کے گزارہ کر لیتا ہوں۔
اسلامی دنیا:
انگلستان دنیائے اسلام کے حصے بخرے کر کے اس کی تقسیم میں حظ اٹھا رہا تھا۔ ۱۹۱۱ء میں اس کی مصلحت نے طرابلس کو اٹلی کے حوالہ کر دینا چاہا، ہر گوشۂ ملک میں مسلمان اپنے نفع اور نقصان سے بے خبر تھا۔ طرابلس کا عرب اس کلیہ کی استثنا نہ تھا۔ انگلستان کی شہ پا کر اٹلی غافل طرابلس پر چڑھ دوڑا۔ طرابلس پر ترکی سیادت تھی، ترک مصر پر بھی اپنا حق سمجھتے تھے، چاہا کہ مصر کے راستے افواج لے جائیں اور بڑھ کر اٹلی کے حملہ کو روکیں۔ انگلستان نے اس کی اجازت نہ دی، زور آور مارے اور رونے نہ دے۔ طاقت کے علاوہ ترک انگلستان کی شرانگیزی سے خائف تھے، اس لیے دم بخود ہو گئے۔ غازی انور پاشا نوجوان ترکوں کا سرتاج جوش تہور میں کسی خطرہ کو خاطر میں نہ لانے کا عادی تھا۔ جان کو ہتھیلی پر رکھ کر مصر کی سرحدات کو عبور کر گیا، طرابلس کے مردہ جسم میں جان آ گئی۔ قبائل بڑی جان توڑ لڑائیاں لڑے، افواج اٹلی کی ترقی رکی دیکھ کر انگلستان پھر مدد کو پہنچا۔ ریاست ہائے بلقان کو بھڑکایا کہ ترکی کا تیا پانچا کرنے کا یہی وقت ہے۔ مرکز خلافت کو خطرے میں دیکھ کر غازی طرابلس چھوڑ کر قسطنطنیہ پہنچا۔ ترکی کی ہوا جنگ میں اکھڑ چکی تھی، انور پاشا کے آنے سے ہوا کا رخ ادھر سے ادھر ہو گیا۔
غلام ہندوستان کے مسلمانوں کی کوئی سیاسی پالیسی نہ تھی، مسلمان امراء، علماء اور صوفیا خدا سے منہ موڑ کر انگریز سے ناطہ جوڑے ہوئے تھے۔ وہ اٹلی کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعائیں تو کرتے تھے، لیکن انگلستان کے خلاف حرفِ شکایت زبان پر لانے کی تاب نہ رکھتے تھے۔ طرابلس کے بعد جب بلقان کی جنگ شروع ہوئی تو ڈاکٹر انصاری اور مولانا محمد علی کی بے تاب روحوں نے مسلمانانِ ہند کو عملی قدم اٹھانے کی دعوت دی۔ غلامی نے ہندوستانی مسلمان کو بے جان کر دیا تھا، اس دعوت سے اس میں آثارِ حیات پیدا ہو گئے۔ ڈاکٹر انصاری کے طبی وفد نے وہ بے لوث خدمات انجام دیں جس سے ترک اور ہندوستانی مسلمان میں براہِ راست سلسلۂ مؤدت قائم ہو گیا۔
کالج کے طلباء نے ترکوں کے اس ابتلا میں بڑی دلچسپی لی۔ سرکار انگریزی اس ہیجان کو بے سود مظاہرہ سمجھتی تھی، غلامی کا جذبہ دل چند آہوں سے قلعے مسمار نہیں کر سکتا۔ جرمنوں کی طرح انگریز کا بھی قول ہے کہ خدا ہمیشہ بڑی فوج کے ساتھ ہے اور نہ ہی کسی کو سرکار انگریزی کا نام لے کر مطعون کرنے کی جرأت تھی۔ جب ترکوں کو مغلوب ہوتے دیکھا تو وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ فاتحین فتح کے ثمرات سے محروم نہیں رکھے جا سکتے۔ یعنی مفتوحین کے ملک کے حصے بخرے کرنے کے مجاز ہیں، جب جنگ کا پانسہ پلٹا اور ترکوں نے بھی پیش قدمی کرنی شروع کی تو اعلان کر دیا گیا ، خبردار کوئی کسی کا ملک نہ دبائے۔
ایران کا مسلمان ترکی سے زیادہ مظلوم تھا، ان کی قسمت بھی گردش میں تھی۔ وہاں بھی انگریزی سیاست ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر چکی تھی۔ شمالی ایران روس کو تفویض تھا اور جنوبی ایران انگریز کے گھوڑوں کے سم کی نذر تھا۔ اہلِ ملک چکی کے ان دو پاٹوں میں پس رہے تھے، گو وہ آزادی کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے تھے، لیکن انگریزی اور روسی عظمت و جلال کا کامیاب مقابلہ کرنے کی تاب نہ رکھتے تھے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ گزشتہ صدی میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو کیا ہو گیا تھا کہ زندگی کی جدوجہد کے اسباب سے محروم رہ گئے تھے۔ مغرب جلد جلد اسلحہ پوش ہو رہا تھا اور مسلمان تقدیر کے قائل ہو کر تدبیر سے متنفر تھے۔ ترکی، ایران، عرب، افغانستان سب کا ہی حال تھا، ساری اسلامی آبادی گویا بیراگیوں کی قوم تھی، جو دنیا سے بیزار تھی، گھر لٹا کر جنگل میں جا بیٹھنے کی آرزومند تھی۔
ان دنوں ہندوستان میں ایسا لٹریچر شائع ہونا شروع ہوا جو مسلمانوں کو تقدیر کے مفہوم کی دعوت دے کر آمادہ عمل کرے۔ مسلمان خود آرام سے بیٹھ کر خداوند تعالیٰ کو اپنی مرضی کا غلام بنانے کا خوگر ہو گیا ہے۔ اس کے حکم کی تعمیل تو کجا، اپنے ارشادات کی تعمیل خدا سے کروانا چاہتا ہے۔ دعاؤں میں توفیق نہیں مانگتا بلکہ ہر کام کی تکمیل کرانا چاہتا ہے۔ موجودہ مسلمان کا خدا کے متعلق تصور یہ ہے کہ وہ ایک پیک ہے، جو اس کے اشاروں پر ادھر ادھر مارا مارا پھرتا ہے۔ اس کا اپنا بس یہی کام ہے کہ نماز کے بعد دعا کے لیے زبان ہلائے اور اس کی تکمیل کے لیے آسمان کی طرف دیکھے اور دن بھر انتظار میں گزار دے کہ دیکھیں خدا کس کس طرح اس کے سامنے اسباب فراہم کر کے لا رکھتا ہے، اس طرح مسلمان نے اپنی زندگی موت سے بدتر بنا لی ہے۔ حالانکہ اسلام یہ ہے کہ خدا کے تابع فرمان ہو کر انسان امورِ دین و دنیا سے ایک لمحہ بھی غافل نہ رہے، سپاہی کی طرح فرض کو ادا کرے، پتا ہلے تو یہ چوکنا ہو۔ بڑے سے بڑے کام، مشکل سے مشکل مہم کو سرانجام دینے کے لیے اﷲ پر بھروسہ کر کے قدم اٹھائے۔ کامیابی کے ذرائع سوچے، فتح کے اسباب فراہم کر کے ناکامی پر آزردہ خاطر نہ ہو، پھر کوشش کر کے پہلی کمی کو پورا کرے، تاآنکہ کامیاب ہو۔
مسلمانانِ ہند کے متعلق میری زندگی کا یہی تلخ تجربہ ہے کہ وہ یا تو نقش سلیمانی کی تلاش میں ہیں، تاکہ دفینے تک ان کو نظر آ جائیں۔ یا ایسی مالدار بیوہ کے نکاح کے خوشگوار خواب دیکھتے ہیں، جس کے بعد انھیں عیش و آرام کی زندگی میسر ہو جائے، یا وہ ہمزاد اور جن قابو کرنے کا جتن کرتے ہیں، تاکہ صبح تک ان کے لیے شاہی محل تیار کر کے دیے جائیں اور الف لیلہ کے افسانوں کو سچا کر دکھائیں، یا ایسا تعویذ دستیاب ہو کہ فتح قدم چومے۔ مگر اسے خود ہاتھ ہلانے کی نوبت نہ آئے۔ جس قوم کی کشور کشائی کا عزم تعویذوں پر موقوف ہو جائے، اس کے ذوقِ عمل کو کیونکر بیدار کیا جائے۔ چند ہی سالوں کے اندر ترکی کا مرد بیمار آخری سانس لیتا ہوا نظر آیا، مولانا شبلی مرحوم نے حالات کو ناقابلِ برداشت پا کر اپنی مشہور دل گداز نظم میں ممالک اسلام کی تخریب پر خون کے آنسو بہائے۔
میں بھی کالج کے دوسرے نوجوانوں کی طرح ماہی بے آب ہو رہا تھا۔ سوائے اپنی بدقسمتی پر رونے کے دوسرا چارہ کار نہ تھا۔ اپنے حال پر رونا اس لیے تھا کہ ایسے زمانے میں پیدا ہوئے، جب اسلام ہر طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے، پختہ عمر اور پختہ کار نہ تھے کہ خود کسی جان بخش جماعت کی داغ بیل ڈالتے۔ اس وقت ہندوستان میں کسی پختہ عمر کو راہنمائی کی جرأت نہ تھی۔ مسلمان نوجوان گھٹ کر مر رہا تھا، غلامی کے وسیع قفس میں اپنے آپ کو مجبور سمجھتا تھا، مسلمانوں کی بے بسی کو دیکھ کر زندگی اجیرن ہو گئی تھی۔ پھر مجھے خیال آیا کہ خوشحالی میں کسی کا ساتھ دینا بھی کوئی نیکی اور بہادری ہے؟ شرافت اور خلوص کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان نوجوان اسلام کی اس پریشان حالی میں اس کا مددگار ہو کر خدا کی خوشنودی کو حاصل کرے۔ اسلام کے اس بدترین دور میں بہترین خدمات کا موقع ہے، تھوڑی سی قربانی بہت سے اجر کا باعث ہو سکتی ہے۔ طبیعت نے فیصلہ یہ کیا کہ انگریزی ملازمت کے بجائے خدمت اسلام و وطن کو مسلک بناؤں گا۔ یہ ۱۹۱۲ء کے خیالات ہیں۔ میں اس سال ایف اے میں فیل ہو گیا اور دوسرے سال دیال سنگھ کالج میں داخل ہو گیا۔ یہاں پہلی دفعہ غیر مسلم سٹاف سے واسطہ پڑا۔ یہاں کے پروفیسر اسلامیہ کالج کے پروفیسر سے ہزار درجہ قربانی، حلم اور علم میں بہتر تھے۔ وہ فرض کو ایک عبادت سمجھتے تھے، اسلامیہ کالج کے پروفیسر اوقاتِ تعلیم کو باوجود تنخواہ دار ہونے کے بیگار تصور کرتے تھے۔ لاپرواہی کی ہی علامات ہمارے تمام شعبہ جات زندگی میں ہویدا ہیں۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی زندگی پر غیر مسلموں نے عمل شروع کر رکھا ہے اور مسلمان ادیاسی فقیروں کے گروہ میں سے ہیں۔ جن کے لیے زندگی میں کوئی کام نہیں اور ادائیگی فر ض میں کوئی پیغام نہیں۔
تصوف:
ایک دن دیال سنگھ کالج کے پروفیسر مترا نے فارسی پڑھاتے ہوئے برسبیل تذکرہ کہا کہ ہجرت کے کئی سو سال بعد مسلمانوں نے تصوف کو غیر مسلموں سے لیا۔ اس کی یہ بات میرے اوپر بجلی بن کر گئی۔ تصوف میرا اوڑھنا بچھونا ہو چکا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی چیز کو حاصل کرنا، علم کہلانے کا مستحق تو ہے ، لیکن مذہب کا جزو کہلانے کا مستحق نہیں۔ اس لیے مذہبی دیوانے کی طرح پروفیسر مترا کو ڈانٹ دیا کہ آپ ابھی اسلام سے واقف نہیں۔ پروفیسر نے میری طرف تعجب سے دیکھا، مسلمان طالب علموں نے میری جرأت کی داد دی، پروفیسر شرمندہ سا ہو کر کلاس میں بیٹھا رہا۔ تمام مسلمان طالب علموں کا میرے ساتھ اتفاق تھا کہ تصوف مذہب اسلام کا ضروری جزو ہے۔ دوسرے روز پروفیسر بہت سی کتابیں لے کر آیا۔ حوالے پر حوالہ دینا شروع کیا کہ قرونِ اولیٰ میں تصوف کا کوئی نام نہ جانتا تھا، خانقاہ اور تکیہ کا نام غیر اسلامی۔ تصوف کا لفظ قرآن بھر میں بھی نہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عرب سے نہ دم کشی ثابت، نہ قلب پر ضربات لگانے کی سنت کا کہیں ذکر، یہ علم صاف طور پر غیر اسلامی ہے اور اسلام میں چوتھی صدی ہجری کی پیداوار ہے۔ جبکہ مسلمان یونانی اور ہندوستانی فلسفہ مذاہب سے دوچار ہوئے تو انھوں نے تصوف کا پیوند اسلام میں لگا دیا۔
پروفیسر نے کہا جاؤ تصوف اور شریعت کی موجودگی کا کوئی مستند حوالہ لاؤ، میں قائل ہو جاؤں گا۔ علم میں ضد جہالت ہے۔ علم علم کے معیار پر پورا اترے تو صحیح ہے۔ جہلا کا اعتقاد واقعات کو بدلنے کے لیے سند نہیں۔
میں نے کہا پروفیسر صاحب! اگر مسلمان علماء اور صوفیا کے پاس یہ سند نہ ہوتی تو یہ خانقاہیں اور تکیے نہ ہوتے، ذکر شغل جاری نہ رکھتے، کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی چیز کو داخل عبادت و دین سمجھنا بدعت ہے۔
پروفیسر: اور یہ بھی کہو کہ بدعت گمراہی ہے۔
میں: ہاں بدعت گمراہی ہے، کیونکہ دین رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر کامل ہو چکا تھا۔
پروفیسر: تو تم استدلال کرتے ہو کہ تصوف کی داغ بیل ضروری رسول عربی (ﷺ) نے ڈالی یا کم از کم اس کی اجازت دی۔
میں نے کہا ہاں۔ اس نے پھر کہا کہ عقل کو الجھنے میں کیوں ڈالتے ہو، قرآن اور حدیث سے کوئی سند لے کر آؤ، معاملہ ختم ہو جائے گا۔
لاہور کے علماء سے میری واقفیت نہ تھی، اس لیے امرتسر اپنے ایک استاد کے پاس گیا۔ وہ قرآن کے مکمل ہونے پر ہمیشہ زور دیتے تھے، بعد میں بزرگ اہل قرآن مشہور ہوئے۔ انھوں نہایت راز داری سے پاکیزہ زبان میں مجھ سے کہا کہ جو تصوف قرآن میں ڈھونڈتا ہے، وہ خدا اور رسول پر بہتان باندھتا ہے اور خالص نطفہ ناتحقیق ہے۔
جب مولوی صاحب نے اپنی لمبی تحقیق کو ایسے جامع الفاظ میں یوں مختصر بیان فرما دیا تو میں شرمندہ سا ہو کر چلا آیا۔ ایک اور اہل حدیث بزرگ کے پاس گیا۔ ان کا علم اور زہد اب بھی زبان زد خلائق ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بیعت کی سند ہے، تصوف کی باتیں غیر مستند ہیں۔ انھوں نے کہا سیدھے اسلام پر جمے رہو، تصوف پر عمل کر کے ٹھوکر کھا جاؤ گے۔ کتاب اور سنت پر اعتقاد رکھو، یہی کامل ہدایت ہے، اس بات میں تمھارا پروفیسر برحق ہے۔ نماز مسلمان کی معراج ہے۔ پچھلی اُمّتوں کی لمبی عبادتوں کا نماز ہی عطر ہے۔ نمازوں کو لمبی کر دو، برسوں کے ذکر و شغل کا منٹوں میں مزا آ جائے گا۔
ان زبان اور بیان میں بڑی نرمی تھی، لیکن میرے لیے کوئی بات باعثِ تسلی نہ ہوئی، کیونکہ میں کئی سال اسی دھن میں لگا رہا تھا۔ دفعتاً اپنے اعتقادات کو بدلنا آسان نہ تھا، یہاں سے اٹھا اور بھاگ لپک کر اپنے پیر بھائی کے پاس پہنچا۔ وہ شریعت اور طریقت کے شاہسوار مانے جاتے تھے اور فی الحقیقت بے شر شخص تھے۔ اپنی مشکل بیان کی۔ انھوں نے فرمایا: نقلی سند تو تسلی بخش نہیں، مگر یہ علم سینہ بہ سینہ پہنچا ہے، ہر شخص اس علم کا اہل نہیں، اس لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خاص خاص کو راز دار بنایا، اس طرح یہ طریقہ ہم تک پہنچا۔
یہ بات ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہو گئی۔ پروفیسر کو آ کر آخری بات کہی، اس نے حقارت سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ مجھ کو جھٹلانے کی کوشش میں اپنے پیغمبر پر بھی بہتان باندھنے لگے۔ پیغمبر کو خدا کا حکم ہو کہ میرے احکام کھول کھول کر بیان کر اور وہ سینہ بہ سینہ بیان کرے۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا آ گیا، میں نے گردن جھکا لی، میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ (جاری ہے)