قسط: ۲
مولانا مشتاق احمد چنیوٹی رحمۃ اﷲ علیہ
معیار نمبر۳: انبیاء دنیا سے شرک مٹاتے ہیں:
انبیاء علیہم السلام دنیا میں شرک مٹانے آتے ہیں اور ہمارا کام بھی شرک مٹانا ہے نہ کہ شرک قائم کرنا۔
(سیرت المھدی، جلد اوّل، ص: ۲۹۵ روایت نمبر ۳۱۹)
مرزا قادیانی اپنے اس دعویٰ پر پورا نہ اترا۔ انبیاء کرام بلاشبہ شرک مٹانے کے لیے ہی مبعوث ہوتے ہیں۔ پورا قرآن مجید اس کی تائید سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ مرزا قادیانی نبی تھا اور کیا اس نے شرک کو ختم کیا ہے۔ ان ہر دو سوالوں کا جواب نفی میں ہے اس کے اقوال اور مزعومہ وحی شرک سے بھری ہوئی ہے۔ چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ انت منی بمنزلۃ اولادی۔تو مجھ سے بمنزلہ اولاد ہے۔ (تذکرہ، ص: ۴۱۲، طبع دوم)
۲۔ انت منی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید و تفرید۔
۳۔ انت منی بمنزلۃ ولدی۔ تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے۔ (تذکرہ، ص: ۶۳۶، طبع دوم)
۴۔ انما امرک اذا اردت شیئا ان تقول لہ کن فیکون۔ تو جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور ہو جاتی ہے۔ (تذکرہ، ص: ۵۲۵، طبع دوم)
۵۔ یا قمر یا شمس انت منی وانا منک۔ اے چاند، اے سورج تو مجھ سے ظاہر ہوا اور میں تجھ سے۔ (تذکرہ، ۶۲۵، طبع دوم)
۶۔ میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں…… خدا تعالیٰ میرے وجود میں داخل ہو گیا…… سو میں نے پہلے تو آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا۔ (تذکرہ، ص: ۱۹۸ تا ۲۰۰، طبع دوم)
۷۔ آواہن (خدا تیرے اندر گیا) ۔ (کتاب البریہ، روحانی خزائن، جلد: ۱۳، ص: ۴۹)
۸۔ اسمع ولدی۔ اے میرے بیٹے سن۔ (البشریٰ، جلد: اوّل، ص: ۴۹)
۹۔ انت من ماء نا وہم من فشل ۔ تو ہمارے پانی سے ہے اور وہ بزدلی سے۔ (تذکرہ، ص: ۱۶۴، طبع چہارم)
۱۰۔ ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جس کے ساتھ حق کا ظہور ہو گا گویا آسمان سے خدا اترے گا۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن، جلد: ۲۲، ص: ۹۸۔ ۹۹)
مرزا قادیانی کی وحی تو شرک سے بھری ہوئی ہے۔ وہ شرک پھیلاتا رہا اور ذرہ بھر بھی شرک نہ مٹا سکا، دنیا میں بدستور شرک موجود ہے اس طرح اپنے تسلیم کردہ معیار نبوت پر پورا نہ اتراسکا۔
معیار نمبر ۴: انبیاء کرام کو کفر و شرک سے نفرت ہوتی ہے:
اﷲ تعالیٰ پر ایمان لانے کے دو پہلو ہیں۔
۱۔ اﷲ تعالیٰ کو اس کی ذات و صفات میں یکتا اور بے مثل ماننا، لوگوں نے جو مختلف قسم کے خدا بنا رکھے ہیں ان سے برأ ت کا اظہار کرنا، شرک و کفر کی تمام صورتوں سے دلی نفرت رکھنا۔ یہ بات قرآن مجید کے متعدد مقامات پر مذکور ہے، بطور نمونہ درج ذیل ہے ملاحظہ فرمائیں۔
وَ اِذْ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ لِاَبِیْہِ وَ قَوْمِہٖ اِنَّنِیْ بَرَاءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ اِلَّاالَّذِیْ فَطَرَنِیْ فَاِنَّہٗ سَیَہْدِیْن ۔(الزخرف: ۲۵، ۲۶)
ترجمہ: اور جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ جن چیزوں کو تم پوجتے ہو اُن سے میں بیزار ہوں، ہاں جس نے مجھ کو پیدا کیا وہی مجھے سیدھا راستہ دکھائے گا۔
سورہ کافرون کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
اے پیغمبر! ان منکرین اسلام سے کہہ دو کہ اے کافرو! جن بتوں کو تم پوجتے ہو ان کو میں نہیں پوجتا اور جس خدا کی میں عبادت کرتا ہو اس کی تم عبادت نہیں کرتے اور پھر میں کہتا ہوں کہ جن کی تم پرستش کرتے ہو ان کی میں پرستش کرنے والا نہیں ہوں اور نہ تم اس کی بندگی کرنے والے معلوم ہوتے ہو جس کی میں بندگی کرتا ہوں، تم اپنے دین پر میں اپنے دین پر۔
مرزا غلام احمد قادیانی کی کافروں سے محبت ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ وہ ملکہ برطانیہ کو مخاطب کر کے لکھتا ہے:
’’چوں کہ یہ مسئلہ تحقیق شدہ ہے کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے اس لیے مجھے ضرورت نہیں کہ میں اپنی زبان کی لفاظی سے اس بات کو ظاہر کروں کہ میں آپ سے دلی محبت رکھتا ہوں اور میرے دل میں خاص طور پر آپ کی محبت اور عظمت ہے، ہماری دن رات کی دعائیں آپ کے لیے آبِ رواں کی طرح جاری ہیں۔‘‘
(تحفہ قیصر و روحانی خزائن، جلد: ۱۵، ص: ۱۱۹، ۱۲۰)
کسی سچے نبی نے کافروں کے بخت بلند ہونے کی دعا نہیں کی (البتہ ان کی ہدایت کے لیے کوشش اور دعا کرنا الگ امر ہے)۔
۲۔ مرزا قادیانی ۱۸۵۷ء میں برصغیر کے مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والی ملکہ وکٹوریہ کے لیے دعا کرتا ہے کہ:
’’یا الٰہی اس مبارکہ قیصر و ہند دام ملکہا کو دیر گاہ تک ہمارے سروں پر سلامت رکھ اور اس سے ہر ایک قدم کے ساتھ اپنی مدد کا سایہ شاملِ حال فرما اور اس کے اقبال کے دن بہت لمبے کر۔‘‘ (رحانی خزائن، جلد: ۱۵، ص: ۱۱۵)
۳۔ مرزا قادیانی ملکہ برطانیہ کے ساتھ اپنی طبعی مناسبت کا اس پیرایہ میں اظہار کرتا ہے:
’’اس نے مجھے بے انتہا برکتوں کے ساتھ چھوا اور اپنا مسیح بنایا تا کہ وہ ملکہ معظمہ کے پاک اغراض کو خود آسمان سے مدد دے۔‘‘ (رحانی خزائن، جلد: ۱۵، ص: ۱۱۶)
۴۔ اس سے اگلے صفحے پر لکھا ہے:
’’اے ملکہ معظمہ تیرے وہ پاک ارادے ہیں جو آسمانی مدد کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور تیری نیک نیتی کی کشش ہے جس سے آسمان رحمت کے ساتھ زمین کی طرف جھکتا جاتا ہے۔ اس لیے تیرے عہدِ سلطنت کے سوا اور کوئی بھی عہدِ سلطنت ایسا نہیں ہے جو مسیح موعود کے ظہور کے لیے موزوں ہو سو خدا نے تیرے نورانی عہد میں آسمان سے ایک نور نازل کیا کیوں کہ نور نور کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور تاریکی تاریکی کو کھینچتی ہے۔‘‘
(روحانی خزائن، جلد: ۱۵، ص: ۱۱۷)
قرآن مجید کا حکم ہے کہ کافروں کو دوست نہ بناؤ۔ (النساء: ۱۴۴)
لیکن مرزا قادیانی کافروں کو نہ صرف دوست بناتا ہے بلکہ ان کے ساتھ اپنی طبعی و روحانی مناسبت بھی بیان کرتا ہے ۔ کیا سچا نبی کسی کافر کو دوست بنا سکتا ہے؟ قادیانی خود فیصلہ کریں۔
معیار نمبر۵: انبیاء کو اپنی صداقت پر کامل یقین ہوتا ہے:
ہرسچے نبی اور رسول کو اپنی نبوت اور وحی کی صداقت پر کامل یقین ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ :
’’میرا فلاں مخالف مر گیا تو میں سچا ورنہ جھوٹا‘‘ ’’میرا فلاں لڑکی سے نکاح ہو گیا تو میں سچا ورنہ جھوٹا‘‘
’’میں نے اتنی عمر پائی تو سچا ورنہ جھوٹا ‘‘ اور نہ ہی اس سے ملتی جلتی اور کوئی بات کہتے ہیں۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ جل شانہٗ نے حکم دیا:
۱۔ ’’قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ……‘‘ (الانعام: ۱۴)
ترجمہ: یہ بھی کہہ دو کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والا ہوں۔
۲۔ ’’وَ بِذَالِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ……‘‘ (الانعام: ۱۶۳)
ترجمہ: اور مجھ کو اس بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے اوّل فرمانبردار ہوں۔
۳۔ ’’وَ اُمِرْتُ لِاَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ الْمُسْلِمُوْنَ……‘‘ (الزمر: ۱۲)
ترجمہ : اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے اوّل مسلمان بنوں۔
اس کے برعکس ہم پوری ذمہ داری سے یہ کہتے ہیں کہ مرزا قادیانی کو اپنے دعوؤں، الہامات اور وحی پر یقین نہ تھا کہ یہ رحمانی ہیں یا شیطانی۔ بطور ثبوت درج ذیل حوالے ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ مرزا قادیانی لکھتا ہے، پنڈت لیکھ رام کے متعلق پیش گوئی کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’’اگر اس شخص پر چھے برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں، بیماریوں سے نرالا اور خارقِ عادت اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن، جلد: ۵، ص: ۶۵۰)
۲۔ محمد بیگم کے ساتھ اپنے نکاح کی پیش گوئی کرتے ہوئے اپنی وحی لکھی:
’’فسیکفیکہم اللّٰہ و یردھا الیک، امر من لدنا انا کنا فاعلین زوجناکہا فلا تکونن من الممترین لا تبدیل کلمات اللّٰہ‘‘
(تذکرہ ۲۸۴، طبع دوم)
ترجمہ: خدا ان سے تیری کفایت کرے گا اور اس عورت کی تری طرف واپس لائے گا، یہ امر ہماری طرف سے ہے اور ہم ہی کرنے والے ہیں، ہم نے اس کا نکاح تیرے ساتھ کر دیا، تیرے رب کی طرف سے سچ ہے پس تو شک کرنے والوں میں مت ہو، خدا کے کلمے بدلا نہیں کرتے۔
مرزا قادیانی کو اپنی وحی کے پرزور لہجہ پر یقین نہیں تھا اس لیے لکھا:
’’میں بالآخر دعا کرتا ہوں کہ اے خدائے قادر و علیم اگر آتھم کا عذاب مہلک میں گرفتار ہونا اور احمد بیگ کی دختر کلاں کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا…… یہ پیش گوئیاں تیری طرف سے نہیں ہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر۔ ‘‘
(اشتہار ۲۷ ؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء، مجموعہ اشتہارات، ج: ۲، ص: ۱۱۵)
۳۔ عبداﷲ آتھم کی ہلاکت کی پیش گوئی کرتے ہوئے مرزا نے لکھا:
’’میں اس وقت اقرار کرتا ہوں اگر یہ پیش گوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے سزائے موت ہاویہ میں نہ پڑیں تو ہر ایک سزا اٹھانے کے لیے تیار ہوں…… اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لیے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں، بدکاروں اور لعینوں سے مجھے زیادہ لعنتی قرار دو۔
(جنگ مقدس روحانی خزائن، جلد: ۱، ص: ۲۹۱ تا ۲۹۳)
۴۔ مزید کہا:
’’میں اپنے الہامات کی کتاب اﷲ پر پیش کرنے کے بعد تصدیق کرتا ہوں جان لو کہ جو الہامات قرآن کے مخالف ہیں وہ کذب، الحاد زندقہ ہے۔ ‘‘
(حمامۃ البشریٰ روحانی خزائن، جلد: ۷، ص: ۲۹۷)
اس قسم کی تحریریں بکثرت ہیں جو کہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مرزا قادیانی کو اپنے الہامات اور وحی کے رحمانی ہونے کا یقین نہ تھا اور یہ بات معیارِ نبوّت کے خلاف ہے۔ (جاری ہے)
خطبات بہاولپور کا علمی جائزہ…… کیا زیورات پر زکوٰۃ لازم آتی ہے؟ (قسط: ۵)
علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ
خطبہ نمبر ۱۱ کے آخر میں سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو جناب ڈاکٹر صاحب سے ایک سوال کیا گیا کہ استعمال میں آنے والے سونے چاندی کے زیورات پر زکوٰۃ دینی ہو گی یا نہیں؟ تو اس کا جواب آپ نے اس طرح دیا:
’’ہمارے فقہاء نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ عورت کے استعمال کے زیوارت پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ نہیں، اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہو گی۔ سوائے اس کے میں کیا کہہ سکتا ہوں کہ ہر شخص اپنے امام کے احکام پر عمل کرے۔‘‘
اوّلاً: ہمیں اس پر حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب نے دو اماموں کی رائیں تو نقل کر دیں، مگر انھوں نے یہ زحمت گوارا نہ فرمائی کہ تھوڑا سا حدیث کی طرف بھی رخ فرما لیتے اور جیسا کہ ان کی عادت مبارک ہے کہ اکثر و بیشتر وہ اپنے علمی جوابات کو احادیث کے حوالوں سے مزین فرماتے ہیں، یہاں بھی فرما دیتے کہ احادیث سے اس سوال کا کیا جواب ملتا ہے۔
ثانیاً: وہ امام شافعیؒ کا مسلک حتمی شکل میں نقل فرماتے ہیں، حالانکہ صحیح صورت یوں نہیں۔ قارئین سطور ذیل کو ملاحظہ فرمائیں گے تو بات واضح ہو جائے گی۔
ثالثاً: ڈاکٹر صاحب نے اس چیز کو بھی نظر انداز فرما دیا کہ وہ پاکستان میں کھڑے ہو کر جواب دے رہے تھے، جہاں کی ۹۸ فیصد سنی آبادی حضرت امام ابو حنیفہؒ کی پیروکار ہے۔ کم از کم اس خطہ میں حضرت امام شافعیؒ کے پیروکار نہیں ہیں…… اب چند احادیث سنیے:
حدیث نمبر۱: ایک عورت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی، اس کے ساتھ اس کی ایک بیٹی تھی۔ اس بچی کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے کنگن تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس کی زکوٰۃ دیا کرتی ہو؟ عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: تو کیا تم پسند کرتی ہو کہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے بدلے تمھیں آگ کے کنگن پہناوے؟ راوی کا بیان ہے کہ یہ سن کر اس نے وہ کنگن اتار لیے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دیے اور کہا: ہُما لِلّٰہِ وَرَسُوْلہٖ۔
(سنن ابی داؤد، ج:۱، ص: ۲۲۵، سنن نسائی، ج: ۱، ص: ۳۴۳)
حدیث نمبر ۲: اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ میں چاندی کے زیور دیکھے۔ پوچھا: عائشہ! یہ زیور کیسے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میں نے یہ آراستگی کے لیے بنوائے ہیں۔ فرمایا: کیا اس کی زکوٰۃ دیا کرو گی؟ میں نے کہا: نہیں۔ یا یوں کہا: جیسا اﷲ کو منظور ہو گا،دیکھا جائے گا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ہو حسبک من الناریعنی اگر زکوٰۃ نہیں دو گی تو عذاب دوزخ کے لیے یہی کافی ہے۔ (ابو داؤد شریف، ج: ۱، ص: ۲۲۵)
حدیث نمبر۳: اسماء بنت یزید (ایک صحابیہ کا نام ہے) کہتی ہیں میں اور میری خالہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ ہم نے سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم ان کی زکوٰۃ دیا کرتی ہو؟ ہم نے کہا: نہیں۔ فرمایا: تم ڈرتی نہیں ہو کہ اﷲ تعالیٰ تمھیں آگ کے کنگن پہنا دیں۔ ’’ادیا زکوتہما‘‘ ان کی زکوٰۃ دیا کرو۔ (مسند احمد، ج: ۲، ص: ۴۵۹)
حدیث نمبر۴: فاطمہ بنت قیس رضی اﷲ عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور میں نے ستر مثقال (لگ بھگ ۲۲ تولے) کا ایک گلے کا زیور پہن رکھا تھا۔ میں نے عرض کیا: حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اس میں سے زکوٰۃ لے لیجیے تو آپ نے 13/4مثقال لے لیے۔ (دار قطنی)
حدیث نمبر۵: حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں: میں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا: حضور! میری بیوی کا بیس مثقال (71/2تولے)وزن کا طلائی زیور ہے۔ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: نصف مثقال زکوٰۃ دو۔ (دار قطنی)
یہ روایات ہم نے صحاح کے علاوہ مولانا عبدالرحمن مبارک پوریؒ (اہل حدیث) کی کتاب تحفۃالاحوذی شرح ترمذی، ج:۲، ص: ۱۱ سے نقل کی ہیں۔ موصوف ان روایات کو نقل کرنے سے پہلے لکھتے ہیں:
’’قلت، القول بوجوب الزکوٰۃ فی حلی الذہب والفضۃ ہو الظاہر الراجح عندی‘‘
ترجمہ: سونے چاندی کے زیورات میں زکوٰۃ لاز ہونے کا قول ہی میرے نزدیک ظاہر اور راجح ہے۔
حدیث نمبر۶: حضرت انس رضی اﷲ عنہ کو خلیفہ اوّل حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے بحرین کا حاکم بنا کر روانہ فرمایا تو زکوٰۃ کے بارے میں ایک لمبی تحریر لکھوا کر دی جس کا آغاز ان الفاظ سے فرمایا:
’’ہذہ فریضۃ الصدقۃ التی فرض رسول اللّٰہ ﷺ علی المسلمین والتی امر اللّٰہ بہا رسولہ‘‘
اس تحریر کے اخیر میں ہے: وفی الرقۃ ربع العشر،یعنی چاندی میں چالیسواں حصہ لازم ہے۔ (بخاری، ج: ۱، ص: ۱۹۶)
اب اس میں اس بات کی کوئی تخصیص نہیں ہے ہ وہ چاندی ٹکڑے کی شکل میں ہو، نقد رقم ہو۔ بلکہ عام حکم دیا گیا ہے۔ اسی لیے علماء نے تصریح کی ہے کہ الفاظ کا عموم زیورات میں زکوٰۃ کے فرض ہونے کی دلیل ہے۔ محض قیاس کی بناء پر اس میں تخصیص پیدا کرنا اور زیورات کو اس حکم سے مستثنیٰ کر لینا صحیح نہیں ہے۔
ان احادیث مرفوعہ کے علاوہ کافی تعداد میں آثارِ صحابہ موجود ہیں، جن کے نقل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ اس کے برخلاف ایک بھی صحیح روایت پیش نہیں کی جا سکتی، جس سے زیورات میں زکوٰۃ کا لازم نہ ہونا ثابت ہو۔ احادیث و آثار کی اس کثرت کو دیکھ کر امام فخر الدین رازیؒ کو یہ کہنا پڑا، حالانکہ وہ شافعی المسلک ہیں:
’’الصحیح عندنا وجوب الزکوٰۃ فی الحلی‘‘(تفسیرکبیر، ج: ۱۵، ص: ۴۶)
ترجمہ: ہمارے (شافعیہ کے) نزدیک صحیح بات یہی ہے کہ زیورات میں زکوٰۃ لاز ہوتی ہے۔
اور علامہ خطابی نے کہا: ’’الظاہر من الکتاب یشہد بقول من اوجبہا والاثر یؤیدہ‘‘
ترجمہ: کتاب اﷲ سے جو کچھ ظاہر ہے، وہ ان لوگوں کے قول کی تائید کرتا ہے جو زیورات میں زکوٰۃ کو لازم قرار دیتے ہیں اور حدیث بھی اسی کی تائید کرتی ہے۔
علامہ ابن الھمامؒ، مختلف کتب حدیث سے متعدد احادیث و آثار صحابہ و تابعین نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
ترجمہ: ’’مخالفین سے تاویلات منقول ہیں، وہ تو اس قابل نہیں ہیں کہ دل میں لائی جائیں اور ان کی طرف توجہ کی جائے اور روایات کے بعض الفاظ صراحتاً انھیں رد کرتے ہیں۔ (فتح القدیر، ج:۱، ص: ۵۲۶)
کیا زکوٰۃ سے مسجد تعمیر کرائی جا سکتی ہے؟
اسی خطبہ نمبر ۱۱ میں ڈاکٹر صاحب مصارفِ زکوٰۃ کے ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’فی سبیل اﷲ‘‘ کے تحت پوری ملٹری ایڈمنسٹریشن آ جاتی ہے۔ سپاہیوں کی تنخواہوں کی ادائیگی، اسلحہ کی فراہمی اور دیگر فوجی ضروریات سب اس کے تحت آ جاتی ہیں۔ نیز اور چیزیں بھی مثلاً مسجدوں کا بنانا، کارواں سرائے تعمیر کرنا، مدرسوں کی تعمیر وغیرہ یہ ساری چیزیں فی سبیل اﷲ کے تحت آ جاتی ہیں۔‘‘ (خطبات، ص: ۳۷۴)
’’میری رائے میں ’’فی سبیل اﷲ‘‘ کی رقم سے مسجد بن سکتی ہے اور زکوٰۃ میں فی سبیل اﷲ کی مد بھی ہے۔‘‘ (خطبات، ص: ۳۹۱ بجواب سوال نمبر ۱۷)
اصل مسئلہ کے متعلق کچھ عرض کرنے سے پہلے تمہیداً دو باتیں سن لیجیے۔
پہلی گزارش:
امام مسلمؒ اپنی نامور کتاب کے آغاز میں رُواۃِ حدیث میں فرقِ مراتب پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’فلا یقصر بالرجل العالی القدر عن درجتہ و لا یرفع متضع القدر فی العلم فوق منزلتہ و یعطی کل ذی حق حقہ و ینزل منزلتہ و قد ذکر عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا انہا قالت امرنا رسول اللّٰہ ﷺ ان ننزل الناس منازلہم‘‘(مسلم شریف، ص:۴)
ترجمہ: جو شخص علم میں بلند مرتبت ہو، اس کے حق میں کوتاہی نہ کرے اور جو کم درجے کا ہو اسے اس کی حیثیت سے نہ بڑھائے۔ ہر حق دار کو اس کا حق ادا کرے اور اسے اس کے شایانِ شان مرتبے میں رکھے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ہمیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ ہم لوگوں کو ان کی حیثیت کے مطابق مقام دیں۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک پیشنگوئی کے مطابق بدقسمتی سے آج عالَم یہ ہے کہ علم دین، کساد بازاری کا شکار ہے۔ علماء تو کم پیدا ہو رہے ہیں البتہ ’’مجتہد‘‘ بڑھ رہے ہیں۔ عنایت اﷲ مشرقی، نیاز فتح پوری اور غلام احمد پرویز جیسے جاہلوں کو جب ’’علامہ‘‘ کہا جانے لگا تو پھر وہ اہل علم، جنھوں نے باقاعدہ عربی علوم و فنون کی تعلیم بھی حاصل کر لی ہو، وہ اگر ’’میرے نزدیک، میرے خیال میں اور میں یہ کہتا ہوں‘‘ کا سہارا لے کر میدانِ اجتہاد میں اتر آئیں تو کون سی تعجب کی بات ہے؟ یہ خوفِ خدا تو سلف صالحین میں تھا کہ اصمعی جیسے ادب عربی کے امام سے قرآن پاک کی کسی آیت کی تفسیر پوچھی جاتی تو جواب دیتے کہ عربی زبان کے الفاظ کی حیثیت سے تو ان کے معنیٰ یہ ہیں، اﷲ نے اپنے کلام میں کیا مراد لیا ہے، یہ میں نہیں بتا سکتا…… بہر صورت اب یہ قارئین کی ذمہ داری ہے کہ اگر آج کوئی اسکالر یا عالم فاضل، حضرت امام ابو حنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ، حضرت امام شافعیؒ اور دیگر جلیل القدر ائمۂ دین کے مقابلے میں کوئی بات کہتا ہے، تو وہ فیصلہ کر لیں کہ کس کی بات قابلِ قبول ہو گی اور کس کو فوقیت دی جائے گی۔
دوسری گزارش:
امام الہند شاہ ولی اﷲ دہلویؒ، جن کے ہم پلّہ شاید برصغیر کی سرزمین نے کوئی سپوت نہیں جنا، اپنی کتاب فیوض الحرمین میں تحریر فرماتے ہیں کہ تین باتوں کی طرف میری طبیعت سختی سے مائل تھی، مگر قیامِ حرمین شریفین کے دوران میری مرضی اور طبیعت کے برخلاف، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے ارشاد ہوئے۔ ان میں سے ایک کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے:
و ثانیہا الوصاۃ بالتقید بہذہ المذاہب الاربعۃ الا اخرج منہا والتوفیق مااستطعت و جبلتی تأبی التقلید و تأنف منہ رأسا ولکن شیء طلب منی التعبد بہ بخلاف نفسی‘‘(فیوض الحرمین مترجم، مطبوعہ دہلی، ص: ۶۴)
ترجمہ: دوسری چیز یہ ہے کہ مجھے ان چاروں فقہی مذاہب کا پابند رہنے کا حکم دیا گیا کہ میں ان سے باہر نہ جاؤں اور جہاں تک ہو سکے ان میں موافقت پیدا کروں، حالانکہ میری طبیعت تقلید کو قبول نہیں کرتی اور اس سے گریز کرتی ہے لیکن یہ ایک ایسی چیز ہے کہ میرے مزاج کے خلاف مجھ سے اس کی تعمیل کے لیے فرمایا گیا۔
جو لوگ حضرت شاہ ولی اﷲ کے علمی پایہ سے واقف ہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ مرتبۂ اجتہاد کے حامل تھے، اس کے باوجود انھیں بارگاہِ نبوت (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) سے چاروں فقہی مذاہب کے اندر رہنے کا حکم ہوا اور ان سے باہر جانے کی رکاوٹ فرما دی گئی۔ جب امام الہند کا یہ حال ہے تو ما و شما کی کیا حیثیت ہے کہ ان ائمہ کے بالمقابل اپنے اجتہاد کی ٹکسال کھول لیں۔ لیکن برا ہو اس شوقِ اجتہاد کا کہ ایسے بے علم، جو چار سطر عربی عبارت کا صحیح ترجمہ نہیں کر سکتے وہ بھی اجتہاد فرمانے لگتے ہیں۔ (رئیس احمد جعفری مرحوم نے علامہ ابن قیمؒ کی کتاب ’’زاد المعاد‘‘ کا اردو میں ترجمہ کیا تھا جو نفیس اکیڈمی کراچی نے چھاپا تھا۔ ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ اس کتاب کا کوئی سا صفحہ لے لو اس میں چار پانچ غلطیاں تو ضرور ہی نکل آئیں گی۔ اس کے باوجود ان کے دل میں بھی شوقِ اجتہاد گدگدیاں لیتا تھا، اور حضرت کہیں کہیں اپنے اس شوق کی تکمیل فرما لیتے تھے…… اس سلسلہ کے ایک اور بزرگ ڈاکٹر صغیر حسین معصومی صاحب ہیں جو ہمارے ملک کے مشہور اسکالر ہیں۔ انھوں نے علامہ حامد عمادی دمشقی کے رسالہ: ’’الصلاۃ الفاخرۃ بالاحادیث المتواترہ‘‘ کا اردو ترجمہ کیا۔ اس ترجمہ میں بھی غلطیوں کی بھرمار ہے۔ عرصہ ہوا میں نے اس بارے میں انھیں توجہ دلائی تھی، مگر پھر کیا ہوا، ان کی طرف سے خط کی رسید ہمیں بے شک مل گئی، آگے کا کچھ پتا نہیں)۔
قارئین یہ نہ خیال کریں کہ ہم دورِ حاضر میں اجتہاد کا دروازہ مطلقاً بند کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں۔ بیسیوں ایسے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کا صریح جواب علماء سلف کی کتابوں میں نہیں ملتا۔ اس صورت میں بجز اس کے سوا چارہ نہیں کہ متبحر علماء بیٹھ کر کتاب و سنت اور فقہ قدیم کی روشنی میں ان کا حل تلاش کریں، لیکن ہر کہ مہ کو اس کا حق دے دیا جائے، اس سے ہم معذرت خواہ ہیں۔
آمدیم برسر مطلب:
اب ہم زیر بحث مسئلہ کو لیتے ہیں۔ سب سے پہلے قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مصارفِ زکوٰۃ، خود قرآن مجید میں ارشاد فرما دیے گئے ہیں۔کل مصارف آٹھ بتائے گئے ہیں۔ (دیکھیے سورہ توبہ: آیت: ۶۰) آیت کے شروع میں لفظ انما آیا ہے، جو کلمۂ حصر ہے۔ مطلب یہ ہو گا کہ زکوٰۃ صرف انھی مدّات میں تقسیم کی جا سکتی ہے، ان سے باہر نہیں۔ حدیث کی مشہور کتاب ابو داؤد شریف میں ایک واقعہ درج ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے مالِ زکوٰۃ میں سے کچھ مانگا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان اللّٰہ لم یرض بحکم نبی ولا غیرہ فی الصدقات حتی حکم ہو فیہا فجزاہا ثمانیۃ اجزاء فان کنت من تلک الاجزاء اعطیتک‘‘
ترجمہ: اﷲ نے اموال زکوٰۃکی تقسیم میں نہ نبی کا فیصلہ پسند کیا، نہ کسی اور کا، حتیٰ کہ اس نے خود ہی فیصلہ کر دیا کہ اسے آٹھ حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اگر تم ان میں سے ہو گے تو تمھیں مل جائے گا۔
یہ حدیث اس بارے میں نص صریح ہے کہ مصارفِ زکوٰۃ جو شریعت نے مقرر کر دیے ہیں، وہی رہیں گے۔ ان میں کوئی اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی ایسا کرنے کی سعی کرے گا تو اس کی یہ سعی نامشکور ہو گی۔
فی سبیل اﷲ کا مصداق:
قرآن پاک میں مصارف زکوٰۃ کے ضمن میں ساتواں مصرف فرمایا گیا ہے: فی سبیل اﷲ۔ اس لفظ سے کیا مراد ہے؟ تو تمام مشہور کتب تفسیر، شروح حدیث اور کتب فقہ میں اس کی تفسیر غازی اور مجاہد سے کی گئی ہے، البتہ بعض ائمہ نے ضرورت مند حاجی کو بھی اس کے مصداق میں شامل کیا ہے۔
چھٹی صدی ہجری کے مشہور مالکی عالم ابن رشد اندلسیؒ فرماتے ہیں:
’’و اما سبیل اللّٰہ، فقال مالک: سبیل اللّٰہ مواضع الجہاد والرباط۔ و بہ قال ابو حنیفۃ و قال غیرہ الحجاج والعمار۔ وقال الشافعی: ہو الغازی جار الصدقۃ ‘‘(بدیۃ المجتہد، ج:۱، ص: ۳۲۵)
شیخ عبدالرحمن جزیری نے زیادہ بسط سے لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’الحنفیۃ قالوا : و فی سبیل اللّٰہ ہم الفقراء المنقطعون للغزو فی سبیل اللّٰہ علی الاصح……‘‘
ترجمہ: احناف کہتے ہیں: فی سبیل اﷲ سے مراد وہ غریب لوگ ہیں جو اﷲ کے راستے میں جہاد فی سبیل اﷲ کے وسائل نہیں رکھتے، زیادہ صحیح یہی بات ہے۔
’’و لا یجوز ان یصرف الزکوٰۃ فی بناء مسجد او مدرسۃ……‘‘
ترجمہ: اور زکوٰۃ کا مسجد یا مدرسے کی تعمیر میں لگانا جائز نہیں ہے۔
’’المالکیۃ قالوا : والمجاہد یعطی من الزکوٰۃ ان کان حرًّا مسلماً غیر ہاشمی، ولو غنیاً ‘‘
ترجمہ: مالکیہ کہتے ہیں کہ مجاہد کو زکوٰۃ میں سے دیا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ آزاد ہو، مسلمان ہو، ہاشمی نہ ہو، خواہ وہ مالدار بھی ہو۔
’’الحنابلۃ قالوا : و فی سبیل اللّٰہ ہو الغازی ان لم یکن ہناک دیوان ینفق منہ علیہ ‘‘
ترجمہ: حنا بلہ کہتے ہیں کہ فی سبیل اﷲ کا مصداق غازی ہے بشرطیکہ سرکاری طور پر اسے کوئی معاوضہ نہ ملتا ہو۔
’’الشافعیۃ قالوا : ہو المجاہد المتطوع للغزو ولیس لہ نصیب من المخصصات للغزاہ فی الدیوان ‘‘
ترجمہ: شافعیہ کہتے ہیں: وہ مجاہد مراد ہے جو جہاد کے لیے محض ثواب کی نیت سے جانا چاہتا ہو اور سرکاری طور پر مجاہدین کے لیے جو کچھ مقرر ہو، اس میں اس کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو۔ (کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، ج: ۱، ص: ۵۶۳ تا ۵۶۶)
شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانیؒ (شافعی المسلک) فرماتے ہیں:
’’ و اما سبیل اللّٰہ فالاکثر علی انہ یختص بالغازی غنیًّا کان او فقیرا الا ان ابا حنیفۃ قال: یختص بالغازی المحتاج ۔ و عن احمد و اسحق الحج من سبیل اللّٰہ ‘‘ (فتح الباری، ج: ۳، ص: ۳۳۲)
ترجمہ: سبیل اﷲ کے بارے میں زیادہ تر علماء یہی کہتے ہیں کہ یہ لفظ مجاہد کے لیے مختص ہے خواہ وہ مالدار ہو، خواہ غریب، مگر امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ مجاہد جو حاجت مند ہو، اس کے لیے مختص ہے۔ امام احمد اور اسحٰق سے منقول ہے کہ حج بھی فی سبیل اﷲ میں شامل ہے۔
حضرت امام غزالیؒ اپنی شہرۂ آفاق کتاب احیاء العلوم میں فرماتے ہیں:
’’ الصنف السابع،الغزاۃ ‘‘ (احیاء، ج: ۱، ص: ۲۲۲)
یہاں پر ہم نے قصداً فقہاءِ احناف کی عبارتیں نقل کرنے سے اجتناب کیا ہے، ورنہ تو ان حضرات کی تصنیفات سے بیسیوں حوالے دیے جا سکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ علماءِ اُمّت کی تصریحات سے قطع نظر، ہم جب کتاب و سنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو بات یہیں واضح ہو جاتی ہے اور ہم یہ ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ مصارفِ زکوٰۃ میں فی سبیل اﷲ کا لفظ ایک شرعی اصطلاح ہونے کی حیثیت سے آیا ہے۔ مصارف والی آیت سورۂ توبہ میں آئی ہے اور اسی سورت میں آگے پیچھے جہاں بھی یہ لفظ آیا ہے، جہاد اور قتال ہی کے سلسلہ میں آیا ہے۔ چنانچہ آیات ذیل میں دیکھیے:
۱۔ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ہَاجَرُوْا وَ جَاہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ ( توبہ، آیت:۲۰)
۲۔ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ ( توبہ، آیت: ۲۴)
۳۔ مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمْ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (توبہ، آیت: ۳۸)
۴۔ آیت نمبر ۶۰ یہی ہے جس میں مصارف زکوٰۃ کی تفصیل ہے۔
۵۔ کَرِہُوْا اَنْ یُّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (توبہ، آیت: ۸۱)
۶۔ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ (توبہ، آیت: ۱۱۱)
۷۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ لَا یُصِیْبُہُمْ ظَمَأً وَّ لَا نَصَبٌ وَّ لَا مَخْمَصَّۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (توبہ، آیت: ۱۲۰)
سوال یہ ہے کہ سورۂ توبہ میں آگے پیچھے ہر جگہ فی سبیل اﷲ، جہاد کے تعلق سے استعمال ہوا ہے، مصارفِ زکوٰۃ میں اس کا مصداق کیونکر بدل جائے گا؟
دوسرے مقامات کو دیکھا جائے تو وہاں فی سبیل اﷲ کا لفظ زیادہ تر جہاد ہی کی مناسبت سے استعمال ہوا ہے۔ سورۂ توبہ سے پیچھے سورۂ انفال ہے جو اپنے مضامین کے اعتبار سے سورۂ توبہ سے ملتی جلتی ہے۔ اس میں قوانینِ جنگ کا ذکر ہے اور اس میں اعلانِ جنگ ہے۔ سورۂ انفال کی آیت نمبر ۶۰ میں تیاریٔ جہاد کا حکم آیا ہے اور اس کے ساتھ ہی فرمایا گیا ہے:
وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْل اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ (انفال: ۶۰)
اب اﷲ کی کتاب کے بعد حدیث شریف کی طرف آئیے۔ صحیح بخاری کی کتاب الجہاد کے کم و بیش سترہ ابواب کے عنوانات میں فی سبیل اﷲ کا لفظ آیا ہے۔ آئیے ایک طائرانہ نظر ان پر ڈال لیجیے تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ حدیث شریف میں یہ لفظ کس موقع محل پر استعمال ہوتا ہے؟
(۱) افضل الناس مؤمن و مجاہد فی سبیل اللّٰہ ۔ (۲) درجات المجاہدین فی سبیل اللّٰہ ۔ (۳) الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللّٰہ ۔ (۴) فضل من یصرع فی سبیل اللّٰہ ۔ (۵) من ینکب فی سبیل اللّٰہ۔ (۶) من یُّجْرَحْ فی سبیل اللّٰہ ۔ (۷) من اغبرت قدماہ فی سبیل اللّٰہ ۔ (۸) مسح الغبار عن الرأس فی سبیل اللّٰہ ۔ (۹) فضل قول اللّٰہ وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ۔ (۱۰) قول اللّٰہ لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ (۱۱) فضل الصوم فی سبیل اللّٰہ ۔ (۱۲) فضل النفقۃ فی سبیل اللّٰہ ۔ (۱۳) من احتبس فرسا فی سبیل اللّٰہ ۔ (۱۴) الحراسۃ فی الغزو فی سبیل اللّٰہ۔ (۱۵) فضل رباط یومٍ فی سبیل اللّٰہ ۔ (۱۶) الجعائل والحملان فی سبیل اللّٰہ ۔ (۱۷) وجوب النفیر…… و قولہ وَ جَاہِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ۔
اب حدیث کی ایک اور کتاب ترمذی شریف ہاتھ میں لیتے ہیں، اس میں جہاد کے متعلق مباحث میں ایک درجن ابواب کے عنوانات میں فی سبیل اﷲ کا لفظ آیا ہے۔ ان کے علاوہ کئی ایک دوسرے ابواب میں بھی درج شدہ احادیث میں فی سبیل اﷲ کا لفظ آیا ہے۔ یہ تمام احادیث جہاد سے تعلق رکھتی ہیں۔ محدثین حضرات کا اس کثرت سے جہاد کے مباحث میں فی سبیل اﷲ کا لفظ لے آنا فقہاء کرام کے اس مؤقف کی دلیل ہے کہ مصارفِ زکوٰۃ میں ساتویں مصرف فی سبیل اﷲ سے مراد غازی اور مجاہد ہے۔ اسی لیے علامہ ابن الجوزی نے کہا:
’’ اذا اطلق ذکر سبیل اللّٰہ فالمراد بہ الجہاد ‘‘ (فتح الباری، ج: ۶، ص: ۴۸)
اور شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
’’ المتبادر عند الاطلاق من لفظ فی سبیل اللّٰہ الجہاد‘‘ ( فتح الباری، ج: ۶، ص: ۲۹)
ترجمہ: یعنی جب سبیل اﷲ کا لفظ مطلق آئے تو ذہن میں فوری طور پر اس کا معنیٰ جہاد ہی آتا ہے۔
ان قرآنی اور حدیثی اطلاقات اور محدثین و فقہاء کی تصریحات کے بعد اس بات میں کوئی تردد باقی نہیں رہ جاتا کہ مصارفِ زکوٰۃ میں ساتواں مصرف مجاہدین اور غازی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ امام محمد اور امام احمد نے حُجاج کو بھی فی سبیل اﷲ کے مصداق میں شامل کیا ہے، اس لیے کہ بعض صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم سے منقولہ روایات اور آثار میں ایسا آیا ہے، چنانچہ حضرت ابن عمررضی اﷲ عنہ سے منقول ہے: ’’ان الحج من سبیل اللّٰہ‘‘
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے بھی ایک روایت آئی ہے۔ اس سے زیادہ تعمیم و توسیع نہ حضرات صحابہ رضی اﷲ عنہم سے منقول ہے نہ ائمۂ دین، فقہاء و محدثین سے۔
علماء متأ خرین میں بعض نے کچھ توسیع سے کام لیا ہے۔ چنانچہ امام رازی لفظ فی سبیل اﷲ کی تفسیر الغزاۃ سے کرنے کے بعد لکھتے ہیں: (عبارت کا ترجمہ ملاحظہ ہو)
’’قفّال نے اپنی تفسیر میں بعض فقہاء سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے نیکی کی تمام صورتوں میں صدقات خرچ کرنے کی اجازت دی ہے، مثلاً مردوں کو کفن دینا، حفاظتی قلعے بنانا اور مسجدیں تعمیر کرنا، اس لیے وفی سبیل اﷲ کا لفظ عام ہے اور ان تمام صورتوں کو شامل ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر، ج: ۱۶، ص: ۱۱۳)
’’قفّال‘‘ کون بزرگ ہیں اور بعض فقہاء سے مراد کون سے حضرات ہیں؟ یہ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔ البتہ ہم اتنا عرض کیے دیتے ہیں کہ یہ قول اس حد تک کمزور کہ بیشتر مفسرین حضرات نے تو اسے اس قابل ہی قرار نہیں دیا کہ وہ اپنی کتابوں میں اسے جگہ دیتے، دیکھیے تفسیر ابن کثیر، بغوی وغیرہ۔ تفسیر خازن کے مصنف نے کسی کا نام لیے بغیر یہ قول نقل کیا ہے، لیکن ساتھ ہی فرما دیا ہے: ’’والقول الاوّل ہو الصحیح لاجماع الجمہور علیہ‘‘ ۔’’یعنی پہلا قول (کہ فی سبیل اﷲ سے مراد غازی ہیں) ہی صحیح ہے کیونکہ جمہور علماء اس پر متفق ہیں۔‘‘
ہاں اور یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر فی سبیل اﷲ میں ہر قسم کے مصارفِ خیر شامل ہیں تو پھر مصارف زکوٰۃ کے سلسلہ میں قرآن پاک میں باقی سات مدّات ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ فقراء و مساکین، غلام، نادار مسافر وغیرہ سب فی سبیل اﷲ میں آ جاتے۔ تو پھر علیحدہ علیحدہ ان کو بیان کرنے کا کیا مطلب؟
(جاری ہے)