مولانا مفتی محمد عبد اﷲ شارق
مومن وہ ہیں کہ جن کی نمازوں میں خشوع اور انہماک کی ایک کیفیت ہوتی ہے، صرف اٹھک بیٹھک نہیں ہوتی۔ (المومنون: 2)
وہ کھڑے ہوئے، بیٹھے ہوئے اور لیٹے ہوئے، یعنی ہر حال میں اﷲ کو یاد کرتے ہیں۔(آل عمران: 191)
وعدہ کریں تو ہر حال میں پورے اترتے ہیں۔ (البقرۃ: 177)
تکلیف آئے تو صبر کی چادر اوڑھ لیتے ہیں (البقرۃ: 177) اور اس حال میں ایسے بول ان کی زبان سے نکلتے ہیں جن سے ان کی عاجزی، بندگی اور خدا پرستی کا پتہ چلتا ہے۔ (البقرۃ: 156)
وہ اﷲ کے ساتھ بہت شدید محبت کرتے ہیں۔ (البقرۃ: 165)
زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں (الاسراء: 37) اور ایسی عاجزانہ ادا ہوتی ہے کہ دیکھنے والے کو ان میں بندگی کا ایک پیکر نظر آتا ہے۔ (اسوہ نبوی)
جنسی وشہوانی جذبوں کے غلط استعمال سے دور رہتے ہیں۔ (المومنون: 5)
وہ سائل اور تنگ دست کا اپنی جیب وکمائی پر حق سمجھتے ہیں۔ (المعارج: 24)
جاہلانہ مباحثوں کے لیے جب انہیں مخاطب کیا جائے تو کرنے کے اصل دینی کام معلوم ہونے کی وجہ سے وہ ان کو سلام کہہ کر معذرت کرلیتے ہیں۔ (الفرقان: 63)
لغو ولایعنی امور سے بے نیاز اور بیزار ہوتے ہیں۔ (الفرقان: 72)
ان کے چہروں پر سجدے کے نشان دیکھے جاسکتے ہیں۔ (الفتح: 29)
نمازوں کی فکر کرتے ہیں (المعارج: 34) اور ایک نماز کے بعد دوسری کے انتظار میں رہتے ہیں۔ (جامع الترمذی: رقم51)
قرآن پڑھیں تو انہیں رونا آتا ہے اور روتے ہوئے سجدہ میں جاگرتے ہیں۔ (الاسراء: 58)
دن اور رات کے مختلف اوقات میں کئی دفعہ ربِ کائنات کے ذکر وتسبیح میں مشغول ہوتے ہیں (الانبیاء: 21) اور مشغولِ سجود وقیام نظر آتے ہیں۔ (ہود: 114)
وہ قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔ (فاطر: 29)
کفار کے مقابلہ میں متحد اور سخت ہوتے ہیں، جبکہ آپس میں اخوت اور الفت کا تعلق رکھتے ہیں۔ (الفتح: 29)
ان کا قلب ’’قلبِ منیب‘‘ اور ’’قلبِ سلیم‘‘ ہوتا ہے۔ (ق: 33، الشعراء: 89) یعنی ان کے دل روحانی امراض سے محفوظ ہوتے ہیں، حبِ الہی، خوف وخشیت اور تعلق مع اﷲ سے مزین ہوتے ہیں، گناہ کی وہاں نفرت اور طاعات کا وہاں شوق ہوتا ہے، ایمان اور قرآن وہاں بسے ہوتے ہیں اور دنیا سے زیادہ آخرت کی یاد وہاں موج زن ہوتی ہے۔
وہ اﷲ کی رحمت کے امید وار ہوتے ہیں (الاسراء: 57) اور رب کی رحمت سے ناامید ہونا تو کافروں کی صفت ہے۔ (یوسف: 87)
وہ اﷲ کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں (الاسراء: 57) کیونکہ کوئی بھی آدمی اپنے بارہ میں یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ خدا کے معاملہ میں کسی کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوا۔
اپنے رب کا قرب حاصل کرنے کے لیے حیلے وسیلے کرتے ہیں اور نیک اعمال کا جتن کرتے ہیں۔ (الاسراء: 57)
وہ عبادت گذار ہوتے ہیں۔ (التوبۃ: 112)
رکوع وسجود ان کی زندگی کا ایک ورق ہوتے ہیں۔ (التوبۃ: 112)
وہ روزہ دار ہوتے ہیں۔(التوبۃ: 112)
خالی پیٹ ہو کر بھی وہ دوسرے بھوکے کی فکر کرتے ہیں اور اپنے اوپر دوسرے بھوکے کو ترجیح دیتے ہیں۔ (الحشر: 9)
اﷲ کی بیان کردہ حدود کی حفاظت کرتے ہیں اور ان سے آگے نہیں بڑھتے۔ (التوبہ: 112)
خوش حالی میں تو وہ خرچ کرتے ہی ہیں، تنگ حالی میں بھی صدقہ کرنا ان کا شعار ہوتا ہے۔(البلد: 14)
اﷲ کا نام لیتے ہوئے بیدا ہوتے ہیں اور اسی کا نام لیتے ہوئے نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ (اسوہ نبوی) یعنی اﷲ کا ذکر بہت کثرت سے کرتے ہیں (الاحزاب: 35)
ان پر گروہی رنگوں کی بجائے ’’صبغۃ اﷲ‘‘ یعنی اﷲ کا رنگ طاری ہوتا ہے (البقرۃ: 138) اور دیکھنے والا جب ان کو دیکھتا ہے تو اسے بھی اﷲ یاد آجاتا ہے۔ (حدیثِ نبوی)
انہوں نے اﷲ کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہوتا ہے (آلِ عمران: 101) یعنی اﷲ کی رسی کو، اس کے احکام کو، اس کے ساتھ اپنے قلبی وایمانی تعلق کو ایسے مضبوطی سے پکڑا ہوا ہوتا ہے جیسے کوئی گرتا ہوا آدمی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے اور اس کے لیے اگر کوئی قیمت دینی پڑے تو دے گذرتا ہے ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے کہ اﷲ کے ساتھ ایسا تعلق ہدایت اور صراطِ مستقیم کی ضمانت ہے۔ (آلِ عمران: 101)
سچ بولتے ہیں (آلِ عمران: 17) اور مومن جھوٹا تو کبھی ہوسکتا ہی نہیں۔ (حدیثِ نبوی)
مومن صرف اﷲ پر توکل کرتے ہیں۔ (الانفال: 2)
ایمانی صفات ان کے مردوں اور عورتوں دونوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ (الاحزاب: 35)
وہ تکبر نہیں کرتے (القصص: 83) اور تکبر کرنا تو ابلیس کی صفت ہے۔ (البقرۃ: 34)
خیر خواہی کے جذبہ سے وہ دوسروں کو بھی نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ (آلِ عمران: 114) یوں وہ خیر کی چابی اور شر کا تالا ہوتے ہیں۔ (حدیث نبوی)
برائیوں کا پرچاری بننا اور نیکیوں میں رکاوٹ بننا ان کی خصلت نہیں ہوتا کہ یہ تو منافقین کا اسوہ ہے۔ (التوبۃ: 67)
جھوٹ، دھوکا اور بدعنوانی کی تمام شکلوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ (النساء: 29)
اﷲ کی آیات سنتے ہیں تو آنکھوں کے راستے بہہ پڑتے ہیں (البقرۃ: 74) اور مردہ دلی تو در اصل یہود کی صفت ہے۔ (البقرۃ: 74)
کاروبار کی محبت انہیں نماز وزکوۃ کی ادائیگی سے غافل نہیں کرسکتی۔ (النور: 37)
غصہ آئے تو پی جاتے ہیں (آلِ عمران: 134) اور لوگوں سے درگذر کرتے ہیں۔ (الشوری: 37)
وہ جھوٹ کی گواہی نہیں دیتے۔ (الفرقان: 72)
اپنے رب سے اپنے لیے دین ودنیا کی بھلائیاں مانگنا مومن کی صفت ہوتا ہے۔(الفرقان: 74)
زمین وآسمان کی تخلیق میں تفکر کرتے اور اپنے ایمان کو تقویت دیتے ہیں۔ (آلِ عمران: 191)
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں۔ (الحجرات: 3)
اﷲ کی راہ میں جانی ومالی جہاد کرتے ہیں۔ (الانفال: 72)
ہجرت ونصرت کی ضرورت پڑے تو وہ بھی کر گذرتے ہیں۔ (الانفال: 72)
صرف فالتو چیزیں صدقہ نہیں کرتے، بلکہ جس مال میں دل اٹکا ہوا ہے وہ بھی اﷲ کے راستہ میں دیتے ہیں۔ (البقرۃ: 177)
قیدیوں کی امداد کرتے ہیں۔ (الدھر: 8)
اﷲ پر، آخرت پر، کتابوں پر اور نبیوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ (البقرۃ: 177)
مال کی چاہت ہوتے ہوئے اسے رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ (البقرۃ: 177)
مسافر کی امداد کرتے ہیں۔ (البقرۃ: 177)
مانگنے والوں کو بھی دیتے ہیں (البقرۃ: 177) یعنی انہیں پیشہ ور کہہ کر دھتکار نہیں دیتے۔
غلام جو کسی زمانے میں ہوتے تھے، ان کو آزاد کروانے کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ (البقرۃ: 177)
بے فائدہ کاموں اور لایعنی قسم کی بحثوں سے بے زار ہوتے ہیں۔ (المومنون: 3)
جب شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انہیں چھو بھی جائے تو یہ چونک جاتے ہیں اور باطنی بصیرت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ گویا شیطان کو شرارت کرتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ (الاعراف: 201)
فرشتوں سے ان کا تعلق ایمان اور احترام کا ہوتا ہے۔ (البقرۃ: 285)
تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں (آلِ عمران: 26)
تمام رسولوں پر بلاتفریق ایمان رکھتے ہیں، یہود کی طرح بعض پہ ایمان اور بعض سے کفر نہیں کرتے۔ (البقرۃ: 136)
اپنے رب کی آیات سے وہ اندھے اور بہرے ہوکر نہیں گذر جاتے۔ (الفرقان: 73)
وہ ایمان بالغیب رکھتے ہیں، یعنی اﷲ کی پیدا کردہ ونازل کردہ آیات ونشانیوں کو دیکھ سن کر وہ خدا پہ، وحی پہ، فرشتوں پہ اور جنت وجہنم پہ بن دیکھے ایمان لے آتے ہیں اور ایمان لانے سے قبل ان سب غیبیات کو دیکھنے کی شرط نہیں لگاتے (البقرۃ: 3) کہ ایسی شرطیں لگانا خدا کے ناپسندیدہ مغرور لوگوں کا طریقہ ہے جو خود کو کوئی بڑی اہم چیز سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ شاید خدا کو ان کے ایمان کی ضرورت پڑی ہوئی ہے۔ (الفرقان: 21)
کائنات کو دیکھتے ہیں تو اس کی مقصدیت کو محسوس کرتے ہیں۔ (آلِ عمران: 191)
برائی کا تدارک اچھے طریقہ سے کرتے ہیں۔ (الرعد: 22)
صدقہ علانیہ بھی کرتے ہیں اور چھپ کر بھی۔ (الرعد: 22)
قتال فی سبیل اﷲ کرتے ہیں اور کبھی غازی، کبھی شہید ہوتے ہیں۔ (التوبہ: 111)
دشمن سے جنگ کی تمنا نہیں کرتے(حدیثِ نبوی)، لیکن اگر آمنا سامنا ہوجائے تو سیسہ پلائی دیوار بن کر باطل کی سرکوبی کرتے ہیں۔ (الصف: 4)
بخل واسراف سے اجنتاب کرتے ہیں اور اعتدال ان کی صفت ہوتا ہے۔(الفرقان: 67)
صدقہ کرکے کسی بدلہ کے یا شکریہ کے متمنی نہیں ہوتے۔ (الدھر: 9)
اگر اﷲ اقتدار دے تو اپنے فرائض یاد رکھتے ہیں اور اپنی ذات سے نماز وزکوۃ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتے رہتے ہیں۔ (الحج: 41)
اﷲ کا نام سنتے ہیں تو اس کے نام کے رعب سے ان کے دل لرز جاتے ہیں۔ (الانفال: 2)
• انہیں چین وجاپان کی باتوں میں نہیں، اﷲ کی یاد میں قرار ملتا ہے۔ (الرعد: 28)
لوگ جب رات کو اپنے اپنے بستر پر ہوتے ہیں تو یہ رب کے آگے کبھی ہاتھ باندھ کر کھڑے قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں اور کبھی اس کے سامنے حالتِ سجدہ میں ہوتے ہیں۔ (الفرقان: 64)
پھر جب رات بیتنے کو ہوتی ہے تو استغفار میں لگ جاتے ہیں۔ (الذاریات: 19)
خود کو مومن سمجھ کر بے خوف نہیں ہوتے، بلکہ جہنم سے بچاؤ کے لیے فکر مند رہتے ہیں اور اس کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ (الفرقان: 66)
وہ قاتل اور زانی نہیں ہوتے۔ (الفرقان: 68)
اﷲ کے سوا کسی معبود کو نہیں پکارتے۔ (الفرقان: 68)
خیر کے کاموں میں سرعت سے کام لیتے ہیں۔ (الانبیاء: 90)
• رب کے سامنے جھکے چلے جاتے ہیں۔ (الانبیاء: 90)
اگر ان سے بے حیائی کا کوئی کام سرزد ہوجائے یا کوئی اور گناہ ہوجائے تو اﷲ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیتے ہیں (آلِ عمران: 135) اور کافروں کی طرح اپنے گناہوں کے جواز نہیں نکالتے۔ (الاعراف: 28)
نیکی کر کے بھی ابراہیم علیہ السلام کی طرح اس کی قبولیت کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ (البقر?: 127)
نماز پڑھ کر بھی ابراہیم علیہ السلام کی طرح اس کی اصلاح، ترقی اور استقامت کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ (ابراہیم: 40)
ایک مستقل عمل سمجھ کر جلوت وخلوت میں اﷲ کی تعریف کرتے ہیں۔ (التوبۃ: 112)
جن امور ورشتوں کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا، انہیں جوڑے رکھتے ہیں۔ (الرعد: 21• وہ اس اندیشہ سے ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں خدا کی بارگاہ میں ان کا سخت حساب نہ لے لیا جائے (الرعد: 21) اور اپنے رب سے آسان حساب کی دعا مانگتے ہیں۔ (نبوی دعاء)
ہدایت مل جانے کے بعد بے خوف نہیں ہوتے، بلکہ گم راہی سے بچے رہنے کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ (آلِ عمران: 8)
دین کے نام پر فلسفے جھاڑنے سے زیادہ وہ دین کو اپنانے کی فکر کرتے ہیں کیونکہ خود کو بھول کر دوسروں کی اصلاح کے لیے پریشان رہنا تو یہودیوں کی صفت تھا اور خدا نے اس پر ان کی مذمت فرمائی۔ (البقرۃ: 44)
وہ اپنے لیے یہ بات ہرگز پسند نہیں کرتے کہ کوئی ان کی حیثیت سے بڑھ کر ان کی تعریف کرے اور ان کی طرف وہ نیکیاں منسوب کرے جو در اصل ان میں پائی ہی نہیں جاتیں کیونکہ ایسا چاہنا تو یہودیوں کی صفت ہے اور پروردگار نے اس پر ان کی مذمت کی ہے۔(آلِ عمران: 188)
چھوٹی چھوٹی چیزوں کا لالچ نہیں کرتے کہ ایسا لالچ کرنا تو بے حس اور بے ایمان لوگوں کی صفت ہے(الماعون: 7) اور وہ لین دین میں نرم روی سے کام لیتے ہیں۔ (حدیثِ نبوی)
آخری بات:
قرآن میں مختلف مقامات پر مذکور مومنین کی کچھ صفات یہاں یکجا طور پر ذکر کی گئی ہیں، مگر ان کا پورا حظ تب ملتا ہے جب انسان ان کو قرآن میں متفرق طور پر ہی پڑھتا ہے، قرآن جب ان صفات میں سے چیدہ چیدہ صفات کو ایک خاص سیاق وسابق میں ذکر کرتا ہے تو ان کی تاثیر میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالی اپنی رحمت کے صدقے اس عاجز کو اور سب پڑھنے والوں کو یہ صفات عطا فرمائیں۔ آمین
وصلی اﷲ تعالی علی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ اجمعین
آپ نے بہت خوب کام کیا ہے۔ جزاک اللہ