مولانا عطاء اﷲ شہاب (گلگت)
استادِ محترم مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید کی پاکستان کی سرزمین پر موجودگی فعالیت اور علمائے کرام کے حلقوں میں مقبولیت و محبوبیت نے آپ کی صلاحیتوں کو مزید جلا بخشی۔ آپ نے جامعہ فاروقیہ کراچی فیز ٹو کے نظام تعلیم کو بالکل ایک جدید عالمی قالب میں ڈھال دیا تھا۔ امریکہ اور ملائشیا،کے نظام ہائے تعلیم کے تفصیلی مطالعہ و مشاہدہ کے نچوڑ کے طور پرجامعہ فاروقیہ فیز ٹوکو لاجواب ادارے کی شکل میں جاری فرمایا۔ دینی مدارس اور جامعات کے تحفظ کا مقدمہ ہمارے اکابر نے بڑی مضبوطی سے لڑا،لیکن حکمرانوں کے مذموم و مکروہ عزائم نت نئے عنوانات سے مدارس و جامعات کو اپنی لپیٹ میں لیتے رہے۔ حکمرانوں کے اذہان و قلوب کو بین الاقوامی طاغوتی مالیاتی اداروں اور سیاسی قوتوں نے مسموم کردیا اور ان کو اپنا ظاہری و دنیوی مفاد،کو دینی مدارس وجامعات پر طرح طرح کی قدغنیں لگانے سے مشروط نظر آنے لگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قرآن و حدیث کی تعلیمات سے نفرت اور بغض کی حددرجہ مکروہ سوچ رکھنے والے حکمرانوں نے دینی مدارس اور جامعات کو تعلیم کے شعبے سے ہی باہر کردیا۔
حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمہ اﷲ جو قدیم وجدیدعلوم وفنون کے حامل تھے۔ان سامراجیوں اور ان کے گماشتوں سے انھی کی زبان اور انھی کے انداز میں بات کرنے کے گرسے آشنا تھے۔ انھوں نے اسی لب و لہجہ میں بات کی اور متواتر کرنے لگے، اور مکمل مؤثر بیانیہ تشکیل دے کر نخوت و غرور میں مبتلاحکمرانوں کے کرایہ دار دانشوروں کی بولتی بند کرائی۔
اسی اثنا میں پاکستان کے خاموش و پر امن ماحول کو،فرقہ واریت کی آگ میں دھکیلنے کی دجالی سازشیں بروئے کار لائی جانے لگیں۔ فرقہ وارانہ فسادات کی آگ اس وقت بھڑکائی جاتی ہے جب پاکستان میں اسلامی تعلیمات اور دینی شعائر کے خلاف قانونی و آئینی ترمیم،کرانامقصودہوتا ہے اور اس کے لیے کرائے کے فتنہ باز (جو بغض صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم سے بھرے ہوتے ہیں) کم قیمت پر دستیاب ہوتے ہیں۔ایسے بدبختوں کی خدمات لی جاتی ہیں۔ایک تیر سے دو شکار ایسے نازک موقعوں پر کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان کی پاکیزہ زمین پرحضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم کے پاکیزہ نفوس پر برسرعام تبرا کیا جانے لگا۔منصوبہ سازوں کو اس بات کا علم تھا کہ اب دفاع صحابہ کے علم بردار حرکت میں آئیں گے اورٹکراؤ کی اس کیفیت سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔ اپنے ہدف کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔ ادھر پاکستان میں ہونے والی بکواسات کے خلاف حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان سے محبت کا دم بھرنے والی تمام تحریکات کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے کرنے کا عزم لے کر میدان میں اترنے والے مرد آہن،حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید ایک نئے جوش وولولے کے ساتھ ملکی منظر نامے پر نمودارہوتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی امت مسلمہ اندھے فتنوں کی آماجگاہ بنانے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں، ایک طرف یہود کے بھرپور تعاون سے قائم و برسرِاقتدار حکمران ٹولہ پاکستانی آئین سے اسلامی دفعات خصوصا ختم نبوت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دفاع کے قوانین اور ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والے قادیانی و مرزائی ڈاکوؤں کو ریلیف دینے کی غرض سے ساری توانائیاں صرف کررہا ہے۔ جمہوریت کی آڑ میں الحادی سوچ کو پروان چڑھا کر اسلام پسندوں کے لئے جمہوری راہیں ہمیشہ کیلئے بند کردینے کے تجربات کئے جارہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کی دینی شناخت کے محافظ مدارس و جامعات کے کردار کو محدود سے محدود ترکرنے کی حکومتی کوششیں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ تیسری طرف ملک کی پرسکون مذہبی فضا کو گدلا کرنے کی زہریلی سازشیں عروج کو پہنچی ہوئی ہیں۔پاکستانی کے جمہوریت پسند علماء کے سرخیل اور آئین پسندوں اہلِ اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن مد ظلہ نے ایک محاذ سنبھال رکھا ہے اور شدید جد و جہد میں منہمک ہیں۔حضرات علماء کرام، آئین اور جمہوریت پسندوں کو بزبان حال مولانا فضل الرحمن گویا یوں کہہ رہے ہیں:
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلادوں
ادھر استاد محترم مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمۃ اﷲ علیہ ناموسِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم اور ناموس صحابہ کرام علیہم الرضوان کے انتظامی تحفظ کے لئے میدان عمل میں اترے اور پاکستان کی تمام دینی،مذہبی اور مسلکی تحریکات اور شخصیات کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے کرنیکا عزم کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنے عزم کو عملی جامہ پہنا دیا۔ عروس البلاد کراچی سے ان اجتماعات کا باضابطہ آغاز کیا جاتا ہے۔ پہلا اجتماع ہی اس قدر جامع اور منظم شکل میں سامنے آتا ہے کہ طاغوتی قوتیں جو پاکستان کے دینی تشخص کو مٹانے پر تلی ہوئی ہیں، ان کا تکبر و نخوت زمین بوس ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اب ان طاغوتی قوتوں کے مکروفریب اور دجل میں تیزی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ ادھر کراچی کے کامیاب اور منظم اجتماعات سے جہاں ملک بھر سے ایسے اجتماعات منعقد کرنے کا تقاضا درپیش ہوا وہیں پر حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمہ اﷲ کی جرأت وہمت اور ہمہ جہتی کے ڈنکے بجنے لگے۔ خواص میں تو حضرت ڈاکٹرصاحب پہلے سے مشہور و معروف تھے، اب بدلتے حالات اور ان کا جرأت مندانہ مقابلہ کرنے کی وجہ سے عوامی سطح پر مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ عالمی سطح کی وہ طاغوتی قوتیں،جو ہمیشہ ایسے نازک موقعوں پر ایک تیر سے دو شکار کرتی چلی آرہی ہیں اور جن قوتوں کا ہدف پرامن پاکستان اور اس کا اسلامی وایٹمی تشخص رہا ہے، ان کی طرف سے ایسے حالات پیدا کرنے کی مکروہ کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ سلگائی جاتی رہے اور کسی ایک فرقے کی مقبول عام شخصیت کو اس بھڑکتی آگ میں بطور ایندھن جھونک دیا جاتا رہے تاکہ فساد کی تپش میں تیزی پیدا کی جاسکے۔ تاکہ جان سے گزرنے والے فرد یا شخص کا خون دوسرے مخالف طبقات کے سر ڈالا جاسکے اور یوں یہ آگ دونوں طبقات کے مابین تعلقات کو جلاکربھسم کردے اور وہ قوتیں،اپنے اہداف کو سہولت سے حاصل کر سکیں۔ جبکہ دوسرے ہدف کے طور پر پاکستان کی حکومتی مشینری کو انھی مذہبی طبقات کے خلاف امن کے دشمنوں کا مقابلہ کا نام دیکر متحرک و فعال کیا جاسکے۔ یعنی پہلے فسادات کرائے جاتے ہیں پھر فسادات کو روکنے کے عنوان پر ان فسادات میں جھونکے گئے طبقات ہی کے خلاف حکومتی و ریاستی اداروں کی طاقتوں کو متحرک کیا جاتا ہے۔
حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہیدمرحوم و مغفور کے جرأت مندانہ کردار کی پاکستانی قوم بڑی تیزی کے ساتھ مداح اورہم نوا بنتی جارہی تھی۔ اسلام آباد اور ملتان میں ناموس صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضی اﷲ عنہم کے عنوان سے منعقدہ اجتماعات سے طاغوتی قوتوں اور ان کے پاکستانی گماشتوں کو تکلیف ہونے لگی۔ کراچی،اسلام آباد اور ملتان کے کامیاب اور منظم اجتماعات،کی پشت پراستاذِ گرامی ڈاکٹر محمد عادل خان شہید ؒ کی متحرک،فعال اور نڈر شخصیت نظر آتی ہے، اب استاد محترم طاغوتی قوتوں کا ہدف و ٹارگٹ بن جاتے ہیں اور فرقہ وارانہ دہشت گردی میں زیر استعمال افراد کو ایک بار پھر استعمال کیا جاتا ہے اور حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان کراچی میں ٹارگٹ کرکے شہید کردیے جاتے ہیں۔
وہ تو موجوں سے الجھ کر اپنی منزل پاگئے
ہم ساحل پر کھڑے یوں غور فرماتے رہے
استاد محترم حضرت ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمہ اﷲ علیہ،جو ایک معتدل مزاج آئین و قانون کے پاسدار اور قدیم و جدید علوم کے حامل شخصیت تھے، حق و صداقت کے دشمنوں نے ان کو بھی برداشت نہیں کیا۔ ایک بار پھر پاکستان کی پیاسی مٹی پاکباز علماء کرام اور بے گناہ لوگوں کے پاکیزہ خون سے سیراب ہوئی۔
یہ گھناؤنا کھیل اب بھی کھیلا جارہا ہے اور معلوم نہیں کب تک کھیلا جاتا رہے گا۔ عالمی قوتیں اور ان کے مقامی زلہ خوارہمارے استاذِ گرامی اور دیگر حضرات اکابر علماء و صلحاء کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ہٹا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ان قوتوں کی مکروہ سازشیں کامیاب ھوجائیں گی، تو وہ یقین کرلیں کہ وہ ناکام ہوچکے ہیں۔پاکستان ایسی سازشی قوتوں کے لئے قبرستان بنے گا۔ اس پاکیزہ دھرتی کے قیام سے لے کر اب تک جتنا پاکیزہ خون بہایا جاچکا ہے، اﷲ رب العزت اس پاک دھرتی کو ناپاک لوگوں کی آماجگاہ بننے نہیں دینگے۔
ان شہداء کے منور سلسلے میں سے ہر ایک روشن ستارے نے اپنے دماء طاہرہ سے ایسا معطر اور پر نور راستہ قائم کیا ہے کہ ان کی وارث اسلام کی نام لیوا قوتیں جانوں پر کھیل جائیں گی مگر ظلمات کے تاجروں کے قدم کبھی جمنے نہیں دیں گی۔ اس خطے میں دوسرا افغانستان عالمی اداروں اور ملکوں کے لئے ایسا ناقابل ہضم لقمہ بن جائے گا جسے نہ نگلنا ممکن ہوگا اور نہ اگلا جا سکے گا۔
ڈاکٹر محمد عادل خان شہید مرحوم و مغفور کی سدا بہار شخصیت،سادگی کا پیکر تھی۔ اپنے شاگردوں سے دوستوں والا رویہ رکھتے تھے۔ خود میرے ساتھ حضرت الاستاذ شہید کا رویہ کئی حوالوں سے مربیانہ،ناصحانہ اور دوستانہ تھا،۔ شہادت سے دس روز قبل اسلام آباد میں،حضرت قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب حفظہم اﷲ کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے اکابروہاں حضرت قائد جمعیت دامت برکاتھم سے اہم اور ضروری مشاورت کے لیے جمع ہوئے تھے، مولانا عادل خان شہید بھی مجلس مشاورت کے ایک ذمہ دار قائد و راہنما کے طور پر شریک تھے۔ہم گلگت بلتستان کے 15 نومبر کو منعقدہ انتخابات کے حوالے سے، حضرت قائد جمیعت سے بعض اہم سیاسی و انتخابی امور پر راہنمائی حاصل کرنے حاضر ہوئے تھے۔
جامعہ فاروقیہ کراچی کے مدرس اور کافیہ میں میرے استاد حضرت مولانا حسین احمد صاحب بھی تشریف فرما تھے۔ استاد محترم جناب مولانا حسین احمد ان دنوں جامعہ عثمانیہ پشاور میں ناظم تعلیمات کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ حضرت مفتی غلام الرحمن صاحب دامت برکاتہم بھی شریک مجلس تھے۔ مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہیدنے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ یارمولانا عطاء اﷲ شہاب سنا ہے کہ تم لیڈر بن گئے ہو، آج کل تمھاری طرف انتخابات ہو رہے ہیں، تم یہاں اپنے جماعتی قائدین اوررہنماؤں کوبلانے آئے ہو، ہمیں بھی دعوت دو، ہم بھی آپ حضرات کی الیکشن کمپین میں حصہ لیں۔ تمھیں شاید معلوم نہ ہو کہ ہم بھرپور کمپین کرسکتے ہیں۔میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ تو ہمارے لئے سعادت ہوگی کہ آپ تشریف لائیں۔ انتہائی بے تکلفی سے فرمانے لگے: ارے بھئی۔ہم واقعی آنا چاہتے ہیں۔ پھرکہا: دیکھو بھائی! ہمیں بلانا ہو تو مولانا حسین احمد صاحب کو بھی دعوت دینا، ہم اکٹھے ہی آئیں گے۔اس سے پہلے ایک ملاقات میں فرمایا کہ مولوی صاحب!آج کل کیا مصروفیات چل رہی ہیں؟پھر میرے کاندھے تھپکاتے ہوئے کہنے لگے: بھئی! کبھی اپنا مادر علمی دیکھنے ہی آجاؤ۔
استاد جی کی سینکڑوں یادیں اور باتیں نہ جانے ایک دم سے کہاں سے امڈتی چلی آرہی ہیں کہ استاد جی مجسم روپ میں سامنے دکھائی دیتے ہیں۔ حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان اور ان کے برادرِ گرامی حضرت الاستاذ الفاضل مولانا عبید اﷲ خالد صاحب حفظہ اﷲ کے فرزندان بھی ماشا اﷲ بڑی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ اﷲ تعالی،حضرت ڈاکٹر صاحب شہید کے مظلومانہ حادثۂ شہادت پر صبر کا دامن تھامے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس علمی خانوادے کے امین نسبی و روحی بیٹوں کو جملہ قسم کے شرور و فتن سے محفوظ رکھے،حضرت مولاناشہید رحمۃ اﷲ علیہ کے تلامیذ،رفقاء،ہم فکر وہم آواز دوستوں اور خیر خواہوں کی اک کثیر تعداد اندورون و بیرون پاکستان،موجود ہے۔چنانچہ شہادت کے روز اور اس کے بعدحضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید کے چاہنے والوں نے اپنے غم و غصے اور اپنی عقیدتوں اور محبتوں کا متنوع طریقوں سے اظہارکیا۔ گلگت بلتستان میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ جامعہ فاروقیہ کراچی سمیت دینی مدارس وجامعات اور مکاتیب قرآنیہ کا پاکستان کے اندر اور باہر کردارنہایت اجلا، شاندار،مثبت،معتدل اور منظم رہا۔اسلام دشمن قوتیں اﷲ تعالی کے نور ہدایت کو اپنی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں۔ اﷲ تعالی اپنے اس نور کو غالب فرمائیں گے کافروں اور اسلام دشمن قوتوں کو یہ بات بہت بری لگتی ہے۔