ڈاکٹر عمر فاروق احرار
مولانااکبرشاہ نجیب آبادی ہمارے شاندارماضی کے ناموراہل قلم تھے۔سیرت وسوانح،تاریخ ومعاشرت اور زبان وادب کے موضوعات پر ہمیشہ اُن کاقلم رواں رہا۔ایک دورمیں وہ قادیانیت کے فریب کا بھی شکارہوئے،مگر وہ اس معاملہ میں اکیلے نہ تھے،بلکہ قادیانیت کو اِسلام سمجھ کر اُس کے جال میں پھنسے والوں میں دیگرکئی ممتازشخصیات بھی شامل تھیں۔ جن میں بدقسمتی سے مولانا ابوالکلام آزادکے بڑے بھائی ابوالنصر غلام یٰسین آہ دہلوی (م1906ء) اور مولانا محمد علی جوہر کے برادر بزرگ ذوالفقار علی گوہر (م1956ء) بھی شامل تھے۔ جواں مرگ غلام یسین آہ شاعربھی تھے۔ اُن کا کلام ’’دیوان آہ‘‘ کے نام سے ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری نے مرتب کیا جو خدا بخش اورینٹل لائبریری پٹنہ سے شائع ہوا۔ غلام یٰسین آہ نے اپنے بیٹے کا نام مرزا قادیانی کے جانشین اوّل حکیم نور الدین کے نام پر نور الدین احمد رکھا۔ انڈیا کے صحافی فیروز بخت احمد اُنہی نور الدین احمدکے لڑکے ہیں۔ذوالفقارعلی گوہرپہلے قادیان اورپھر ربوہ میں رہائش پذیرہوئے ۔جب فوت ہوئے توجنازہ مرزابشیرالدین محمودنے پڑھایااورربوہ[چناب نگر]میں تدفین ہوئی۔غلام یٰسین آہ اورذوالفقارعلی گوہرکی موت قادیانیت ہی پر واقع ہوئی ،مگر مولانااکبرشاہ نجیب آبادی قسمت کے دھنی تھے کہ انہیں دوبارہ اسلام کے دامن سے وابستگی کی سعادت نصیب ہوئی۔
اگر چہ مولانا نجیب آبادی کے قادیانیت سے قرب اوردُوری کی زیاد ہ تفاصیل موجودنہیں ہیں،مگر پروفیسر محمد ایوب قادری مرحوم نے اپنی کتاب’’کاروانِ رفتہ ‘‘میں ایک سوانحی مضمون میں مختصراً اس بابت لکھا ہے۔ احقر [عمر فاروق] نے بھی مزیدمعلومات قادیانی اخبار’’الفضل‘‘ اوردیگرکتب سے مجتمع کرنے کی مقدوربھرسعی کی ہے۔ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی تعلیم سے فارغ ہوئے تو 1878-79ء میں محکمہ تعلیم سے بحیثیت مدرس وابستہ ہوگئے۔یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہندو آریہ سماجیوں اورسناتن دھرمیوں کا فتنہ عروج پر تھااوراُن کی شدھی اورسنگھٹن کی تحریکیں اسلام اور مسلمانوں کے ایمان پر حملہ آورہوچکی تھیں۔مرزاغلام احمدقادیانی اُس وقت آریہ سماجی ہندوؤں کے ساتھ مناظروں میں شہرت پاچکا تھا۔اُنہی دنوں آریہ سماج کا ایک مبلّغ نجیب آبادآیا اوراُس نے اسلام پر اعتراضات کا طومار کھڑاکردیا۔مولانا اکبر شاہ نے اپنے علم اورصلاحیت کے مطابق اس مبلّغ سے مباحثہ اور مناظرہ شروع کیااوراُس کے اعتراضات کا جواب دیا۔ اسی دوران اتفاقاً اُنہیں مرزاغلام احمدقادیانی کی ایک کتاب ملی ۔اُنہوں نے آریہ سماجی مبلّغ کو لاجواب کر دیا، مگر بعد ازاں فتح کے جوش نے نوجوان اکبرشاہ کو قادیانیت کے قریب کر دیا۔حتی کہ وہ قادیان گئے ،قادیانیت قبول کی اوروہیں ملازمت کرلی۔وہاں اُن کی مرزاقادیانی کے جانشین حکیم نورالدین سے انتہائی قربت ہوگئی۔حتیٰ کہ حکیم نورالدین نے اُنہیں اپنے سوانحی حالات لکھاناشروع کردیے،جن کا پہلاحصہ’’مرقاۃالیقین فی حیاۃِ نورالدین‘‘ کے عنوان سے اشاعت پذیر ہوا۔ 1906ء سے 1914ء تک اُن کاقیام قادیان ہی میں رہا۔وہاں پر قیام کے دوران وہ پانچ سال تک قادیانیوں کے مدرسہ تعلیم الاسلام کے ہاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ بھی رہے۔وہ اپنا زیادہ وقت حکیم نورالدین کے مطب میں گزارنے کے ساتھ ساتھ طلباکو درس قرآن دینے میں صرف کرتے تھے۔
1914ء میں حکیم نورالدین کا انتقال ہواتو مولانا اکبرشاہ کابھی قادیان میں رہنے سے جی اُچاٹ ہوگیا اوروہ نئے قادیانی سربراہ مرزابشیرالدین کی ’’خلافت‘‘سے زیادہ دیرتک اپنے آپ کومتفق نہ پاکرقادیان سے اٹھ آئے ۔اُن کی مرزا بشیر الدین کے نامناسب رویہ کی شکایات لاہوری فرقہ کے رہنماؤں میاں محمدعلی اورڈاکٹربشارت احمدکے نام اُن کے خطوط میں بھی ملتی ہیں۔وہ اپنے علاقہ نجیب آبادواپس آکرقادیانیوں کے لاہوری فرقہ سے منسلک ہوگئے۔لاہوری جماعت نے انہیں لاہوربلوالیااوراُنہوں نے 1915 ء کے وسط تک لاہورمیں لاہوری مرزائیوں کے اشاعت اسلام کالج میں تاریخ کے استاد اوراُن کے اخبار’’پیغام صلح ‘‘کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔جب اُنہوں نے قادیانی جماعت کے بعدلاہوری جماعت کا بھی قریب سے بغورمطالعہ ومشاہدہ کیاتو اُن پر لاہوری مرزائیت کا دجل وفریب بھی واضح ہوگیا۔ جس پر اُنہوں نے لاہوری مرزائی عقائدسے بھی انقطاع کرکے بالآخراِسلام قبول کرلیا۔جس کے بعداُن کا ہمیشہ کے لیے قادیانیت سے رشتہ وتعلق ختم ہوگیا۔مرزابشیرالدین نے بھی مولانا اکبرشاہ کے ترکِ قادیانیت کی تصدیق کی ہے کہ ’’اسی طرح اکبرشاہ نجیب آبادی بھی تھے۔اُن کے متعلق اب سناہے کہ اُن کا سلسلہ[قادیانیت]سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ انہوں نے میری مخالفت کے دوران رویا[خواب]دیکھی اورپھر اُنہوں نے بیعت بھی کرلی،گووہ اس پر قائم نہ رہے۔‘‘ (’’الفضل‘‘، قادیان۔ 4؍نومبر1927ء) مرزا بشیر الدین نے 27؍دسمبر1941 ء کواپنے ایک خطبہ جمعہ میں مزید سخت الفاظ میں کہاکہ:’’اکبرشاہ نجیب آبادی پہلے مرتدہوکرپیغامی[لاہوری]ہوا،اورپھروہاں سے بھی مرتد ہو کر غیر احمدی بنا۔‘‘ (’’انوارالعلوم‘‘، جلد16)مولانا اکبر شاہ کے پاس حکیم نورالدین کی سوانح کا دوسراحصہ بھی موجودتھا۔جب وہ قادیانیت سے تائب ہوگئے تو پھرکبھی اُس کے دوسرے حصے کی اشاعت کی نوبت ہی نہ آئی۔جیساکہ عبدالقادرسوداگرمل قادیانی اپنی کتاب ’’حیاتِ نور‘‘کے صفحہ5 پر لکھتاہے کہ:’’اکبرشاہ صاحب نے سوانح کا دوسراحصہ لکھاتھا،مگر اُن کے سلسلہ [قادیانیت] سے علیحدہ ہونے کی وجہ سے وہ محفوظ نہیں رہ سکا۔‘‘
مولانا اکبرشاہ نجیب آبادی قادیانیت ترک کرنے سے متعلق اپنے ایک مختصرسے بیان (مطبوعہ سہ روزہ ’’مدینہ‘‘ بجنور، یکم نومبر1935ء )میں لکھتے ہیں کہ:’’میرے ایک دوسست کو حال ہی میں کسی قادیانی کی صحبت کا موقع ملا۔ وہ قادیانی علم کلام اورقادیانی مخصوص عقائدکو غالباً قبول کرچکے ہیں۔میرے پاس انہوں نے چندسوالات لکھ کربھیجے ہیں۔ جن کی زبان اورلہجے میں شایداُن کے نشترکی نسبت اپنی تلوارکی نوک سے میں زیادہ کا م لے سکتاہوں،لیکن اس جراحی اور فصّادی سے میراجی متلاتاہے۔صرف نفس مطلب کی طرف متوجہ ہوتاہوں۔اُن کے پہلے سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ’’ تُو قادیان میں کئی سال تک قادیانی بن کر رہا،مگر اب قادیانیت سے کیوں منحرف ہے۔ کیا یہ متلوّن مزاجی اور رائے کی کمزوری نہیں ہے؟‘‘ اس قسم کا سوال مجھ سے مولانا حکیم اﷲ صاحب بجنوری نے بھی کیا تھا۔ میں نے اُن کے پاس جواب میں یہ [عرفی کا] مشہور شعر لکھ کر بھیج دیا تھا کہ:
زِنقصِ تشنہ لبی داں، بہ عقلِ خویش مناز
دلت فریب گر از جلوۂ سراب نخورد‘‘
(ترجمہ: اگر تمہاری پیاس میں خامی نہ ہوتی اور تم سچی پیاس رکھتے تو صحرا کی ریت بھی تمہیں جھیل دکھائی دیتی۔ فریب خوردگی سے تو تم اس لیے بچ گئے کہ تمہارے اندر پانی کے لیے طلب صادق نہیں تھی۔)
قبولِ اسلام کے بعدمولانا اکبرشاہ نجیب آبادی تاریخ وادب کی معرکہ آرائیوں میں مشغول رہے۔انہوں نے ’’تاریخ اسلام‘‘سمیت تیس کے لگ بھگ تحقیقی کتب تحریر کیں اور علامہ اقبال سمیت اپنی معاصرشخصیات سے خوب خراج تحسین وصول کیا۔مولانااکبرشاہ صاحب کاعقیدۂ ختم نبوت پر اِستقامت کے ساتھ قائم رہتے ہوئے 10؍ مئی 1938ء کو وصال ہوا،اوروہ نجیب آباد،ضلع بجنور (یوپی) میں محو اِستراحت ہیں۔
انتخاب
مجلس احرار اسلام ڈیرہ اسماعیل خان
مجلس احرار اسلام ڈیرہ اسماعیل خان کے کارکنوں کا انتخابی اجلاس 25اگست 2019ء کو مشتاق احمد صدیقی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اس سے پہلے رکنیت سازی کی گئی اور کثیر تعداد میں احباب نے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ اجلاس میں متفقہ طور پر درج ذیل انتخاب عمل میں آیا۔
امیر: جناب قاری محمد احسان نائب امیر: ملک عاصم عطاء
ناظم: مشتاق احمد صدیقی نائب ناظم: محمد اسلم بلوچ
ناظم نشر و اشاعت: قاری عبدالرشید نائب ناظم نشر و اشاعت: خرم نواز
خازن: محمد مسعود الحق قانونی مشیر: محمد ثاقب ایڈووکیٹ۔ محمد بلال
یہ کافی سودمند ہے میں اور جانا چاھوں گا اس طرح کے موضع کے بارےمیں