منیر احمد شاہ
بھارتی حکومت نے اسلام اور مسلم دشمنی میں قادیانیوں کو مسلمان فرقہ کے طور پر تسلیم کر لیا مودی حکومت نے قادیانیوں کو اسلام کے ایک فرقے کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ گزشتہ دنوں ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے اعداد و شمارسرکاری طور پر ظاہر کیے گئے جس میں یہ بات سامنے آئی کہ قادیانی اسلام کا ایک فرقہ ہے اس سے قبل بھارتی حکومت کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں اسلامی فرقوں کے طور پر سنی، شیعہ، بوہرہ او رآغا خانیوں کے ناموں کا اندراج تھا۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی حکومت گزشتہ برس تک قادیانیوں کو اسلام کا ایک فرقہ تسلیم کرنے سے گریزکرتی رہی جبکہ اس سے قبل ہائی کورٹ نے بھی اپنے ایک فیصلے میں قادیانیوں کو اسلام کے ایک فرقے کے طور پر تسلیم کیا تھا مودی نے حال ہی میں قادیانیوں کی امن پسندی اور رواداری کی تعریف کی اور یہ کہا تھا کہ قادیانی فرقہ اپنی مذہبی رواداری اور عالمی بھائی چارے کے لیے ایک مثال ہے۔ قادیانی فرقے کو مسلمانوں کا حصہ تسلیم کرنے والے ۲۰۱۱ء کی مردم شماری رپورٹ کا حصہ انڈین میڈیا کی خصوصی دلچسپی کا باعث رہا۔ بھارتی میڈیا نے خصوصی طور پر اپنی نشریات میں اس بات کو نمایاں کیا کہ مسلم فرقوں میں یہ فرقہ سب سے زیادہ رہا اور کچلا ہوا ہے اکثریتی سنی فرقے نے اس پر بہت مظالم ڈھائے ہیں اور میڈیا کے مطابق مودی سے قبل کی بھارتی وفاقی حکومتیں سنیوں کے خوف سے قادیانیوں کے ساتھ انصاف کی جرات نہیں کرپاتی تھیں، یہ پہلا موقع ہے کہ انھیں انصاف ملا ہے۔ تبصراتی رپورٹنگ کے بعد ادارتی کالموں کا رخ بھی یہی رہا واضح رہے کہ مردم شماری کے دوران اس عقیدے کے افراد بھی اپنے آ پ کو ’’مسلم‘‘ لکھواتے اور اپنا تعلق دین اسلام سے ظاہر کرتے رہے ہوں اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بھارتی حکومت اور پوری ہندوستانی سیاست قادیانیوں پر ہمیشہ کرم فرما رہی ہے لیکن یہ پالیسی ان کے ساتھ خالص ہمدردی سے زیادہ مسلم سوادِاعظم کی مخالفت کار فرما ہے۔ ۱۹۷۴ء میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کے خارج از اسلام ہونے کا قانون منظور کیا اس دوران بھارت میں قادیانیوں سے ہمدردی اور ان کی مظلومیت پر ماتم کا عالم دیکھنے اور غور کرنے کے قابل تھا لیکن اس میں بھی قادیانیوں سے ہمدردی سے زیادہ سنی ’’ظالموں‘‘ کے ’’ظلم وسفا کی‘‘ کی مذمت کا پہلو زیادہ ابھرا ہوا تھا اب وہی ذہنیت مردم شماری کی زیر بحث رپورٹ پر دیکھی جارہی ہے۔ فروری ۲۰۱۲ء میں بھارتی مسلمانوں کے مطالبے پر مسلم اوقاف نے قادیانیوں کی املاک کو مسلم اوقاف سے الگ کردیا تھا مسلم اوقاف نے کہا ہے کہ قادیانی اسلام کے بنیادی عقیدہ ختم نبوت کے منکر ہیں لہٰذا وہ مسلمان نہیں اور نہ ہی ان کی املاک کو مسلم اوقاف میں شامل کیا جاسکتا ہے مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان تنازع اس وقت پیدا ہوا تھا جب حیدر آباد دکن میں قادیانیوں نے قدیم قطب شاہی مسجد پر قبضہ کر لیا مسلمانوں کے احتجاج پر مسلم اوقاف نے مسجد کا قبضہ واپس لے لیا، اپریل ۲۰۱۲ء میں بھارتی صوبے آندھرا پردیش وقف بورڈ نے قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا اور ان کی عبادت گاہیں اور اداروں کا ریکارڈ وقف بورڈ سے خارج کردیا تھا۔ مردم شماری رپورٹ میں مسلم فرقہ کی حیثیت سے قادیانیوں کی شمولیت کی تائید میں جسٹس کالجو کے بیان کا ہندوستان بھر میں رد عمل ہورہا ہے، دارالعلوم دیوبندنے بھی جسٹس کالجو کے بیان کی شدید مذمت کی ہے اور اس کو انصاف و سچائی کا سنگین قتل قرار دیا۔ اپنے بیان میں کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم کے نائب ناظم مولانا شاہ عالم گورکھپوری نے کہا کہ جسٹس کالجو کا بیان نہایت ہی غیر منصفانہ اور حددرجہ غیر حقیقت پسندانہ ہے اس لیے کہ اسلام صرف زبانی دعوی کا نام نہیں بلکہ چند بنیادی اصولوں اور ضروری حقیقتوں کو تسلیم کرنے کا نام ہے ان میں ایک اہم اور بنیادی اصول ختم نبوت یعنی پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس حیثیت سے آخری نبی تسلیم کرنا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدانہیں کیا جائے گا اس کے بغیر کوئی فرد یا گروہ اپنے خود ساختہ اسلام کی چاہے کتنی ہی دلیلیں پیش کرے وہ ہرگز مسلمان نہیں ہوسکتا او رنہ اس کو ملت اسلامیہ میں شامل اور شمار کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس کالجو اگر قادیانی فرقہ کا غیر جاندبدارانہ مطالعہ کرتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ ’’قادیانیت‘‘ کسی مذہبی فرقہ کا نام نہیں ہے بلکہ مذہب کے نام پر مختلف مذہبی آبادیوں میں انتشار برپا کرنے کے لیے قادیانیت کو پیدا کیا گیا چنانچہ قادیانی اپنے پیشوا کو ’’کرشن‘‘ قرار دے کر ہندوبرادران وطن کے درمیان مذہبی انتشار کو ہوا دیتے اور اپنے بانی کو ’’یسوع مسیح‘‘ بتا کر عیسائی برادری میں مذہبی بے چینی پیدا کرتے ہیں جبکہ مسلمانوں میں اس شخص کوبعوذ باﷲ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا ’’دوسرا روپ‘‘ قرار دیکر ان کی شدید دل آزاری کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ فرقہ قرار دینے کی بنیاد کسی ملک کا فیصلہ نہیں ہے مذہب اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں یہ فیصلہ بہت پہلے ہی کر دیا گیا آزادی سے پہلے ۱۹۳۵ء میں بھاولپور کی عدالت میں اس فیصلہ کو قانونی حیثیت سے قبول کیا گیا اس کے علاوہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم رابطہ عالمی اسلامی (ورلڈ مسلم لیگ) نے ۱۹۷۴ء میں مقدس شہر مکہ مکرمہ میں منعقدہ اپنی انٹرنیشنل کانفرنس میں قادیانیوں کومسلمانوں سے علیحدہ قرار دیا۔ شاعر مشرق بیرسٹر علامہ اقبال نے بھی بہت پہلے ہی اپنے عالمانہ اور فاضلانہ لیکچرز میں قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا پوری شدت سے مطالبہ کیا تھا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سابقہ مردم شماری رپورٹوں میں قادیانیوں کا کسی فرقہ حیثیت سے کوئی ذکر نہیں تھا، یہ موجودہ حکومت کی شرارت اور شرانگیزی ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف اپنی تخریبی پالیسی کے تحت تازہ مردم شماری رپورٹ میں قادیانیوں کو مسلم فرقہ کی حیثیت سے شامل کیا گیا اور اس طرح مسلمانوں کو مختلف مسائل میں الجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
(مطبوعہ:روزنامہ اوصاف کراچی ، ۱۸؍ستمبر ۲۰۱۶ء)