سید محمد کفیل بخاری
تیسری وآخری قسط
31 اگست 1992ء کو جناح ہال لاہور میں مجلس احرار اسلام کے زیر اہتمام حضرت امیرشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کی یادمیں جلسہ تھا۔ ابن امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اﷲ جلسہ کی صدارت فرمارہے تھے۔ اکثر خطباء اپنی تقاریر کرچکے اور اب صاحبِ صدر کے خطاب کا اعلان ہونا تھا کہ اچانک حضرت علامہ خالد محمود اور حافظ عبدالرشید ارشد (مکتبہ رشیدیہ) رحمھمااﷲ ہال میں داخل ہوئے۔ میں انہیں سٹیج پر لے آیا۔ عرض کیا کہ ایک تو مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ پاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں ۔ ورنہ آپ کو جلسے میں خطاب کی دعوت دیتا۔ دوسرا یہ کہ اب آخری تقریر حضرت ابن امیر شریعت کی ہونی ہے اور ہال کا وقت ختم ہونے میں آدھا گھنٹہ باقی ہے۔ آپ تشریف لے آئے ہیں تو چند منٹ کے لیے دعائیہ کلمات ارشاد فرمادیں۔ آپ کے بعد حضرت شاہ صا حب کا خطاب ہوگا۔ فرمانے لگے کہ:
’’میں حافظ عبدالرشید صاحب کے مکتبہ رشیدیہ پر آیا تو آپ کے جلسے کا علم ہوا۔ حافظ صاحب احرار کے پرانے کارکن اور جلسے سننے کے بے حد شوقین ہیں۔ پھر حضرت امیرشریعت کی یاد میں جلسہ ہو اور میں سنے کے بغیر پاس سے گزر جاؤں، ممکن نہیں۔ سو ہم دونوں آگئے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر محمد عمرفاروق سٹیج سیکرٹری تھے۔ انہوں نے میری ہدایت کے مطابق اعلان کیا اور کہا کہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ حضرت علامہ خالد محمود جلسے میں تشریف لے آئے ہیں۔ میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ چند دعائیہ کلمات ارشاد فرمادیں۔ حضرت علامہ خالد محمود مائیک پر آئے اور فرمایا:
’’منتظمین نے دعا کیسا تھ ایک لفظ کا اضافہ کیا کہ دعائیہ کلمات؟ میں اسی سوچ میں کھویا ہوا ہوں کہ دعائیہ کلمات کیا ہوتے ہیں ۔دعا تو سمجھ آئی لیکن دعائیہ کلمات سے میں اس وقت سمجھا ہوں کہ حضرت امیرشریعت کی یاد میں یہ جو تقریب منعقد ہورہی ہے اس کے بارے میں دوچار کلمات ہوجا ئیں پھر دعا ہو ‘‘
مجتہد لوگ مر نہیں سکتے ، وہ فقط راستہ بدلتے ہیں
ان کے نقش قدم پر صدیوں تک منزلوں کے چراغ جلتے ہیں
دو رانِ خطاب ارشاد فرمایا:’’ انگریز دور میں ڈپٹی کمشنر اور گورنر اپنی ریٹائر منٹ کے بعد اس دور کے باغیوں کے بارے میں ایک جملہ لکھتے تھے، ایسے ہی حضرت امیر شریعتؒ کے بارے میں لکھا: ’’سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ایسی شخصیت ہیں جن کو خریدا نہیں جاسکتا ‘‘۔یہ ایک ایسا جملہ ہے جس کی شرح کی جائے تو گھنٹو ں چاہییں۔
وہ لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھودیے
پالا تھا آسماں نے جنہیں خاک چھان کر
حضرت شاہ صاحب جب میدان میں آئے تو ان پر اعتماد کا ہاتھ علم کے باب میں مولانا انور شاہ کشمیری نے رکھا، ان کے جو ہرکو جو ہر نے مانا(مولانا محمد علی جوہر ؒ)
شاہ صاحب اس درجے کے خطیب تھے جس کا اظہار واقرار مولانا ابو الکلام آزاد نے فرمایا، شاہ صاحب کا اخلاص چودھری افضل حق نے مانا۔ ہندوستان میں بڑے بڑے لیڈر آئے، بڑے بڑے سیاست دان آئے، بڑے بڑے مفکر آئے لیکن کم ہی ایسا ہوا کہ کسی لیڈر نے جو کچھ کہا ہو اور وہ ہوگیا ہو۔اگر آپ تاریخ رفت کو آواز دو تو صرف دو لیڈر ملتے ہیں پورے برصغیر کی تاریخ میں جنہوں نے جو کہا وہ ہوگیا ہو۔ ایک قائداعظم محمد علی جناح جنہوں نے کہا ملک کو تقسیم ہونا ہے اور پاکستان کو بننا ہے تو جو کہا وہ ہوا یا نہیں؟ دوسرے حضرت امیر شریعتؒ نے کہا کہ اس ملک میں قادیانی مسلمان شمار نہیں ہوں گے اور یہ تمہیں ماننا پڑے گا ۔تو شاہ صاحب نے جو کہا وہ ہو کر رہا۔
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئینِ گلستاں میں
ہمیں بھی یاد کرلینا چمن میں جب بہار آئے
میں بات ختم کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں میں نے آپ کے سامنے دولیڈر پیش کیے۔ قائدا عظم محمد علی جناح اور امیرشریعت۔ قائداعظم نے جو کہا وہ ہوکر رہا لیکن قائداعظم نے جو جنگ جیتی تھی ان کے جانشین وہ جنگ آدھی ہار گئے اور ملک دو ٹکڑے ہوگیا ۔اور جب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جارہا تھاتو اس وقت یہ مسئلہ حضرت امیرشریعت کے وارثوں اور نمائندوں کے پاس پیش ہوا کہ جو قادیانی ہے وہ تو غیر مسلم ہے لیکن لاہوری عقیدہ کے جو مرزائی ہیں ان کو قبول کرلو ۔لیکن شاہ صاحب نے جووارث اور اس مسئلہ کے جو علمبردارچھوڑے تھے ا نہوں نے کہاکہ اسلام تقسیم قبول نہیں کرتا ۔اسلام ایک امربسیط ہے ۔ہوگا تو پورا ہوگا، نہیں ہوگا تو کچھ نہیں ہوگا۔
۲۴فروری ۱۹۸۹ء کو داربنی ہاشم ملتان میں امیرالمؤمنین سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی یاد میں جلسہ تھا۔ حضرت علامہ خالد محمود جلسے میں شرکت کے لیے ایک روز قبل ملتان تشریف لائے تو حسب معمول جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمہ اﷲ اور مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اﷲ سے ملاقات کے لیے بھی تشریف لائے۔ اگلے روز انہوں نے داربنی ہاشم میں جو خطاب کیا وہ بے مثال تھا۔ آپ کا یہ خطاب شائع بھی ہوچکا ہے۔ طوالت کے پیش نظر دو تین جملے نقل کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا:
’’نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنے پیارے نواسے سید نا حسن رضی اﷲ عنہ کے متعلق فرمایا کہ:
میرا یہ بیٹا سردار ہے اور عنقریب یہ مسلمانوں کے دوعظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔ اس حدیث میں ’’فئتینِ عظیمتین‘‘ کے الفاظ ہیں۔ عظیم گروہ ہے، باغی نہیں۔ فۂ عظیم فرمایاہے، فۂ باغیہ نہیں۔ اس لیے سیدنا معاویہ یا سیدنا علی رضی اﷲ عنہما میں سے کسی کو باغی کہنا حدیث کے خلاف ہے‘‘
قارئین کے مطالعے کے لیے علامہ صاحب رحمہ اﷲ کی یہ تقریر نقیب ختم نبوت کی آئندہ کسی اشاعت میں شامل کردی جائے گی ان شاء اﷲ۔
۱۰ محرم الحرام کو سال ہاسال سے داربنی ہاشم میں مجلس ذکر حسین رضی اﷲ عنہ منعقد ہوتی ہے۔ یہ۱۰محرم ۱۴۲۳ھ/ ۲۵مارچ 2000ء کی بات ہے کہ حضرت علامہ ملتان تشریف لائے ہوئے تھے میں نے غنیمت جانا اور حضرت کو دعوت خطاب دی جو انہوں نے منظور فرمالی۔ اتفاق یہ ہوا کہ تمام مقررین کی زبان بندی کا حکم آگیا۔ چنانچہ صرف حضرت علامہ نے ہی مجلس ذکر حسین رضی اﷲ عنہ سے خطاب فرمایا۔ جس اعتدال کے ساتھ انہوں نے مسلک اہل سنت کے مطابق سانحۂ کربلا پر گفتگو فرمائی وہ اپنی مثال آپ تھی۔ دیگر موضوعات کی طرح علم تاریخ پر بھی انہیں کمال دسترس اور عبور حاصل تھا۔ انہوں نے علم وعقل کی روشنی میں ایسی مدلل گفتگو فرمائی کہ سننے والوں کے کانوں میں آج بھی اس کی گونج باقی ہے۔
حادثۂ کربلا پر آپ کی دس تقاریر پر مشتمل کتاب ’’محرم کی دس راتیں‘‘ مسلک حق کی ترجمان اور متلاشیان حق کے لیے بہترین کتاب ہے۔ ان تقاریر کی ویڈیوز بھی وائرل ہوچکی ہیں۔ حضرت علامہ خالد محمود رحمہ اﷲ ہمیشہ علماء دیوبند کے فکری، اعتقادی اور مسلکی منہج پر رہے اور اُن کی ترجمانی کا حق اداء کیا۔
اگست 1999ء کی ایک سہ پہر حضرت علامہ رحمہ اﷲ دفتر مجلس احرار اسلام لاہور میں ابن امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اﷲ کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔حضرت علامہ، شاہ جی کے روبرو بیٹھے تھے۔ یہ ایک گھنٹے کی ملاقات تھی جس کے حسین نقوش آج تک میرے دل ودماغ پرمرتسم ہیں۔ حضرت امیرشریعت رحمہ اﷲ کا بار بار تذکرہ کرتے اُن کی آنکھوں سے آنسو چھلکتے رہے۔ اُدھر بارش کی رم جھم، اِدھر آنسوؤں کی برسات۔ عجیب سماں تھا۔ امرتسر میں حضرت امیر شریعت سے ملاقاتوں اور ان کی شفقتوں کا مسلسل ذکر کرتے رہے۔ پھر قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۳ء تحریک تحفظ ختم نبوت میں حضرت امیر شریعت اور مجلس احرار اسلام کے تاریخ ساز قائدانہ کر دار اور قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ۔ واپس جاتے ہوئے بار بار پلٹ کر حضرت سید عطاء المحسن بخاری کو دیکھتے اور آنسو پونچھتے رہے۔ میں نے سواری کا انتظام کرنے کی درخواست کی تو منع فرمایا اور بارش میں ہی ویگن پر سوار ہوکر رخصت ہوئے۔دفتر سے ویگن سٹاپ تک راستے میں مجھے بار بار فرماتے ۔
’’بھائی عطاء المحسن، امیر شریعت کی نشانی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں علم وعمل اور تقوی کی نعمتوں سے نوازا ہے۔ شاہ جی کی صفت خطابت بھی ان کو عطاء ہوئی ہے۔ اب ان جیسا خطیب بھی کوئی نہیں۔ میرے عزیز !ان کی خدمت اور قدر کرو۔ ان سے جو فیض مل سکتا ہے حاصل کرلو۔بڑی نسبت والے ہیں اور اس کے امین ومحافظ بھی ہیں‘‘
جب بھی حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا علم وحکمت کے موتیوں سے جھولی بھر کے اٹھا۔ کبھی خالی واپس نہیں لوٹا۔ ان کے چھوٹے چھوٹے جملوں میں بہت علمی مواد ہوتا۔ ہمارے مبلغ ختم نبوت مولانامحمد مغیرہ نے ایک مجلس میں کسی مرزائی کا سوال پیش کیا تو فرمایا:
’’مولوی صاحب! ہر سوال کا جواب دنیا بھی ضروری نہیں ہوتا۔ بعض اوقات جو اباً الزامی سوال کرکے معترض کو امتحان میں ڈال دیں۔ وہ سوچتا رہے اور آپ آگے بڑھ جائیں‘‘
ایک دفعہ مجھے فرمانے لگے:
’’فن مناظرہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ مخالف کی بات سننے کے دوران کہتے رہیں کہ آپ ٹھیک کہ رہے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ مخالف آپ کے سوال کا جواب دینے کی صلاحیت سے محروم ہوجائے گا۔ آپ مخالف کی گفتگو سے ہی اس کے مؤقف کی تردید کرتے ہوئے دلائل پیش کریں اور کہیں کہ آپ ٹھیک ہی تو کہ رہے تھے‘‘
یہ بات حضرت علامہ نے تو بڑی آسانی سے بیان فرمادی۔ لیکن میں سوچتا رہا کہ اس کو روبہ عمل لانا کتنا مشکل ہے۔ یقینا اس کے لیے علم، تقویٰ اور تجربہ تینوں ضروری ہیں۔ تب کہیں یہ مشکل گھاٹی عبور ہوسکتی ہے اور حضرت علامہ اس میدان کے شناور تھے۔
حضرت علامہ خالد محمود رحمہ اﷲ سے آخری ملاقات جنوری 2020ء میں جامعہ اشرفیہ لاہور میں ہوئی۔ میرے ساتھ ڈاکٹر محمد آصف بھی تھے۔ میں نے ان کا تعارف کرایا کہ ڈاکٹر آصف، مجلس احرار اسلام کے شعبہ دعوت وتبلیغ کے ناظم ہیں۔ سابق قادیانی ہیں اور کئی قادیانیوں کو دعوت کے ذریعے مسلمان کرچکے ہیں۔ حضرت علامہ چونکے اور ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے:
’’اب صرف کا نفرنسیں کرنے سے کام نہیں چلے گا ،دلیل ،علم ،عمل اور اخلاق کے بغیر دعوت کامیاب نہیں ہوسکتی۔ نو مسلموں کا معاشی تحفظ بھی انتہائی ضروری ہے‘‘
مجھے فرمانے لگے:
’’نئی نسل مولویوں کے رویوں سے باغی ہو کر ہمارے ہاتھوں سے نکل چکی۔ نئی نسل کا یہ عقیدہ ہے کہ مولوی جاہل ہیں۔ زبان وقلم میں شائستگی کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ سے باخبر ہونا اور عصری علوم سے استفادہ کرنا بھی داعی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ نئی نسل تک دین کا پیغام پنچانے کے لیے ہم مولویوں کو اپنے اخلاق بلند کرنا ہوں گے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ اخلاق اچھے کرنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ اپنے اخلاق بلند کریں، سماجی رویے بہتر کریں، لوگوں سے محبت کریں اور علم سے تعلق مضبوط کریں۔ تب محنت کامیاب ہوگی‘‘
پھر فرمانے لگے:
’’ حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ میں یہ خوبیاں نمایاں تھیں۔ شاہ جی علماء میں ایک منفرد شخصیت تھے۔ ایسی نرالی شان والا کھرا انسان میں نے کوئی نہیں دیکھا‘‘
وہ سب کے محبوب تھے اور مخلوق سے محبت کرنے والے تھے۔ انہوں نے بہادروں اور مخلصوں کی جماعت مجلس احرار اسلام بنائی اور تحفظ ختم نبوت کے لیے سب کچھ قربان کردیا۔ ملاقات کے بعد واپس لوٹا تو رات گئے تک اُن کی باتوں پر غور کرتا رہا۔ ذہن کھلتا چلا گیا اور کام کرنے کی اُمنگ پڑھتی چلی گئی ۔اﷲ تعالیٰ حضرت علامہ خالد محمود کی قبر پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے۔ان کی دینی خدمات قبول فرماکر اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین