سید محمد کفیل بخاری
گزشتہ شمارے میں حضرت علامہ خالد محمود رحمۃ اﷲ علیہ پر لکھے گئے تعزیتی شذرے میں آپ کی تکمیل تعلیم کے ضمن میں جناب ابن الحسن عباسی صاحب کی روایت نقل ہوئی تھی کہ علامہ صاحب دارالعلوم دیوبند کے فاضل نہیں تھے۔ راقم نے یہ بھی عرض کی تھی کہ حضرت علامہ کے کوئی شاگرد آپ کے سوانحی حالات قلم بند فرمادیں تاکہ نئی نسل اُن سے استفادہ کرسکے۔ اﷲ بھلا کرے محترم قاری عبدالرشید (اولڈہوم) کا جنہوں نے حضرت علامہ رحمہ اﷲ کے مختصر اور مستند سوانحی حالات مرتب کر کے قیمتی معلومات بہم پہنچا ئی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ حضرت علامہ کے یہ حالات اُن کی زندگی میں ماہنامہ ’’الصیانہ‘‘ لاہور میں شائع ہوئے، انہوں نے مطالعے کے بعد ان کے صحیح ہونے کی تصدیق فرمائی آپ کی تکمیل تعلیم کے حوالے سے قاری صاحب لکھتے ہیں:
’’تکمیل علوم دینیہ یعنی دورۂ حدیث شریف 44/1943کو دارالعلوم دیوبند سے شیخ الاسلام مولانا سیدحسین احمدمدنی رحمہ اﷲ کی خدمت میں رہ کر کیا۔ بعداز فراغت آپ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اﷲ کے ساتھ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل تشریف لے گئے۔ جہاں حضرت مولانا بدر عالم میٹرٹھی اور حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمھما اﷲ تعالیٰ سے بھی اکتسا ب علم کیا۔ قیام پاکستان کے بعد جامعہ اشرفیہ لاہور میں بھی دورہ حدیث کے اسباق میں شرکت فرماتے رہے۔
آپ کے اساتذۂ کرام میں مولانا سید حسین احمد مدنی، علامہ شبیر احمد عثمانی حضرت مفتی محمد حسن، مولانا رسول خان، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریااور مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہم اﷲ شامل ہیں‘‘
حضرت علامہ خالد محمو د رحمہ اﷲ کو میں نے سب سے پہلے 1970کی دہائی میں جامعہ خیرالمدارس ملتان کے سالانہ جلسے میں سنا۔ تب ان کی داڑھی سیاہ تھی۔ ہماری رہائش جامعہ میں ہی تھی اور تقریباً پچیس سال خیرالمدارس میں قیام رہا۔ آپ اپنے خطا ب میں ایسے علمی موتی پروتے جو کسی کتاب میں پڑھنے کو نہ ملتے۔ علمی استدلال اور نکتہ آفرینی تو ان پر ختم تھی۔ 1980ء اور 1990ء کے دہائیوں میں وہ گاہے گاہے جامعہ خیرالمدارس تشریف لاتے رہے۔ دورہ حدیث کے طلباء میں ان کے اسباق و درس میں بہت علمی وقیمتی باتیں سننے کو ملیں۔ باطل فرقوں اور فتنوں کارد ایسے انداز میں کرتے کہ بایدو شاید۔
آپ جب بھی ملتان آتے تو جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاری اور حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخار ی رحمھما اﷲ سے ملاقات کے لیے ضرور تشریف لاتے۔ اُن کی مجالس میں ہونے والی گفتگو سے ہم ایسے طالب علموں کے بے شمار اشکلا ت دور ہوتے ۔ وہ سا ئل کے سوال کو بڑی توجہ سے سنتے بعض اوقات دو دومرتبہ سوال سنتے اور اسی طرح جواب میں بعض جملوں کو دو یا تین مرتبہ دہراتے۔ حضرت علامہ خالد محموداپنی گفتگو سبق پڑھانے کے انداز میں کرتے۔ یوں ان کی باتیں دل پر نقش ہوجاتیں۔
راقم نے لاہور میں ایک ملاقات میں حضرت علامہ کو 7مارچ 1986ء کو مسجد احرار چناب نگر میں مجلس احرار اسلام کے زیر اہتمام شہدا ءِ ختم نبوت کانفرنس میں شرکت وخطا ب کی دعوت دی اور انہوں نے فوراً قبول فرمالی۔ سوء ِاتفاق کہ سواری بر وقت نہ ملنے کی وجہ سے وہ اجلاس میں شریک نہ ہوسکے۔ نماز جمعہ کے بعد عصر تک کانفرنس کی آخری نشت تھی۔ نماز مغرب سے کچھ دیر قبل ہم کا رکنان احرار، ابن امیر شریعت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اﷲ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ اچانک حضرت علامہ تشریف لے آئے۔ ہمیں اس بات پر حیرت ہوئی کہ وہ ایک طالب علم کے ساتھ سائیکل پر بیٹھ کر یہاں پہنچے تھے۔ تبادلۂ سلام ودعا کے بعد میں نے عرض کیا کہ حضرت آپ سائیکل پر کہاں سے آئے ہیں؟ ہمیں اطلاع کی ہوتی، سواری بھیج دیتے۔ فرمانے لگے:
’’لاہور سے بس تاخیر سے چلی، مسجد احرار کاراستہ معلوم نہ تھا۔ پھر میں تنہا مسافر، کوئی رفیق سفر بھی نہ ملا۔ عصرکے وقت مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکز مسلم کا لونی کے بس اسٹاپ پر اتر گیا۔ وہاں موجود حضرات سے مسجد احرار کا پتا پوچھاتو انہوں نے ایک طالب علم کو سائیکل دے کر میرے ساتھ روانہ کردیا۔ آپ سے وعدہ کیا تھا، وعدہ نبھانے آگیا ہوں۔ ضروری تو نہیں کہ جلسے میں ہی گفتگو کروں۔ مجلس میں بھی تو گفتگو ہوسکتی ہے۔ مجھے حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ اور ان کی جماعت مجلس احرار اسلام سے بہت ہی محبت ہے۔ یہی محبت مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔ جب امیر شریعت سے محبت ہے تو اس کا لازمی تقاضا ہے کہ اُن کے بیٹوں اور اُن کی جماعت سے بھی محبت کی جائے۔ میں نے سوچا کہ کانفرنس تو ختم ہوگئی لیکن امیرشریعت کے بیٹے تو موجود ہوں گے،احرارکارکن بھی ہوں گے۔ میں انہیں دیکھ کر امیرشریعت کی یادیں تازہ کرلوں گا۔ ‘‘
یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کے موتی گرنے لگے۔ گزراہوا زمانہ، بیتے واقعات، امیرشریعت کی اُن پر شفقت، احرار کانفرنسوں کے تاریخی مناظر، نہ جانے کیاکیا یاد آیا ہوگا۔ ابناء امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری اور حضرت مولانا سید عطاء المومن بخاری رحمھما اﷲ کے ساتھ دیرتک گفتگو فرماتے رہے، موتی رولتے رہے۔ کتنے ہی موضوعات تھے جن پر ایک ہی مجلس میں انہو ں نے علم کے دریا بہائے۔ حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اﷲ کوبھی حضرت علامہ خالد محمود رحمہ اﷲ سے بہت محبت تھی۔ جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ ان سے سوالات ضرور کرتے۔ حضرت شاہ جی ان کے مزاج شناس بھی تھے اور علمی وجاہت کے قدر دان بھی۔ اس مجلس میں بھی عقیدہ ختم نبوت، حیات ونزول سید نا عیسیٰ علیہ اسلام، مرزا قادیانی کے دجل وفریب اور دیگر موضوعات پر شاہ جی نے سوالات کیے ۔حضرت علامہ کھُلتے اور کھِلتے چلے گئے۔ اے کاش !اس مجلس کی گفتگو کوئی لکھ لیتا۔ نماز عشاء سے قبل حضرت علامہ نے واپسی کافرمایا۔ سواری کا انتظام کیا اور حضرت کو رخصت کیا۔ آج سوچتاہوں کہ اتنا بڑا آدمی اور اتنی سادگی ووضع ،داری یہ اُن کے علم وتقویٰ کا فیض تھا۔
آئے عشاق ، گئے وعدۂ فردالے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
(باقی آئندہ)