مولانا سفیان علی فاروقی
قرآن پاک کے اولین مخاطب، اسلام اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سب سے پہلے محافظ و خادم، ’’أُو لٰئِکَ ھُمُ الرَّشِدُوْنَ‘، ’’أُولٰئِکَ ھُمْ الْفَائِزُوْنَ‘‘، ’’أُولٰئِکَ ھُمْ الْمُؤْ مِنُوْنَ حَقًّا‘‘، أُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْ بِھِمُ الْاِ یْمَانَ‘‘، ’’رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ‘‘، ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ أَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ‘‘۔جیسی سینکڑوں آیات کے حقیقی مصداق، اُمت کے سب سے پہلے محسنین، اُمت اور نبوت کا درمیانی واسطہ، دین اسلام کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے لے کر باقی اُمت تک پہنچا نے والے سچے اور ایماندار لوگ، عشقِ رسالت کی معراج، وفا اور صدق وصفا کے پیکر، یعنی قدسی صفات جماعت صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کو اﷲ تعالیٰ نے پوری اُمت کے لیے کامل نمونہ بنا دیا۔
نماز کیسے پڑھیں؟ جیسے صحابہ کرامؓ نے پڑھ کر دکھلائی۔ حج کیسے کریں؟جیسے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکامات کے مطابق صحابہ کرامؓ نے کیا۔ عشقِ رسالت کا معیار کیا ہے؟ صحابہ کرامؓ کا طرز عمل۔ مسلمانوں کے آپسی تعلقات کیسے ہونے جاہئیں؟ جیسے صحابہ کرامؓ کے آپسی تعلقات تھے۔کفار سے برتاؤ کیسے کریں؟ جیسے صحابہ کرامؓ نے حکم نبوی کے مطابق برتاؤ کیا۔ دین کی حفاظت کیسے کی جائے؟ جیسے صحابہ کرامؓ نے کی۔ اسلام کا تعلیمی دتد ریسی منہج کیا ہے۔؟ جو صحابہ کرامؓ کا تھا۔ حکومت اور حکمرانی کا طرز کیا ہونا چاہیے؟ جو صحابہ کرامؓ کا تھا۔ جہاد کب، کہاں اور کیسے کیا جائے؟ جب جہاں اور جیسے صحابہ کرامؓ نے کیا۔
یعنی وہ نور جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلبِ اقدس پر اُتارا گیا، اس نور کو صحابہ کرامؓ کے ذریعے پوری کائنات پر صدقہ کردیا گیا۔ علم کی خیرات صحابہ کرامؓ کے ہاتھوں پوری اُمت میں بانٹی گئی۔ محبت ومودت کے زمزمے انہی کے ہاتھوں سے لٹائے گئے۔ انہی کے سینوں نے تیر کھا کر نبوت کا دفاع کیا۔ وہ نبوت کی آنکھیں جو دیدار الٰہی سے منور ہوئیں تو اُن مطہر آنکھوں کا دیدار انھی کے حصے میں آیا۔ نبوت سے لمعانیت (روشنی) لے کر پوری کائنات کو منورکرنا انھی کا خاصہ تھا۔ یہ تو ستارے تھے جنہوں نے اپنے چاند سے روشنی لے کر ظلمت کدۂ عالم میں ہدایت کی روشنیاں بکھیردیں او ان کے حصے میں نبوت کی گواہی آئی۔
نبوت کے چلنے سے لے کر انداز تکلم، طرزِ تخاطب تک، عدالتی فیصلوں سے لے کر محبت کی ضیاء پاشیوں تک، عبادات او معاشرت سے لے کر معاملات کی باریکیوں تک، جہاد سے لے کر حکومت کی دقیقہ سنجیوں تک، علم کی شناوری سے لے کر عمل کی گہرائیوں تک، ہر چیز کی چشم دید گواہی بھی انہی کے حصے میں آئی۔
میں، میرے ماں باپ، میری آل واولاد قربان ان مقدس ہستیوں پر کہ جنہوں نے میری زبان اور میرے دل کو کلمے سے بہرہ ور کرنے کے لیے اپنی جوانی کی حسین راتیں گھوڑوں کی پیٹھوں پر گزار دیں۔ اپنے حسین دن شدید گرمیوں کی سخت دوپہروں کی نذر کردئیے۔ اپنی خواہشات کوتج دیا۔ اپنی دولت کو نبوت کے قدموں میں ڈھیر کرکے اپنے گھروں کو خدا کے سپرد کردیا۔ پاؤں میں جوتا تک باقی نہیں رکھا، اپنے کاروبار، اپنی آل واولاد قربان کردی۔ پھر کیوں نہ ان کے قدموں کا کھٹکا جنت میں سنائی دے، اُن کی مدحت کے ترانے سات آسمانوں پر لگائے جائیں، قانونِ قدرت سے جنت کی بشارتیں ملیں، نبوت کی مطہر زبان اُن کی تعظیم کے پروانے جاری کرے اور پھر کیوں نہ قرآن اُن کی مدحت سرائی کرے۔ قدسی صفات جماعت کے اوصافِ حمیدہ کو قرآن پاک نے کچھ یوں بیان کیا ہے:
(1) کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْ مُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤَ مِنُوْنَ بِاللّٰہ‘‘(آل عمران: ۱۱۰)
مومنو!(اے صحابہ کرامؓ!) جتنی اُمتیں لوگوں میں ہوئی تم ان میں سب سے بہترہو کہ نیک کام کرنے کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
(2) ’’وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا کُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا‘‘ (البقرۃ ۱۴۳)
’’اس طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا، تاکہ تم (روزِقیامت) اور لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخر الزمان صلی اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم) تم پر گواہ بنیں۔
(3) ’’وَاعْلَمُوْا أنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اﷲِ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْأَ مْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْ بِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اُولٰئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَنِعْمَۃً وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (الحجرات: ۷)
’’اور جان رکھو کہ تم میں اﷲ کے پیغمبر ہیں، اگر بہت سی باتوں میں تمہارا کہا مان لیا کریں، تو تم مشکل میں پڑجاؤ، لیکن خدا نے تمہارے لیے ایمان کو عزیز بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں کے فضل او راحسان سے اور اﷲ تعالیٰ بہت جاننے والے ہیں اور حکمت والے ہیں۔‘‘
(4) وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا وَجَاھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَالَّذِیْنَ آوَوْا وَّنَصَرُوْا اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقَّا لَھُمْ مَّغَفِرَہُ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ‘‘(الانفال: ۱۰)
’’اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی، یہی لوگ سچے مسلمان ہیں، ان کے لیے (خدا کے ہاں) بخشش اور عزت کی روزی ہے‘‘۔
(5) ’’لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْ مِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْیَومِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اﷲَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْکَانُوْا آبَاءَ ھُمْ أَوْ أَبْنَآءَ ھُمْ أَوْعَشِیْرَتَھُمْ اُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ الْإِیْمَانَ وَأَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلْھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْأَنْھَارُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ أُولٰئِکَ حِزْبُ اﷲِ أَلاَ اِنَّ حِزْبَ اﷲِ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘ (المجادلۃ :۲۲)
’’ جولوگ خدا پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم اُن کو خدا اوررسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے، یہی وہ لوگ ہیں، جن کے دلوں میں خدا نے ایمان (پتھر کی لکیر کی طرح) تحریر کردیا ہے اور فیض بخشی سے ان کی مدد کی ہے اور اﷲ ان کو ایسی بہشتوں میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، داخل کرے گا۔ یہ ہمیشہ اُن میں رہیں گے، خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے۔
(6) ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلَ اﷲِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ أَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ‘‘ (الفتح: ۲۹)
’’محمد صلی اﷲ علیہ وسلم خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اورآپس میں رحمد ل۔‘‘
(7) اَلصَّابِرِیْنَ وَالصَّادِقِیْنَ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْأَ سْحَارِ‘‘ (آل عمران :۱۷)
’’یہ (صحابہؓ) صبر کرنے والے ہیں اورراست باز ہیں او رفروتنی کرنے والے ہیں اور خرچ کرنے والے ہیں اور پچھلی رات میں گناہوں سے بخشش چاہنے والے ہیں۔‘‘
(8) فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآاٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِیْ شِقَاقٍ۔‘‘ (البقرۃ :۱۳۷)
’’تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئے جس طرح تم ایمان لے آئے تو ہدایت یاب ہوجائیں گے اور اگر منہ پھیر لیں اور نہ مانیں تو وہ (گمراہی) میں ہیں۔‘‘
آج کے اس نازک دور میں کہ جب ان عظیم ہستیوں کو متنازع بنا کر پوری اسلام کی عمارت گرانے کی نا کام اور مذموم سازشیں کی جا رہی ہیں، ایسے وقت میں نہایت ضروری ہے کہ صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کو پڑھا جائے، اُن کی قربانیوں سے عوام کو آگاہ کیا جائے، ان روشن ستاروں سے روشنی لے کر اپنی زندگی کو سنوارا جائے، اپنے معاملات اور معاشرت کو بہتر کیا جائے، اپنا طرز حکمرانی درست کیا جائے اور ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جائے جو عہد نبوی کا پر تو ہو، کیونکہ وہ ایسا کامیاب اور کامران معاشرہ تھا کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ تاریخ انسانیت میں یہ بہت بڑا ا نقلاب تھا جو برپا ہوچکا تھا اور دنیا ششد رو حیران تھی۔
آج بھی ہمیں اپنے مذہبی وسیاسی، سماجی ومعاشرتی مسائل کے حل کے لیے شاگر دان رسالت (رضی اﷲ عنھم) کی لمعہ افروزیوں سے اپنے چمن پاکستان کو سجانا اور منور کرنا ہوگا، تاکہ ہمارا پیارا وطن پاکستان نا صرف اپنے مسائل سے نکلے، بلکہ پوری دنیا کی قیادت وسعادت کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہو، جو کہ اس کی بنا کا اصل مقصد اور حقیقی خواب تھا۔