سید محمد کفیل بخاری
حکمران جماعت پی ٹی آئی اپنے اقتدار کی عمر عزیز کے اڑھائی سال گزار چکی ہے۔اگرچہ اپوزیشن سے روز اوّل سے سلیکٹڈ دھاندلی کی پیدا وار، مسلط کردہ اور نا اہل حکومت قرار دے کرمستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن قرائن وشواہد سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔ وزیراعظم عمران خان کو ایک تو امریکی صدارتی نظام بہت پسند ہے اور دوسرا یہ بھی شکوہ ہے کہ حکومت چلانے کے لیے پانچ سال تھوڑے ہیں۔ گویا موجودہ پارلیمانی نظام اور مدت اقتدار دونوں کو تبدیل کرنے کاعزم وشوق اور خواہش رکھتے ہیں۔ خان صاحب حکومت سنبھالنے کے بعد سے لے کر اب تک تین باتیں بڑی شدومد کے ساتھ کر رہے ہیں۔
1۔ ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں بہت مشکل فیصلے کرنے پڑے ہیں۔
2۔ گھبرانا بالکل نہیں، حالات بہتر ہوجائیں گے۔
3۔ این آر او نہیں دوں گا۔
ملکی معیشت بہتر بنانے کے لیے مشکل فیصلوں کا تعلق تو آئی ایم ایف اورورلڈ بینک کی شرائط سے ہے یا غریب عوام سے۔ اس لیے کہ ان کی ظالمانہ شرائط پر قرضوں سے غریب عوام کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوگئی ہے۔ مہنگائی اور بد دیانتی دونوں عروج پرہیں۔ آمدن سے زیادہ ٹیکس عائد کر دیے گئے ہیں۔ معیشت بہتر ہوئی نہ عوام کے معاشی مسائل حل ہوئے۔ انہی عالمی مالیاتی اداروں سے ہماری ہرحکومت نے قرضے لیے اور ملک وقوم کو سودی زنجیروں میں جکڑتی رہی۔ خان صاحب نے بھی اقتدار سنبھالنے سے قبل قوم کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے نہ لینے کا مثردہ سنایا لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد مشکل حالات کارونا روکر مشکل فیصلے کیے، قرضے لیے اور ملک وقوم کومذید قرضوں کی دلدل میں دھنسا دیا۔ نتیجتاً ملکی معیشت بہتر ہونے کی بجائے بد سے بدتر ہوگئی۔ عوام کو نوکریاں ملیں نہ مکان، بلکہ وزیر اعظم نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے سارا ملبہ سابق حکمرانوں پر گرا دیا۔ سابق حکمرانوں پر لوٹ مار، کرپشن اور قومی خزانے کی چوری کے الزامات عائد کرکے کرپشن کے مقدمات بنائے گئے لیکن ایک مقدمے کا فیصلہ ہوا نہ کسی چور کو سزا دی گئی۔ حالیہ دنوں میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان میں کرپشن 20فیصد بڑھنے کی اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ وزیر اعظم نے پہلے فرمایا کہ رپورٹ خوش آئندہے، اس لیے کہ یہ سابق حکمرانوں کے دور کی ہے، پھر فرمایا میں نے رپورٹ پڑھی ہی نہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ واقعی کرپشن بڑھی ہے، رشوت میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔’’انصاف آپ کی دہلیز پر‘‘ کے سلوگن کی بنیاد پر سائل سے رشوت لے کر فائل گھر پہنچائی جا رہی ہے۔ رہی بات نہ گھبرانے کی تو عوام میں اب گھبرانے کی سکت بھی نہیں رہنے دی۔
ملک خدا کے سہارے چل رہا ہے، حکومت ایجنسیوں کے سہارے چل رہی ہے اور قوم حکمرانوں کے وعدوں، امیدوں اور خوابوں کے سہارے جی رہی ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں کہ: ’’امریکہ و چین کے درمیان صلح کرانے کو تیار ہوں‘‘ اسے کہتے ہیں ’’آ رے بیل مجھے مار‘‘ اپنی حیثیت اور قد سے اونچی باتیں کرنا کون سی دانش مندی ہے۔ امریکہ و چین پر یہ برا وقت بھی آنا تھا کہ ان کے درمیان ہم صلح کرائیں گے۔ پہلے اپنے ناراض دوست ممالک کو تو راضی کر لیں پھر دوسروں کی خبر بھی لے لیں۔
اُدھر اپوزیشن اتحاد ’’پی ڈی ایم‘‘حکومت کے خلاف اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ پی ڈی ایم، ایک عارضی مزاحمتی اتحاد ہے ناکہ مستقل انتخابی اتحاد۔ اس لیے اس میں شامل ہر پارٹی اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق سیاسی شطرنج کھیل رہی ہے۔ ماضی میں اپوزیشن اتحاد بنتے ٹوٹتے رہے اور انتخابی اتحاد بھی ایجنڈہ مکمل ہونے پر منتشر ہوتے رہے۔ ڈیک، یو ڈی ایف، پی این اے، ایم آر ڈی، اے آرڈی، جی ڈی اے اور ایم ایم اے، پاکستان کے سیاسی اتحادوں کی طویل تاریخ ہے۔ہمیشہ بڑی پارٹی کو حکومت ملتی ہے اور چھوٹی پارٹیاں اکٹھی ہو کر کسی ایک کو اپنا سر براہ بنا لیتی ہیں۔ اس محاذ آر ائی کا فائدہ ہمیشہ بڑی پارٹی اٹھاتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ادوارِ حکومت اس کی واضح مثال ہیں۔ اب بھی صورت حال ماضی سے مختلف نہیں۔ بظاہر مولانا فضل الرحمن کو پی ڈی ایم کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ کچھ اصولوں پر اتفاق بھی کر لیا گیا ہے۔ لیکن مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پچھلے دروازے سے تانک جھانک کرنے، ہاتھ شات ملانے اور بات وات کرنے سے نہیں چوکتیں۔ عمران خان کے جانے سے حکومت مولانا فضل الرحمن کو تو نہیں ملتی۔ لیکن گمان غالب ہے کہ مولانا فضل الرحمن آئندہ انتخابات میں خیبر پختو نخوا، اور بلوچستان سے زیادہ نشستں حاصل کریں گے۔ انہوں نے پارلیمنٹ سے باہر رہ کر اپنی جماعت کو متحرک بھی کر لیا ہے اور منظم بھی۔یہ بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ سٹریٹ پاور مولانا کے پاس ہے۔ جس کا مظاہرہ وہ اپنے ملین مارچز اور ریلیوں میں کر چکے اور کررہے ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے پاس ووٹ ہے لیکن سٹریٹ پاور نہیں۔ اسی لیے مولانا کو بڑا مان لیا ہے۔ پا نامہ، ویزہ ، سرے محل، حدیبیہ ملِ براڈشیٹ اور فارن فنڈنگ کی فائلیں اقتدار کی میوزیکل چیئر کے گرد گھومتی رہیں گی۔ استعفوں کی آواز یں گونجتی رہیں گی۔ عدم اعتماد اور بائیکاٹ کی صدائیں بھی بلند ہوتی رہیں گی، سینٹ کا الیکشن حسب سابق ہوگا، انکار کرنے والے اس میں حصہ بھی لے رہے ہیں۔ ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں بھی حصہ لیں گے۔ پاکستان کی سب سے ’’طاقت ور جماعت‘‘ عمران خان سمیت سب کو ملک وقوم کی خدمت پر مجبور کرتی رہے گی اور بوقت ضرورت این آر او بھی دے دے گی۔ امریکی جمہوریت کا حال تو دنیا نے دیکھ لیا لیکن پاکستانی جمہوریت بڑی ہی نرالی اور البیلی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمارے وطن عزیز کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)