شیخ الحدیث، حضرت مولانا محمد زکریا رحمۃ اﷲ علیہ
قسط : ۲
ارکانِ اسلام روزہ، زکوٰۃ، حج میں سے کسی ایک کو لے لو اور عالم پر ایک نگاہ ڈال کر اس کا حشر دیکھ لو کہ ان ارکان پر عمل کرنے والے کتنے ہیں اب دوسری جانب محرمات میں ایک نہایت معمولی سی چیز شراب ہے کہ اس کو دیکھ لو کہ کتنے اسلام کی حمایت کے دعوے دار اور ترقی اسلام پر مر مٹنے والے ایسے ہیں جو کس جرأت اور بے حیائی سے کھلم کھلا، علی الاعلان پیتے ہیں۔ قرآن شریف میں بار بار اس پر تنبیہ فرمائی گئی ہے اور صاف لفظوں میں اس کے چھوڑنے کا حکم فرمایا ہے۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے شراب پینے والے پر لعنت کی ہے، اس کے بنانے والے پر لعنت کی ہے، اس کے بنوانے والے پر لعنت کی ہے، اس کے بیچنے والے پر لعنت کی ہے، خریدنے والے پر لعنت کی ہے، لاد کر لے جانے والے پر لعنت کی ہے اور جس کے پاس لے جائی جائے، اس پر لعنت کی ہے، اس کو بیچ کر، اس کی قیمت کھانے والے پر لعنت کی ہے۔
دوسری حدیث میں ہے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ اے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) بے شک اﷲ نے شراب پر لعنت فرمائی ہے اور اس کے بنانے والے پر اور بنوانے والے پر اور اس کے پینے والے پر، اٹھا کر لے جانے والے پر اور جس کے پاس لے جائی جائے اس پر اور اس کے بیچنے والے پر اور اس کے پلانے واے پر اور پلوانے والے پر (یعنی کوئی اپنے ملازم وغیرہ کے ذریعہ سے دوسرے کو پلوائے تو آقا پلوانے والا اور ملازم پلانے والا)۔ حاکم نے ان دونوں حدیثوں کو صحیح بتایا ہے۔
اب غور کرو جن لوگوں پر اﷲ پاک اور اس کا وہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم جو اُمّت پر سب سے زیادہ شفقت اور مہربانی کرنے والا تھا، جو ہر وقت اُمت کی فلاح و کامیابی میں منہمک رہتا تھا۔ دونوں پر لعنت کرتے ہوں، ان لوگوں کا کیا حشر ہو گا اور جو باوجود قدرت کے اس پر سکوت کریں، نکیر نہ کریں، وہی کون سے کچھ دور ہیں۔ اس کے بعد اپنی حالت کو دیکھو کہ نکیر درکنار، کوئی نکیر کرنے والا، اس فعل کو برا کہنے والا ہو تو وہ تنگ نظر ہے، خشک مُلّا ہے۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ شراب سے بچو، وہ ہر برائی کی کنجی ہے۔ جب ہم لوگ برائیوں کا مقفل دروازہ اپنے ہاتھ سے کھولیں، پھر برائیوں کی شکایت کیوں کریں۔ جب ایک سچے اور پکے خبر دینے والے نے فرما دیا کہ اس دروازہ کو کھولو گے تو فلاں چیز نکلے گی۔ خود دروازہ کھولتے ہیں اور وہ چیز نکلتی ہے تو واویلا کرتے ہیں، اس بے وقوفی کی حد بھی ہے۔
اسی طرح سود ہی کے مسئلہ کو دیکھ لو۔ اﷲ تعالیٰ اور اس کے سچے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات کو اوّل غور کرو کہ اﷲ جل جلالہٗ نے کس زور سے اس کے متعلق قرآن پاک میں تنبیہ اور ممانعت فرمائی، حتیٰ کہ اپنی طرف سے اور اپنے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے ان لوگوں کو اعلان جنگ فرما دیا ہے، جو سود کو نہ چھوڑیں۔ چنانچہ ارشاد ہے:
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ۔(سورۂ بقرہ، آیت:۲۷۹)
ترجمہ: پس اگر تم ایسا کرو (یعنی سود کا بقایا روپیہ جو لوگوں کے ذمہ ہے، نہ چھوڑ دو) تو اشتہار سن لو جنگ کا، اﷲ کی طرف سے اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے۔
چونکہ زمانہ جاہلیت میں سود کے معاملات ہوتے تھے، اس لیے یہ حکم نازل ہوا کہ جن کا سود کا روپیہ لوگوں کے ذمہ باقی ہے، وہ بھی اب ہرگز وصول نہ کریں چہ جائیکہ از سر نو سود لیں۔ احادیث میں نہایت کثرت سے اس پر وعیدیں آئی ہیں۔ کئی حدیثوں میں اس قسم کے ارشادات بھی وارد ہوئے کہ سود کے تہتر باب(گناہ کے) ہیں، جن میں سے کم درجہ ایسا ہے کہ اپنی ماں سے کوئی زنا کرے اور بدترین سود (کے حکم ہے) مسلمان کی آبرو ریزی کرنا۔
ایک حدیث میں ہے ایسے گناہوں سے اپنے آپ کو بچاؤ، جن کی مغفرت نہیں ہے، ان میں سے سود بھی ہے۔ جو شخص سود کھاتا ہے وہ قیامت کے دن میدانِ حشر میں پاگلوں کی طرح ہو گا۔ متعدد حدیثوں میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سود لینے والے پر، سود دینے والے پر، سودی روپے کی گواہی دینے والوں پر، سود کا معاملہ لکھنے والے پر لعنت کی ہے، جس پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لعنت کریں، اس کا کیا حشر ہو گا
ایک حدیث میں ہے کہ جس قوم میں زنا کاری اورسود خوری شائع ہو جائے، اس قوم نے اﷲ کے عذاب کے واسطے اپنے کو تیار کر لیا ہے۔ ان ارشادات کو ذہن نشین کرنے کے بعداب آج کل کے معاملات کو شرعی قواعد سے جانچو۔
کتنے معاملات ایسے ہیں جن میں سودی لین دین کھلم کھلا ہوتا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ سود کو جائز بتایا جاتا ہے، اس کے جواز پر رسالے لکھے جاتے ہیں، کوئی غریب اس کے خلاف آواز اٹھائے تو اس پر جھوٹے سچے الزامات لگائے جاتے ہیں، اس کا مقابلہ کیا جاتا ہے اور اس کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس کی بات نہ سنی جائے۔ دو ایک مثالیں اجمالی طور پر میں نے ذکر کی ہیں۔ ان کے علاوہ بقیہ احکام شرعیہ کو تم خود دیکھ لو، غور کر لو۔ جتنے احکام کرنے کے ملیں گے، ان میں تغافل، تساہل، بلکہ انکار ملے گا اور جتنے امور نہ کرنے کے ہوں گے، ناجائز یا جائز ہوں گے، حرام ہوں گے، ان پر جرأت و بے باکی اور ان میں نہایت کثرت سے کھلم کھلا ابتلاء ملے گا۔ اوّل تو ان پر ٹوکنے والا، روکنے والا کوئی ملے گا نہیں اور اگر کسی جگہ کوئی ایک آدھ پرانے خیال والے ملے تو اس کا جو حشر ہو رہا ہو گا وہ اظہر من الشمس ہے۔ ان خصوصی مثالوں کے بعد اجمالی طور پر اب میں چند حدیثیں صرف نمونہ کے طور پر لکھتا ہوں، جن سے انداز ہ ہو جائے گا کہ ہم لوگوں کی پریشانیاں، حوادث اور مصائب ہمارے خود اکٹھے کیے ہوئے ہیں، اس میں کسی کا کیا قصور ہے۔
اگر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مسلمان سچا سمجھتے ہیں تو ان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے جس قسم کے اعمال پر، جس قسم کے عذاب اور پریشانیوں کا مرتب ہونا ارشاد فرمایا ہے، وہ ہو کر رہیں گے، اگر ہم ان سے بچنا چاہتے ہیں تو اِن اعمال کو چھوڑ دیں۔ ہم لوگ آگ میں کود جائیں اور شور مچائیں کہ ’’جل گئے، جل گئے‘‘اس کا کیا فائدہ۔ ان احادیث کو غور سے مطالعہ کرو اور کثرت سے دیکھا کرو۔
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب میری اُمّت یہ پندرہ کام کرنے لگے گی تو اس پر بلائیں نازل ہونے لگیں گی:
(۱) غنیمت کا مال ذاتی دولت بن جائے۔ (۲) امانت ایسی ہو جائے جیسا غنیمت کا مال ہے۔ (۳) زکوٰۃ کا ادا کرنا، تاوان سمجھا جائے ( کہ جیسے تاوان ادا کرنا مصیبت ہوتا ہے ایسے ہی زکوٰۃ ادا کرنا تاوان، مصیبت بن جائے) (۴)بیویوں کی فرماں برداری کی جائے۔ (۵) اور ماں کی نافرمانی کی جائے (۶) دوستوں اور یاروں سے نیکی کا برتاؤ کیا جائے (۷) اور باپ کے ساتھ ظلم کا برتاؤ کیا جائے (۸) مسجدوں میں شور و شغب ہونے لگے (۹) رذیل لوگ قوم کے ذمہ دار سمجھے جائیں۔ (۱۰) آدمی کا اکرام اس وجہ سے کیا جائے کہ اس کے شر سے محفوظ رہیں (یعنی وہ اکرام کے قابل نہیں، مگر اس وجہ سے اس کا اعزاز کیا جائے کہ وہ کسی مصیبت میں نہ مبتلا کر دے)۔ (۱۱) شراب (علی الاعلان) پی جائے ۔ (۱۲)(مرد) ریشمی لباس پہنیں۔ (۱۳) گانے والیاں (ڈومنیاں، کنچنیاں وغیرہ) مہیا کی جائیں۔ (۱۴) باجے بجائے جائیں (کہ عام طور سے استعمال کیے جائیں)۔ (۱۵) اُمّت کے پہلے لوگوں کو (صحابہ، تابعین اور ائمہ مجتہدین کو) برا کہا جائے تو اُمت کے لوگ اس وقت سرخ آندھی اور زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہو جانے (اس قسم کے عذابوں) کا انتظار کریں۔
دوسری حدیث میں ہے کہ:
جب بیت المال کا مال ذاتی دولت بن جائے اور امانت کو مال غنیمت سمجھا جائے اور زکوٰۃ تاوان بن جائے اور علم کو دین کے واسطے نہ سیکھا جائے (بلکہ دنیوی اغراض، مال و دولت و جاہت وغیرہ کے لیے سیکھا جائے) بیوی کی اطاعت ہو اور ماں کی نافرمانی، یاروں سے قرب ہو اور باپ سے دوری ہو، مسجدوں میں شور و شغب ہونے لگے، فاسق لوگ سردار بن جائیں، رذیل لوگ قوم کے ذمہ دار بن جائیں۔ برائی کے ڈر سے آدمی کا اعزاز کیا جائے۔ گانے والیاں اور باجے کھلم کھلا استعمال کیے جائیں۔ شرابیں پی جائیں اور اُمّت کے پہلے لوگوں کو برا بھلا کہا جائے، تو اس وقت سرخ آندھی اور زلزلہ اور زمین میں دھنس جانے اور صورت مسخ ہو جانے اور آسمان سے پتھر برسانے کا انتظار کریں۔
تیسری حدیث میں ان دونوں کے قریب قریب مضمون ہے اور یہ بھی کہ کم عمر بچے ممبروں پر وعظ کہنے لگیں۔
فائدہ:
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جن امور کو شمار کیا ہے، ان میں سے کوئی بھی ایسا ہے جو اس زمانہ میں نہایت شد و مد سے شائع نہیں ہے۔ ایک ایک جز کو ان اجزاء میں سے لے لو اور دنیا کے حالات پر نظر کرو تو یہ معلوم ہو گا کہ ساری دنیا اسی مبتلا ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جس قوم میں خیانت کا غلبہ ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ اس قوم کے دلوں میں دشمنوں کا خوف ڈال دیں گے اور جس قوم میں زنا کی کثرت ہو گی، اس قوم میں اموات کی کثرت ہو گی اور جو جماعت ناپ تول میں کمی کرے گی، اس کی روزی میں کمی ہو گی اور جو جماعت حق کے خلاف فیصلے کرے گی، اس میں قتل کی کثرت ہو گی۔ اور جو لوگ بد عہدی میں مبتلا ہوں گے، ان پر اﷲ جل شانہٗ کسی دشمن کو مسلط فرما دیں گے۔ (مشکوٰۃ)
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم ایک مرتبہ (خاص طور سے) متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا، اے مہاجرین کی جماعت پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان مبتلا ہو جاؤ گے اور خدا نہ کرے کہ تم ان میں مبتلا ہو (تو ان کے عذاب مسلط ہو جائیں گے)، ایک یہ کہ جس قوم میں فاحشہ (زنا وغیرہ) کھلم کھلا ہونے لگے، اس میں طاعون اور ایسی نئی نئی بیماریاں ہوں گی جو پہلے کبھی نہ سنی ہوں گی اور جو جماعت ناپ تول میں کمی کرے گی، وہ قحط اور مشقت اور بادشاہ کے ظلم می مبتلا ہو گی اور جو لوگ زکوٰۃ روکیں گے ان سے بارش بھی روک لی جائے گی، اگر (بے زبان) جانور نہ ہوں تو ذرا بھی ان پر بارش نہ برسائی جائے( مگر جانوروں کی ضرورت سے تھوڑی بہت ہو گی) اور جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہد کو توڑیں گے ، وہ دشمنوں میں گھر جائیں گے اور جو لوگ ناحق کے احکام جاری کریں گے وہ خانہ جنگی میں مبتلا ہوں گے۔ (ترغیب) اور یہ مضمون تو متعدد روایات میں آیا ہے کہ زنا کی کثرت فقر کو پیدا کرتی ہے۔
ایک حدیث میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، جو قوم بدعہدی کرتی ہے، اس میں آپس میں خوں ریزی ہوتی ہے اور جس قوم میں فحش (زنا وغیرہ) کی کثرت ہوتی ہے، اس میں اموات کی کثرت ہو جاتی ہے اور جو جماعت زکوٰۃ کو روک لیتی ہے، ادا نہیں کرتی، اس سے بارش روک لی جاتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جن لوگوں میں رشوت کی کثرت ہوتی ہے، ان کے دلوں پر رعب کا غلبہ ہوتا ہے وہ (ہر شخص سے مرعوب رہتے ہیں)۔ حضرت کعب رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ اس اُمت کی ہلاکت بدعہدی سے ہو گی۔ (در منثور)
ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ اس اُمّت میں ایک جماعت رات کو کھانے پینے اور لہو و لعب میں مشغول ہو گی اور صبح کو بندر اور سور کی صورتوں میں تبدیل ہو جائے گی اور بعض لوگوں کو زمین میں دھنس جانے کا عذاب ہو گا۔ لوگ کہیں گے آج رات فلاں خاندان دھنس گیا اور فلاں گھر دھنس گیا اور بعض لوگوں پر آسمان سے پتھر برسائے جائیں گے، جیسے کہ قوم لوط پر برسائے گئے تھے اور بعض لوگ آندھی سے تباہ ہوں گے۔ اور یہ سب کچھ کیوں ہوگا ان حرکتوں کی وجہ سے، شراب پینے کی وجہ سے، ریشمی لباس پہننے کی وجہ سے، گانے والیاں رکھنے کی وجہ سے، سود کھانے کی وجہ سے اور قطعہ رحمی کی وجہ سے۔ (حاکم نے اس حدیث کو صحیح لکھا ہے)۔ (در منثور)
ایک حدیث میں ہے کہ جس طاعت کا ثواب سب سے زیادہ جلدی ملتا ہے وہ صلہ رحمی ہے حتیٰ کہ بعض گھرانے والے گناہ گار ہوتے ہیں، لیکن صلہ رحمی کی وجہ سے ان کے مال بھی بڑھ جاتے ہیں اور اولاد کی بھی کثرت ہو جاتی ہے اور سب سے زیادہ جلد عذاب لانے والے گناہ ظلم ہے اور جھوٹی قسم ہے کہ یہ مال کو بھی ضائع کرتے ہیں اور عورتوں کو بانجھ کر دیتے ہیں (کہ اولاد پیدا نہیں ہوتی) اور آبادیوں کو خالی کر دیتے ہیں (در منثور)۔ یعنی اموات کی کثرت ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ہر گناہ کا عذاب حق تعالیٰ شانہ جب تک چاہتے ہیں مؤخر فرما دیتے ہیں لیکن والدین کی نافرمانی کا وبال بہت جلد ہوتا ہے۔ زندگی ہی میں مرنے سے پہلے پہلے اس کا وبال بھگتنا پڑتا ہے۔ (در منثور)۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم عفیف رہو تو تمھاری عورتیں بھی عفیف رہیں گی۔ تم اپنے والدین کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرو تو تمھاری اولاد بھی تمھارے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرے گی۔ (در منثور)
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اور کتنے اہتمام سے فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ تم لوگ نیک کاموں کا حکم کرتے رہو (لوگوں کو تبلیغ کرتے رہو) اور بری باتوں سے روکتے رہو ورنہ حق تعالیٰ شانہٗ تم پر عذاب نازل فرمائیں گے اور تم لوگ اس وقت دعا بھی کرو گے تو قبول نہ ہو گی۔ (دوسری حدیث میں ہے کہ تم لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (نیک کاموں کے کرنے کا حکم اور بری باتوں سے روکنا) کرتے رہو، اس سے قبل کہ ایسا وقت آ جائے کہ جس میں تم دعا کرو تو وہ بھی قبول نہ ہو، ایک حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ شانہ چند آدمیوں کے کسی (ناجائز) کام کے کرنے سے عام عذاب نازل نہیں فرماتے، جب تک کہ ان لوگوں کے سامنے وہ کام کیا جائے اور وہ اس کے روکنے پر قادرو ہوں اور نہ روکیں، اور جب یہ نوبت آجائے تو پھر عام و خاص سب ہی کو عذاب ہوتا ہے (در منثور)
یہی اسباب ہی جن کی وجہ سے آج کل نئی نئی آفات، زلزلے، طوفان، قحط، ریلوں کا ٹکرانا وغیرہ وغیرہ ، ایسے ایسے حوادث روز مرہ کے ہو گئے ہیں، جن کی حد نہیں۔ نئے نئے امراض، نئے نئے مصائب ایسے روز افزوں ہیں جو پہلے کبھی برسوں میں بھی پیش نہیں آتے تھے۔ اخبار بیں حضرات اس سے بہت زیادہ واقف ہیں اور چونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دروازہ بھی تقریباً بند ہے، اس لیے دعاؤں کے قبول ہونے کی امید بھی مشکل ہے۔ نمازوں کے بعد دعاؤں کے اعلان کر دینے سے کیا کفایت ہو، جب کہ دعا قبول نہ ہونے کے اسباب ہم خود اختیار کریں۔ بہت سی احادیث میں وارد ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر لعنت فرمائی ہے اور بعض روایات میں تیسرا شخص رائش یعنی جو درمیانی واسطہ رشوت دینے میں ہو، اس پر بھی لعنت وارد ہوئی ہے۔ اب دیکھو کتنے آدمی اس بلا میں میں مبتلا ہیں اور جن پر اﷲ کا سچا اور مقبول رسول صلی اﷲ علیہ وسلم لعنت کرے، ان کا کیا حشر ہو گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ ظلم نہ کرو کہ تمھاری دعائیں قبول نہ ہوں گی۔ دوسری حدیث میں ہے کہ اﷲ جل شانہ ظالم کو مہلت دیتے ہیں۔ (شاید باز آ جائے) لیکن جب پکڑتے ہیں، پھر وہ چھوٹ نہیں سکتا۔ حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے: ترجمہ:’’ اور آپ کے رب کی دار گیر ایسی ہی سخت ہے، جب وہ کسی بستی والوں پر جو ظالم ہو دار گیر کرتا ہے، بے شک اس کی پکڑ بڑی تکلیف دہ اور سخت ہے‘‘۔
اب دنیا کے مظالم کو دیکھو اور پھر سوچو کہ جب اﷲ کی پکڑ سختی سے ہو تو مصائب اور پریشانیوں کی کیا انتہا ہو سکتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ مظلوم کی بددعا قبول ہوتی ہے، خواہ وہ فاجر ہی کیوں نہ ہو۔ ایک حدیث میں آیا ہے خواہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ (ترغیب۔ حصن حصِین)
ایک حدیث میں آیا ہے اﷲ جل جلالہ ارشاد فرماتے ہیں میرا غصہ اس شخص پر نہایت سخت ہوتا ہے جو کسی ایسے شخص پر ظلم کرے جو میرے سوال کوئی مدد گار نہیں رکھتا (معجم صغیر)
بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
اجابت از در حق بہر استقبال مے آید
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو زمین والوں پر رحم نہیں کرتا، آسمان والے اس پر رحم نہیں کرتے۔ (ترغیب)۔ ایسی حالت میں جب مظلوموں کی بددعائیں روز افزوں ہو اور آسمان والے رحم نہ کریں تو بجلیاں، اولے، طوفان جتنے بھی آئیں قرین قیاس ہے۔
حدیث میں وارد ہے کہ مظلوم کی بددعا سے بچتے رہو خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔ (حصَن)
ایک حدیث میں وارد ہے میری اُمت خیر اور بھلائی پر رہے گی جب تک کہ ان میں حرامی بچوں (زنا کی اولاد) کی کثرت نہ ہو اور جب ان کی کثرت ہو گی تو حق تعالیٰ شانہ اس امت کو ایک عام عذاب میں مبتلا فرمائیں گے۔ (ترغیب) محض حرام کاریاوں کا تو کیا ذکر کوئی بڑے سے بڑا شہر یا چھوٹے سے چھوٹا قصبہ بھی ایسا ہے جہاں کھلم کھلا علی الاعلان زنا کی کثرت اور حرامی بچوں کی پیدائش نہ ہوتی ہو اور میونسپلٹی کے مسلم ممبران اس پر مجبور نہ ہوں کہ اس بے پدری اولاد کو روز افزوں پیداوار کے لیے مستقل جگہوں کا انتظام کریں اور ان کے مکانات کے لیے وسیع جگہ مہیا کریں۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس آبادی میں سود خوری اور زنا کاری علی الاعلان ہونے لگے تو سمجھ لو کہ وہاں کے لوگ اپنے اوپر اﷲ کے عذاب کو اتار رہے ہیں (ترغیب)۔ ذرا غور کرو کتنے آدمی ہیں جو اس بدکاری میں مبتلا ہیں اور کتنے مہذب اور شریف آدمی ہیں جو اس سیہ کاری کے لیے مکانات کرایہ پر دیتے ہیں اور کتنے دین دار میونسپل کمشنر ایسے ہیں جو اس ذلیل کام کے لیے جگہوں کا انتظام کرنے پر مجبور ہیں۔
بہت سی صحیح حدیثوں میں وارد ہے کہ جس گھر میں کتا ہو یا تصویر ہو (رحمت کے) فرشتے اس میں داخل نہیں ہوتے۔ ابو وائل رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ملک شام کے ایک غزوہ میں شریک تھا، ایک جگہ ٹھہرنا ہوا، وہاں کا رئیس حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو تلاش کرتا ہوا زیارت کے شوق میں آیا۔ جب حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے پاس پہنچا تو ان کو سجدہ کیا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا یہ سجدہ کیسا اس نے عرض کیا کہ ہمارا اپنے بادشاہوں کے ساتھ یہی معمول ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرمایا سجدہ اسی معبود کو کر جس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد اس نے درخواست کی کہ میں نے آپ کے لیے کھانا تیار کیا ہے۔ غریب خانہ پر تشریف لے چلیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا تیرے مکان میں تصویریں تو نہیں ہیں۔ اس نے عرض کیا تصویریں تو ہیں، آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ ہم اس میں نہیں جاتے، تو ایک قسم کا کھانا بھیج دینا۔ اس نے بھیج دیا اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ تناول فرما لیا۔ (حاکم)
اب دنیا کے مہذب مکانوں پر بھی ایک نگاہ ڈالو۔ کیا بغیر تصویر کے مکان کی آرائش ہو سکتی ہے اور مجال ہے کہ کوئی تنگ نظر مولوی ٹوک سکے۔ تم ہی بتاؤ کہ جب ہم رحمت کے دروازوں کو اپنے اوپر بند کر لیں اور عذابِ الٰہی کے نازل ہونے کے اسباب جتنے ممکن ہو سکیں اختیار کرتے رہیں، پھر ہماری پریشانیاں اور مصائب کیوں نہ روز افزوں ہوں۔
ہمارے اسلاف کا عمل یہ ہے کہ وہ کفار کے ان مکانوں میں بھی جانا گوارہ نہ کریں جہاں تصاویر ہوں اور ہم نا خلفوں کا عمل یہ کہ مسلمان ہو کر اس ناجائز چیز سے مکان کو زینت دیتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک ایک ارشاد کو غور سے دیکھتے جاؤ اور اپنا اور دنیا کا جائزہ لیتے جاؤ اور اسلامی تعلیم کے کمال اور مسلمانوں کی دینی تعلیم سے حیرت انگیز اعراض پر تعجب میں بڑھتے جاؤ۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب آفتاب نکلتا ہے تو دو فرشتے اس کے قریب کھڑے ہو کر اعلان کرتے ہیں لوگو اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ تھوڑا سا مال جو (ضروریات کو) کفایت کر جائے، بہتر ہے اس کثیر مال سے جو لہو میں مشغول کرے اور جب آفتاب غروب ہوتا ہے تو اس کے قریب دو فرشتے کھڑے ہو کر دعا کرتے ہیں، اے اﷲ (خیر میں) خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما اور روک کر رکھنے والے کے مال کو تلف کر (ترغیب)
اب غور کرو جو لوگ بخل اور کنجوسی سے مصائب جمع کرتے ہیں (اور اﷲ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے) کس طرح اس مال کی بربادی کے لیے اپنے اوپر پریشانیاں اور مصائب جمع کرتے ہیں کہ کبھی تو اس کے تلف ہونے کے واسطے کسی بیماری میں مبتلا ہو گئے تو حکیم ڈاکٹر دوا علاج میں سینکڑوں پر پانی پھر جاتا ہے اور اگر جھوٹی سچی مقدمہ بازی شروع ہو گئی تو ساری ہی اندروختہ نبٹ جاتا ہے اور اگر کسی کے اپنے اعمال حسنہ کی وجہ سے اپنی حفاظت بھی رہی تو اولاد ایسی آوارہ ہوتی ہے کہ وہ باپ کی برسوں کی کمائی کو مہینوں کی عیاشی میں اڑا دیتی ہے۔ یہ فرضی قصے نہیں ہیں، آئے دن کے واقعات ہیں کہ بڑوں نے محنت اور مشقت اٹھا کر لہو پسینہ ایک کر کے بہت سا مال جمع کیا اور ان کے مرتے ہی نا خلف ورثا نے برسوں کی کمائی مہینوں میں بلکہ ہفتوں میں اڑا دی۔ اسی لیے متعدد احادیث میں وارد ہوا ہے کہ آدمی کہتا ہے میرا مال میرا مال۔ حالانکہ اس کا مال صرف وہ ہے جو کھا لیا یا پہن لیا یا (اﷲ کے راستہ میں خرچ کر کے) جمع کر لیا، اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ دوسروں کا ہے۔ (ترغیب)
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا ارشاد ہے کہ تو جو مال اپنی روزی سے زیادہ جمع کرے، وہ دوسرے کا ہے اور تو خزانچی ہے (کتاب المخلات)۔ سینکڑوں روایات کتب حدیث میں اس قسم کے مضامین کی وارد ہوئی ہیں کہ اپنی ضرورت سے زیادہ جو کچھ ہے وہ سب دوسروں پر خرچ کرنے کے واسطے ہیں، جمع کرنے کے واسطے نہیں۔ کلام اﷲ شریف میں ارشاد ہے۔ ترجمہ: ’’آپ سے لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں، آپ کہہ دیں کہ جو بچے (یا جو سہل ہو)‘‘۔ (بقرہ: آیت: ۲۱۹)
(جاری ہے)