مولانا عبید اﷲ لطیف
محترم قارئین! قبل اس کے کہ قادیانیوں کے نظریۂ حدیث پر کچھ عرض کروں مقام حدیث اور حفاظت حدیث پر چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ اصل حقائق کو سمجھنے میں آسانی ہو کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ :
’’ان لوگوں کے خیالات کی بناء احادیث موضوعہ پر ہے جو قرآن شریف کی مہر سے خالی ہے مگر ہم قرآن شریف کو ان احادیث کی خاطر نہیں چھوڑ سکتے۔ قرآن شریف بہرحال مقدم ہے بھلا قرآن کو تو آنحضرت نے خود جمع کیا لکھوایا اور پھر نمازوں میں باربار پڑھ کر سنایا اگر احادیث بھی ویسی ہی ضروری ہیں تو ان میں سے بھی کسی کو اسی طرح جمع کیا اور بار بار سنایا اور دَور کیا۔‘‘ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 211)
جہاں تک بات ہے احادیث کو جمع کرنے اور لکھوانے کی تو احادیث کو جمع کرنے اور لکھنے کا حکم۔خود نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیا اور احادیث نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور میں ہی لکھی جاتی رہیں اور جمع بھی کی گئیں جس کی تفصیل ان شاء اﷲ آگے آئے گی۔ اب بات رہ جاتی ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے احادیث کا نمازوں میں دور نہ کیا تو یہ مرزا غلام احمد قادیانی کی جہالت کا اعلی ترین ثبوت ہے کہ جسے بات کرتے ہوئے یہ تک خیال نہیں آیا کہ احادیث تین طرح کی ہوتی ہیں ایک قولی یعنی جو بات نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیان فرمائی اس فرمان نبوی کو قولی حدیث کہتے ہیں۔ دوسری فعلی یعنی جو کام نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے عملا کر کے دکھایا۔ تیسری حدیث کی وہ قسم ہے کہ اگر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے کسی صحابی نے کوئی عمل کیا تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع نہ فرمایا۔ اس سے ثابت ہوا کہ احادیث قرآن کریم کی تشریح ہیں جن کا نماز میں دور نہ کرنے کو احادیث کی اہمیت کم کرنے کے لیے بطور دلیل پیش کرنا جہالت کے علاوہ کچھ نہیں بلکہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا بار بار کسی کام کا حکم دینا اور اس کام کو عملا کر کے دکھانا ہی احادیث کا دور کہا جا سکتا ہے۔
اب آتے ہیں مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریر کے اس حصے کی طرف جس میں اس نے کہا ہے کہ:
’’ان لوگوں کے خیالات کی بناء احادیث موضوعہ پر ہے جو قرآن شریف کی مہر سے خالی ہے‘‘
حالانکہ مرزا غلام احمد قادیانی خود امام مہدی کے بارے میں تمام احادیث کو ضعیف قرار دے چکا ہے چنانچہ وہ اپنی کتاب براہین احمدیہ میں لکھتا ہے کہ :
’’جیسا کہ تمام محدثین کہتے ہیں اور میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں جس قدر حدیثیں تمام مجروح اور مخدوش ہیں اور ان میں ایک بھی صحیح نہیں …… مگر دراصل یہ تمام حدیثیں کسی اعتبار کے لائق نہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ، حصہ پنجم، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 21، صفحہ 356)
اب جبکہ مرزا صاحب خود امام مہدی کے بارے میں تمام احادیث کو ضعیف اور ناقابل اعتبار قرار دے چکے ہیں اور امام مہدی کا ذکر قرآن کریم میں بھی نہیں تو مرزا صاحب کا اپنا دعوی مہدویت کس بنا پر ہے؟
محترم قارئین! جیسا کہ احادیث پر مرزا غلام احمد قادیانی کا اعتراض بھی نقل کیا جا چکا ہے اور ویسے بھی جب کبھی کسی منکر حدیث اور قادیانی سے بات ہوتی ہے تو ان کی طرف سے احادیث پر سب سے پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ احادیث تو اڑھائی تین سو سال بعد لکھی گئی ہیں لہذا ہم انہیں نہیں مانتے۔ حالانکہ جس طرح قرآن مجید کلام الٰہی ہونے کے سبب حجت ہے اسی طرح صحیح حدیث رسول بھی فرمان نبوی ہونے کے سبب حجت ہے۔ کیونکہ قرآن مقدس کی وضاحت اور تشریح جب تک فرمان نبوی سے نہ کی جائے تو دین اسلام ادھورا رہ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے بارے میں رب کائنات نے فرمایا ہے کہ:
ثُمَّ اِنَّ عَلَینَا بَیَانَہْ (القیامۃ 19) یعنی پھر اس کو بیان کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ نیز فرمایا:
وَاَنزَلنَآ اِلَیکَ الذِّکرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیہِم (النحل44)
ترجمہ: اور ہم نے آپ کی طرف ذکر (قرآن مجید) نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے واضح کر دیں جو ان کی طرف نازل کیا گیا۔ اسی طرح حدیث رسول کے حجت ہونے کے بارے میں قرآن مقدس میں ارشاد ہے کہ:
وَمَا اٰتٰکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَانَہٰکُم عَنہُ فَانتَہُوا (الحشر7)
ترجمہ: اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ۔
محترم قارئین! جس طرح رب کائنات نے قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی ہے اسی طرح قرآن مجید کی وضاحت یعنی حدیث رسول کی حفاظت کی بھی ذمہ داری لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم علیہ السلام کے دور میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم قرآن مجید کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ احادیث رسول کو بھی حفظ کیا کرتے تھے اور نبی کریم علیہ السلام کے دور میں ہی کتابت حدیث کا کام بھی شروع ہو گیا تھا۔ اسی سلسلہ میں حسن بن عمرو روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابو ہریرۃ رضی اﷲ عنہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے گھر لے گئے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیثوں کی بہت سی کتابیں دکھائیں اور فرمایا کہ یہ میرے پاس مکتوب ہے۔ (بحوالہ فتح الباری 207/1، تحت حدیث 113)
سنن ابوداؤد میں عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ:
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَأَبُوبَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ، قَالَا: حَدَّثَنَا یَحْیَی، عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی مُغِیثٍ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ مَاہَکَ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:کُنْتُ أَکْتُبُ کُلَّ شَیْءٍ أَسْمَعُہُ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُرِیدُ حِفْظَہُ، فَنَہَتْنِی قُرَیْشٌ، وَقَالُوا: أَتَکْتُبُ کُلَّ شَیْءٍ تَسْمَعُہُ وَرَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ یَتَکَلَّمُ فِی الْغَضَبِ وَالرِّضَا؟، فَأَمْسَکْتُ عَنِ الْکِتَابِ، فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِہِ إِلَی فِیہِ، فَقَالَ: اکْتُبْ، فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، مَا یَخْرُجُ مِنْہُ إِلَّا حَقٌّ۔
حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں ہر اس حدیث کو جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنتا یاد رکھنے کے لیے لکھ لیتا، تو قریش کے لوگوں نے مجھے لکھنے سے منع کر دیا، اور کہا: کیا تم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہر سنی ہوئی بات کو لکھ لیتے ہو؟ حالانکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بشر ہیں، غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں باتیں کرتے ہیں، تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ پھر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ (سنن ابی داؤد کتاب العلم حدیث 3646)
صحابہ کرام کے تحریری مجموعے:
(1) صحیفہ صادقہ:
عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما کا ہزار احادیث پر مشتمل صحیفہ صادقہ یہ اب مسند احمد میں مکمل طور پر موجود ہے۔ اس صحیفے کی روایت عمرو بن شعیب بن محمد بن عبداﷲ بن عمرو بن عاص کے توسط سے پوری طرح منقول ہے۔ اور اکابر محدثین نے اس روایت پر اعتماد کر کے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ (تاریخ الحدیث والمحدثین ص 210)
(2) صحیفہ عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ
اس میں صدقات اور زکوٰۃ کے احکامات درج ہیں۔ امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں میں نے یہ صحیفہ پڑھا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اﷲ علیہ نے جب تدوین حدیث کا کام شروع کیا تو یہ صحیفہ انہیں عمر رضی اﷲ عنہ کے خاندان سے موصول ہوا۔ (موطا امام مالک ص 109)
(3) صحیفہ عثمان رضی اﷲ عنہ
اس صحیفے میں زکوٰۃ کے احکام درج تھے اس کے متعلق امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کتاب الجہاد میں ابن الحنفیہ سے ایک روایت اس طرح لائے ہیں کہ :
حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ، عَنْ مُنْذِرٍ، عَنْ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ، قَالَ: لَوْ کَانَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ذَاکِرًا عُثْمَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ذَکَرَہُ یَوْمَ جَائَہُ نَاسٌ فَشَکَوْا سُعَاۃَ عُثْمَانَ، فَقَالَ لِی عَلِیٌّ: اذْہَبْ إِلَی عُثْمَانَ، فَأَخْبِرْہُ أَنَّہَا صَدَقَۃُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَمُرْ سُعَاتَکَ یَعْمَلُونَ فِیہَا فَأَتَیْتُہُ بِہَا، فَقَالَ: أَغْنِہَا عَنَّا، فَأَتَیْتُ بِہَا عَلِیًّا فَأَخْبَرْتُہُ، فَقَالَ: ضَعْہَا حَیْثُ أَخَذْتَہَ۔
اگر علی رضی اﷲ عنہ، عثمان رضی اﷲ عنہ کو برا کہنے والے ہوتے تو اس دن ہوتے جب کچھ لوگ عثمان رضی اﷲ عنہ کے عاملوں کی (جو زکوٰۃ وصول کرتے تھے) شکایت کرنے ان کے پاس آئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا عثمان رضی اﷲ عنہ کے پاس جا اور یہ زکوٰۃ کا پروانہ لے جا۔ ان سے کہنا کہ یہ پروانہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا لکھوایا ہوا ہے۔ تم اپنے عاملوں کو حکم دو کہ وہ اسی کے مطابق عمل کریں۔ چنانچہ میں اسے لے کر عثمان رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں پیغام پہنچا دیا‘ لیکن انہوں نے فرمایا کہ ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں (کیونکہ ہمارے پاس اس کی نقل موجود ہے) میں نے جا کر علی رضی اﷲ عنہ سے یہ واقعہ بیان کیا، تو انہوں نے فرمایا کہ اچھا، پھر اس پروانے کو جہاں سے اٹھایا ہے وہیں رکھ دو۔ (صحیح البخاری، کتاب الجھاد، روایت نمبر 3111)
(4) صحیفہ علی رضی اﷲ عنہ
اس میں زکوٰۃ، صدقات، دیت، قصاص، حرمت مدینہ، خطبہ حجۃ الوداع اور اسلامی دستور کے نکات درج تھے۔ یہ صحیفہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بیٹے محمد بن حنفیہ کے پاس تھا پھر امام جعفر کے پاس آیا اور انہوں نے حارث کو لکھ کر دیا۔
اسی صحیفے کے بارے میں بخاری شریف میں روایت ہے کہ :
حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ: مَا عِنْدَنَا کِتَابٌ نَقْرَؤُہُ إِلَّا کِتَاب اللَّہِ غَیْرَ ہَذِہِ الصَّحِیفَۃِ، قَالَ: فَأَخْرَجَہَا فَإِذَا فِیہَا أَشْیَاءُ مِنَ الْجِرَاحَاتِ وَأَسْنَانِ الْإِبِلِ، قَالَ: وَفِیہَا الْمَدِینَۃُ حَرَمٌ مَا بَیْنَ عَیْرٍ إِلَی ثَوْرٍ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِیہَا حَدَثًا أَوْ آوَی مُحْدِثًا، فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللَّہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ، لَا یُقْبَلُ مِنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ، وَمَنْ وَالَی قَوْمًا بِغَیْرِ إِذْنِ مَوَالِیہِ، فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللَّہِ، وَالْمَلَائِکَۃِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ، لَا یُقْبَلُ مِنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ، وَذِمَّۃُ الْمُسْلِمِینَ وَاحِدَۃٌ، یَسْعَی بِہَا أَدْنَاہُمْ، فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا، فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللَّہِ، وَالْمَلَائِکَۃِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ، لَا یُقْبَلُ مِنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے پاس کوئی کتاب نہیں ہے جسے ہم پڑھیں، سوا اﷲ کی کتاب قرآن کے اور اس کے علاوہ یہ صحیفہ بھی ہے۔ بیان کیا کہ پھر وہ صحیفہ نکالا تو اس میں زخموں (کے قصاص) اور اونٹوں کی زکوٰۃ کے مسائل تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ اس میں یہ بھی تھا کہ عیر سے ثور تک مدینہ حرم ہے جس نے اس دین میں کوئی نئی بات پیدا کی یا نئی بات کرنے والے کو پناہ دی تو اس پر اﷲ اور فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے اور قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل مقبول نہ ہو گا اور جس نے اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیر دوسرے لوگوں سے موالات قائم کر لی تو اس پر فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے، قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل مقبول نہ ہو گا اور مسلمانوں کا ذمہ (قول و قرار، کسی کو پناہ دینا وغیرہ) ایک ہے۔ ایک ادنی مسلمان کے پناہ دینے کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ پس جس نے کسی مسلمان کی دی ہوئی پناہ کو توڑا، اس پر اﷲ کی، فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل قبول نہیں کیا جائے گا۔ (تدوین حدیث ، ’’برہان‘‘ دہلی۔ و صحیح بخاری حدیث 6755)
حَدَّثَنَا صَدَقَۃُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِیَّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جُحَیْفَۃَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ہَلْ عِنْدَکُمْ شَیْءٌ مَا لَیْسَ فِی الْقُرْآنِ؟ وَقَالَ مَرَّۃً: مَالَیْسَ عِنْدَ النَّاسِ؟، فَقَالَ وَالَّذِی فَلَقَ الْحَبَّۃَ، وَبَرَأَ النَّسَمَۃَ مَا عِنْدَنَا إِلَّا مَا فِی الْقُرْآنِ إِلَّا فَہْمًا یُعْطَی رَجُلٌ فِی کِتَابِہِ وَمَا فِی الصَّحِیفَۃِ، قُلْتُ: وَمَا فِی الصَّحِیفَۃِ؟ قَالَ: الْعَقْلُ وَفِکَاکُ الْأَسِیرِ، وَأَنْ لَا یُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِکَافِرٍ۔
میں نے علی رضی اﷲ عنہ سے پوچھا، کیا آپ کے پاس کوئی ایسی چیز بھی ہے جو قرآن مجید میں نہیں ہے اور ایک مرتبہ انہوں نے اس طرح بیان کیا کہ جو لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے دانے سے کونپل کو پھاڑ کر نکالا ہے اور مخلوق کو پیدا کیا۔ ہمارے پاس قرآن مجید کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ سوا اس سمجھ کے جو کسی شخص کو اس کی کتاب میں دی جائے اور جو کچھ اس صحیفہ میں ہے۔ میں نے پوچھا صحیفہ میں کیا ہے؟ فرمایا خون بہا (دیت) سے متعلق احکام اور قیدی کے چھڑانے کا حکم اور یہ کہ کوئی مسلمان کسی کافر کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ (صحیح البخاری حدیث نمبر 6903)
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِی، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنِی إِبْرَاہِیمُ التَّیْمِیُّ، حَدَّثَنِی أَبِی، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَی مِنْبَرٍ مِنْ آجُرٍّ وَعَلَیْہِ سَیْفٌ فِیہِ صَحِیفَۃٌ مُعَلَّقَۃٌ، فَقَالَ: وَاللَّہِ مَا عِنْدَنَا مِنْ کِتَابٍ یُقْرَأُ إِلَّا کِتَابُ اللَّہِ وَمَا فِی ہَذِہِ الصَّحِیفَۃِ فَنَشَرَہَا فَإِذَا فِیہَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ وَإِذَا فِیہَا الْمَدِینَۃُ حَرَمٌ مِنْ عَیْرٍ إِلَی کَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ فِیہَا حَدَثًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللَّہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ لَا یَقْبَلُ اللَّہُ مِنْہُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَإِذَا فِیہِ ذِمَّۃُ الْمُسْلِمِینَ وَاحِدَۃٌ یَسْعَی بِہَا أَدْنَاہُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللَّہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ لَا یَقْبَلُ اللَّہُ مِنْہُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَإِذَا فِیہَا مَنْ وَالَی قَوْمًا بِغَیْرِ إِذْنِ مَوَالِیہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللَّہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ لَا یَقْبَلُ اللَّہُ مِنْہُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا۔
علی رضی اﷲ عنہ نے ہمیں اینٹ کے بنے ہوئے منبر پر کھڑا ہو کر خطبہ دیا۔ آپ تلوار لیے ہوئے تھے جس میں ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: واﷲ! ہمارے پاس کتاب اﷲ کے سوا کوئی اور کتاب نہیں جسے پڑھا جائے اور سوا اس صحیفہ کے۔ پھر انہوں نے اسے کھولا تو اس میں دیت میں دئیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان تھا۔ (کہ دیت میں اتنی اتنی عمر کے اونٹ دئیے جائیں) اور اس میں یہ بھی تھا کہ مدینہ طیبہ کی زمین عیر پہاڑی سے ثور پہاڑی تک حرم ہے۔ پس اس میں جو کوئی نئی بات (بدعت) نکالے گا اس پر اﷲ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اﷲ اس سے کسی فرض یا نفل عبادت کو قبول نہیں کرے گا اور اس میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری (عہد یا امان) ایک ہے اس کا ذمہ دار ان میں سب سے ادنیٰ مسلمان بھی ہو سکتا ہے پس جس نے کسی مسلمان کا ذمہ توڑا، اس پر اﷲ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اﷲ اس کی نہ فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل عبادت اور اس میں یہ بھی تھا کہ جس نے کسی سے اپنی والیوں کی اجازت کے بغیر ولاء کا رشتہ قائم کیا اس پر اﷲ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، اﷲ نہ اس کی فرض نماز قبول کرے گا نہ نفل۔ (صحیح البخاری حدیث نمبر 7300)
(5) مسند ابوہریرۃ رضی اﷲ عنہ
اس کے بہت سے نسخے عہد صحابہ میں لکھے گئے تھے اس کی ایک نقل عمر بن عبدالعزیز رحمہ اﷲ کے والد عبدالعزیز بن مروان والی ٔ مصر کے پاس تھی عبدالعزیز بن مروان نے کثیر بن مرۃ کو لکھا تھا کہ آپ کے پاس صحابہ کرام کی جتنی مرویات ہیں وہ ہمیں لکھ کر بھیج دیں مگر ابوہریرۃ رضی اﷲ عنہ کی مرویات بھیجنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی ہمارے پاس موجود ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ لا بن سعد، 448/77)
(6)صحیفہ ہمام بن منبہ رحمہ اﷲ :
ہمام بن منبہ رحمہ اﷲ سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کے شاگرد اور معروف تابعی ہیں انہوں نے ’’صحیفہ الصحیحہ‘‘ کے نام سے 138 احادیث پر مشتمل ایک صحیفہ مرتب کیا اور حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے اس کی تصحیح و تصویب کروائی۔ یاد رہے کہ ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ 58ہجری میں فوت ہوئے جس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ صحیفہ 58 ہجری سے پہلے ترتیب دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب کو اس کے دو قلمی نسخے ملے ایک 1933 میں برلن کی کسی لائبریری سے اور دوسرا مخطوطہ دمشق کی ایک لائبریری سے ملا۔ تب انہوں نے ان دونوں نسخوں کا تقابل کر کے 1955ء میں حیدر آباد دکن سے ’’صحیفہ ہمام بن منبہ‘‘ کے نام سے شائع کیا اس صحیفے میں کل 138 احادیث ہیں اسی صحیفے کے متعلق معروف عالم دین مولانا عبد الرحمن کیلانی صاحب اپنی کتاب آئینہ پرویزیت میں لکھتے ہیں کہ :
’’صحیفہ ہمام بن منبہ، جسے ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب نے حال ہی میں شائع کیا ہے، ہمیں یہ دیکھ کر کمال حیرت ہوتی ہے کہ یہ صحیفہ پورے کا پورا مسند احمد بن حنبل میں مندرج ہے۔ اور بعینہ اسی طرح درج ہے جس طرح قلمی نسخوں میں ہے ماسوائے چند لفظی اختلافات کے، جن کا ذکر ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب نے کر دیا ہے۔ لیکن جہاں تک زبانی روایات کی وجہ سے معنوی تحریف کے امکان کا تعلق ہے، اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اب دیکھیے احمد بن حنبل رحمہ اﷲ کا سنہ وفات 240ھ ہے۔ بعینہ صحیفہ مذکور اور مسند احمد بن حنبل میں تقریباً 200 سال کا عرصہ حائل ہے۔ اور دو سو سال کے عرصے میں صحیفہ ہمام بن منبہ کی روایات زیادہ تر زبانی روایات کے ذریعے ہی امام موصوف تک منتقل ہوتی رہیں۔ اب دونوں تحریروں میں کمال یکسانیت کا ہونا کیا اس بات کا واضح ثبوت نہیں کہ زبانی روایات کا سلسلہ مکمل طور پر قابل اعتماد تھا۔صحیفہ کی اشاعت اور تقابل کے بعد دو باتوں میں ایک بات بہرحال تسلیم کرنا پڑتی ہے:
(1) زبانی روایات، خواہ ان پر دو سو سال گزر چکے ہوں، قابل اعتماد ہو سکتی ہیں۔
(2) یہ کہ کتابتِ حدیث کا سلسلہ کسی بھی وقت منقطع نہیں ہوا۔‘‘ (آئینۂ پرویزیت، ص: 534-533)
جامعہ الازہر کے معروف عالم ڈاکٹر رفعت فوزی عبد المطلب اس مطبوعہ صحیفے کی تحقیق، تخریج اور شرح کا کام کر رہے تھے اور وہ آدھا کام کر چکے تھے، حسن اتفاق ایسا ہوا کہ ’’دارالکتب المصریہ‘‘ سے ایک اور مخطوطہ ان کے ہاتھ لگ گیا جو سن 557 ہجری کا مکتوب تھا۔ اس مخطوطے میں ان دونوں کے مقابلے میں ایک حدیث زائد ہے اور یہ زائد حدیث مسند احمد میں شامل صحیفے کی احادیث میں بھی موجود ہے۔ اب ڈاکٹر رفعت فوزی نے اسی مصری مخطوطے کو بنیاد بنا کر کام مکمل کیا۔ اسے ’’المکتبہ الخانجی‘‘ نے پہلی مرتبہ ستمبر 1985ء (بمطابق محرم الحرام 1406ھ) میں قاہرہ سے شائع کیا۔ صحیفہ ہمام بن منبہ کی 139 احادیث کی تفصیل کچھ یوں ہے:
عقائد و ایمانیات …… 61 عبادات …… 46 معاملات …… 9 اخلاق و آداب …… 17
متفرقات…… 9 احادیث قدسیہ…… 12
(صحیفہ ہمام بن منبہ،حافظ عبد اﷲ شمیم،ناشر: انصار السنہ پبلیکیشنز لاہور)
اس کی اکثر روایات صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی ملتی ہیں، الفاظ ملتے جلتے ہیں کوئی نمایاں فرق نہیں، ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ پہلے احادیث نہیں لکھا کرتے تھے، ممکن ہے کہ انہوں نے کتابت حدیث کا یہ سلسلہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد شروع کیا، یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے کسی دوسرے شخص سے احادیث مرتب کرائی ہوں۔
(فتح الباری، ج 1، ص 274)
اس کے علاوہ صحیفہ انس، خطبہ فتح مکہ (جوحضرت ابو شاہ رضی اﷲ عنہ کے لیے لکھا گیا تھا) صحیفہ جابر بن عبداﷲ، مرویات ابن عباس، مرویات عائشہ اور صحیفہ عمر و بن حزام (جب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے یمن کا گورنر مقرر کیا تو انہیں لکھ کر دیا گیا تھا اس صحیفے میں فرائض، سنن، صدقات و دیات اور دیگر 21 فرامین نبویہ شامل ہیں) مزید برآں رسالہ سمرہ بن جندب، رسالہ سعد بن عبادہ اور صحیفہ عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہم جس کے بارے میں ان کے بیٹے عبدالرحمن نے حلفاً کہا تھا کہ یہ ان کے باپ عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ (جامع بیان العلم 300/11)
یہ تمام صحیفے رسالے اور کتب صحابہ کرام کی تحریریں تھیں جن میں انہوں نے مرفوع احادیث جمع کی تھیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں کا نظریہ حدیث و اصول حدیث:
محترم قارئین! جب ہم مرزا غلام احمد قادیانی کے حالات زندگی اور دعوی جات کا جائزہ لیتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ اس نے گرگٹ کی طرح بے شمار رنگ بدلے ہیں اور کئی قلابازیاں کھائی ہیں۔ کبھی کہا کہ اس کا کوئی استاد نہیں تو کبھی خود ہی اپنے اساتذہ کے نام بتا دئیے۔ کبھی کہا کہ وہ دعوی نبوت کرنے والے کو کافر سمجھتا ہے تو بعد ازاں خود ہی دعوی نبوت کر دیا۔ کبھی قرآن کریم سے ہی حیات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ ثابت کیا تو کبھی اسی عقیدے سے انحراف کرتے ہوئے وفات مسیح کے حق میں ہی قرآن کریم سے دلائل دینے شروع کر دئیے۔ بالکل اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے اصول حدیث اور نظریہ حدیث میں بھی گرگٹ کی طرح کئی رنگ بدلے ہیں اب آپ کے سامنے احادیث کے بارے میں مرزا غلام احمد قادیانی کا پہلا موقف پیش کرتا ہوں چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ:
’’ہم اس امر کو بھی اسی محک سے آزمائیں گے کہ وہ حدیث قولی یا فعلی قرآن کریم کی حسب آیۃ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَ اللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ یُؤمِنُوْنَ وہ حدیث قولی یا فعلی قرآن کریم کی کسی صریح اور بین آیت سے مخالف تو نہیں۔ اگر مخالف نہیں ہو گی تو بسروچشم قبول کریں گے اور اگر بظاہر مخالف نظر آئے گی تو ہم فی الوسع اس کی تطبیق اور توفیق کے لیے کوشش کریں گے اور اگر ہم باوجود پوری کوشش کے اس امر کی تطبیق میں ناکام رہیں گے اور صاف صاف کھلے طور پر ہمیں مخالف معلوم ہو گی تو ہم افسوس کے ساتھ اس حدیث کو ترک کر دیں گے۔‘‘ (مباحثہ لدھیانہ، ر خ۔ ج 4 ص 13)
’’اگر کوئی حدیث بخاری یا مسلم کی ہے لیکن قرآن کریم کے کھلے کھلے منشاء سے برخلاف ہے تو کیا ہمارے لیے یہ ضروری نہیں ہو گا کہ ہم اس کی مخالفت کی حالت میں قرآن کریم کو مقدم قرار دیں؟ پس آپ کا یہ کہنا کہ احادیث اصول روایت کی رو سے ماننے کے لائق ہیں یہ ایک دھوکہ دینے والا قول ہے۔‘‘ (مباحثہ لدھیانہ ، رخ، جلد 4 صفحہ14)
مزید ایک مقام پر لکھا کہ
’’الغرض میرا مذہب یہی ہے کہ البتہ بخاری اور مسلم کی حدیثیں ظنی طور پر صحیح ہیں مگر جو حدیث صریح طور پر ان میں سے مبائن و مخالف قرآن کریم کے واقع ہو گی وہ صحت سے باہر ہو جائے گی۔‘‘ (مباحثہ لدھیانہ، رخ، ج 4 ص 15)
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی کی مندرجہ بالا تحریروں سے واضح ہو گیا کہ وہ جس حدیث کو بظاہر قرآن کریم کے خلاف پائے گا خواہ اس کی سند کیسی ہی ہو اسے ضعیف اور موضوع قرار دے کر ترک کر دے گا۔ اب میرا احادیث کے بارے میں مرزا قادیانی کا مذہب اختیار کرنے والوں اور منکرین حدیث سے سوال ہے کہ اﷲ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیکُمُ المَیتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحمَ الخِنزِیرِ وَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیرِ اللّٰہِ فَمَنِ اضطُرَّ غَیرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَٓا اِثمَ عَلَیہِ اِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ
تم پر مُردہ اور خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اﷲ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناہ نہیں، اﷲ تعالیٰ بخشش کرنے والا مہربان ہے۔
اس آیت مبارکہ کی رو سے مردہ جانور کا گوشت تو حرام ہے لیکن اس واضح حکم کے باوجود قادیانی حضرات اور منکرین حدیث مچھلی کا گوشت کیوں کھاتے ہیں؟ اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکار اپنی طرف سے قرآن کریم سے وفات مسیح ثابت کرتے ہیں اگر وفات مسیح قرآن سے ثابت ہے تو پھر نزول مسیح کی احادیث تو صریحا قرآن کریم کے خلاف قرار پاتی ہیں تو پھر مرزا قادیانی کا دعوی مسیحیت کس بنیاد پر ہے؟
محترم قارئین! اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی دیگر منکرین حدیث کی مانند نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر جادو کا اثر ہونے سے نہ صرف انکاری ہے بلکہ جو اس بات کے قائل ہیں انہیں ظالم اور کافر قرار دیتا ہے چنانچہ مرزا قادیانی کے ملفوظات پر مشتمل کتاب میں موجود ہے کہ:
’’ایک شخص نے سوال کیا کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر کافروں نے جو جادو کیا تھا اس کی نسبت آپ کا کیا خیال ہے؟ حضرت اقدس نے فرمایا! جادو بھی شیطان کی طرف سے ہوتا ہے رسولوں اور نبیوں کی یہ شان نہیں ہوتی کہ ان پر جادو کا کچھ اثر ہو بلکہ ان کو دیکھ کر جادو بھاگ جاتا ہے جیسے کہ خدا تعالی نے فرمایا لا یفلح السٰحر حیث اتٰی (طہ) دیکھو حضرت موسی کے مقابل پر جادو تھا آخر موسی غالب ہوا کہ نہیں؟ یہ بات بالکل غلط ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے مقابلہ میں (معاذاﷲ) جادو غالب آگیا۔ ہم اس کو کبھی نہیں مان سکتے۔ آنکھ بند کرکے بخاری اور مسلم کو مانتے جانا یہ ہمارے مسلک کے برخلاف ہے۔ یہ تو عقل بھی تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایسے عالی شان نبی پر جادو اثر کر گیا ہو، ایسی ایسی باتیں کہ اس جادو سے (معاذاﷲ) آنحضرتؐ کا حافظہ جاتا رہا یہ ہوگیا اور وہ ہوگیا کسی صورت میں صحیح نہیں ہوسکتیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی خبیث آدمی نے اپنی طرف سے ایسی باتیں ملادی ہیں۔ گو ہم نظر تہذیب سے احادیث کو دیکھتے ہیں، لیکن جو حدیث قرآن کریم کے برخلاف، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عصمت کے برخلاف ہو، اس کو ہم کب مان سکتے ہیں۔ اُس وقت احادیث جمع کرنے کا وقت تھا گو انہوں نے سوچ سمجھ کر احادیث کو درج کیا تھا۔ مگر پوری احتیاط سے کام نہیں لے سکے۔ وہ جمع کرنے کا وقت تھا۔ لیکن اب نظر اور غور کرنے کا وقت ہے۔ آثار نبی جمع کرنا بڑے ثواب کا کام ہے لیکن یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جمع کرنے والے خوب غور سے کام نہیں لے سکتے۔ اب ہر ایک کو اختیار ہے کہ خوب غور اور فکر سے کام لے جو ماننے والی ہو وہ مانے اور جو چھوڑنے والی ہو وہ چھوڑ دے۔ ایسی بات ہے تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر (معاذاﷲ) جادو کا اثر ہو گیا تھا اس سے تو ایمان اٹھ جاتا ہے۔ خدا تعالی فرماتا ہے کہ اِذ یَقُولُ الظّٰلِمُونَ اِن تَتَّبِعُونَ اِلَّا رَجُلًا مَّسحُورًا (بنی اسرائیل:47) ایسی ایسی باتیں کہنے والے تو ظالم ہیں نہ مسلمان یہ تو بے ایمانوں اور ظالموں کا قول ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر (معاذاﷲ) سحر اور جادو ہو گیا تھا اتنا نہیں سوچتے جب (معاذاﷲ) آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا یہ حال ہے تو پھر امت کا کیا ٹھکانہ؟ وہ تو پھر غرق ہو گئی معلوم نہیں ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ جس معصوم نبی کو تمام انبیاء مس شیطان سے پاک سمجھتے آئے ہیں ان کی شان میں ایسے ایسے الفاظ بولتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 349,348 )
قارئین کرام! مرزا صاحب نے اپنی اس تحریر میں تین طرح سے دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے:
نمبر (1): یہ کہہ کر کہ ’’جادو بھی شیطان کی طرف سے ہوتا ہے رسولوں اور نبیوں کی یہ شان نہیں ہوتی کہ ان پر جادو کا کچھ اثر ہو بلکہ ان کو دیکھ کر جادو بھاگ جاتا ہے جیسے کہ خدا تعالی نے فرمایا لا یفلح السٰحِر حیث اتٰی (طہ) دیکھو حضرت موسیٰ کے مقابل پر جادو تھا آخر موسیٰ غالب ہوا کہ نہیں؟ یہ بات بالکل غلط ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے مقابلہ میں (معاذاﷲ) جادو غالب آگیا۔ ہم اس کو کبھی نہیں مان سکتے۔‘‘
حالانکہ نہ تو حدیث میں کہیں یہ لکھا ہے کہ جادوگر نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر غالب آگئے تھے اور نہ ہی کسی محدث یا مسلم عالم کا یہ عقیدہ ہے کہ شیطان نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر غالب آیا بلکہ یہ مرزا صاحب نے نہ صرف سراسر بہتان لگایا بلکہ دھوکہ دینے کی بھی کوشش کی ہے اگر ہم موسی علیہ السلام کا واقعہ پڑھیں تو اﷲ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ
قَالُوا یٰمُوسٰی اِمَّا اَن تُلقِیَ وَاِمَّا اَن نَّکُونَ اَوَّلَ مَن اَلقٰی۔ قَالَ بَل اَلقُوا فَاِذَا حِبَالُہُم وَعِصِیُّہُم یُخَیَّلُ اِلَیہِ مِن سِحرِہِم اَنَّہَا تَسعٰی۔ فَاَوجَسَ فِی نَفسِہٖ خِیفَۃً مُّوسٰی۔ قُلنَا لَاتَخَف اِنَّکَ اَنتَ الاَعلٰی۔ وَاَلقِ مَا فِی یَمِینِکَ تَلقَف مَاصَنَعُوا اِنَّمَا صَنَعُوا کَیدُ سٰحِرٍ وَلَا یُفلِحُ السَّاحِرُ حَیثُ اَتٰی (سورۃ طہ آیت نمبر 65 تا 69)
ترجمہ: جادوگر بولے: موسیٰ! یا تو تم (اپنی لاٹھی پہلے) ڈال دو، یا پھر ہم ڈالنے میں پہل کریں؟ موسیٰ نے کہا: نہیں، تم ہی ڈالو بس پھر اچانک ان کی (ڈالی ہوئی) رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے نتیجے میں موسیٰ کو ایسی محسوس ہونے لگیں جیسے دوڑ رہی ہیں۔ اس پر موسیٰ کو اپنے دل میں کچھ خوف محسوس ہوا۔ ہم نے کہا: ڈرو نہیں، یقین رکھو تم ہی سربلند رہو گے اور جو (لاٹھی) تمہارے دائیں ہاتھ میں ہے، اسے (زمین پر) ڈال دو، ان لوگوں نے جو کاریگری کی ہے، وہ اس سب کو نگل جائے گی۔ ان کی ساری کاریگری ایک جادوگر کے کرتب کے سوا کچھ نہیں، اور جادوگر چاہے کہیں چلا جائے، اسے فلاح نصیب نہیں ہوتی۔
محترم قارئین! قرآن کریم سے ثابت ہوا کہ موسی علیہ السلام پر نہ صرف جادوگروں کے جادو کا اثر ہوا بلکہ ان رسیوں کو سانپوں کی شکل میں دیکھ کر خوفزدہ بھی ہوئے لیکن اس جنگ میں آخر کار موسی علیہ السلام ہی غالب ہوئے بالکل اسی طرح نبی مکرم شفیع معظم جناب محمد رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر جادو کا کچھ اثر ہوا اور آخر کار غالب محمد رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ہی ہوئے نہ کہ جادوگر۔ اگر وقتی اثر کو غالب ہونا تسلیم کریں تو قرآن کریم کی بھی نفی ہوتی ہے کیونکہ موسی علیہ السلام پر جادوگروں کے جادو کا اثر ہونے کے باجود اﷲ تعالی فرما رہا ہے کہ
وَ اَلقِ مَا فِی یَمِینِکَ تَلقَف مَا صَنَعُوا اِنَّمَا صَنَعُوا کَیدُ سٰحِرٍ وَ لَا یُفلِحُ السَّاحِرُ حَیثُ اَتٰی
اور جو (لاٹھی) تمہارے دائیں ہاتھ میں ہے، اسے (زمین پر) ڈال دو، ان لوگوں نے جو کاریگری کی ہے، وہ اس سب کو نگل جائے گی۔ ان کی ساری کاریگری ایک جادوگر کے کرتب کے سوا کچھ نہیں، اور جادوگر چاہے کہیں چلا جائے، اسے فلاح نصیب نہیں ہوتی۔
ایک اور مثال سے سمجھاتا ہوں کہ مشرکین اور کفار بھی تو جادوگروں کی طرح شیطان کے ہی آلہ کار ہوتے ہیں اور غزوہ احد میں ایک وقت یہ بھی آیا کہ مشرکین وقتی طور پر کسی حد تک مسلمانوں پر غالب ہوئے یہاں تک کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے دانت مبارک بھی شہید ہوئے اس کے باوجود آخرکار مسلمان ہی فتح یاب ہوئے اور کافر مغلوب تو کیا اب ہم یہ سمجھیں کہ شیطان کے آلہ کار نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر غالب آ گئے تھے اگر ہم اس موقع پر کافروں کو غالب نہیں کہہ سکتے تو وقتی طور پر جادو کا اثر ہونے کی بنا پر کیونکر جادوگر کو غالب قرار دے سکتے ہیں جب کہ آخری فتح تو نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ہی کی ہوئی۔ کیونکہ اﷲ تعالی نے وحی کے ذریعے نہ صرف جادو کرنے والے کے بارے میں آگاہ فرمایا بلکہ جادو کا علاج بھی بتا دیا تاکہ قیامت تک کے لیے لوگ شیطان کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔
نمبر (2): مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ’’ایسی بات ہے تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر (معاذاﷲ) جادو کا اثر ہو گیا تھا اس سے تو ایمان اٹھ جاتا ہے۔ خداتعالی فرماتا ہے کہ اِذ یَقُولُ الظّٰلِمُونَ اِن تَتَّبِعُونَ اِلَّا رَجُلاً مَّسحُورًا (بنی اسرائیل: 47) ایسی ایسی باتیں کہنے والے تو ظالم ہیں نہ مسلمان یہ تو بے ایمانوں اور ظالموں کا قول ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر (معاذاﷲ) سحر اور جادو ہو گیا تھا اتنا نہیں سوچتے جب (معاذاﷲ) آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا یہ حال ہے تو پھر امت کا کیا ٹھکانہ؟ ‘‘
محترم قارئین! سورۃ بنی اسرائیل کی جس آیت کا مرزا غلام احمد قادیانی نے حوالہ دے کر نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر جادو کا اثر ہونے کے قائلین کو بے ایمان اور ظالم قرار دیا ہے وہ سورۃ مکی ہے اور مشرکین مکہ نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر طنز کرتے ہوئے کبھی کہتے کہ یہ ساحر ہے اور کبھی کہتے مسحور ہے اور کبھی کہتے کاہن ہے اور کبھی شاعر انہی باتوں کی نفی کرتے ہوئے اﷲ تعالی نے فرمایا کہ
اِنَّہٗ لَقَولُ رَسُولٍ کَرِیمٍ۔ وَّمَا ہُوَ بِقَولِ شَاعِرٍ قَلِیلًا مَّا تُؤمِنُونَ وَلَا بِقَولِ کَاہِنٍ قَلِیلًا مَّا تَذَکَّرُونَ تَنزِیلٌ مِّن رَّبِّ العٰلَمِینَ (سورۃ الحاقہ: آیت نمبر 69تا72)
ترجمہ: کہ یہ (قرآن) ایک معزز پیغام لانے والے کا کلام ہے، اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے۔ (مگر) تم ایمان تھوڑا ہی لاتے ہو، اور نہ یہ کسی کاہن کا کلام ہے۔ (مگر) تم سبق تھوڑا ہی لیتے ہو۔ یہ کلام تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے اتارا جارہا ہے
اور کبھی مشرکین مکہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اﷲ تعالی نے فرمایا ہے کہ:
وَ قَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا اِن ہٰذَا اِلَّا اِفْکٌِ افتَرٰہُ وَاَعَانَہٗ عَلَیہِ قَومٌ اٰخَرُونَ فَقَد جَآءُ و ظُلمًا وَّ زُورًا
اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ: یہ (قرآن) تو کچھ بھی نہیں، بس ایک من گھڑت چیز ہے جو اس شخص نے گھڑ لی ہے، اور اس کام میں کچھ اور لوگ بھی اس کے مددگار بنے ہیں۔ اس طرح (یہ بات کہہ کر) یہ لوگ بڑے ظلم اور کھلے جھوٹ پر اتر آئے ہیں۔
وَ قَالُوا اَسَاطِیرُ الاَوَّلِینَ اکتَتَبَہَا فَہِیَ تُملٰی عَلَیہِ بُکرَۃً وَّ اَصِیلًا
اور کہتے ہیں کہ: یہ تو پچھلے لوگوں کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جو اس شخص نے لکھوالی ہیں، اور صبح و شام وہی اس کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔
قُل اَنزَلَہُ الَّذِی یَعلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ اِنَّہٗ کَانَ غَفُورًا رَّحِیمًا
کہہ دو کہ: یہ کلام تو اس (اﷲ) نے نازل کیا ہے جو ہر بھید کو پوری طرح جانتا ہے، آسمانوں میں بھی، زمین میں بھی۔ بیشک وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
وَقَالُوا مَالِ ہٰذَا الرَّسُولِ یَاکُلُ الطَّعَامَ وَیَمشِی فِی الاَسوَاقِ لَولَا اُنزِلَ اِلَیہِ مَلَکٌ فَیَکُونَ مَعَہٗ نَذِیرًا
اور یہ کہتے ہیں کہ: یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے، اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے؟ اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہ کر لوگوں کو ڈراتا؟
اَو یُلقٰی اِلَیہِ کَنزٌ اَو تَکُونُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَّأْکُلُ مِنہَا وَقَالَ الظّٰلِمُونَ اِن تَتَّبِعُونَ اِلَّا رَجُلًا مَّسحُورًا
یا اس کے اوپر کوئی خزانہ ہی آپڑتا، یا اس کے پاس کوئی باغ ہوتا جس میں سے یہ کھایا کرتا۔ اور یہ ظالم (مسلمانوں سے) کہتے ہیں کہ: تم جس کے پیچھے چل رہے ہو، وہ اور کچھ نہیں، بس ایک شخص ہے جس پر جادو ہوگیا ہے۔
اُنظُر کَیفَ ضَرَبُوا لَکَ الاَمثَالَ فَضَلُّوا فَلَا یَستَطِیعُونَ سَبِیلًا
(اے پیغمبر!) دیکھو ان لوگوں نے تمہارے بارے میں کیسی کیسی باتیں بنائی ہیں، چنانچہ ایسے بھٹکے ہیں کہ راستے پر آنا ان کے بس سے باہر ہے۔ (سورۃ الفرقان: آیت نمبر 4 تا 9)
محترم قارئین جب بھی کسی نبی نے اپنی دعوت پیش کی اور معجزات دکھائے تو مخالفین نے انہیں کبھی جادوگر کہا تو کبھی جادو زدہ کبھی کاہن کہا تو کبھی شاعر ہونے کا جھوٹا الزام لگایا یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالی نے جھوٹا الزام لگانے اور طنز کرنے کی وجہ سے انہیں ظالم اور بے ایمان کہا نہ کہ حقیقت میں جادو کا اثر ہونے کے قائل ہونے پر۔
محترم قارئین! جب موسی علیہ السلام پر جادو کا اثر ہوا تو اﷲ تعالی نے فرمایا کہ
قَالَ بَل اَلقُوا فَاِذَا حِبَالُہُم وَ عِصِیُّہُم یُخَیَّلُ اِلَیہِ مِن سِحرِہِم اَنَّہَا تَسعٰی۔
موسیٰ نے کہا: نہیں، تم ہی ڈالو بس پھر اچانک ان کی (ڈالی ہوئی) رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے نتیجے میں موسیٰ کو ایسی محسوس ہونے لگیں جیسے دوڑ رہی ہیں۔
یعنی مندرجہ بالا آیت میں موسی علیہ السلام کے لیے اﷲ تعالی نے یُخَیَّلُ اِلَیہ کے الفاظ استعمال کیے اور بالکل اسی طرح صحیح بخاری کی حدیث میں بھی نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے لیے جادو کے اثر کے طور پر یُخَیَّلُ اِلَیہ کے الفاظ آئے ہیں اگر موسی علیہ السلام کے بارے میں قرآن کریم کے ان الفاظ کے استعمال کرنے سے موسی علیہ السلام رَجُلًا مَّسحُورًا قرار نہیں پاتے تو حدیث میں وہی الفاظ پیش کرنے پر نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کیسے رَجُلًا مَّسحُورًا قرار پا سکتے ہیں۔
محترم قارئین! جادو کے حوالے سے آخری بات یہ کہ اﷲ تعالی نے نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی زندگی کو اسوہ حسنہ قرار دیا ہے اور فرمایا کہ
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالْیَوْمَ الآخِرَ وَذَکَرَ اللَّہَ کَثِیرًا
حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اﷲ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو اﷲ سے اور یومِ آخرت سے اُمید رکھتا ہو، اور کثرت سے اﷲ کا ذکر کرتا ہو۔
اور نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم صاحب شریعت رسول بھی ہیں تو جادو کے علاج کے حوالے سے امت کی رہنمائی کے لیے اﷲ تعالی نے ایسے اسباب پیدا کیے جن سے امت پر جادو کا علاج واضح ہو گیا اور جادو کے علاج کے سلسلے میں عملی نمونہ پیش کر دیا گیا تاکہ امت جعلی پیروں اور تعویز گنڈوں سے بچ سکے۔ اور یہ ایسے وقت میں ہوا جب لوگوں کو یقین ہو گیا کہ حقیقت میں رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر وحی نازل ہوتی ہے نہ کہ یہ کسی قسم کے جادو کا اثر۔
محترم قارئین! ایک طرف تو مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ اصول بیان کیا کہ جو حدیث قرآن کے خلاف ہوگی اسے قبول نہیں کیا جائے گا تو دوسری طرف ایک اور اصول بھی پیش کر دیا ملاحظہ فرمائیں مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
’’اہل ولایت بذریعہ کشف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے احکام پوچھتے ہیں اور ان میں سے جب کسی کو کسی واقعہ میں حدیث کی حاجت پڑتی ہے تو وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوجاتا ہے۔ پھر جبرائیل علیہ السلام نازل ہوتے ہیں اور آنحضرت جبرائیل سے وہ مسئلہ جس کی ولی کو حاجت ہوتی ہے پوچھ کر اس ولی کو بتا دیتے ہیں یعنی ظلی طور پر وہ مسئلہ بہ نزول جبرائیل منکشف ہو جاتا ہے،پھر شیخ ابنِ عربی نے فرمایا ہے کہ ہم اس طریق سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے احادیث کی تصیح کرا لیتے ہیں بہتیری حدیثیں ایسی ہیں جو محدثین کے نزدیک صحیح ہیں اور وہ ہمارے نزدیک صحیح نہیں اور بہتیری حدیثیں موضوع ہیں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قول سے بذریعہ کشف صحیح ہو جاتی ہیں۔‘‘ (ر خ، ج 3 ص 177، 178)
ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی رقمطراز ہے کہ
’’میرا یہ بھی مذہب ہے کہ اگر کوئی امر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے مثلاً کسی حدیث کی صحت یاعدم صحت کے متعلق تو گو علمائے ظواہر اور محدثین اس کو موضوع یا مجروح ٹھہراویں مگر میں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کو موضوع کہوں گا اگر خداتعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پر ظاہر کر دی ہے جیسے لَامَہْدِیْ اِلَّا عِیْسٰی والی حدیث ہے محدثین اس پرکلام کرتے ہیں مگر مجھ پر خدا تعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور یہ میرا مذہب میرا ہی ایجاد کردہ مذہب نہیں بلکہ خود یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ اہلِ کشف یا اہلِ الہام لوگ محدثین کی تنقید حدیث کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے۔‘‘ (ملفوظات مرزاغلام احمد قادیانی جلد 2 صفحہ 45 طبع چہارم)
لیجیے قارئین! مرزا صاحب اور اس کے پیروکار تو محدثین کی جرح سے تو آزاد ہو ہی گئے ہیں۔ اسی تناظر میں چند اور حوالہ جات پیش کر کے آگے بڑھتے ہیں چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی کا بیان ہے کہ
’’دوسری وجہ سلب ایمان کی یہ ہوتی ہے کہ ولی اﷲ خداتعالی کے مقرب ہوتے ہیں کیونکہ ولی کے معنی قریب کے ہیں۔ یہ لوگ گویا اﷲ تعالی کو سامنے دیکھتے ہیں اور دوسرے لوگ ایک محجوب کی طرح ہوتے ہیں جن کے سامنے ایک دیوار حائل ہو۔ اب یہ دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک تو ان میں سے ایسا ہے جس کے سامنے کوئی پردہ ہی نہیں ہے۔ اسے سب کچھ روشن نظر آتا ہے وہ جو کچھ بیان کرتا وہ حقائق اور معارف ہوتے ہیں وہ احادیث شریفہ کی جو تاویل کرتا ہے وہ صحیح ہوتی ہے کیونکہ وہ براہ راست بھی آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے سن لیتا ہے اور اس طرح وہ اس کی اپنی روایت ہوتی ہے حالانکہ دوسرے لوگوں کو تیرہ سو برس کے وسائط سے کہنا پڑتا ہے پھر ان ہر دو میں کیا نسبت ہو سکتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 230 طبع جدید)
ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی کہتا ہے کہ
’’یہ پکی بات ہے کہ آنے والا اسی امت سے ہو گا اور حدیث علماء امَّتی کانبیاء بنی اسرائیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص مثیلِ مسیح بھی تو ہو۔ اگرچہ محدثین اس حدیث کی صحت پر کلام کرتے ہیں مگر اہل کشف کی یہ بات مانی ہوئی ہے کہ وہ اپنے کشف سے بعض احادیث کی صحت کر لیتے ہیں جو محدثین کے نزدیک صحیح نہ ہوں اور بعض کو غیر صحیح قرار دے سکتے ہیں۔ یہ حدیث اہل کشف نے جن میں روحانیت اور تصفیہ قلب ہوتا ہے صحیح بیان کی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 97 طبع جدید)
محترم قارئین! تمام تر تلاش بسیار کے باوجود بندہ ناچیز کو کسی بھی محدث کی ایسی کوئی تحریر نہیں مل سکی جس میں محدثین نے مرزا غلام احمد قادیانی کے بیان کردہ اس اصول کو درست تسلیم کیا ہو کہ اہل کشف محدثین کی جرح کے پابند نہیں ہوتے بلکہ براہ راست نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے احادیث کی صحت کے بارے میں پوچھ لیتے ہیں اس لیے میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ مندرجہ بالا تحریر میں مرزا قادیانی نے محدثین کی طرف بھی ایک جھوٹ منسوب کیا ہے۔
محترم قارئین! ایک طرف تو مرزا صاحب خود کو اہل کشف قرار دیتے ہوئے احادیث کی پرکھ کے محدثین کے پیش کردہ اصول و ضوابط سے قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف خود کو حکم و عدل قرار دیتے ہوئے موصوف کہتے ہیں کہ:
’’جب مدت دراز گزر جاتی ہے اور غلطیاں پڑ جاتی ہیں تو خدا ایک حکم مقرر کرتا ہے جو ان غلطیوں کی اصلاح کرتا ہے۔آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم حضرت مسیحؑ کے سات سو برس بعد آئے اس وقت ساتویں صدی میں ضرورت پڑی تو کیا اب چودہویں صدی میں بھی ضرورت نہ پڑتی اور پھر جس حال میں کہ ایک ملہم ایک صحیح حدیث کو وضعی اور وضعی کو صحیح بذریعہ الہام قرار دے سکتا ہے اور یہ اصول ان لوگوں (محدثین) کا مسلم ہے تو پھر حکم کو کیوں اختیار نہیں ہے؟ ایک حدیث کیا اگر وہ ایک لاکھ حدیث بھی پیش کریں تو ان کی پیش کب چل سکتی ہے؟‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ 277,276طبع جدید)
مزید ایک مقام پر لکھا کہ :
’’اہل کشف جو لوگ ہوتے ہیں وہ احادیث کی صحت کے لیے محدثین کے اصول تنقید احادیث کے پابند نہیں ہوتے بلکہ وہ بعض اوقات ایک صحیح حدیث کو ضعیف ٹھہرا سکتے ہیں یا ضعیف کو صحیح کیونکہ وہ براہ راست اﷲ تعالی یا رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے اطلاع پاتے ہیں جب یہ بات ہے تو پھر مسیح موعود جو حکم ہو کر آئے گا کیا اس کو یہ حق نہ ہو گا کہ وہ احادیث کی صحت اس طریق پر کر سکے؟‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 378 طبع جدید)
مرزا غلام احمد قادیانی مزید ایک مقام پر کہتا ہے کہ:
’’میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں ہے بلکہ میری حیثیت سنن انبیاء کی سی حیثیت ہے۔ مجھے ایک سماوی آدمی مانو پھر یہ سارے جھگڑے اور تمام نزاعین جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں ایک دم میں طے ہو سکتی ہیں جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حکم بن کر آیا ہے جو معنی قرآن شریف کے وہ کرے گا وہی صحیح ہوں گے اور جس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گا وہی حدیث صحیح ہوگی۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 399)
محترم قارئین! اب آپ کے سامنے مرزا غلام احمد قادیانی کا ایک اور بیان پیش کیے دیتا ہوں جس میں موصوف اہل کشف کا براہ راست نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے احادیث سننے کا عقیدہ پیش کر رہے ہیں اور احادیث بھی وہ جو کسی بھی احادیث کی کتاب میں موجود نہ ہوں چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ :
’’بعض اہل کشف آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے براہ راست ایسی احادیث سنتے ہیں جو دوسروں معلوم نہیں ہوتیں یا موجودہ احادیث کی تصدیق کر لیتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 647 طبع جدید)
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی نے احادیث نبویہ کے حوالے سے لاتعداد من گھڑت روایات پیش کر کے نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی طرف منسوب کیا ہے شاید لوگوں کی طرف سے ان احادیث کے ثبوت طلب کرنے سے بچنے کے لیے یہ اصول وضع کر لیا کہ اہل کشف براہ راست نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے ایسی احادیث سن لیتے ہیں جو دوسروں کو معلوم نہیں ہوتیں۔
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے بیان کیا گیا ایک اور اصول حدیث ملاحظہ کریں چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ:
’’ہمارے نزدیک تین چیزیں ہیں ایک کتاب اﷲ اور دوسرے سنت یعنی رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا عمل اور تیسرے حدیث۔ ہمارے مخالفوں نے دھوکہ کھایا ہے کہ سنت اور حدیث کو باہم ملایا ہے ہمارا مذہب حدیث کے متعلق یہی ہے کہ جب تک وہ قرآن اور سنت کے صریح مخالف اور معارض نہ ہو اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے خواہ وہ محدثین کے نزدیک ضعیف سے ضعیف کیوں نہ ہو۔پس حدیث کو قرآن پر قاضی بنانے میں اہل حدیث نے سخت غلطی کھائی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اپنی موٹی عقل کی وجہ سے اگر کوئی چیز قرآن میں نہ ملے تو اس کو سنت میں دیکھو اور تعجب کی بات یہ ہے کہ جن باتوں میں ان لوگوں نے قرآن کی مخالفت کی ہے خود ان میں اختلاف ہے ان کی افراط و تفریط نے ہم کو سیدھی اور اصل راہ دکھا جیسے یہودیوں اور عیسائیوں کی افراط اور تفریط نے اسلام بھیج دیا۔ پس حق بات یہی ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اپنی سنت کے ذریعہ تواتر دکھا دیا ہے اور حدیث ایک تاریخ ہے اس کو عزت دینی چاہیے سنت کا آئینہ حدیث ہے۔ یقین پر ظن کبھی قاضی نہیں ہوتا کیونکہ ظن میں احتمال کذب کا ہے امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کا مسلک قابل قدر ہے انہوں نے قرآن کو مقدم رکھا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 445 طبع جدید)
اسی طرح ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی کہتا ہے کہ’’اصل میں تین چیزیں ہیں قرآن، سنت اور احادیث قرآن خد اتعالی کی پاک وحی ہے جو رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر نازل ہوئی اور سنت وہ اسوۂ حسنہ ہے جو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اس وحی کے موافق قائم کر کے دکھایا قرآن اور سنت یہ دونوں رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے کام تھے ان کو پہنچا دیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ جب تک احادیث جمع نہیں ہوئی تھیں اس وقت تک بھی شعائر اسلام کی بجا آوری برابر ہوتی رہی ہے۔ اب دھوکہ یہ لگا ہے کہ یہ لوگ احادیث اور سنت کو ایک کر دیتے ہیں حالانکہ یہ ایک چیز نہیں ہے۔ پس احادیث کو جب تک قرآن اور سنت کے معیار پر پرکھ نہ لیں ہم کسی درجہ پر رکھ نہیں سکتے۔ لیکن یہ ہمارا مذہب ہے کہ ادنی سے ادنی حدیث بھی جو اصول حدیث کی رو سے کیسی ہی کمزور اور ضعیف ہو لیکن قرآن یا سنت کے خلاف نہیں تو وہ واجب العمل ہے مگر ہمارے مخالف یہ کہتے ہیں کہ نہیں محدثین کے اصول تنقید کی رو سے جو صحیح ثابت وہ خود قرآن اور سنت کی کیسی ہی مخالف ہو اس کو مان لینا چاہیے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 378 طبع جدید)
محترم قارئین! مندرجہ بالا تحریر میں مرزا غلام احمد قادیانی نے جس طرح سنت اور حدیث میں فرق کیا ہے اور اس کی آڑ میں احادیث کو ناقابل اعتبار ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے میرے علم کے مطابق یہ ناپاک جسارت برصغیر میں سب سے پہلے مرزا جی کے حصہ میں ہی آئی ہے حالانکہ اصطلاح میں سنت، نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے طریقہ کو کہتے ہیں حدیث کے ذریعے اس طریقے کا علم ہوتا ہے۔ اب میں آپ کو علمائے سلف و خلف کے اقوال کی روشنی میں سنت اور حدیث کے بارے میں آگاہ کرتا ہوں چنانچہ ابن اثیر مجددالدین مبارک صاحب 544 ہجری تا 606 ہجری اپنی کتاب النھایہ فی غریب الحدیث میں لکھتے ہیں کہ ’’سنت کے لغوی معنی طریقہ یا راستہ کے ہیں۔‘‘ (النہایہ، جلد 2 ص 368)
ڈاکٹر عجاج الخطیب اپنی کتاب السنۃ قبل التدوین میں لکھتے ہیں کہ ’’حدیث کو لغت میں جدت کے معنی میں لیا جانا اور حدیث کو لغت میں کسی کلام یا کوئی بات بھی کہا جاتا ہے۔‘‘ (السنہ قبل التدوین، ص 20)
اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اللّٰہ نزَّل احسن الحدیث (الزمر) اﷲ تعالیٰ نے بہترین حدیث نازل کی ہے۔ ڈاکٹر محمود الطحان اپنی کتاب اصطلاح الحدیث میں لکھتے ہیں کہ ’’حدیث کے معنی اصطلاح میں ہر اس قول، فعل، تقریر اور صفت کو کہتے ہیں جس کی نسبت حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی طرف کی جاتی ہو‘‘۔ (اصطلاح الحدیث کی تعریف و تشریح از ڈاکٹر محمود الطحان)
محمد بن علی بن محمد بن عبداﷲ الشوکانی اپنی کتاب ارشاد الفحول میں لکھتے ہیں کہ ’’محدثین کے نزدیک سنت کی بھی اصطلاحی تعریف یہی ہے جو حدیث کی بیان ہوئی ہے۔‘‘ (ارشاد الفحول للشوکانی مع تحقیق صبحی بن حلاق)
ڈاکٹر صبحی صالح فرماتے ہیں ’’اگر ہم محدثین بالعموم اور متاخرین محدثین بالخصوص غالب کی رائے پر عمل کریں تو ہم حدیث وسنت کے الفاظ کو مترادف ومساوی پائیں گے یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال کیے جاتے ہیں اور ان دونوں کا مفہوم کسی قول فعل تقریر یا صفت کو سرور کائنات صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی جانب منسوب کرنا ہے البتہ اگر حدیث وسنت کے الفاظ کو ان اصول تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ ان دونوں کے استعمال میں لغت واصطلاح کے پیش نظر کچھ دقیق سا فرق بھی پایا جاتا ہے‘‘۔(علوم الحدیث ومصطلحہ للصبحی الصالح، ص113)
اگر حدیث وسنت کے لفظ کا انفرادی طور پر استعمال کیا جائے تو سنت سے مراد حدیث اور حدیث سے مراد سنت ہوتی ہے۔ مجدالدین مبارک بن محمد عبدالکریم ابن اثیر الجزری اپنی کتاب النہایہ فی غریب الحدیث والاثر میں لکھتے ہیں کہ :’’یقال فی ادلۃ الشرع الکتاب والسنۃ، ای القرآن والحدیث شرعی دلائل میں کہا جاتا ہے کہ قرآن وسنت تو اس سے مراد ہوتا ہے قرآن وحدیث‘‘۔(النہایہ فی غریب الحدیث والاثر، ص 368)
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سنت سے مراد وہ عمل ہے جو صدر اوّل (پچھلے انبیاء سے چلا آرہا ہو۔ اور اگر غامدی صاحب کے مبادی سنت کا بغور مطالعہ کیا جائے تو انکی سنت سے مراد بھی کچھ اسی طرح ہے) لیکن میں کہتا ہوں کہ سنت کی اسی تعریف کو مان لیا جائے تو بھی حدیث اور سنت میں زیادہ فرق نہیں آتا۔ کیونکہ ہمیں کس طرح معلوم ہوگا کہ یہ عمل صدر اوّل سے چلا آرہا ہے؟ تو اس کا معقول جواب یہی ہوسکتا ہے کہ اس کی معرفت ہمیں حدیث ہی کے ذریعے ہوگی اور صدر اوّل کے اسی عمل کو تسلیم کیا جائے گا جس پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے عمل کیا ہو یاعمل کرنے کا حکم دیا ہو۔ اور یہ بھی ہمیں حدیث سے معلوم ہوگا۔
اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ’’لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھا جا‘‘ (المائدہ آیت 48) ’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے ابن عباس رضی اﷲ عنہما کا قول ذکر کیا ہے: قال ابن عباس شرعۃ ومنھا جا، سبیلا وسنۃ۔ (صحیح بخاری مع فتح کتاب الایمان، جلد 1 ص 63)
ابن عباسؓ فرماتے ہیں ’’شرعۃ سے مراد سبیل (راستہ) اور منھا جا‘‘ سے مراد سنت ہے اس قول کو امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے تعلیقاً ذکر کیا ہے لیکن امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس روایت کو تعلیق التعلیق میں ذکر کیا ہے اور موصول بنایا ہے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں ’’ھذا حدیث صحیح‘‘ یہ حدیث صحیح ہے (تعلیق التعلیق جلد2 ص 25)
یہ ان صحابی رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی تفسیر ہے جن کے لیے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے خاص دعا کی تھی کہ اﷲ ان کو دین کی سمجھ دے اور قرآن کی تاویل (تفسیر) علم عطا فرما۔
لہٰذا یہ بات یہاں پر بھی عیاں ہوتی کہ تمام انبیاء کا دین ایک ہے لیکن ان کے فروع شریعت اور انکی سنت (طریقہ کار) مختلف ہے تو اصل سنت وہی ہے جس پر نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے عمل کیا ہو چاہے اس پر پچھلے انبیاء کا عمل رہا ہو یا نہ رہا ہو۔ اور نبی کے افعال و اعمال یا تقریر یا آپ کی کوئی سی بھی صفت کی معرفت حدیث سے ہی ہوتی ہو اگرچہ حدیث اور سنت میں لغوی اعتبار سے فرق ہے لیکن اصطلاح میں یہ ایک ہی ہیں اور ایک دوسرے کے باہم معنی میں استعمال ہوتے ہیں لہٰذا حدیث ہی سنت ہے اور سنت ہی حدیث ہے۔
محترم قارئین! حدیث اور سنت میں فرق کی بحث کے بعد اب میں آپ کو حدیث کی اہمیت کے بارے میں مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کے مزید اقوال پیش کرتا ہوں۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ ’’اور ہم اس کے جواب میں خدا تعالی کی قسم کھا کرپیش کرتے ہیں کہ میرے اس دعوی کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اور وہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی ہاں تائیدی طور ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں‘‘۔ (اعجاز احمدی صفحہ 36 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 140)
ایک اور مقام پر مرزا جی لکھتے ہیں کہ
’’اور جو شخص حکم ہو کر آیا ہے اس کو اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پا کر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پا کر رد کر دے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ صفحہ 10، رو خانی خزائن ج 17 ص 51)
اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی اپنی کتاب مواہب الرحمن میں لکھتا ہے کہ
’’وان القرآن مقدم علی کل شئی و وحی الحکم مقدم علی احادیث ظنیہ بشرط ان تطابق القرآن وحیہ مطابقۃ تامۃ وبشرط ان تکون الاحادیث غیر مطابقۃ للقرآن وتوجد فی قصصھا مخالفۃ لقصص صحف مطھرۃ ذالک بان وحی الحکم ثمرۃ غضّ وقد جنی من شجرۃ یقینۃ فمن لم۔یقبل وحی الامام الموعود ونبذہ لروایات لیست کالمحسوس المشہود فقد ضل ضلالاً مبینا ومات میتۃ جاہلیۃ وآثر الشک علی الیقین ورد من الحضرۃ الا لٰھیۃ ثم ان کان من الواجب الآخذ بالروایات فی کل حال ففی ای شئی رجل یقال لہ حکم۔ من اﷲ ذی الجلال۔‘‘ ترجمہ: یقینا قرآن ہر چیز پر مقدم ہے۔ اور حَکَم (مسیح موعود) کی وحی ظنی احادیث پر مقدم ہے بشرطیکہ اس کی وحی قرآن سے مطابقت تامہ رکھتی ہو نیز اس شرط کے ساتھ کہ وہ احادیث قرآن سے مطابقت نہ رکھتی ہوں اور ان کا بیان صحف مطھرہ کے بیان کے مخالف ہو کیونکہ اس حکم کی وحی ایک تروتازہ پھل ہے جو شجرہ یقینیہ سے چنا گیا ہے پس جس نے اس موعود امام کی وحی قبول نہ کی اور اسے ان روایات کی خاطر جو محسوس اور مشہود کا مقام نہیں رکھتیں پرے پھینک دیا تو ایسا شخص یقینا کھلی کھلی گمراہی میں پڑا اور جاہلیت کی موت مرا اس نے شک کو یقین پر ترجیح دی اور وہ بارگاہ الٰہی سے مردود ہوا۔ پھر اگر بہرطور روایات کا قبول کرنا ہی واجب ٹھہرا تو اس شخص کی کیا حیثیت ہے جس کو اﷲ ذوالجلال کی طرف سے حکم قرار دیا جائے؟۔‘‘ (مواہب الرحمن مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 288)
محترم قارئین! قاضی محمد یوسف نامی مرزا قادیانی کا ایک مرید اپنی کتاب النبوۃ فی الالہام میں مرزا جی کی مندرجہ بالا تحریر پیش کر کے لکھتا ہے کہ ’’یہاں حضرت صاحب نے قرآن کریم کے بعد اپنی وحی کو احادیث پر مقدم کیا ہے کیونکہ وحی کلام اﷲ ہے اور احادیث کلام البشر ہے۔ وحی یقینی اور قطعی کلام ہے اور احادیث ظن کا مرتبہ رکھتی ہیں نہ کہ یقین کا وحی کا متکلم خدا تعالی ہے اور جو الفاظ اور خطاب ہیں وہ وحی ہیں جو براہ راست حضرت مسیح موعود نے خداتعالی سے سنے ہیں مگر احادیث بشر کا کلام ہے جس کے الفاظ اور خطاب یقینی طور پر وحی نہیں۔‘‘ (النبوۃ فی الالہام صفحہ 3 از قاضی محمد یوسف)
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی اپنی کتاب تذکرۃ الشہادتین میں اپنی خودساختہ وحی و الہام کے بارے میں لکھتا ہے کہ ’’یہ اسی وحدہ لاشریک خدا کا کلام ہے جس کا کلام قرآن شریف ہے اور میں اس جگہ توریت اور انجیل کا نام نہیں لیتا کیونکہ توریت اور انجیل تحریف کرنے والوں کے ہاتھوں سے اس قدر محرف و مبدل ہو گئی ہیں کہ اب ان کتابوں کو خدا کا کلام نہیں کہہ سکتے غرض وہ خدا کی وحی جو میرے پر نازل ہوئی ایسی یقینی اور قطعی ہے کہ جس کے ذریعے سے میں نے خدا کو پایا۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین صفحہ 2 مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 4)
قارئین کرام! مرزا قادیانی کا مرید قاضی یوسف اپنی کتاب النبوۃ فی الاحادیث میں لکھتا ہے کہ
’’حضرت صاحب (مرزا قادیانی) کلام اﷲ اور کلام الرسول (احادیث) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
خدا کے قول سے قول بشر کیونکر برابر ہو
وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے
پس کوئی حدیث جو کلام بشر ہے حضرت صاحب کی وحی اور الہام کو جو کلام خدا ہے رد نہیں کر سکتی اور نہ اس پر قاضی ہو سکتی ہے۔‘‘ (النبوۃ فی الاحادیث از قاضی یوسف قادیانی صفحہ 12,11)
قادیانی اخبار الفضل لکھتا ہے کہ
’’حضرت مسیح موعود نے فرمایا تمہاری حدیثوں کی میرے قول کے مقابلہ میں کیا حقیقت ہے مسیح موعود اگر ہزار احادیث کو بھی غلط قرار دے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔‘‘ (قادیانی اخبار الفضل 3 جولائی 1930 صفحہ 9)
محترم قارئین! سو ہتھ رسہ سرے تے گنڈ۔ مرزا قادیانی کا بڑا بیٹا اور قادیانیوں کا دوسرا خلیفہ بشیر الدین محمود کہتا ہے کہ ’’یہی وجہ ہے کہ اب کوئی قرآن نہیں سوائے اس قرآن کے جو حضرت مسیح موعود نے پیش کیا اور کوئی حدیث نہیں سوائے اس حدیث کے جو حضرت مسیح موعود کی روشنی میں نظر آئے اور کوئی نبی نہیں سوائے اس کے جو حضرت مسیح موعود کی روشنی میں دکھائی دے اسی طرح رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا وجود اسی ذریعہ سے نظر آئے گا کہ حضرت مسیح موعود کی روشنی میں دیکھا جائے۔ اگر کوئی چاہے کہ آپ (مرزا قادیانی) سے علیحدہ ہو کر کچھ دیکھ سکے تو اسے کچھ نظر نہ آئے گا۔ ایسی صورت میں اگر کوئی قرآن کو بھی دیکھے گا تو وہ اس کے لئے یھدی من یشاء والا قرآن نہ ہو گا بلکہ۔ یضل من یشاء والا قرآن ہوگا۔ جیسا کہ مولویوں کے لیے ہو رہا ہے لیکن جب حضرت مسیح موعود کے بتائے ہوئے معنی اور گروں کے ذریعے دیکھے گا تو قرآن کو بالکل نئی کتاب پائے گا جو عقل کو صاف کرنے والی روحانیت کو تیز کرنے والی اور خداتعالی کا جلال دکھانے والی ہوگی۔ وجہ یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے نبی کی دی ہوئی عینک سے دیکھتے ہیں ان کے مقابلہ میں دنیا کے علوم حیض کے چیتھڑوں سے بھی کم حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح اگر حدیث کو اپنے طور پر پڑھیں گے تو وہ مداری کے پٹارے سے زیادہ وقعت نہ رکھیں گی۔ حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے حدیث کی کتابوں کی مثال تو مداری کے پٹارے کی ہے۔‘‘(خطبات محمود جلد 8 صفحہ 457,456 خطبہ 4 جولائی 1924)
خلاصہ کلام:
(۱) منکرین حدیث اور قادیانیوں کا یہ پراپیگنڈہ باطل ہے کہ احادیث دو تین سو سال بعد لکھی گئیں جبکہ نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اپنی زندگی میں ہی احادیث لکھوانی شروع کر دی تھیں۔
(۲) مستند اور صحیح احادیث حجت شرعیہ ہیں
(۳) مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی ذریت کے نزدیک اہل کشف محدثین کی جرح و تعدیل کے پابند نہیں ہوتے بلکہ وہ حدیث کی سند کے بارے میں براہ راست نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے پوچھ لیتے ہیں بقول مرزا وہ کئی بار اس کا تجربہ کر چکا ہے۔
(۴) مرزا قادیانی کے نزدیک اہل کشف براہ راست نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے ایسی کئی احادیث سن لیتے ہیں جن کے بارے میں چودہ سو سال سے کسی کو علم نہیں اور نہ ہی وہ کسی حدیث کی کتاب میں درج ہیں اور مرزا قادیانی اہل کشف ہونے کا مدعی ہے
(۵) قادیانیوں کے نزدیک حدیث یعنی فرمان رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم قول بشر ہے اور مرزا قادیانی کا خودساختہ الہام اﷲ تعالی کا کلام ہے اس لئے مرزا قادیانی کی وحی کے مقابل حدیث حجت نہیں ہو سکتی
(۶) قادیانیوں کے نزدیک جو حدیث مرزا قادیانی کے خود ساختہ الہام سے ٹکرائے گی اسے ردی کی ٹوکری میں پھینکا جائے گا
(۷) قادیانیوں کے نزدیک قرآن،حدیث،نبی اور رسول صرف وہی ہوں گے جسے مرزا قادیانی کہے گا۔