شیخ راحیل احمد
حلال زادہ کون؟
مرزا صاحب کا اپنے خاص الخاص حوالی موالیوں (جنھیں قادیانی معاذ اﷲ صحابی کہتے ہیں، ناقل) کی معیت میں عیسائیوں سے مباحثہ ہوا، جو پندرہ دن تک چلا اور مرزا صاحب کے بقول ان کے اندر روح القدس کے کام کرنے کے، خدا کے ارادہ مرزا صاحب کے ارادہ کے تحت ہونے کے اور کن فیکون کی طاقت ہونے کے با وجود بے نتیجہ رہا۔ سچے ہوتے تو نجران کے عیسائیوں کی طرح چند گھنٹے میں فیصلہ ہو جاتا۔ مقابلے پر عیسائیوں کی ٹیم پادری عبداﷲ آتھم کی سرکردگی میں حصہ لے رہی تھی۔ اس وقت یہ قضیہ اتنا مشہور ہوا کہ سارے ہندوستان کی نظریں اس پر لگی ہوئی تھیں۔ مرزا صاحب نے پندرھویں دن بغیر مخالف ٹیم سے مشورہ کیے مباحثہ کے اندر اعلان کر دیا اور کہا کہ عام بحث مباحثہ تو ہوتے رہتے ہیں، لیکن میں حیران تھا کہ مجھے خدا نے اس میں کیوں ڈالا ہے۔ مجھے خدا نے کہا ہے کہ اگر فریق مخالف آج کی تاریخ سے پندرہ ماہ کے اندر اپنے غلط عقائد سے توبہ نہیں کرے گا تو اس مدت میں ہاویہ میں بہ سزائے موت گرایا جائے گا اور خدا کی بات ٹلے گی نہیں۔ اگر نہ مرا تو میرے گلے میں رسہ ڈالا جائے، منہ کالا کیا جائے اور پھانسی دی جائے اور میرے دعوے جھوٹے سمجھے جائیں۔ اب جب عبداﷲ آتھم مرزا صاحب کی پیشگوئی کے مطابق پندرہ ماہ (۵؍ جون ۱۸۹۳ء سے ۵؍ ستمبر ۱۸۹۴ء تک) کے اندر نہ مرا تو نہ صرف یہ کہ اپنی اس جھوٹی پیشگوئی پر شرمندہ ہوتے، توبہ کرتے، الٹا اپنے آپ کو بزعم خود تاویلوں اور جھوٹ کے سہارے سچا قرار دینا شروع کر دیا بلکہ اتنے تلخ لہجے میں ان سب لوگوں کا ذکر کیا جنھوں نے اس حقیقت کا اظہار بھی کیا کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی، اس کے علاوہ کئی قریبی ساتھی نہ صرف ان کو چھوڑ گئے بلکہ عیسائی بھی ہو گئے۔ ان کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ’’اب جو شخص اس صاف فیصلہ کے برخلاف شرارت اور عناد کی راہ سے بکواس کرے گا اور اپنی شرارت سے بار بار کہے گا کہ عیسائیوں کی فتح ہوئی اور کچھ شرم و حیا کو کام میں نہیں لائے گا اور بغیر اس کے جو ہمارے اس فیصلہ کا انصاف کی رو سے جواب دے سکے، ان کا اور زبان درازی سے باز نہیں آئے گا اور ہماری فتح کا قائل نہیں ہو گا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں‘‘۔ (انوار الاسلام، رخ جلد ۹، ص: ۳۱)۔ مرزا صاحب کے فتح کے اپنے پیمانے ہیں اور جو ان پیمانوں اور فیصلوں کو تسلیم نہ کرے، وہ ان کی نظر میں صرف بے شرم و بے حیا ہی نہیں بلکہ ولد الحرام ہے، کیا اﷲ کے بنائے ہوئے نبیوں کی زبان اور تحریر کا اور سوچ کا یہی معیار ہوتا ہے؟ کیا یہ بیان کردہ مثالیں مرزا صاحب کے اپنے ہی بیان کردہ معیار امام الزمان کے مطابق ہیں؟
مخالفین کو اکسانا:
مخالفوں کو مزید کس طرح مشتعل کیا جاتا ہے کہ پہلے اپنی کتاب کو قرآن شریف قرار دیتے ہیں بالواسطہ طور پر، اس کے بعد دوسروں کو گالی نکال کر اپنے رسالے کا جواب لکھنے کے لیے اکساتے ہیں، اگر قرآن شریف کو ہی خیال کر لیا یا نعوذ باﷲ مرزا صاحب کے مطابق ان کی وحی قرآن کریم کے برابر ہے، کچھ لمحوں کے لیے قرآن کی تشریح بھی سمجھ لیں تو کیا مخالفین کو اکسا کر، اشتعال دلا کر اور برے الفاظ کہہ کر جواباً گالیاں تو لے سکتے ہیں مگر علمی بحث نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی معقول جواب مل سکتا ہے۔
ارشاد مرزا ہے ’’ہر ایک شخص جو ولد الحلال ہے اور خراب عورتوں اور دجال کی نسل میں سے نہیں ہے تو وہ دو باتوں میں سے ایک بات ضرور اختیار کرے گا یا تو اس کے بعد دروغ گوئی اور افترا سے باز آ جائے گا یا ہمارے اس رسالہ جیسا رسالہ بنا کر پیش کرے گا‘‘۔ (نور الحق، رخ جلد۸، ص: ۱۶۳)۔ اب بتائیں کیا کوئی شریف آدمی ان کو یہ حوالہ پڑھ کر جواب دینا بھی پسند کرے گا۔ بعد میں اس طرح اکثر یہ دعویٰ کرتے رہے کہ میری کتاب کا جواب چونکہ کسی نے نہیں دیا اس لیے یہ ایک علمی فتح ہے اور مخالفین کا منہ بند ہو گیا ہے۔
اس طرح کی تعلیوں سے تنگ آ کر جناب پیر مہر علی شاہ گولڑیؒ نے ’’سیف چشتیائی‘‘ نامی رسالہ لکھا۔ وہ رسالہ دیکھتے ہی مرزا جی نے جو ارشاد کیا، وہ تاریخ میں محفوظ ہو گیا، ملاحظہ کیجیے: ’’مجھے ایک کتاب کذاب (پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ، ناقل) کی طرف سے پہنچی ہے۔ وہ خبیث کتاب اور بچھو کی طرح نیش زن۔ پس میں نے کہا کہ اے گولڑہ کی زمین تجھ پر لعنت، تو ملعون کے سبب سے ملعون ہو گئی پس تو قیامت کو ہلاکت میں پڑے گی‘‘۔ (اعجاز احمدی، رخ جلد۱۹، ص: ۱۸۸)
اپنی گالیوں کا خود نشانہ:
بعض دفعہ انسان دوسروں کو گالیاں دے رہا ہوتا ہے، لیکن اس کو خیال نہیں ہوتا کہ وہ خود بھی اس کی لپیٹ میں آ رہا ہے، اب جو حوالے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا وہ اسی قسم کے ہیں۔
مرزا صاحب فرماتے ہیں ’’میری دعوت سب نے قبول کی اور تصدیق ما سوائے کنجریوں کی اولاد نے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام، رخ جلد۵، ص: ۵۴۷۔۵۴۸)۔ اصل عبارت عربی میں ہے، جماعت کے علماء کے سامنے جب یہ حوالہ پیش کیا جات ہے تو وہ اس کا ترجمہ بری عورتیں یا بدکار عورتیں کرتے ہیں، یہ علیحدہ بات ہے کہ صرف جماعت کے عام لٹریچر میں ہی نہیں بلکہ مرزا صاحب کی اپنی کتابوں میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں، جہاں وہی ترجمہ کیا گیا ہے جو ہم نے دیا ہے۔ حوالہ کے لیے روحانی خزائن، جلد۱۲، ص: ۲۳۲۔۲۳۵ …… اور روحانی خزائن جلد ۱۶، ص: ۳۷۱۔۴۲۷ دیکھیں۔
اب ہوتا کیا ہے کہ مرزا صاحب کی پہلی بیوی (پھجے دی ماں) اور ان کے بطن سے پیدا ہونے والے مرزا صاحب کے حقیقی دونوں بیٹوں (مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد) نے مرزا صاحب کو قبول نہیں کیا اور ان پر ایمان نہیں لائے، اور مرزا صاحب کی یہ بیگم ان کے ماموں کی لڑکی تھیں اور ان کی والدہ کی بھتیجی اور ان کے نانا کی بیٹی اور پرداد کی پڑنواسی تھیں۔ اب اس حساب سے مرزا صاحب کے اپنے ارشاد کے مطابق وہ کیا ہوئیں؟ اور مرزا صاحب کے بیٹے کیا ہوئے؟ اور مرزا صاحب ان رشتوں کے حساب سے خود کیا ہوئے؟ ہم جماعت کے کیے ہوئے معنی بھی لیں تو کم از کم مرزا صاحب اور ان کے اہل و عیال برے یا بدکار لوگوں کی اولاد ہیں۔ برے اور بدکار تو ولی بھی نہیں ہو سکتے کجا نبوت کے دعوے دار بنیں ۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں ’’دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بھی بڑھ گئی ہیں‘‘۔
(نجم الہدیٰ، رخ جلد ۱۴، ص: ۵۳)
مرزا صاحب نے اپنے لٹریچر میں جگہ جگہ اپنے خاندان اور چچا زاد بھائیوں کو اپنا دشمن قرار دیا ہے اور یہ بھی لکھتے ہیں کہ کیا میرے کنبہ، کیا میرے عزیز و اقارب مجھے میرے دعوؤں میں مکار خیال کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام کنبہ اور رشتہ دار دشمن ہیں، اب جس کے اپنے خاندان میں سب کے سب بیابانوں کے خنزیر ہوں اور عرتیں کتیوں سے بڑھی ہوں، اس خاندان سے ایک خود ساختہ جعلی نبی کی جدی نسبت ہی ہو سکتی ہے، مگر کسی نبی اﷲ کی نہیں۔
مزید جب آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں کہ ان کتابوں کو سب مسلمان محبت کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور ان کے حقائق و معارف سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور زنا کار عورتوں کی اولاد کے سوا سب لوگ مجھے قبول کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس مجہول شخص کے نزدیک سوائے اس کے ماننے والوں کے سب حرامزادے ہوئے۔ او ریہ گالی حرامی یا حرامزادہ یا ولد الحرام تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی الہامی و خاندانی گالی ہے اور ان کی کتابوں میں جگہ جگہ بکھری پڑی ہے۔
ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’یک خطا، دو خطا سوم مادر بخطا یعنی جو تیسری مرتبہ بھی خطا کرتا ہے اس کی ماں زناکار ہوتی ہے‘‘۔ (نور الاسلام، رخ جلد ۹، ص: ۳۲)۔ اور خاص بات یہ ہے کہ پہلی دو ایڈیشنوں میں اس طرح لکھا ہے، جس طرح ہم نے حوالہ دیا ہے مگر روحانی خزائن کے جدید سیٹ میں سوم مادر بخطا کے بعد کی عبارت نہیں لکھی اور وہ جگہ خالی چھوڑی ہوئی ہے۔ اوپر سے کس دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے جماعت احمدیہ کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم مرزا صاحب کی کتابوں میں تحریف نہیں کرتے۔
ہم عصر علماء کے بارہ میں نادر خیالات:
مرزا صاحب کے اپنے ہم عصر علماء اور دوسروں کے بارے میں کچھ مزید نادر خیالات سے مستفید ہوں، لیکن اس سے قبل مرزا صاحب کا یہ ارشاد بھی ذہن میں رکھیں۔ فرماتے ہیں:
’’فیوض و برکات کا چشمہ علماء ہوتے ہیں۔ جن کے ذریعہ عام مخلوق ہدایت پاتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات ، جلد ۶، ص: ۳۴۸، حاشیہ)۔
اب نادر خیالات کو بھی دیکھ لیجیے اور مت بھولیے کہ مرزا صاحب نے کبھی دشنام دہی کا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا۔
’’اور جو میرے مخالف تھے، ان کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا‘‘۔ (نزول المسیح، رخ جلد ۱۸، ص: ۳۸۲)
’’ اور لئیموں میں سے ایک فاسق آدمی کو دیکھتا ہوں کہ ایک شیطان ملعون ہے، سفیہوں کا نطفہ۔ بد گو ہے اور خبیث اور مفسد اور جھوٹ کو ملمع کر کے دکھلانے والا منحوس ہے، جس کا نام جاہلوں نے سعد اﷲ رکھا ہے‘‘۔
(حقیقت الوحی، رخ جلد ۲۲، ص: ۴۴۵)
یہاں پوری قوم کو رگڑ رہے ہیں۔ ’’مگر یہ نابکار قوم حیا اور شرم کی طرف رخ نہیں کرتی‘‘۔
(ضمیمہ انجام آتھم، رخ جلد۱۱، ص: ۵۴)
’’اے عورتوں کی عار ثناء اﷲ‘‘۔ (اعجاز احمدی، رخ جلد ۱۹، ص: ۱۹۶)
’’اے جنگلوں کے غول تجھ پر وَیْل‘‘۔ (اعجاز احمدی، رخ جلد ۱۹، ص: ۱۹۳)۔
’’اس جگہ فرعون سے مراد شیخ محمد حسین بٹالوی اور ہامان سے مراد نو مسلم سعد اﷲ ہے‘‘۔
(ضمیمہ انجام آتھم، رخ جلد۱۱، ص: ۵۴)
’’ آخرھم شیطان الاعمی والغول الاغوی یقال لہ رشید الجنجوھی وہ شقی کالامروہی ومن الملعونین ‘‘۔(انجام آتھم، رخ جلد۱۱، ص: ۲۵۲) ۔ ترجمہ: ان میں سے آخری شخص وہ اندھا شیطان اور بہت گمراہ دیو ہے، جس کو رشید احمد گنگوہی کہتے ہیں اور وہ امروہی (مولانا احمد حسن امروہی، ناقل) کی طرح شقی اور ملعونوں میں سے ہے۔
’’پس اے بدذات دشمن اﷲ رسول کے‘‘۔ (ضمیمہ انجام آتھم، رخ جلد، ۱۱، ص:۳۳۴)
مشہور شیعہ بزرگ و عالم جناب علی حائری کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’اور جب میں نے علی حائری کو جو سب سے جاہل تر ہے، دیکھا تو کہا……‘‘۔ (اعجاز احمدی، رخ جلد۹، ص: ۱۸۶)
’’اے بد ذات فرقہ مولویاں…… (انجام آتھم، رخ جلد۱۱، ص: ۲۱، حاشیہ)
ان گالیوں پر انسان کیا تبصرہ کرے۔ گالیاں مرزا صاحب کی ہر کتاب میں سے مل جائیں گی، جن سے مرزا صاحب کی ذہنی کیفیت آشکارا ہوتی ہے! کیا یہ دشنام دہی نہیں؟ کیا یہ منہ سے جھاگ نکلنا، آنکھیں نیلی پیلی ہونا نہیں؟ کیا قرآن کریم کی آیت اور اخلاق کے مطابق عمل ہے جس کا ذکر اوپر حوالوں میں کر چکے ہیں؟
قادیانی دستو! ہمیں پتہ ہے کہ پہلا جواب تم لوگوں کا یہ ہو گا کہ علما نے پہلے گالیاں نکالی ہیں۔ اگر مان بھی لیں تو علما اور داعی ٔ نبوت کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ علما غلطی کر سکتے ہیں مگر نبی نہیں۔ ایک شرارتی بچہ تمھیں گالی نکالے یا پتھر مارے تو کیا تم بھی اس سے بڑھ کر گالی نکالو گے اور اس کے سر میں اینٹ مارو گے؟ یا پھر سوچو گے کہ وہ تو بچہ ہے میں بڑا ہوں، درگزر کروں یا کم از کم سمجھانے کے لیے احسن راستہ اختیار کروں؟ ایک عالم اور نبی کے درمیان بھی بچے اور بالغ والا فرق ہی ہوتا ہے۔
حدیث میں آتا ہے، حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس کا قتل کرنا کفر ہے۔ بحوالہ بخاری و مسلم۔ اب حدیث کی روشنی میں مرزا صاحب کیا ہوئے؟ کیا ایک شخص جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے جانشین ہونے کا دعوے دار ہو، اس کا یہی طور طریقہ ہونا چاہیے؟
انگریز عدالتیں:
ایک دو مزید حوالے انگریزوں کی عدالتوں کے شاید آپ کے لیے دلچسپی کا باعث ہوں، وہ انگریز جس کی کاسہ لیسی میں مرزا صاحب نے انتہا کر دی، بلکہ انتہا کے بھی ریکارڈ قائم کیے ہیں اور خوشامد میں ذلت کی پستیوں تک پہنچے ہیں اور اپنی اس پستی کی وجہ انگریزوں کی دیانت اور انصاف کے قصے بیان کیے۔
اس انگریز کی عدالت، جس کے مجسٹریٹ کو مرزا صاحب نے اس کے انصاف کی وجہ سے، اس زمانے کا انصاف کرنے والا پیلا طوس قرار دیا ہے، مرزا صاحب کے بارے میں وہ کیا کہتا ہے؟
’’غلام احمد کو بذریعہ تحریری نوٹس کے جس کو انھوں نے خود پڑھ لیا اور اس پر دستخط کر دیے ہیں، باضابطہ طور پر متنبہ کرتے ہیں کہ ان مطبوعہ دستاویزات سے جو شہادت میں پیش ہوئی ہیں، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اشتعال اور غصہ دلانے والے رسالے شائع کیے ہیں۔ جن سے ان لوگوں کی ایذا مقصود ہے، جن کے مذہبی خیالات اس کے مذہبی خیالات سے مختلف ہیں…… جو اثر اس کی باتوں سے اس کے باعلم مریدوں پر ہو گا، اس کی ذمہ داری انھی پر ہو گی اور ہم انھیں متنبہ کرتے ہیں کہ جب تک وہ زیادہ میانہ روی اختیار نہ کریں گے، وہ قانون کی رو سے بچ نہیں سکتے، بلکہ اس کی زد کے اندر آ جاتے ہیں۔ دستخط ایم ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، گورداس پور ۲۳؍ اگست ۱۸۹۷ء ‘‘
یعنی کہ یہاں صرف ظاہر ہے کہ مرزا صاحب اشتعال پھیلانے والی تحریریں شائع کرتے ہیں اور ان کے پیش نظر دوسروں کے لیے ایذا رسانی ہوتی ہے۔ اب مجھے قادیانی دوست بتائیں کہ نبی اشتعال پیدا کرنے آتا ہے یا امن کرنے؟ نبی ایذا رسانی کے لیے آتا ہے یا عافیت دینے کے لیے؟ اور کیا نبی کی یہی اخلاقی حالت ہوتی ہے کہ اس کو عدالت سزا کا خوف دلا کر دوسروں کی ایذا رسانی سے باز رکھنے کی کوشش کرے؟
ایک دوسری عدالت میں (ڈپٹی کمشنر جے ایم ڈوئی کی عدالت) میں ایک اقرار نامہ لکھا، اس اقرار نامہ کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ ’’مرزا غلام احمد صاحب آئندہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو بطالوی نہیں لکھیں گے اور وہ (مولوی بٹالوی صاحب) قادیان کو کادیان نہیں لکھے گا‘‘۔ خدا کے لیے سوچو کہ کیا ایک نبی اتنا گر سکتا ہے کہ بچوں کی طرح نام بگاڑتا پھرے اور پھر عدالت کے حکم پر باز آئے؟
کیا پھر عدالتوں کے احکام کے باوجود دشنام طرازیوں سے کنارہ کشی کر لی؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۰۴ء میں پھر تیسری مرتبہ عدالت نے مرزا جی کو وارننگ دی اور پہلی دونوں عدالتوں کا اپنے فیصلہ میں حوالہ دیا۔
ڈھٹائی کا عالم:
یہ اس نبی کا حال ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ ’’ ان (علماء، ناقل) نے مجھے ہر طرح کی گالیاں دیں مگر میں نے ان کو جواب نہیں دیا‘‘۔ (مواہب الرحمن، رخ جلد ۱۹، ص: ۲۳۶)۔ اگر جواب نہیں دیا تو یہ حال ہے اور اگر جواب دیتے تو پتا نہیں کیا کرتے؟
فہرست:
قادیانی جماعت کے مربیوں نے (یہودیوں کے ربی ہیں دراصل۔ اور یہ م اختصار ہے مہا کا، یعنی مہاربی مطلب یہ نکلا مربی کا بڑے یہودی مولوی) ایک فہرست مرتب کی ہوئی ہے کہ یہ گالیاں قرآن شریف میں ہیں، یا نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے استعمال کیں۔
یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ قرآن شریف میں گالیاں ہیں۔ قرآن شریف اﷲ تعالیٰ کی کتاب ہے، کسی انسان کی نہیں، جس سے جواب طلب کریں۔) مرزا صاحب کا ایک شعر ہے کہ ’’تیرا صحیفہ چوموں، قرآن کے گرد گھوموں کہ کعبہ میرا یہی ہے‘‘۔ اس شعر سے جو دوسرے مغالطے ہیں، ان پر اس وقت بات نہیں ہو رہی، بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گالیوں والی کتاب کو مرزا صاحب چوم رہے ہیں اور اس کو کعبہ بنا کر گھوم رہے ہیں۔ برکت کے لیے یا گالیاں سیکھنے کے لیے؟ اگر برکت کے لیے تو قرآن کریم میں کوئی گالی نہیں اور یہ قادیانیوں کی قرآن پاک پر جھوٹا الزام اور ناپاک جسارت ہے۔ لیکن اگر قادیانی اس بات پر قائم ہیں کہ قرآن کریم میں گالیاں ہیں تو مرزا کا گالیوں کو کعبہ بنانا کیا پیغام دیتا ہے کہ یہ نبی قادیانی کا ایک نام نبی گالیانی بھی ہے۔
یہاں سوال یہ بھی نہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے گالیاں دی ہیں یا نہیں۔ لیکن قادیانیوں نے اس کو اٹھایا ہے۔ ایک طرف تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنا آقا قرار دیتے ہیں یہ قادیانی حضرات، اگر واقعی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے آقا ہیں تو ان کے اوپر ایک بے بنیاد اعتراض ہمارے سامنے کیوں؟ قادیانیوں کے نزدیک ہم رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے منکر ہیں، تو کیا کوئی غیرت مند غلام اپنے آقا کے منکروں کے سامنے جا کر یا غیرت مند اولاد اپنے باپ کے منکروں کے آگے جا کر اپنے آقا یا باپ کی بدخو ئی کرتے ہیں، کیا اپنے باپ کے منکروں کو بتاتے ہیں کہ اے منکرو! ہمارے باپ کا کام گالیاں دینا ہے، تُف ہے تم پر ایسے جواب دینے والے بے غیرتو۔ اچھی باپ اور آقا کی عزت بنانے کے دعوے دار ہو؟ اور اگر یہ بات نہیں تو تمھارا حُبِ رسول غلط ہے اور تم مرزا غلام اے قادیانی کے چیلے ہو، جو کہ دشمن شرافت، دشمنِ ایمان، دشمنِ قرآن ہے۔
مرزا صاحب نے اپنے آپ کو نعوذ باﷲ محمد کی دوسری بعثت قرار دیا ہے۔ یہ جواب دو کہ یہ بعثت نعوذ باﷲ گالیوں والے کی ہے؟ دوسری بعثت کا نظریہ ایک بہت بڑا جھوٹ اور مرزا صاحب کا فراڈ ہے، لیکن یہ موقع اس پر بحث کا نہیں، صرف مرزا صاحب کے بیان پر سوال ہے۔ اگر تو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم والی بعثت مراد ہے تو تمھارا گالیوں والا الزام بے بنیاد، بہتان، جھوٹ، خباثت کی بدترین قسم ہے، اور اگر وہ مراد نہیں تو پھر گالیوں والے کسی پیغمبر کے پیروکار یا بعثت ثانیہ، ثلاثہ، چہارم وغیرہ ہیں تو جائز ہے کہ مرزا صاحب ساری عمر گالیاں دیتے رہے اور اس طرح اپنے کلیجے کو ٹھنڈا کرتے رہے۔
قادیانی مربیو، اور ان کے پیچھے بھیڑ کی طرح بغیر سوچے سمجھے چلنے والو! اصل بات یہ ہے کہ!
قرآن کریم نے یا نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اگر کوئی اور کہیں سخت الفاظ استعمال کیے ہیں تو کسی ایک
خصلت کو ظاہر کرنے کے لیے۔
دوسرے ایک یا دو الفاظ ایک وقت میں نہ کہ ایک ہی سانس میں دس دس بیس بیس گالیاں۔
اور تیسرے کسی کا خاص کا نام لے کر نہیں بلکہ عمومی رنگ میں۔
اور چوتھے کسی ذاتی رنجش اور دکھ کے جواب میں گالی نہیں دی، بلکہ جو لوگ رسول اکرم کو بے انتہا دکھ دیتے
رہے وہ ان کے لیے بھی رحمت کی دعا کرتے رہے۔
اصل سوال اس مضمون کا یہ ہے کہ مرزا صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ امام الزمان ہیں! بطور امام الزمان کے وہ گالی کا جواب بھی نہیں دے سکتے، کجا یہ کہ خود کسی کو گالی دیں۔ مزید برآں ان کا دعویٰ بھی ہے کہ انھوں نے کبھی دشنام دہی نہیں کی اور نہ ہی جواب میں کسی کو گالی دی! کیا مرزا صاحب نے ابتداء ً، یا جواب میں ہی سہی…… گالیاں نکالی ہیں یا نہیں؟
قند مکرر کے طور پر بطور یاد دہانی پھر مرزا صاحب کے الفاظ میں ہی عرض کرتے ہیں ’’قوت اخلاق…… چونکہ اماموں کو طرح طرح کے اوباشوں اور سفلوں اور بد زبان لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے ان میں اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قوت کا ہونا ضروری ہے تاکہ ان میں طیش نفس اور مجنونانہ جوش پیدا نہ ہو۔ اور لوگ ان کے فیض سے محروم نہ رہیں۔ یہ بات نہایت قابل شرم ہے کہ ایک شخص خدا کا دوست کہلا کر پھر اخلاق رذیلہ میں گرفتار ہو اور درشت بات کا ذرا بھی متحمل نہ ہو سکے۔ اور جو امام الزمان کہلا کر ایسی کچی طبیعت کا آدمی ہو کہ ادنیٰ بات پر منہ میں جھاگ آتا ہے۔ آنکھیں نیلی پیلی ہوتی ہیں، وہ کسی طرح بھی امام الزمان نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اس پر آیت ’’اِنَّکَ لَعَلَی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ‘‘ کا پورے طور پر صادق آ جانا ضرور ہے‘‘۔
اس سے قبل دیے گئے حوالہ جات ثابت کرتے ہیں کہ مرزا صاحب اپنے فتوے اور دیے گئے معیار کی رو سے امام الزمان نہیں ہیں۔ جو لوگ اس کردار و اقرار اور ثبوت کی موجودگی کے باوجود بھی ان کو امام الزمان سمجھتے ہیں تو ہم صرف ان سے یہی درخواست کریں گے کہ ’’اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ ‘‘ (نساء: ۸۴) پس تم کیوں نہیں غور کرتے؟ مرزا غلام اے قادیانی کیسے عکس رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہونے کے دعوے دار ہیں، کیسے محمد ثانی ہونے کے مدعی ہیں (نعوذ باﷲ)؟ کہ ذرا ذرا سی بات پر آپ سے باہر ہو کر بھٹیارنوں کی طرح نہ صرف شخصیتوں کو بلکہ اس علاقے کی زمین کو بھی تاقیامت ملعون قرار دے رہے ہیں؟
جس کے بروز ہونے کا، ظل ہونے کا دعویٰ کر تے ہیں، وہ تو سراپا رحمت تھے۔ وہ تو رحمت اللعالمین تھے، ان پر راستے سے گزرتے ہوئے گند پھینکنے والی ایک دن موجود نہیں تھی، اس کو بجائے برا بھلا کہنے کے اس کا حال پوچھنے چلے گئے، اور یہاں مرزا صاحب گالیاں نکال رہے ہیں اور جواب دے رہے ہیں۔ بلکہ آئندہ بھی گالیوں سے فنا کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ دوسرے مذاہب کے ساتھ جو سلوک مرزا صاحب نے کیا ہے اس کے نتیجے میں بعض بدنصیب آریوں اور ہندوؤں، عیسائیوں نے جو گند اچھالا ہے اور اچھال رہے ہیں، وہ دنیا بھر کے مسلمان بھگت رہے ہیں کہ قادیانی جماعت کا اسلام سے تعلق نہ ہونے کے باوجود اپنا مسلمان ہونے کا پروپیگنڈا کرنے کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے لوگ لاعلمی میں زندیقوں کو مسلمان سمجھ لیتے ہیں۔
اگر مرزا صاحب مسلمان ہیں تو اسلام کے اندر کسی نئے نبی و رسول کی گنجائش نہیں، اس لیے مرزا صاحب کے دعوے غلط ہیں یاوہ مسلمان نہیں۔
لیکن اگر چند لمحے کے لیے مرزا صاحب کو مسلمانوں کا نبی ہی سمجھ لیں تو کیا یہ رویہ ایک نبی کا…… نبیوں کے مثیل کا……رسول کریم کی پیشگوئیوں کے مصداق کا ……اُن کے ظل و عکس کا ہو سکتا ہے ہے یا ہونا چاہیے؟
مرزا صاحب نے دوسرے مذاہب اور ان کی کتابوں، خداؤں، نبیوں کے بارے میں جو خامہ فرسائیاں کی ہیں، وہ ایک علیحدہ اور تفصیلی باب بلکہ کتاب کا متقاضی ہے۔ اگر اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی تو آئندہ کسی دوسرے مضمون میں۔
چھوٹی سی مثال:
صرف ایک چھوٹی سی مثال بطور جھلک کہ مرزا صاحب کے دوسرے مذاہب پر اعتراضات کیسے ہیں؟ کیا علمی اعتراضات ہیں یا محض اعتراض کے نام پر اپنے خُبث کا اظہار کر رہے ہیں؟
مرزا صاحب آریوں کے خدا کے متعلق فرماتے ہیں ’’آریوں کا پرمیشر ناف سے دس انگل نیچے ہوتا ہے، سمجھنے والے سمجھ جائیں‘‘۔ (چشمہ معرفت، رخ جلد ۲۳، ص: ۱۱۴)
مرزا صاحب کے دماغ کی رسائی یہاں تک ہی تھی کہ کتاب کا نام چشمہ معرفت ہے اور اس میں جس بات پر زور ہے وہ ہے ’’ناف سے دس انگل نیچے‘‘۔ کیا مرزا صاحب کا چشمہ معرفت ناف سے دس انگلی نیچے تھا، کیا یہ کوئی علمی اعتراض ہے، یا مرزا صاحب کے (اپنے اعترافی بیان کے مطابق ان کو چوڑھیوں، کنجریوں سے) ذاتی تجربہ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا اعتراض ہے؟
مرزا صاحب کا حال بقول شاعر یہی ہے کہ
ناوک نے تیرے کوئی صید نہ چھوڑا زمانے میں
مرزا صاحب کے کلام کے صرف چند نمونے ہی پیش کیے گئے ہیں۔
قادیانی عزیز اور دوستو سے سوال کرتا ہوں کہ آیا مرزا غلام احمد بانی جماعت قادیانی اﷲ تعالیٰ کے دیے ہوئے معیار پر پورے اترتے ہیں یا نہیں؟ کیا ایک نبی اﷲ دوسرے مذاہب والوں کو اخلاقی طور پر اتنا گر کر بھی نشانہ بنا سکتا ہے؟ ہر شریف اور انصاف پسند ایمان دار آدمی کا جواب ہو گا کہ یقینا نہیں، یقینا نہیں، یقینا نہیں۔
کیا یہ اس اخلاق اور کریکٹر کے ساتھ جو کہ ہم سطور بالا میں مع ثبوت پیش کر چکے ہیں، اس مقام پر جائز ہو سکتے ہیں، جس کا اُن کو دعویٰ ہے؟ کیا یہی امام الزمان ہیں جن کی خبر سب نبیوں نے دی تھی؟ اگر تو اخلاق سے عاری امام الزمان کی بات یا خبر تھی تو پھر ان ہی کے لیے تھی۔ لیکن اگر مقرب خدا کی خبر تھی تو پھراحمدیو ایک بار پھر دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دو کہ کیا مرزا غلام احمد صاحب کا کریکٹر، مرزا صاحب کے اپنے بھی بتائے ہوئے معیار کے مطابق بھی ایک امام الزمان کا ہی کریکٹر ہے؟ کیا نبی اﷲ، مہدی، مسیح، مجدد، کسی سمجھ دار آدمی کا بھی کریکٹر گالیوں کی مشین گن چلانے کا ہوتا ہے؟ اور اوپر سے یہ تعلّی کہ ’’خدا وہ ہے کہ جس نے اپنے رسول کو یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا‘‘۔ (اربعین۳، رخ جلد۱۷، ص: ۴۲۶)۔ کیا اﷲ تعالیٰ نے انسان کو گالیاں دینے، غلط کام کرنے اور پھر نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ اس کا انکار کرنے کی تہذیب دے کر اپنے مقربین کو بھیجتا رہا؟ آپ اگر باضمیر ہیں تو آپ کا یہ فیصلہ ہو گا کہ مرزا صاحب کے کریکٹر والے بندے نہ تو خدا کے مقرب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی امام الزمان اور نہ ہی شریف آدمی!
ان خود ساختہ رسول صاحب کے تہذیب و اخلاق کے نمونے آپ نے دیکھ ہی لیے ہیں اور ایسے نمونے ان کی تمام کتابوں میں کافی زیادہ موجود ہیں۔ مزید کیا کہوں، بہتر یہی ہے کہ میں مرزا صاحب کے ہی ایک شعر پر اس بات کو یہاں بند کرتا ہوں ۔
بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بدزبان ہے
جس دل میں یہ نجاست بیت الخلاء یہی ہے
(قادیان کے آریہ اور ہم، رخ جلد ۲۰، ص: ۴۵۸)
فاعتبروا یا اولی الابصار