منیر عباس
اتوار۲۲؍اپریل ۲۰۱۸ء کا دن گزار کر نصف شب ابن امیرِ شریعت حافظ سید عطاء المؤمن بخاریؒ ہم سے یوں جدا ہوئے جیسے بادِ نسیم پھولوں کی آمد کا پتہ دے کر اچانک چلی جائے۔ سوموار کے دن مغرب کے بعد شاہ جی مرحوم و مغفور کا جنازہ ہوا۔ جنازہ کیا تھا گویا لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا ایک سمندر تھا۔ جنازے کی فضا پر عطاء ربانی کا نزول تھا۔ ہر آنکھ شاہ کی جدائی پر رو رہی تھی۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ سید عطاء المؤمن بخاریؒ کی زندگی صحیح معنوں میں دینے کے لیے سراپا وقف تھی۔
وہ بلاشبہ خاندانِ بنی ہاشم کی روایات کے سچے پاسدار ایک صاحب اسلوب اور سحر انگیز خطیب تھے۔ جید عالمِ دین، فاضل محقق اور مجاہد فی سبیل اﷲ کی حیثیت سے ان کی اپنی ایک پہچان تھی۔ زندگی کے تلخ حالات قافلۂ حق کے اس عظیم سپہ سالار کو اپنے عزائم سے کبھی روک نہ سکے۔ زندگی میں بے شمار تکالیف آئیں لیکن شاہؒ کی استقامت اور بہادری پر کوئی چیز اثر انداز نہ ہو سکی۔ اس مردِ حق کی راہِ حق میں خدمات پر کچھ لکھنا میرے بس کی بات نہیں، وہی لوگ اُن کی خدماتِ جلیلہ پر کچھ کہہ اور لکھ سکتے ہیں جو خود دین کی جہدِ مبین میں ان کے ہم سفر رہے ہیں۔ شاہ جی ؒ حقیقی معنوں میں ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھآ جن کی زندگی کے کئی حسین و جمیل پہلو تہہ در تہہ مجموعۂ محاسن بن کر نظر آتے ہیں۔ مگر ان کی داستانِ زندگی کا عنوان و سر نوشت اور ان کے اوصاف میں سب سے اہم چیز جس نے لوگوں کو ان کی والہانہ محبت میں مبتلا رکھا وہ اُن کا فقر، سادگی اور دینِ حق پر بے مثال استقامت تھی۔ مجھے اس گھرانے سے تقریباً ۳۰ برس سے واسطہ ہے۔ میں معروف معنوں میں بیعتِ طریقت تو اس گھرانے سے نہیں لیکن آدابِ دین کے بہت سارے قرینے مجھے اس گھر کی دہلیز پر احتراماً کھڑے رکھتے ہیں اور ان سب قرینوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ان جملہ اصحابِ عزیمت کا خلوص فی الدین اپنے درجہ کمال پر ہے۔ بقول اقبالؒ
تمنا درد دل کی ہے تو خدمت کر فقیروں کی
Sنہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
_نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
Uیدِ بیضاء لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
* آہ! سید عطاء المنعم بخاریؒ اور سید عطاء المحسن بخاریؒ کے بعد سید عطاء المؤمن بخاری بھی آج ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ وہ آواز ہمیں سنائی نہیں دیتی جس نے پوری زندگی خطابت کی دنیا میں حق گوئی کی بلند آہنگ صدائے خیر میں ایک امتیاز پیدا کیا تھا۔ ہر اپنا، بیگانہ اس بات کو ماننے پر مجبور ہے کہ اہلِ کفر اور مروجہ نظامِ جبر و استبداد کے خلاف جتنی نفرت اُن کے دل میں تھی اور اس کے برملا اظہار میں جس جرأت و بہادری کا مظاہرہ کیا گردو پیش اُن کا ہم سر کوئی نظر نہیں آتا۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ عطاء المؤمن عطائے یزدان کی ایک جھلک تھی۔
مجھے ان کی تقاریر سننے کا براہِ راست موقع ملا، الحمد ﷲ کئی بار ان کی رفاقت میں سفر بھی نصیب ہوا۔ ہر بار شاہِ ذی وقار خطابت کی مسند پر مفاہیم و معانی کے ایک نئے دبستان کا دروازہ کھولتے اور نئے انداز سے جلوہ افروز ہوتے۔ خطبۂ مسنونہ کے بعد شاہ جی مرحوم ومغفور کا اظہارِ ما فی الضمیر اس قدر پُرزور پر شکوہ اور دل آویز ہوتا کہ دل چاہتا کہ وقت تھم جائے اور شاہِ ذی وقار بولتا رہے۔ اُن کی گفتگو مسلکی گروہ بندی سے بالا تر ہوتی، وہ ہمیشہ قرآن کے لہجے اور حدیث کے اسلوب میں بات کرتے۔ گفتگو کا دورانیہ اکثر طویل ہوتا، اپنی شگفتہ طبعی سے سننے والے لوگوں کو تازہ دم رکھتے۔ چونکہ بذلہ سنجی اور نکتہ پروری انھیں ورثے میں ملی تھی لہٰذا اس ورثے کے نبھانے میں ان کی طبیعت ہمیشہ فیاض رہی۔
شاہ صاحب نے پوری زندگی تحفظ ختمِ نبوّت، منقبتِ اہل بیت اور صحابہ کی مدح سرائی میں گزار دی۔ وہ تمام لادینی قوتوں کے خلاف انتہائی عزم و عزیمتِ کردار کے ساتھ برسرِ پیکار رہے۔ زمانے کے نشیب و فراز ان کی بلند ہمتی کو شکست دینے سے عاجز رہے، وہ ہمیشہ اپنی فکر و نظر کی دنیا میں اولو العزمی کی معراج پر فائز رہے۔
پاکستان میں نفاذِ اسلام کے لیے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں، ان کی زندگی کا بیشتر حصہ تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو ایک محاذ پر اکٹھے کرنے میں گزرا۔ وہ اتحادِ ملّتِ اسلامیہ کے ایک بہت بڑے داعی تھے۔ افسوس کہ مغربی جمہوری نظام کے پرستاروں نے ان کے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر نہ ہونے دیا۔ لیکن ان کی عملی زندگی کا ایک ایک پل ان کی دینی حمیت و غیرت کا شاہدِ عدل ہے۔ چونکہ وطنِ عزیز شروع سے ان لادینی قوتوں کی سیاسی دسیسہ کاریوں کا ہدف ہے جو اس سرزمین پر قرآن و سنت کی بالادستی کو قائم دیکھنے کے روادار نہیں، ہمارے سید بادشاہ نے اُن کے خلاف اپنی منظم جدوجہد کو مرتے دم تک جاری رکھا۔ بڑے بڑے ناخوش گوار حالات آئے لیکن مردِ حُر کی تکبیر سے باطل ہمیشہ خوف زدہ رہا۔ اس کا واضح مظہر پرویز مشرف کا دور تھا۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا، عسکری طاقت کے جبروتِ باطل کے سامنے کوئی بول اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ جبر و تشدد کے اس بدترین دور میں ہمارے شاہ جی ابنِ امیرِ شریعت سید عطاء المؤمن شاہ بخاری اس ظلم کے خلاف عملاً کھڑے ہوئے اور اپنی ایمانی قوت کا بھرپور مظاہر کیا۔ پرویز مشرف کے خلاف ایک سرگرم احتجاجی جلسہ کیا جس میں شاہِ ابرار، مولائے کل، سید دو عالمﷺ کے فرمان کے مطابق کہ: ’’بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے‘‘۔ پرویز مشرف کی طاغوتی آمریت کے خلاف نعرۂ رستا خیز بلند کیا جس کے نتیجے میں شاہ جی کو سرکاری مشینری کے جبر کا نشانہ بننا پڑا، اور وہ اپنی پیرانہ سالی کے ساتھ کئی ماہ قید رہے۔ مگر پرویزی تجبُّر کے حیلے ہمارے سید بادشاہ کے جذبۂ حق پرستی و حق گوئی کو کمزور نہ کر سکے۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب سرکاری گماشتے شاہ جی تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوسکے تو شاہ جی کے بھانجے اور ہمارے مخدوم شہید سید محمد ذو الکفل بخاری کو یرغمال بنا کر حضرت سید عطاء المومن بخاری کو گرفتاری دینے پر مجبور کیا۔ رہائی کے بعدہمارے سید بادشاہ نے اسی وقار کے ساتھ اپنے مشن کو جاری رکھا اور جب تک جان میں جان رہی آبروئے مصطفی پر اپنی جان کو نچھاور رکھا۔ یہ تو ایک واقعہ ہے، ان کی زندگی میں سیکڑوں واقعات ملتے ہیں کہ شاہؒ نے دینِ حق کے پرچار میں کبھی مفاہمت یا مداہنت کے رستے پر چلنا تو درکنار اس بے فیض سمت کی طرف پلٹ کر دیکھا بھی نہیں۔
وہ بلاشبہ امیر شریعت سید عطاء اﷲ بخاری کی مراد، عطاء المنعم کی علمیت ،عطاء المحسن کی مجلسیت اور دوست داری اور عطاء المہیمن کی محبت و خورد نوازی کا حسین پرچار تھے۔ میرے نزدیک چاروں ابناءِ امیرِ شریعت دین کی جہدِ مبین کے وہ ستارے ہیں جن کی روشنی نورِ ازل کا پرتو ہے۔ خدا کی قسم! میں نے آج تک ان جیسا نہ دیکھا، نہ سنا، نہ پایا ہے۔
دعا ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ انھیں اپنے قربِ خاص میں جگہ دے اور خاندانِ بنی ہاشم میں امیر شریعتؒ کے گلشنِ ہمیشہ بہارکے موجودہ گلِ سر سبد حضرت پیر جی سیدعطاء المہیمن بخاری دام لطفہم کی عمر میں برکت دے تاکہ ان کی سرپرستی میں احرار کا یہ منفرد قافلہ پوری جرأت و عظمت کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن رہے۔