شاہ بلیغ الدین رحمۃ اﷲ علیہ
اکتالیس سال جسے اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی حکمرانی بخشی اور پھر خیرالقرون سے متصل یعنی سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کے بالکل بعد کے دور میں جسے گورنری اور امارت کا منصب نصیب ہوا اس کی عظمت کا کیا ٹھکا نہ ہے۔ اس جلیل القدر فرزندِ اسلام کے دور میں جہاد کا ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر قائم ہوا۔ لاالٰہ کا پرچم بلند ہوتا رہا، مالِ غنیمت ، سلطنت کے اطراف سے بیت المال میں آتا رہا اور مسلمانوں نے راحت وآرام اور عدل و انصاف سے زندگی بسر کی۔
صحیح بخاری کتاب الایمان اور صحیح مسلم کتاب الاقضیہ کی حدیث ہے کہ فتحِ مکہ کے موقع پر نبیِ قبلتین صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے اس امیر اور ان کے خیمے میں رہنے والے سب افراد کو اپنا محبوب قرار دیا۔ جامع ترمذی باب المناقب میں ہے کہ مسلمانوں کے اس امیر کے لیے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اے اﷲ! تو اسے ہدایت دینے والا اور ہدایت پانے والا بنا اور اس کے ذریعے دوسروں کو ہدایت دے۔ ان کی بہن حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیوی، ان کے والد حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بچپن اور جوانی کے گہرے دوست اور فتح مکہ کے بعد اسلامی مملکت میں حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقرر کردہ اوّلین گورنر تھے۔ یہ خود کاتبِ وحی اور سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کے اہم ترین فرامین کے لکھنے والے ہیں! حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سب سے بڑے داماد حضرت ابوالعاص اور ذوالنورین عثمان رضی اﷲ عنہما کے وہ قریبی عزیز تھے۔ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے ہم زلف اور ان کی بہن حضرت زینب کی بیٹی امِّ محمد کے محترم خسر تھے۔ اﷲ نے انھیں دل و دماغ کی غیر معمولی خوبیاں دے رکھی تھیں۔ اسلام کے مدبّروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ فاروق اعظم ( رضی اﷲ عنہ) جیسی شخصیت نے فرمایا کہ قیصر و کسریٰ کے درباروں کے بڑے بڑے مدبر، ان کے سامنے کچھ نہیں تھے، اﷲ نے اتنا ٹھنڈا مزاج دیا تھا کہ دوسروں کی زبان سے گالیاں سن کر بھی بھڑکتے نہ تھے بلکہ طنز کا جواب دلجوئی سے دیتے تھے۔ حلم نبیوں کی بہترین صفتوں میں سے ایک صفت ہے۔ حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام میں اس صفت کے لیے وہ بہت سوں سے ممتاز تھے۔ سرورِ کائنات کے بعد تو لوگ انھیں حلم کا نمونہ سمجھتے تھے۔ گالی دینے والوں کا منہ بھی انھوں نے موتیوں سے بھردیا۔ ان کی فکر بڑی مرتب اور نظر گہری بھی تھی وسیع بھی تھی۔ کوئی شخص اپنی بات شروع کرتا تو وہ فوراً اس کا مدعا بھانپ لیتے تھے۔
البدایہ والنہایہ میں ہے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ فاتح ایران فرماتے تھے کہ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے بعد میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو حق پر فیصلہ کرنے والا نہ پایا۔ ابواسحٰق سُبیعی کہتے تھے کہ: اگر تم نے ان کو دیکھا یا ان کا زمانہ پالیا ہوتا تو عدل وانصاف کی وجہ سے تم ان کومہدی کہتے۔ امام اعمش انھیں المصحف پکارتے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کہتے تھے کہ وہ فقیہ تھے۔ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اﷲ جس شخص کے لیے خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ دیتا ہے یعنی فقیہ بنا دیتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں جنت کی بشارت دی تھی۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک پیشنگوئی کو انھوں نے پوراکیا۔ ان کی سرداری اور اسلامی شوکت کا نظارہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت ام حرام رضی اﷲ عنہا کے گھر خواب کی حالت میں دکھلایا۔ مالک الملک نے عقل اور ایمان کی دولت کے ساتھ ساتھ انھیں بڑی دلفریب اور وجیہ شخصیت بھی عطا فرمائی تھی۔ اونچا پورا قد تھا۔ سرخ و سفید رنگت۔ چہرہ بڑا باوقار لہجہ متین اور باتیں بڑی سیانی کرتے تھے۔ ابنِ طبا طبا نے اپنے کتاب الفخری میں لکھا ہے کہ وہ فرزانہ و عالم تھے! حلیم اور باجبروت حکمران تھے۔
حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے انھیں بے انتہا محبت تھی۔ اصابہ استیعاب اور تاریخ کامل میں ہے کہ مرنے لگے تو وصیت کی کہ حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے کپڑے کا ایک ٹکڑا عطا فرمایا تھا پھر ایک بار اپنے بال اور ناخن عطا فرمائے تھے۔ میرے کفن میں وہ کپڑے ملا دینا، ناخن اور موئے مبارک میری آنکھوں ، منہ اور سجدے جگہوں پر رکھ کر مجھے قبر کے حوالے کردینا۔ امام ابنِ تیمیہ ، ابوبکر ابن العربی اور رضا شاہ خان بریلوی انھیں خلیفۂ راشد کہتے ہیں۔
یہ سیدنا امیرمعاویہ رضی اﷲ عنہ تھے جن کا انتقال ۷۸ برس کی عمر میں ۲۲؍ویں رجب ۶۰ھ کی رات کو ہوا۔ اس مدبّرِ اعظم کی وفات پر آج بھی تخزیب کار چھپ چھپ کر کونڈے بھرتے اور مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔
(مطبوعہ: طوبیٰ)