مجھے معاف کرنا! میں ۳۰ سال تک تمہارے ساتھ ظلم کرتا رہا
تحریر: عکرمہ نجمی ترجمہ: صبیح ہمدانی
میرے عزیز خالہ زاد بھائی، حسن عودہ!
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
مجھ پر لازم ہے کہ میں آپ کے ساتھ کی گئی اپنی غلطی پر معذرت پیش کروں، جب میں بنا سوچے سمجھے بد کلامی، کردار کشی اورنفرت انگیزی کے ساتھ بائیکاٹ کا حصہ بنا۔
جب آپ کے جماعت سے خارج ہوجانے کی خبر مجھ تک پہنچی تو میں اس وقت سترہ سال کا تھا۔اور جب ہر طرف سے آپ پر سب وشتم کی بارش ہوئی، ہر کسی کو آپ کے بائیکاٹ پر مجبور کیا گیا اور آپ کے والد پر بھی دباؤ ڈالا گیا کہ وہ آپ سے براء ت کا اعلان کریں تو میرے پاس سوائے اس سُرمیں سُر ملانے اور اس شور وشغب میں اپنی آواز شامل کرنے اور حقیقت کا سامنا کرنے سے کترانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا لہٰذا میں معذرت چاہتا ہوں۔
ہاں! میں معذرت چاہتا ہوں کہ میں آپ پر ملامت کے تیر برسانے، لعن طعن کرنے اور بدترین القاب کے ساتھ آپ کو یاد کرنے میں شامل رہا اور سب نے آپ سے براء ت کے اظہار پر مجھے بھڑکایا یہاں تک کہ میں نے آپ کو بدبخت کے لقب سے ملقب کیا جیسا کہ اور لوگوں نے کیا اور یہ سب (مرزائیوں کے) خلیفۂ رابع (مرزا طاہر احمد) کی ایماء پر ہوا،یہ تو گویا یوں ہوا کہ ہر وہ شخص جو پہلے سے شادی شدہ محمدی بیگم کو مرزا کی منکوحہ ماننے میں کوئی عار سمجھے اور اس نکاح کی نسبت اﷲ تعالی کی طرف نہ کرے تو وہ بدبخت ٹھہرا۔
میں معذرت خواہ ہوں کہ میں نے کبابیر (فلسطین) والوں کا اس رسالے کے حوالے سے بائیکاٹ پر ساتھ دیا جسے آپ نکالتے تھے اور ان (مرزائیوں) کی خیر خواہی اور نجات کی لاحاصل کوشش کرتے تھے۔
احمدیوں(مرزائیوں) کا وتیرہ یہی رہا ہے کہ اس رسالے کو ان لوگوں سے لیکر اکھٹا کریں جن تک وہ پہنچ چکا ہے اور اس میں چھپنے والے آپ کے مضامین کو علاقے والوں سے نظریں بچا کر ضائع کردیں اور حیلے بہانوں سے کام لیں تاکہ ’’فتنہ‘‘ دفع ہو۔
میں آپ سے تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں کہ میں نے آپ کے بھائی ابو محمود کے ساتھ اس وقت انصاف نہیں کیا جب اس نے کبابیر کی مسجد میں جمعے کی نماز کے بعد پوری بہادری سے مجمعے کے سامنے کھڑے ہوکر مردانگی اور ثابت قدمی کے ساتھ احمدیت (مرزائیت) سے خروج کا اعلان کیا، میں نے ان کی شجاعت کا تب اندازہ نہیں کیا. باوجویکہ وہ جانتا تھا کہ اس اعلان کی بنا پر اُس پر ایسے بائیکاٹ کو مسلط کردیا جائے گا جس کی بنیاد احمدیوں(قادیانیوں) کے خلیفہ کے ظلم اور تاریکی پر مبنی آمرانہ احکام ہیں۔
لوگو! ربِ کعبہ کی قسم! میں اپنے خالہ زاد بھائی حسن عودہ سے ملا،اس کو اپنے سے چمٹایا اسے بوسہ دیا، اس سے بات چیت کی اور اس سے معافی مانگی، اور اسے میں نے کامیاب، پرلطف، با اخلاق، دیندار، اور اپنی سوچ وفکر اور کلام میں کھرا پایا اور اب تو ہم دونوں روح وکلام اور دکھ درد میں ایک دوسرے کے مشابہ ہوگئے۔ کیسے نہ ہوتے؟ ہم دونوں ہی معنوی اور اجتماعی نسل کشی کی بھینٹ چڑھے، ایسی قربانی جس سے جماعت کو چھوڑنے والے ہر فرد کو گزرنا پڑتا ہے۔
مرزائی خلیفوں نے تو کبابیر میں ہمارے خاندان کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے، اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہمارا خاندان ایک ایسا نیا صفحہ کھولے جو سارا کا سارا عفو ودرگزر پر مشتمل ہو۔ اس امید پر کہ ہمارے خاندان والے اس شخص کا بائیکاٹ نہ کریں جس نے مرزا کی لعن طعن، گالم گلوچ اور خرافات کو نہیں مانا، اور ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ تمام لوگوں کو بنا کسی دباؤ اور حاکمی کے اُس اظہار رائے کا حق دیا جائے گا جس کا وہ اظہار کرنا چاہتے ہیں، اس بات کے کہنے کا حق جسے وہ کہنا چاہتے ہیں،اس بحث ومباحثے کا حق جو وہ کرنا چاہتے ہیں اور جس پر ایمان لانا ان کا حق ہے اس کے اظہار کا حق ان کو دیا جائے گا۔
کبابیر والوں کے لیے اب وقت آن پہنچا کہ وہ لوگ امت مسلمہ کی آغوش کی طرف لوٹ آئیں، ان کے معاملات اور غموں میں شریک ہوں اور قول وفعل کے ذریعے ان کی مشکلات حل کرنے میں ان سے تعاون کریں۔اب ہمیں چاہئے کہ ہم سب محبتوں کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہوجائیں اور خیر اور حق کے داعی بن جائیں۔