مولانا حافظ عبدالرشید ارشد رحمتہ اللہ علیہ قسط: ۱
مجلس احرار اسلام ۔۔۔ شاہ جی کی زندہ تحریک
مولانا حافظ عبد الرشید ارشد رحمۃ اللہ علیہ معروف عالم دین، متعدد کتابوں کے مصنف اور علماء حق کی نشانی تھے۔ ’’بیس بڑے مسلمان‘‘ اور ’’ بیس مردانِ حق‘‘ ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ کے سچے عاشق تھے۔ ’’غبار خاطر‘‘ کو نہایت اعلیٰ طباعت کے ساتھ شائع کیا اور ’’الہلال‘‘ کی عکسی فائل پاکستان میں سب سے پہلے شائع کی۔ ماہنامہ الرشید لاہور کے مدیرومالک تھے۔ ان کے اداریے اور ’’واردات ومشاہدات‘‘ کے زیر عنوان یادداشتیں بڑی دلچسپ ہوتی تھیں۔ ’’الرشید‘‘ کے کئی عظیم الشان نمبر شائع کیے اور اسلاف سے محبت وارادت کا حق ادا کیا۔ ذیل کا مضمون ’’واردات و مشاہدات ‘‘ سے انتخاب ہے۔ (مدیر)
ہر خاندان یا جماعت کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں۔ برصغیر کی سیاسی جماعتوں میں مجلس احرار اسلام ایسے سرفروشوں کی جماعت تھی کہ جو ہر وقت جان ہتھیلی پر اور کفن کندھے پر لیے پھرتے تھے۔ ’’احرار‘‘نام کا پوری جماعت میں اثر تھا کہ حریت وجرأت چھوٹے سے چھوٹے رضاکار کی گھٹی میں پڑی تھی اور خوف نام کی چیز ان کی چمڑی میں نہ تھی اور نہ ہے۔ یہ لوگ اس لکڑی کی طرح ہیں جو ٹوٹ توسکتی ہے لیکن لچک نہیں کھا سکتی ۔ اور یہ سب کچھ زعمائے احرار امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری، رئیس الاحرار حبیب الرحمن لدھیانوی، مفکر احرارچودھری افضل حق رحمتہ اللہ علیہم اور دوسرے احرار رہنماؤں کی تربیت کا اثر تھا کہ اب بھی کہیں اگر کوئی پرانا احراری مل جائے تو اس کی باتیں اور حالات پر بغیر کسی خوف اور لومتہ لائم کے رواں دواں تبصرہ سن کر محسوس کرسکتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں۔ جب ان کی یہ حالت ہے تو اس وقت جب جماعت باقاعدہ پنجاب میں انگریز کے خلاف اپنا کردار ادا کررہی تھی تواس وقت کیا ہوگی۔ اپنے وقت کے شیخ اور مجلس احرار اسلام اور تحریک تحفظ ختمِ نبوت کے مُرَبِّی وسرپرست حضرت مولانا عبدالقادررائے پوری رحمتہ اللہ علیہ کی مجلس میں کسی شخص نے کسی احرار رہنما کے متعلق کچھ نامناسب الفاظ کہے تو حضرت رحمتہ اللہ علیہ جوش میں آگئے اور فرمایا کہ:’’ خبر دار کوئی ان لوگوں کے متعلق میری مجلس میں اس طرح کی کبھی بات نہ کرے اور فرمایا کہ تم لوگوں میں ان سا کوئی جانباز بھی ہے‘‘؟
ہمارے ایک دوست ازراہ تفنن کہا کرتے ہیں کہ کسی عام احرار مقرر کی تقریر سنو تو اس کا انداز یہ ہوتا تھا کہ گرجدار آواز میں خطاب کرتے ہوئے کہتا کہ: چرچل تو بھی سن لے، ہٹلر تو بھی سن لے، مسولینی تو بھی سن لے اور جاپان تو بھی سن لے، گویا وہ ان لوگوں کو ایسا خطاب کرتے کہ وہ ان کے برابر کے حریف اور مقابل ہیں۔ یہ تو ایک لطیفہ تھا واقعہ یہ ہے کہ مجلس احرار اسلام جب شباب پر تھی تو ان کی تقریروں کی بازگشت برطانیہ کی پارلیمنٹ میں سنی جاتی تھی۔ مسجد شہید گنج (۱۹۳۵ء) کے واقعہ کے لگ بھگ مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمتہ اللہ علیہ نے دہلی دروازے کے باہر برطانوی ایمپائر (سلطنت) کے متعلق اتنی زور دار تقریر کی کہ پنجا ب کی حکومت کے دَرودیوار ہل گئے۔ سر فضل حسین کی سی آئی ڈی بہت مضبوط تھی اور اس کو پل پل کی خبر ملتی تھی۔ سر فضل حسین نے کہا کہ: مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی نے یہ تقریر کی ہے اور اس سے پہلے احرار کے دفتر میں کھانے کے لیے کچھ نہ تھا، چند آنے کے چنے کھا کر احرار لیڈر جلسے میں گئے اور آتشبار تقریر کی، اگر خدا نخواستہ ان کو کچھ سرمایہ یا اقتدار فراہم ہوجائے تو نہ معلوم کیا حال ہو۔ عام لوگوں میں ہی مشہور ہے کہ سید اگر آگ میں چھلانگ لگا دے تو اس کو آگ نہیں جلاتی۔ لفظاً یا ظاہراً یہ ہر سید کے لیے صحیح ہو یا نہ ہو لیکن امیر شریعت سید عطاء اللہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ واقعتا ساری عمر آگ میں گھر ے رہے لیکن ان کے حوصلے میں کمی ہوئی نہ ہمت نے ساتھ چھوڑا۔ شاہ جی جلال وجمال کا مجموعہ تھے، ان کا جمال رضاکاروں کو ان کے گرد پروانوں کی طرح اکٹھا رکھتا تھا اور ان کا جلال دشمنوں کے لیے خصوصاً برطانوی استعمار اور اس کے گماشتوں کے لیے تیغ براں تھا، جس کی کاٹ کا کوئی جواب نہ تھا۔ فرمایا کرتے کہ میری عمر جیل یاریل میں گزر گئی۔ کل ہی مجھ سے ایک شخص پوچھ رہا تھا کہ قلندر کسے کہتے ہیں اور ساتھ کہا کہ لوگ کہتے ہیں اس زمانہ کا قلندر اقبال تھا۔ میں نے کہا اقبال کو تو نہیں دیکھا لیکن شاہ جی رحمتہ اللہ علیہ کو قریب سے دیکھا ہے، سنا ہے، پڑھا ہے، جانچا ہے آپ کو جس طرح اور جس سمت سے دیکھیں محسوس ہوتا تھا کہ قلندر ایسے ہوتے ہیں وہ قلندر کہ جس کے متعلق کسی نے کہا ہے:
قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید
یا بقولِ اقبال:
ازل سے فطرتِ احرار میں ہے دوش بدوش
قلندری وقبا پوشی وکلہ داری
علامہ اقبال مرحوم بھی آپ کی بے حد قدر کیا کرتے تھے اور آپ اقبال کے مداح تھے لیکن یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ جو لوگ کبھی دو چار دفعہ اقبال کے پاس گئے انھوں نے خود بتواتر اور دوسروں نے بھی یہ کہنا شروع کردیا کہ فلاں شخص اقبال کے بہت قریب تھا۔ تاریخ کو مسخ اور محرف کرنے کے باوجود سچائی کی روشنی تاریکی کی دبیز تہوں کو پھاڑتی ہوئی نمودار ہوجاتی ہے۔ پسرِ اقبال جناب جاوید اقبال نے تین جلدوں پر اقبال کی زندگی پر ایک کتاب بنام ’’زندہ رود‘‘ لکھی ہے (اب تینوں جلدیں ایک جلد میں آگئی ہیں) حق یہ ہے کہ اس میں خاصے حقائق آگئے ہیں کہ جن کی روشنی میں بہت کچھ دیکھا او ر سمجھا جاسکتا ہے ۔ علامہ اقبال ۱۹۳۶ء کے انتخابات میں پنجاب اسمبلی میں بطور امیدوار کھڑے ہوئے، ان انتخابات کے متعلق جاوید اقبال صاحب لکھتے ہیں۔’’جلسوں کاسلسلہ اکتوبر ۱۹۳۶ء سے شروع ہوا، ان جلسوں میں مولانا غلام مرشد اور ملک لا ل دین قیصر کے علاوہ جو معروف شخصیتیں تقریریں کیا کرتی یا نظمیں پڑھتی تھیں ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں مولانا محمد بخش مسلم، حفیظ جالندھری، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، مولانا عطاء شاہ بخاری، مولانا ظفر علی خاں ، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی اور مولانا مظہر علی اظہر رحمتہ اللہ علیہم۔ بڑے بڑے جلوس بھی نکلتے جن میں اقبال رحمتہ اللہ علیہ شامل ہوتے۔ ‘‘(زندہ رود، جلد: ۳،صفحہ: ۳۰۰)
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا مظہر علی اظہر رحمتہ اللہ علیہم کے ۱۹۳۶ء میں اقبال سے گہرے تعلقات تھے جبھی تو جاوید اقبال صاحب نے ان کا معروف شخصیتیں کہہ کر ذکر کیا ہے سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور علامہ اقبال دونوں شخصیتیں ایسی تھیں کہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق نہ ہو اور پھر جب اقبال خود بیٹھ کر بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی تقریر سنتے ہوں گے تو ان کا کیا احساس ہوتا ہوگا، اس امر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، بخاری کی عمر ان دنوں ۳۵۔۳۶ سال ہوگی اور اقبال کی ۵۰ سال۔
اب تھوڑا ساحال دوسری طرف کا سن لیجیے کہ جو لوگ آج اقبال کے مجاور بننے کے دعویدار ہیں وہ اقبال کی زندگی میں اقبال پر کفر کے فتوے لگاتے رہے ’’زندہ درود‘‘ کے صفحہ نمبر۳۰۳ پر جاوید اقبال رقم طراز ہیں:
’’ملک محمد دین کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے ’’زمیندار‘‘ نے ادارتی نوٹ لکھا کہ جن مسلمانوں نے ملک محمد دین کے حق میں اپنے ووٹ ڈالے ان میں دوہزار تو ناخواندہ ارائیں تھے جنھیں ’’بریلوی حنفیت‘‘ کا ہیضہ تھا اور جو ایک صنال مضل مقامی اخبار اور حزب الاحناف کے اسلام فروشانہ پروپیگنڈے سے متاثر ہوگئے‘‘۔
اب علامہ اقبال کے متعلق پورا لٹریچر پڑھ جایئے آپ کو سوائے اس حوالے کے یاجہاں سے یہ لیا گیا ہے اس کے سوا کہیں سے یہ پتہ نہیں چل سکے گا کہ بخاری واقبال کے کیا تعلقات تھے۔ آغا شورش کاشمیری نے ’’چٹان‘‘ کے مختلف شماروں میں ضرور روشنی ڈالی ہے کہ بخاری واقبال کی اکثر ملاقاتیں ہوتیں۔ بخاری اقبال کے پاس جاتے تو بخاری’’یامرشد‘‘کہ کر اپنی آمد کا اعلان کرتے۔ اقبا ل کہتے ’’آبھئی پیرا بہت دناں بعد آیاں ایں‘‘۔ اس کے بعد اقبال حقہ ہٹا دیتے، سیدھے ہو کر بیٹھ کر کلی کرتے بخاری سے قرآن کا رکوع سنتے، پھر بخاری کو اپنا کلام سناتے لیکن اس کے متعلق یہ کہہ دیا جائے گا کہ یہ تو احرار کے سالاروں میں سے تھے لیکن یہ بھول جائیں گے کہ ’’یوم اقبال‘‘ کو سج دھج سے منانے کی جو طرح آغا شورش کاشمیری نے ڈالی اور تاعمر جس آن بان شان اور کرّ و فر کے ساتھ وہ مرکزی مجلس اقبال کے سیکرٹری جنرل رہے اس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی کہ بخاری کے ایک والہ وشیدانے یوم اقبال‘‘ کو ہرسال منانے کو انتہا تک پہنچا دیا اور یہ تقریب لاہور میں اتنی مقبول ہوئی کہ اس کے علاوہ کسی اور تقریب میں وہ رونق اور وارفتگی نہیں ہوتی جو ’’یوم اقبال‘‘ میں ہوتی ہے اور آغا صاحب نے آمریت کے ادوار میں بھی حریت کی روح کو زندہ رکھنے کے لیے اس سٹیج سے کام لیا۔ مجھے یاد ہے کہ محمد ایوب خاں کے مارشل لاء کے اوئل میں ’’یوم اقبال‘‘ جناح ہال میں منایا گیا۔ اس کے مقررین میں جسٹس کیانی اور چودھری محمد علی بھی تھے۔ کیانی نے تو اپنے طنز ومزاح کے انداز میں مارشل لاء کی مخالفت کی کہ پہلے لوگ سبز باغ دکھاتے تھے آج کل کالا باغ دکھاتے ہیں، لیکن چودھری محمد علی مرحوم نے بڑے جذبے اور جرأت سے گفتگو کی، اس پر آغاشورش کاشمیری نے چودھری صاحب کو اپنے مخصوص انداز اور مترادف الفاظ میں جو خراجِ تحسین پیش کیا اور خود جس قلندری کا مظاہرہ کیا وہ آغا صاحب کی بے مثال جرأت اور شجاعت کی حیران کن مثال تھی کہ اس پر سمری عدالت قائم کرکے کوڑے بھی لگائے جاسکتے تھے اور انجام تختہ دار بھی ہوسکتا تھا۔ اس سٹیج پر بیٹھے ہوئے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل بختیار صاحب بار بار پہلو بدلتے تھے لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس جلسہ میں چیف جسٹس کیانی (غالباً) مہمان خصوصی یا صدر تھے ورنہ شاید دوران اجلاس گرفتاری عمل میں آجاتی۔ تو یہ احراری کردار تھا جو آغا صاحب کو ’’احرار‘‘ سے ملا تھا۔ اور یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ شورش جیسے نڈر اور بے باک شخص کی جگہ ’’احرار‘‘ ہی میں ہوسکتی تھی۔
اقبال نے احرار کے متعلق کہا تھا:
تاتوانی باجماعت یار باش
رونقِ ہنگامۂ احرار باش
بات اقبال و بخاری کی ہورہی تھی کہ ان کے تعلقات کا ثبوت ۱۹۳۶ء میں تو دستاویزی ہے اور اس سے پہلے یہ مراسم کب قائم ہوئے، اس کا اقبالیات کے ماہرین ہی بتاسکتے تھے لیکن وہ اس معاملے میں مہر بلب رہتے ہیں کہ کسی طرح یہ پتہ نہ چل جائے کہ مجلس احرار اسلام کے برصغیر کے ان چوٹی کے لیڈروں سے کیسے تعلقات تھے جو بعد میں سیاسی حالات و نظریات کی بناء پر ایک دوسرے سے دور ہوگئے اور قیام پاکستان کے بعد جدید محققین اور مؤرخین نے تو کمال ہی کردیا کہ ایک لگے بندھے منصوبے کے تحت آزادی پسند جماعتوں کو عوام سے روپوش کرنے کا بطورِ خاص اہتمام کیا لیکن قدرت کااپنا انتظام ہے، اللہ تعالیٰ نے مجلس احرار اسلام کے ایک شاعر جانباز سے ’’کاروانِ احرار‘‘ کی آٹھ جلدیں تحریر کروائیں جس میں برصغیر کی گذشتہ تمام تحریکوں کا حال پڑھا جاسکتا ہے او راسی جانباز نے کتاب ’’تحریک مسجد شہید گنج‘‘ لکھ کر تحریک شہید گنج کا پورا ملبہ کھد وادیا کہ وہ اس کے عینی گواہ تھے اور ایسے ہی ایک مسماۃ محترمہ روزینہ پروین صاحبہ سے ’’جمعیتہ علماء ہند کے خطبات مدون کروا کر حکومت کے ایک ادارے سے شائع کروادیئے اور اسی طرح جناب ایچ پی خاں صاحب نے ’’برصغیر پاک و ہند میں علماء کا کردار‘‘ نامی کتاب لکھی جو ’’قومی ادارہ برائے تحقیق تاریخ و ثقافت‘‘ اسلام آباد نے شائع کی۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مجلس احرار اسلام کے متعلق ایک اقتباس قارئیں کرام کے سامنے پیش کیا جائے۔
مجلس احرارِ اسلام اور کشمیری مسلمان:
’’مجلس احرارِ اسلام ۱۹۲۹ء میں قائم ہوئی تھی۔ احرار کی تاسیس اور تشکیل میں جن لوگوں نے حصہ لیا وہ زیادہ تر علماء تھے۔ الّایہ کہ بقول چودھری خلیق الزمان ، چودھری افضل حق ایک سابق پولیس ملازم تھے۔ مگر بہت ہی دیانت دار اور بڑی سمجھ بوجھ کے حامل تھے، اور ثانیاً غازی عبدالرحمن بھی علماء میں سے نہ تھے۔ باقی تمام موسسین حضرات میں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ ، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمتہ اللہ علیہ ، مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمتہ اللہ علیہ، مولانا ظفر علی خاں رحمتہ اللہ علیہ ، مولانا عبدالقادر قصوری رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ طبقہ علماء میں سے تھے۔ ان کے علاوہ بعد میں جو لوگ اس جماعت میں شریک ہوئے یا اس جماعت سے متعلق تھے ان میں زیادہ تر علماء ہی تھے، مثلاً مولانا غوث ہزاروی رحمتہ اللہ علیہ۔ اس جماعت کے شرکاء میں جو لوگ طبقہ علماء میں سے نہ تھے، ان کا عمل و کردار بھی صالح اور متدیّن تھا۔
’’اسی جذبۂ مساوات و اخوت نے احرار اسلام کو کشمیری مسلمانوں کی حالت زار کی طرف متوجہ کیا جو کشمیر میں اکثریتی فرقہ ہونے کے باوجود خستہ حالی اور پریشانی میں عسرت کی زندگی بسر کررہے تھے۔ انھیں اس مصیبت سے نجات دلانے کے لیے اکتوبر ۱۹۳۱ء میں احرار اسلام نے ڈوگرہ راج کے مظالم کے خلاف ایک تحریک شروع کی اور کشمیر میں داخل ہو کر مسلمانانِ کشمیر کے حقوق بحال کرانے کے لیے سول نافرمانی کی، اور اپنے ہزاروں رضا کار جیل میں پہنچادیئے۔ مجلس احرا را سلام کے روحِ رواں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ کو بھی اس تحریک میں زیرِ دفعہ ۱۲۴؍الف ایک سال کی قیدوبند برداشت کرنی پڑی۔ حسب بیان سابق اس جماعت کا قیام ۱۹۲۹ء میں ہوا تھا۔ مگر اس میں شریک علماء ودیگر حضرات ملکی سیاست میں تحریک خلافت اور جمعیت علماء ہند کی تشکیل کے بعد بھی اپنا سیاسی مسلک ، جمعیت علماء ہنددہلی کی مطابقت میں ہی رکھا ۔ نیز ملک کے سیاسی مفاد اور مسلمانانِ ہند کے سیاسی اور مذہبی حقوق کے پیش نظر کانگریس کے ساتھ بھی تعاون کیا ۔ لہٰذا کانگریس کے متعصب اور مہاسبھائی ذھنیتوں کے حامل افراد پر تنقید بھی کرتے رہے اور اپنے دین متین کی تبلیغ واشاعت کے لیے شعبہ تبلیغ بھی قائم کیا۔مجلس احرار اسلام نے بیک وقت مندرجہ ذیل امور انجام دیے یعنی سیاست ملکی، خدمتِ خلق، رضاکاروں کی تنظیم، ردِمرزائیت، مدح صحابہ رضی اللہ عنہم اور مسجد شہید گنج کی بحالی وغیرہ احرا ر اسلام نے مندرجہ بالا امور میں حتی المقدور کو شش کی، نیز اپنی مالی اور اقتصادی مشکلات کے باوجود جماعت کے مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے برابر کوشاں رہی‘‘
آپ نے مندرجہ بالا کتاب کا اقتباس پڑھا اس کے علاوہ بھی اس کتاب میں بہت کچھ ہے اور وہ اس کے نام سے ظاہر ہے جبکہ شروع میں صفحہ نمبر ۵۔۶ پر یہ درج ہے:
علماء کے طبقے یا علماء کی اقسام:
عام طورپر علماء کی دو قسمیں ہیں، یعنی علماءِ حق اور علماءِ سوء۔ علماءِ حق کا سب سے پہلا اور اہم کام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی بھلائی پھیلانا اور برائی سے روکنا ہے مگر علماءِ سوء جائز وناجائز کا خیال کیے بغیر ابن الوقتی کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔ یوں تو احادیث موجود ہیں جن میں سے ایک معروف حدیث یہ ہے کہ الْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاء یعنی علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں، اس ضمن کی ایک دوسری حدیث یہ ہے کہ اَفْضَلُ الْجِہَادِ کَلِمَۃُ حَقٍّ عنِْدَ سُلَطَانٍ جَاءِر یعنی سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ جابر ظالم سلطان (حکمران) کے سامنے بلا جھجک حق بات کہہ دی جائے۔
اور پھر اس ۴۰۸ صفحات پر مشتمل کتاب میں اس کی تفصیل ہے اختصاراً قطب الدین ایبک سے لے کر التمش کا ذکر کرتے ہوئے عہد، مغلیہ کے دور کو لیتے ہوئے ۱۹۴۰ء تک برصغیر میں علماء کے کردار کو بیان کیا گیا ہے۔
سچ کڑوا ہوتا ہے، برا لگتا ہے۔ سچ کہنے والوں کو د ار و ر سن سے گزرنا پڑتا ہے اور انقلاب زمانہ سے بعض دور ایسے بھی آتے ہیں کہ اس کو چھپایا جاتا ہے لیکن حق سچ چھپنے کے لیے نہیں آتا وہ ظاہر ہو کر رہتا ہے اور اس کی روشنی سے تاریک راہوں میں تحریکیں اپنی مشعل کے لیے تیل حاصل کرتی ہیں۔ آج کل نہ چاہتے ہوئے بھی اخبارات میں سید احمد شہید ، شاہ اسماعیل شہید ،تحریک ریشمی رومال، ابوالکلام آزاد اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا نام بار بار آتا ہے۔
اکبر اور جہانگیر کے مزار و قلعے سیروتفریح گاہ بنے ہوئے ہیں لیکن مجد دالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کا مزار زیارت گاہ خاص و عام ہے۔بقول اقبال:
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمئ احرار
احرار اسی قبیلہ سے تھے جیسے جیسے زمانہ گزرے گا ان کی یاد زیادہ آئے گی، تذکرہ نکھر کر سامنے آئے گا۔ اور ردِ مرزائیت ، تحفظ ختم نبوت میں تو اس کے کردار نے اس کو عالم اسلام کی اہم جماعتوں میں شامل کردیا ہے۔ یہ ایک علیحدہ مستقل موضوع ہے جس کا تذکرہ ان شاء اللہ پھر کسی فرصت میں کیا جائے گا۔
جاری ہے