مولانا حافظ عبدالرشید ارشد رحمۃ اﷲ علیہ آخری قسط
رات کو اے ڈی ایم ساہیول کی صدارت اور حضرت شاہ صاحب کی تقریر تھی۔ اے ڈی ایم کو میں پہلے سے جانتا تھا کہ اچھا مقرر ہے، اس نے شروع میں تقریر کی اور کہا کہ قدرت کے کام ہیں کہ آج مجھے ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا ہے کہ میں احرار کا شکریہ ادا کروں کہ انھوں نے دفاع کانفرنسیں کر کے ملک کو بیدار کیا اور خون کو گرمایا لیکن تقسیم سے قبل میں فاضلکا میں تحصیل دار تھا اور وہاں شاہ صاحب کی تقریر تھی، ڈی سی فیروز پور نے مجھے حکم دیا ہوا تھا کہ تمہارے شہر میں ایسا مقرر آرہا ہے کہ اس کی تقریر میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اگر وہ لوگوں کو کہے کہ دریا میں چلانگیں لگادو تو وہ اس پر عمل کریں گے اور اگر کہے کہ آگ میں کود جاؤ تو لوگ اس پر عمل کریں گے۔ جب تقریر اس نقطہ پر پہنچے تو تم نے تحریر بھیجنی ہے کہ تقریر ختم کردو، اگر ختم نہ کریں تو گرفتار کرنا ہے۔ ڈپٹی کمشنر انگریز تھا، میں حیران تھا کہ اس کی معلومات کس قدر ہیں۔ میں جلسہ گاہ میں گیا اور تقریر جب شباب پر پہنچی تو واقعی ایسا وقت آیا کہ میرے ضمیر اور نفس میں کشمکش شروع ہوگئی۔ ضمیر کہتا تھا کہ تقریر جاری رہنی چاہیے کہ ملک اور قوم کے مفاد میں ہے لیکن نفس کہتا تھا کہ اپنے حاکم کا حکم مانو ورنہ ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ کئی منٹ یہ کشمکش رہی بالآخر نفس غالب آیا کہ تونے ترقی کر کے نجانے کہاں تک جانا ہے اپنے افسر کی بات مانو۔ میں نے رقعہ بھیجا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا حکم ہے کہ تقریر بند کردیں اور جلسہ ختم کردیں۔ شاہ صاحب نے کہا پندرہ منٹ اور، میں نے کہا کہ نہیں۔ احرار کا فیصلہ تھا کہ حکومت سے ٹکرانے کا ابھی موقع نہیں ہے لہٰذا شاہ صاحب نے تقریر ختم کردی اور آج ڈپٹی کمشنر کا حکم ہے کہ شکریہ ادا کروں۔ اسی طرح قریباً آدھ گھنٹہ باتیں کر کے اے ڈی ایم بیٹھ گیا اور شاہ صاحب نے تقریر شروع کردی۔ میرا خیال ہے کہ حضرت شاہ صاحب کی یہ تقریر پاکستان میں سنی جانے والی تقریروں میں میرے لیے سب سے اہم تھی کہ اس میں خطابت کا وہ تمام شکوہ اور انداز موجود تھا کہ جس کی ہر کوئی تعریف کرتا تھا۔ اس تقریر میں زیادہ حصہ مرزائیت، سر ظفراﷲ خان اور لیاقت علی خان کا قتل تھا۔ آپ نے فرمایا کہ عدالت کی کرسی ہو اور فیصلہ میں نے کرنا ہو تو پھر میں تفصیل سے وہ تمام باتیں مدلل لکھ کر ثابت کروں کہ اس قتل میں اصل ہاتھ ظفر اﷲ کا ہے۔ اس لیے کہ احرار کی کوششوں سے وزیراعظم لیاقت علی خاں پر مرزائیوں کے تمام منصوبے اور عزائم منکشف ہوچکے تھے۔ آپ نے تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ یہ مرزائی وزیر خارجہ آج تک افغانستان کیوں نہیں گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت افغانستان نے دومرزائی مبلغوں کو عقیدۂ ختم نبوت کے انکار پر شرعی سزادی تھی۔ ہمارا وزیر خارجہ افغانستان کو اس کی سزا دے رہا ہے اور پاکستان اورافغانستان جو آپس میں بھائی ہیں ان کو اس نے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کردیا ہے اور فرمایاکہ افغانستان کے لوگ پاکستان کے خلاف اس طرح مشتعل ہیں گویا ہماری ان سے کفر و اسلام کی جنگ ہے اور یہاں شاہ صاحب نے سرسے ٹوپی اتاری بالوں کو جھٹکا دیا اورڈاڑھی کو منہ میں لیا اور کلہاڑی کو کندھے پر رکھا اور فرمایا کہ اس مرزائی کی وجہ سے افغانستان کے لوگ ہمارے خلاف اس طرح مشتعل بیٹھے ہیں اور یہاں پھر وہی شعر پڑھا جو شام کی مجلس میں پڑھا تھا اس وقت تو عام لہجہ میں تھا مگر اب یہ شعر پورے درد و سوز اور ترنم سے پڑھا۔ مجمع کی یہ حالت تھی کہ اگر سوئی گرے تو اس کی آواز آئے۔ ہر شخص اس المیہ کا درد اپنے جسم میں محسوس کررہا تھا۔
سردیوں کا آغاز تھا اور اس دن بارش بھی ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود فٹ بال گراؤنڈ لوگوں سے بھری ہوئی تھی حضرت شاہ صاحب کی یہ تقریر تقریباً تین گھنٹہ جاری رہی۔
آپ نے خطبہ مسنونہ کے بعد قرآن پاک کی آیت کریمہ واعدوالھم مااستطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ترھبون بہ عدو اﷲ وعدوکم وآخر ین من دونھم۔ پڑھ کر اس کا ترجمعہ اور تشریح کی واعد والھم ما استطعتم من قوۃ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں پوری قوت جمع کرو اپنی طاقت کی حد تک۔ جبکہ کسی اور فرض اور رکن کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ پوری قوت خرچ کرو لیکن جہاد کے متعلق یہ فرمایاتُرْھِبُوْنَ بِہٖ کے متعلق کہا کہ اس کا معنی ہے کہ ’’اونہاں نوں یرکادیو‘‘ ’’اوہ یرک جان۔‘‘ پھر فرمایا میں آپ کو بتاؤں کہ ’’یرکنے‘‘ کا مفہوم کیا ہے اور سوال کیا تم نے کبھی دو سانڈوں کو لڑتے دیکھا ہے؟ فرمایا: دونوں خوب زور آزمائی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو پیچھے ہٹ ہٹ کر ٹکریں مارتے ہیں بالآخر ایک میدان چھوڑ دیتا اور بھاگنا شروع کرتا ہے دوسرا اس کا تعاقب کرتا ہے بھاگنے والے کو ’’موک‘‘ (اسہال) لگ جاتی ہے اور وہ ہراہرا پتلا گوبر نکالتا مسلم لیگ کا جھنڈا بناتا ہوا سرپٹ بھاگتا ہے اسے کہتے ہیں ’’یرکنا‘‘ فرمایا:تُرْھِبُوْنَ بِہٖ کا ترجمعہ اردو میں یہ ہے کہ اتنی تیاری کرو کہ اﷲ کے دشمنوں پر تمہاری دھاک بیٹھ جائے۔ اس دھاک بیٹھنے کو پنجابی میں فرمایا ’’یرکادیو‘‘ اس کے بعد ہے وَآخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَاْ تَعْلَمُوْنَھُمْ اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ۔ اور دوسروں پر ان کے سوا جن کو تم نہیں جانتے اﷲ جانتا ہے۔ فرمایا کہ یہ ہمارے ملک کے ففتھ کالم ہیں اور سب سے بڑے ففتھ کالم مرزائی ہیں جن لوگوں نے اوکاڑہ کی یہ تقریر سنی ہے ان میں سے بہت سے زندہ ہوں گے وہ گواہی دیں گے کہ اس تقریر میں شاہ صاحب کی جوانی کی جھلک نظر آتی تھی۔ افسوس کہ شاہ صاحب کے زمانے میں ٹیپ ریکاڈر نہیں تھے اگر ہوتے تو آج لوگوں کو پتہ چلتا کہ خطابت کس کو کہتے ہیں اور شاہ صاحب کیسے خطیب تھے۔ آخر کوئی بات تو ہے کہ ابوالکلام آزاد ، محمد علی جوہر، بہادر یار جنگ ، جیسے یگانہ روز گار خطیبوں نے آپ کی خطابت کا اعتراف کیا۔
آج بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ بتاؤ شاہ صاحب کی تقریر کیسی تھی ان کو کیا بتایا جائے اور کیا مثال دی جائے میرا احساس ہے کہ دعوت وعزیمت میں ابولکلام ، قومی شاعری میں علامہ اقبال اور عوامی خطابت میں امیر شریعت رحمہ اﷲ کی مثال شاید اردو زبان میں کبھی پیدا ہو۔ جیسے شاہ صاحب خطیب تھے اس کے دس پندرہ فیصد کے قریب بھی کسی کو نہیں دیکھا۔
میں نے اپنے استاد حضرت مولانا عبداﷲ دھر م کوٹی رحمہ اﷲ سے پوچھا کہ شاہ صاحب کی جوانی کیسی تھی؟ آپ نے مختصر سا فقرہ کہا فرمایا: شاہ صاحب کی جوانی قہر تھی۔ (آپ کا فقرہ تھا ’’جوانی سی؟قہرسی!‘‘) پنجابی زبان کے مشہور واعظ حضرت مولانا عبدالعزیز ملسیانوی رحمہ اﷲ سے میں نے یہ سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ ابتدا میں قصبات میں بجلی نہیں ہوتی تھی، گیس لیمپ ہوتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب دورانِ تقریر جب سر سے ٹوپی اتار کر سر کو جنبش دیتے تھے توآپ کے بالوں کی حرکت کے ساتھ لوگوں کے دل حرکت کرتے تھے۔
گذشتہ سطور میں رازی صاحب ، آصفی صاحب کی شاہ صاحب سے ملاقات کا ذکر گذرا اس میں ہم میں سے کسی نے سوال کیا کہ حضرت سنا ہے آپ کی تقریر مسعود کھدرپوش نے ریکارڈ کی تھی، آپ نے فرمایا کہ ہاں میرے علم کے بغیر ایسا ہوا تھا۔ اس کی کچھ تفصیل سنائی، یہ مفصل قصہ مولانا مجاہد الحسینی کی زبانی میں نے سنا تھا۔ مظفر گڑھ میں ایسی ہی کوئی دفاع کانفرنس تھی اور مسعود کھدر پوش بحیثیت ڈی سی صدر تھے۔ مسعود مرحوم کسی غیر ملک سے اس زمانے کی ٹیپ ریکارڈ لائے تھے یہ ٹیپ مشین خاصی بڑی ہوتی تھی اور اس کامائیک لاؤڈ سپیکر کے ساتھ باندھنا پڑھتا تھا اس کی چرخی بھی (کیسٹ) خاصی بڑی ہوتی تھی۔ شاہ صاحب کے سٹیج پر تشریف لانے سے قبل مائک کے ساتھ ٹیپ ریکارڈر کا مائیک باندھ دیا گیا تھا۔ شاہ صاحب آئے تو پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ بتایا گیا کہ آپ کی تقریر ریکارڈ کریں گے۔ شاہ صاحب سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم میری تقریر کے ریکارڈ تیار کر کے ’’دینے قوال‘‘ کی طرح سنا کروگے۔ (دینا قوال اپنے زمانے کا بہت بڑا قوال تھا اور اس کی نظیر آج تک نہیں ہوئی) اسے اتارو۔ قیل وقال کا کوئی سوال نہ تھا فوراً وہ مائیک اتارلیا گیا اور شاہ صاحب کچھ دیر خاموش سوچتے رہے اور منتظمین نے ٹیپ کا مائیک ایک سپیکر کے ساتھ رکھ دیا اور مشین بھی اٹھا کر وہاں رکھ دی۔ شاہ صاحب کو اس کا علم نہ ہوا آپ نے اپنے مخصوص انداز میں خطبہ مسنونہ پڑھا اور تقریر کی۔ اگلے دن یہ طے ہوا کہ شاہ صاحب کو یہ تقریر سنائی جائے۔ نوابزادہ نصراﷲ خاں صاحب نے کہا کہ شاہ صاحب ذراسیر کر آئیں کار پر باہر نکلے تو ایک بڑی کوٹھی کے سامنے کار جار کی اور وہاں مسعود مرحوم استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ تم نے بہت برا کیا میں ساری زندگی کسی افسر کے مکان پر نہیں گیا لیکن مسعود صاحب سے پرانی شناسائی بھی تھی، انھوں نے بڑھ کر سلام کیا۔ شاہ صاحب کار سے اترے اور اندر ڈرائینگ روم میں جابیٹھے ۔ انھوں نے پہلے سے رات والی تقریر کا گھر میں سنا نے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ بیٹھے ہی تھے کہ اچانک ایک جانب سے لحن داؤدی میں الحمدﷲ کی ایک بلند آواز آئی۔ حضرت شاہ صاحب الحمدﷲ پڑھ کر کچھ دیر کے لیے خاموش رہ کر پھر دوسری دفعہ الحمدﷲ کے ساتھ نحمدہٗ پڑھنا شروع کرتے تھے۔ کاش صرف ’’الحمدﷲ‘‘ ہی (ریکارڈ) محفوظ ہوجاتا تو اس سے خطابت اور تلاوت کا اندازہ ہوتا۔ اب جب یہ آواز آئی تو آپ ایک دم اس طرف متوجہ ہوئے معلوم ہونے پر آواز کی جانب جا کر پاؤں پر بیٹھ کر دونوں ہتھلیاں رخساروں پر رکھ لیں اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور فرمایا کہ کلکتہ سے پشاور تک کروڑوں انسانوں نے میری بارہا تقریر یں سنی ہیں لیکن میں آج پہلی دفعہ اپنی آواز سن رہا ہوں۔ ظاہر ہے کہ سن کر خوشگوار حیرت ہوئی ہوگی اور کہا کہ میں نے محسوس کیا کچھ تھوڑا بہت بول لیتا ہوں۔
جب شاہ صاحب سے ہماری یہ گفتگو ہورہی تھی اب مجھے یاد نہیں مولانا سید عطاء المہیمن پاس بیٹھے تھے یا سید عطاء المؤمن ، کم عمر تھے وہ بھی پاس بیٹھے تھے۔
ایک دفعہ لاہور میں قطب الارشاد حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری رحمہ اﷲ تشریف لائے ہوئے تھے ان دنوں مسعود مرحوم لاہور تھے پھر پروگرام بنا کہ آج شاہ صاحب کی مجلسی گفتگو ریکارڈ کی جائے۔ چنانچہ طے ہوا کہ صبح کا ناشتہ ان کے ساتھ کیا جائے باہر نکلے کار پر بیٹھے لیکن تھوڑی دور جا کر فرمانے لگے کہ طبیعت رک رہی ہے جی نہیں چاہتا کہ اپنے شیخ کے پاس سے اٹھ کر کسی افسر یا دنیا دار کے پاس جایا جائے۔ کار واپس تشریف لے آئے اور وہ تقریر جو مظفر گڑھ میں ریکارڈ ہوئی تھی کسی خال خال شخص کو اس کا پتہ تھا۔ میں نے ایک دو دفعہ لاہور آنے پر مسعود مرحوم سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میرے پاس بہت سی ریلیں (ریکارڈنگ سپول) ہیں کسی دن تلاش کروں گا۔ پھر پتہ کیا تو فرمانے لگے کہ وہ گرمی سے جڑگئی ہیں۔ میں ۱۹۷۸ء میں انگلستان گیا تو وہاں بہت سے دوستوں نے کہا کہ وہ رِیل ان سے لواب تو ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کرلی ہے اسکو کسی صورت درست کرلیں گے اور ۸۳ء میں تو بہت اصرار سے دوستوں نے توجہ دلائی لیکن اسی دوران میں مسعود مرحوم کا انتقال ہوگیا۔ع
آں قدح بشکست وساقی نماند
اﷲ کو منظور نہیں تھا کہ امیرشریعت رحمتہ اﷲ علیہ کی تقریر عام ہو، اس طرح آج کل کے خطبا کا بھرم رہ گیا ورنہ کوئی کسی کو نہ پوچھتا۔ کس نمے پر سد کہ ’’بھیا کیستی‘‘
میری حضرت شاہ صاحب سے قدرے بے تکلفی تھی، میں نے ایک دن شاہ صاحب سے پوچھا کہ حضرت کبھی آپ نے ایسا بھی محسوس کیا کہ آپ تقریر کرنے میں بے بس ہیں؟ آپ نے فرمایا: کہ ہاں دودفعہ ایسی صورت حال پیش آئی۔ ایک دفعہ تو ایسا ہوا کہ الہ آباد میں جواہر لال نہر و کے والد موتی لال نہرو کی صدارت میں جلسہ تھا اور سائمن کمیشن آیا ہوا تھا۔ کانگریس نے اس کا بائیکاٹ کیا تھا اور اسی سلسلے کا جلسہ تھا۔ موتی لال کی تقریر پہلے تھی خالص سیاسی مسئلہ تھا سامعین میں ہندوزیادہ تھے موتی لال نے اس قدر مدلل اور مسکت تقریر کی کہ میں سوچ رہاتھا کہ اس کے بعد میں کیا کہ سکتا ہوں ۔ حیران تھا اور سرجھکائے بیٹھا تھا اور سوچ رہا تھا کہ لوگ کہیں گے مولوی کو دوتین تقریریں یاد تھیں وہ یہاں کرگیا اب کچھ پاس نہیں ہے کہ موتی لال نہرو نے یہ کہ کر تقریر ختم کی کہ اب میں آپ کے محبوب مقرر کے درمیان زیادہ دیر حائل نہیں رہنا چاہتا۔ اس پر میں نے سر اٹھایا دیکھا تو پنڈال کے آخری سرے پر کچھ رضاکاروں (والنٹیرز) نے سائمن کمیشن کی ارتھی (جنازہ) اٹھائی ہوئی ہے اور وہاں رکھ کر اسکو آگ لگانا تھی جو نہی میری اس پر نظر پڑی مجھے یہ شعر یاد آگیا۔
ہوئے مر کے تم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
بس میں نے بلند آواز سے یہ شعر پڑھا تو موتی لال نہر ونے اپنے زانوؤں پر دوہتڑ مارا اور کہا کہ شاہ صاحب آپ نے میری ساری تقریر کا بیڑا غرق کردیا (یاستیاناس) کردیا) بس پھر اﷲ دے اور بندہ لے ۔ موضوع یکسر پلٹ گیا تھا میں نے تین چار گھنٹہ تقریر کی۔
اور ایک واقعہ آگرہ کا ہے کہ بہت بڑا جلسہ تھا، پنڈال کے درمیان سٹیج تک جانے کا راستہ بنا ہوا تھا، میں وہاں سے گزر کر سٹیج کی جانب جارہا تھا اور ساتھ ساتھ لوگوں کے چہرے پڑھتا جارہا تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ لوگوں کے چہروں سے موضوع کا انتخاب کرتاہوں اور چہروں کو دیکھ کر بھانپ لیتا ہوں کہ کیا صورت حال ہے۔ ہر سوپچاس آدمیوں میں سے ایک کے پاس اخبار تھا، میں دیکھتا سوچتا آگے بڑھتارہا اور سٹیج پر پہنچ گیا۔ وہاں میز پر ’’انقلاب‘‘ اخبار کی ایک کاپی پڑی تھی جس میں میرے متعلق ایک بے سروپا جھوٹی بات لکھی ہوئی تھی کہ اس نے فلاں جگہ یہ تقریر کی (کہ گاندھی کا پیشاب کو ثروزمزم کے پانی سے پوتر ہے نعوذ باﷲ) بات ایسی تھی کہ کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، میں یہ اخبار پڑھ کر سوچنے لگا کہ میں پہل کروں یا مجمع پہل کرے کہ اتنے میں پنڈال کے آخر میں سے ایک شخص نے مجھے گالی دے کر کہا کہ اس کی داڑھی پکڑو اور سٹیج سے اتاردو میرے منہ سے بے ختیار نکلا۔ ’’شرابی ہے بکواس کرتا ہے‘‘ لوگوں نے اس کا منہ سونگھا تو شراب کی بو آرہی تھی بس پھر کیا تھا اس کی پٹائی ہوئی اور بخاری زندہ باد کے نعرے لگے اور میں نے گھنٹوں تقریر کی۔ قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ شاہ صاحب اپنے متعلق اس قسم کی باتیں کرنے یا سنانے کے عادی نہ تھے اور نہ ہی کبھی بعد از تقریر کسی سے پوچھتے کہ سناؤ کیسی تقریر رہی اور نہ ہی کسی کو یہ جرأت ہوتی تھی کہ تقریر کی تعریف کرے جیسا آج کل کا معمول ہوچلا ہے۔ یہ تو میری بے تکلفی یایوں کہیے کہ اس طرح کی باتوں میں دلچسپی دیکھ کر بات سنادی۔ میر اخیال ہے کہ یہ دونوں واقعات یا پہلا واقعہ آغاشورش مرحوم کی کتاب میں بھی موجود ہے۔
اسی طرح میں نے ایک دفعہ پوچھا کہ حضرت کوئی بزرگ یا رہنما ایسے بھی تھے کہ جہاں آپ اپنے آپ کو محسوس کرتے ہوں کہ یہاں بات کرنا مشکل ہے، فرمایا وہاں دو جگہیں ایسی تھیں، ایک جگہ تو دو تین دفعہ ہی جانا ہوا دوسری جگہ البتہ بارہا گیا بارہا اکٹھے خطاب کیا، تاہم ایک رعب اور حجاب رہا۔ میں نے عرض کیا یہ کون حضرات تھے، فرمایا ایک حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ اور دوسرے مولانا ابوالکلام آزاد رحمتہ اﷲ علیہ ۔
حضرت تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ والا واقعہ میں نے بالتفصیل اپنے استاد حضرت مولانا خیر محمد جالندھری رحمتہ اﷲ علیہ سے بھی سنا تھا وہ یہ کہ جب علامہ انور شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کا انتقال ہوگیا تو احساس ہوا کہ کوئی اور جگہ ہونی چاہیے کہ جہاں جا کر دعا کرائی جائے۔ ان دنوں قادیان میں احرار تبلیغ کانفرنس والی تقریر پر مقدمہ چل رہا تھا اوار سنگین نوعیت کی دفعات کے تحت کیس قائم ہوا تھا۔ شاہ صاحب حضرت مولانا خیر محمد صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کے پاس جالندھر گئے اورکہا کہ تھانہ بھون جانا ہے، انھوں نے کہا کہ ہمارایہ قاعدہ ہے کہ جانے سے پہلے اطلاع دیتے ہیں اور ویسے بھی میں چند دنوں پہلے حاضری دے کر آیا ہوں۔ شاہ صاحب نے کہا کہ نہیں میرے ساتھ چلیں چنانچہ دونوں حضرات نے تھانہ بھون جانے کا قصد کیا۔سہارنپور جا کر شاہ صاحب نے پوچھا کہ حضرت تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ کھانے کی کونسی چیز پسند کرتے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ سنگترے مرغوب ہیں چنانچہ ایک ٹوکری سنگتروں کی لے لی۔ سہارنپور کے احباب نے رات واپسی پر تقریر کا وعدہ لے لیا اب جب تھانہ بھون جانے والی گاڑی پر بیٹھے تو شاہ صاحب نے فرمایا کہ میرا تو دل گھبرا رہا ہے واپس ہوجائیں مولانا نے کہا کہ اتنی دور سے مجھے لائے ہیں اب چلنا چاہیے۔ تھانہ بھون پہنچے تو حضرت گھر جا چکے تھے۔ مولانا، حضرت کو اطلاع دینے گھر گئے اور حضرت تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ تشریف لے آئے اور ساتھ اپنے کمرے میں لے گئے شاہ صاحب دوزانو بیٹھ گئے۔ حضرت تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ شاہ صاحب بے تکلفی سے بیٹھیں اس طرح تادیر بیٹھنا آپ کے لیے مشکل ہوگا کہ کوئی تکلف یا حجاب کی بات نہیں ہے ۔ دیکھئے میں ٹوپی پہن کر آیا ہوں پگڑی نہیں اور پھر آتے ہی چارپائی پر لیٹ گیا ہوں تاکہ بے تکلفی کا ماحول پیدا ہو۔ چند منٹ اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئیں اورپھر شاہ صاحب نے کچھ اشعار سنائے اور دعا کی درخواست کی۔ حضرت تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ نے پوچھا کہ آپ کی جماعت کا چندہ کتنا ہے آ پ نے کہا کہ ایک روپیہ سالانہ حضرت تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ نے غالباً ۲۵ روپے نکال کر دیے اور کہا اتنی دیر کے لیے تو ممبر سمجھئے اور اس کے بعد زندہ رہا تو پھر سہی اور فرمایا کہ خط وکتابت رکھیے لیکن اس کے لیے اپنا مرموزنام بتایا اور شاہ صاحب کو بھی فرمایا کہ آپ اس نام سے خط لکھا کریں۔ فرمایا اپنا اپنا کام کرنے کا انداز ہے، ہم دونوں ایک ہی کام کررہے ہیں۔ اس کے بعد شاہ صاحب نے فرمایا کہ حضرت !حضرت تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ سمجھ گئے اور فرمایا کہ ہاں شاہ جی آپ میرے لیے کیا لائے ہیں، شاہ جی نے بتایا تو حضرت تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ آپ تشریف رکھیں میں کسی کو بھیج کر منگواتاہوں۔ ایک دو دفعہ کے اصرار وانکار کے بعد حضرت تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ اچھا آپ ہی لائیں۔ میں نے سنا ہے کہ آپ بہت بڑے خطیب ہیں میں آپ کی چال سے پہچانوں گا۔ اب شاہ صاحب اپنی چال بھول گئے۔ پاؤں رکھتے کہیں ہیں اور پڑتا کہیں ہے بہر حال ٹوکری لائے اور لا کر کھڑے سوچتے ہیں کہ کہاں رکھوں۔ حضرت تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ خاموش ہیں آپ نے پائنیتی کی جانب رکھدی تو حضرت تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ نے فرمایا اوہوشاہ صاحب یہ تو سر پر رکھنے کی چیز تھی، حضرت مولانا خیر محمد رحمتہ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ اس کے بعد کسی ایک موقع پر جب شاہ صاحب کا ذکرچھڑا تو حضرت تھانوی نے فرمایا کہ: ’’ان کی باتیں تو عطاء اللّہی ہوتی ہیں‘‘۔یہاں ضمناً ایک بات ذکر کرتا چلوں کہ حضرت شاہ صاحب بزرگوں کا بہت ادب کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جب کسی اﷲ والے کے پاس جاؤ تو کچھ نہ کچھ ہدیہ ضرور لے کر جاؤ۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے متعلق میں نے تفصیل نہیں پوچھی، آغاشورش نے ’’چٹان‘‘ میں لکھا تھا کہ ایک دفعہ شاہ صاحب مولانا آزاد کی قیام گاہ پر حاضر ہوئے تو مولانا باہر کھڑے تھے اور کہیں جانے کی تیاری تھی لیکن کار میں کوئی خرابی پیدا ہوگئی تھی۔ مولانا جب کسی عجلت میں ہوتے تھے تو ان کے کندھے جنبش کیا کرتے تھے۔ علیک سلیک کے بعد فرمایا کہ میرے بھائی اس کم بخت کو اسی وقت خراب ہونا تھا تو شاہ صاحب نے فرمایا کہ حضرت میرے کندھے حاضر ہیں،تو مولانا نے فرمایا کہ میرے بھائی ان پرتو پہلے ہی بہت بوجھ ہے۔
ایک دفعہ کانگریس کی عاملہ کا اجلاس ہورہا تھا کہ شاہ صاحب مولانا آزاد سے ملنے گئے، اندر چٹ بھیجی تو مولانا باہر تشریف لے آئے، شاہ صاحب صوفے پر بیٹھے تھے اٹھ کھڑے ہوئے، مصافحہ ہوا اور شاہ صاحب قالین پر بیٹھنے لگے تو مولانا نے ہاتھ پکڑا، شاہ صاحب نے ابھی اتنا ہی کہا کہ حضرت (یعنی میں قدموں میں بیٹھوں گا) تو مولانا نے فرمایا کہ ’’میرے بھائی! وہ بات تو ہوگئی‘‘ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔
یہ مضمون لکھ رہا تھا کہ میرے تایازاد بھائی کا فون آیا جو علیگ ہیں اور کٹر مسلم لیگی، پوچھا کیا کررہے ہو؟ میں نے بتایا کہ شاہ صاحب پرمضمون لکھ رہا ہوں تو انھوں نے بتایا کہ میں نے آپ کی دو تقریریں سنی ہیں ایک ۱۹۳۷ء کے الیکشن میں گاؤں میں اور یہ غالباً اسی سن کی بات ہے جب میں نے ان کی پہلی تقریر سنی۔ میری پیدائش ۱۹۳۲ء کی ہے اور ایک ’’نکودر‘‘ وہ نکودر ہائی سکول میں پڑھتے تھے۔ اس کا میں نے بھی ذکر کیا ہے، انھوں نے کہا کہ آپ کا قرآن مجید پڑھنا ایسا تھا کہ ہندو تک مسحور ہوجاتے تھے اور پھر نکودر میں جو تقریر کی اس میں انگریز کے مظالم کا ذکر کیا تو سارا مجمع ہندو مسلم دھاڑیں مار مار کر رورہا تھا۔
مضمون طویل ہوگیا لیکن ایک دو باتیں مزید سنیے مولانا حبیب اﷲ فاضل رشیدی رحمتہ اﷲ علیہ ناظم جامعہ رشیدیہ کی روایت ہے کہ لاہور میں جمعیۃ علماء ہند کا جلسہ تھا اور احرار رضاکار سرخ وردیاں پہنے جلسہ گاہ میں بطور حفاظت موجود تھے کہ جمعیت کے ایک بزرگ (مولانا مفتی محمد نعیم رحمتہ اﷲ علیہ) نے حضرت مدنی سے فرمایا کہ یہ لوگ سرخ قمیصیں پہنے پھر رہے ہیں۔ لوگ کہیں گے کہ احرار نے جلسہ کروایا۔ جمعیت جلسہ نہیں کرسکتی تھی۔ حضرت ساتھیوں کی رائے کا بہت احترام کرتے تھے فرمایا کہ میں شاہ صاحب کو کہے دیتا ہوں۔ چنانچہ حضرت مدنی رحمتہ اﷲ علیہ نے شاہ صاحب سے فرمایا کہ رضاکاروں سے کہ دیں کہ وہ وردی اتادیں۔ شاہ صاحب جانتے تھے کہ حضرت سے کسی نے کہا ہے ورنہ آپ از خود ایسی بات نہیں فرماسکتے تاہم ادب ملحوظ رکھتے ہوئے دل پر جبر کر کے رضاکاروں سے کہا کہ وردیاں اتاردو۔ اس کے بعد جلسہ شروع ہوگیا۔ حضرت مدنی رحمتہ اﷲ علیہ کا خطبہ صدارت تھا آپ مائیک پر آئے ہی تھے کہ مسلم لیگی نوجوانوں کا ایک جم غفیر سٹیج کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔ اس پر حضرت شاہ صاحب نے فراستاً مفتی صاحب سے کہا کہ جلسہ کا انتظام سنبھالیے اب وہ ٹُکر ٹُکر دیکھ رہے ہیں اور پریشان ہیں ۔ تب حضرت شاہ صاحب اٹھے اور حضرت مدنی رحمتہ اﷲ علیہ سے کہا کہ آپ تشریف رکھیں اور خود کھڑے ہو کر گرجدار آواز میں کہا کہ تمام احرار رضاکار اپنے فرائض سرانجام دینے کے لیے تیار ہوجائیں۔ پھر کہا کہ کوئی رضاکار جلسہ کے اردگرد نظر نہ آئے، تیسری بات یہ کہی کہ جو عنصر شرارتی ہے ان کو میں تنبیہ کرتا ہوں کہ جہاں کھڑا ہے وہاں بیٹھ جائے ورنہ میں اپنے رضاکاروں کو بزن کا حکم دونگا۔ کچھ لوگ آگے بڑھتے رہے اور باقی بیٹھ گئے یاسراسیمہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے اب جب کچھ لوگوں کو شاہ صاحب نے کھڑے دیکھا تو احرار رضاکاروں سے کہا کہ اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ بس پھر کیا تھاچار پانچ منٹ میں سب لوگوں کی پٹائی ہوگئی۔ فاضل رشید ی فرماتے تھے کہ شرارتی لوگوں کو بھاگنے کا راستہ نہ ملا اور کئی ایک افراد کو موچی دروازے کے ساتھ گندے نالے میں گرپڑنے پر نکالا گیا۔ جن لوگوں کو نکالا گیا ان میں مشہور سیاسی رہنما مولانا عبدالباری بھی تھے جوان دنوں نوجوان تھے اور قیادت کرنے والوں میں سے تھے۔ حضرت شاہ صاحب اور رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن کی وجہ سے احرار رضاکاروں کی ایسی تربیت اور انتظام تھا کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ۱۹۴۰ء سے پہلے لاہور میں جناح صاحب کی ایک تقریر ان کی درخواست پر احرار رضاکاروں نے اپنی حفاظت میں کرائی جبکہ سر فضل حسین وغیرہ جلسے میں گڑ بڑ کرانا چاہتے تھے۔ اسی تنظیم اور مقبولیت کی وجہ تھی کہ سرفضل حسین نے مسجد شہید گنج (۱۹۳۵ء) کا ملبہ احرار پر گرایا۔
حضرت شاہ صاحب مشکل سے مشکل مسئلہ عام دیہاتیوں اور پڑھے لکھے لوگوں کو اس طرح سمجھا دیتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ایک دفعہ معراج پر تقریر کررہے تھے کہ لمحہ بھر میں سب کچھ کیسے ہوگیا۔ مختلف توجہیات و
تشریحات کرتے رہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کائنات کی روح تھے جب اس روح نے مرکز کی جانب سفر شروع کیا تو ہر چیز اپنی جگہ رک گئی ، تھم گئی پھر دیکھا کچھ ان پڑھ دیہاتی لوگ سمجھ نہیں رہے تو فرمایا:
ترے لونگ دا پیا لشکارا تے ہالیاں نے ہل ڈک لئے
(محبوبہ کے لونگ کی چمک پڑی تو ہل چلانے والوں کے ہاتھ ہل چلانے سے رک گئے) اور مسئلہ نظری کی بجائے بد یہی بن گیا اور روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا۔ کوئی تو بات تھی کہ آغا شورش مرحوم جیسا خطیب اکثر دوران تقریر رندھی ہوئی آواز میں آپ کا ذکر کرتا تھا۔ آغا مرحوم لاہور موچی دروازہ ہی میں ایک بہت بڑی اہل حدیث کانفرنس جو خاص پس منظر میں منعقد ہوئی تھی تقریر کررہے تھے کہ شاہ جی یاد آگئے بے اختیار پنجابی میں کہا کہ عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ، کتھے یاد آگیوں اج تری بڑی لوڑسی۔ ترا ایک کالا کوا موچی دروازے میں کائیں کائیں کررہا ہے۔
’’جنگ‘‘ راولپنڈی میں ایک عالم حافظ ریاض احمد اشرفی مرحوم کام کیا کرتے تھے۔ میں ان کی زندگی میں جب بھی پنڈی جاتا تو ان سے ضرور ملتا۔ بہت بڑے عالم خطیب تھے میرا خیال ہے کہ اگر وہ خطابت کو ہمہ وقت اختیار کرتے تو شاید حضرت شاہ صاحب کی خطابت کا کچھ اندازہ ہوسکتا۔ انھوں نے ایک دفعہ کہا کہ میں ایک دفعہ غلام احمد پرویز کی تقریر سننے گیا۔ پرویز صاحب نے بڑا رو رو کر تقریر کی، میں بہت متاثر ہوا اور حضرت شاہ صاحب سے ذکر کیا تو حضرت شاہ صاحب نے فوراً فرمایا:
’’جا او حافظا! صرف رون تو متاثر ہوگیاایں اور پھر لحن داؤدی میں قرآن پاک کی یہ آیت پڑھی وجاؤااباھم عشاء یبکون۔ یوسف کے بھائی (اس کو کنوئیں میں گراکر) رات کو روتے ہوئے اپنے باپ کے پاس آئے‘‘
حافظ صاحب کہتے تھے کہ حضرت شاہ صاحب کا یہ آیت پڑھنا تھا کہ میرا دل آئینے کی طرح صاف ہوگیا اور پرویز کی باتوں کا ذرابھی اثر نہ رہا۔
پکار وادیٔ خاموش سے خدا کے لیے ترس گئے ہیں تری دل کشا صدا کے لیے
حضرت شاہ صاحب جیسا عاشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں نے کیا کسی نے بھی نہیں دیکھا ہوگا۔ فالج ہوچکا ہے، جسم کی توانائی ختم ہوچکی ہے، زبان ساتھ نہیں دیتی پھر بھی راولپنڈی میں (۱۹۵۶ء) مولانا غلام اﷲ خاں رحمتہ اﷲ علیہ کے جلسہ میں ختم نبوت کے موضوع پر تقریر کی۔ یہ تقریر بوجوہ ضائع ہوگئی یا کردی گئی البتہ اس کا سات آٹھ منٹ کا حصہ باقی محفوظ رہ گیا ہے اکثر لوگوں کے پاس ہے میں نے برطانیہ لے جا کراس کو تھوڑا صاف کرایا لیکن پھر بھی ضعف زبان کی وجہ سے بمشکل سمجھ آتی ہے اور وہ جتنی بھی ہے بوڑھے شیر کی ایسی للکار ہے کہ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شخصیت جب صحت مند ہوگی۔ تو کیا قیامت ہوگی۔ ختم نبوت کا مسئلہ گو ۱۹۷۴ء میں حل ہوگیا لیکن اس کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں امیر شریعت کا سب سے زیادہ کردار ہے۔ آپ نے عوام و خواص میں مرزائیت کو گالی بنادیا۔ آخری عمر میں آپ کو سوائے ختم نبوت کے کچھ کام نہیں تھا، کچھ یاد نہ تھا۔ حتی کہ آپ نے انتہائی ضعف کی حالت میں چارپائی پر لیٹے لیٹے اس مشن کی خاطر تقریریں کیں اور کون کہتا ہے کہ سید بخاری رحمتہ اﷲ علیہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یہ انھی کی لگائی ہوئی آگ تھی کہ جس میں انگریز کا یہ خود کاشتہ پودا خشک ہو کر جل گیا۔ آپ کے دومشن تھے، ہندوستان کی آزادی او رمرزائیت کا خاتمہ، الحمدﷲ ایک آپ کی زندگی میں پورا ہوگیا اور دوسرے کے متعلق فرمایا کہ میں نے ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں ٹائم بم رکھ دیا ہے جو اپنے وقت پر پھٹا اور اس نے مرزائیت کے قلعہ میں شکاف کردیے۔
مجھے بارہا یہ خیال آیا کہ اگر سید بخاری رحمتہ اﷲ علیہ مکہ معظمہ حاضر ہوتا اور کعبہ کو دیکھتا تو اس کی کیا کیفیت ہوتی اور اس کے بعد مدینۃ الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم روضتہ اطہر پر حاضری ہوتی تو اس سید زادے کی کیفیت دیدنی ہوتی ۔ آپ حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ کے قطعہ کو وہاں جا کر پـڑھتے اور درود وسلام کا ہدیہ پیش کرتے تو دَر ود یوار و جد میں آجاتے اور شاید یہ سید وہیں اپنی جان اپنے نانا صلی اﷲ علیہ وسلم پر نچھاور کردیتا لیکن آپ کے پاس پوری زندگی میں کبھی اتنی رقم نہیں آئی کہ آپ پر زکوٰۃ فرض ہوتی، حج کا سفر تو دور کی بات ہے۔ یاد آیا، ابھی اگلے روز میں جناب احمد ندیم قاسمی کے ہاں گیا تو وہاں مولانا گرامی رحمتہ اﷲ علیہ کا دیوان رکھا تھا۔ میں نے اسے دیکھنا شروع کیا کہ معاً شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ کی شان میں کہی گئی رباعی سامنے آگئی، دیکھئے کتنی برمحل ہے۔
شیخ اکمل آں بخاری مردِ راہ حضرت سید عطاء اﷲ شاہ
بخودِ آں نازشِ فقرم کہ چید میوۂ قُربِ حضور از شاخِ آہ!
میں نے آپ کی آخری زیارت مولانا محمد اکرم کی کوٹھی (ماڈل ٹاؤن لاہور) پر کی اس دن آپ کے استاد حضرت مفتی محمد حسن رحمتہ اﷲ علیہ کی کراچی میں وفات ہوئی تھی۔جناب شیخ حسام الدین مرحوم نے آپ کو یہ خبر سنائی، اس کو سن کر آپ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگے لیکن آواز نہیں نکلی تھی۔ آپ کا جسم ایسا کسرتی اور اعصاب اتنے مضبوط تھے کہ شاید وباید لیکن حساس بہت تھے او رپھر اپنے جسم وجاں سے اتنا کام لیا کہ اس کو دیکھ کر شیروں کا پتا پانی ہوجائے، ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اگر آپ اپنے جسم سے اتنا کام نہ لیتے تو آپ کے اعضاب اتنے مضبوط تھے کہ سو سال سے زیادہ تک جیتے۔ لیکن بات تو وہی ہے جو آپ سے مولانا آزاد نے کہی ۔ شاہ صاحب نے مولانا سے کہا کہ میری عمر بھی آپ کو لگ جائے یا مل جائے تو مولانا نے فرمایا: میرے بھائی ! تھوڑی ہو مگر قرینے کی۔ ’’سو آپ نے اپنی زندگی ایک مشن میں بِتادی۔ ۲۱؍اگست ۱۹۶۱ء کو ملتان میں آپ کی وفات ہوئی۔
ایمرسن کالج گراؤنڈ نے ایسا کثیر اجتماع کسی جنازے میں کاہے کو دیکھا ہوگا۔ آپ کے فرزند ِاکبر مولانا سید ابوذر بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اگر آپ کا جنازہ لاہور ہوتا تو اگلے پچھلے سارے ریکارڈ ٹوٹ جاتے ۔ گوجرانوالہ ، سیالکوٹ، فیصل آباد شیخوپورہ اور لاہور سے اتنے لوگ اکٹھے ہوتے کہ دنیا دیکھتی۔
نہ تخت وتاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
رات کو ملتان قاسم باغ میں جلسہ ہوا۔ تمام احرارا کا بر نے تقاریر کیں اور مولانا مظہر علی اظہر نے رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ ’’امیر شریعت‘‘ نے اس دنیا سے جاتے ہوئے ہم سب کو ایک دفعہ پھر اکٹھے کردیا ہے، یہ ان کی بعد از مرگ کرامت ہے‘‘
مجلس احرار اسلام کے قائدین اور عوام سبھی مخلص تھے، دو ایک جو جدا بھی ہوئے تو انھوں نے مجلس یاباقی حضرات کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں کہی جو دیانت امانت اور اخلاص یا نظریہ پر حملہ ہو۔ جانبین میں برابر احترام رہا۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے متعلق علامہ اقبال نے کہا ہے:
وہی ہے بندۂ حر جس کی ضرب ہے کاری نہ وہ کہ حرب ہے جس کی تمام عیاری
ازل سے فطرت احرار میں ہیں دوش بدوش قلندری و قبا پوشی و کلہ داری
زمانہ لے کے جسے آفتاب کرتا ہے انھیں کی خاک میں پوشیدہ ہے وہ چنگاری
وجود انھیں کا طواف بتاں سے ہے آزاد یہ تیرے مومن و کافر تمام زناّری