ابن امیر شریعت سید عطاء المحسن بخاری رحمہ الله عليہ
اسلام امن و سلامتی کا ہی نام ہے اسلام کے ہر عمل سے سلامتی پیدا ہوتی اور امن پھیلتا ہے ہر باشعور آدمی غور و فکر کی نعمت سے اس حقیقت کو پاسکتا ہے ۔ نبی کریم ا کی آمد سے قبل انسانوں کے اعمال جس برائی ، خباثت اور شیطنت سے آشنا ہو چکے تھے اسلام نے انہی اعمال کو اسوۂ حسنہ میں پابند کرکے محبت، آدمیت ، امن ، سلامتی اور عا فیت پیدا کردی ۔ غور فرمائیے قبائل کے سردار اور ان کے ساتھی کھاناکھارہے ہیں ہمہ قسم نعمت ان کے سامنے چن دی گئی ہے مگر کیا مجال کہ غلام اس کی طرف دیکھ بھی جائے۔ روساء و بزرجمہر کھا پی کے فارغ ہوں گے ۔ تو بچا کھچا ان کے منہ میں بھی پہنچ جائے گا جو غلام ہونے کا طعنہ سینے پر سجائے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں ۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے آکر مکارم اخلاق پیدا کئے ۔اسی معاشرے میں غلام کو آقا کے برابراور فقیر کو امیر جیسا کردیا۔ من و تو کی تمیز ختم کردی۔ معاشرے میں حسن پیدا کیا ۔ جو نہ کلیوں میں نہ غنچوں میں‘ نہ پھولوں میں نہ بہاروں میں ہے ۔دنیا کے کسی نظام میں بھی یہ حسن و خوبی‘ یہ برابری وبرادری نہیں ہے ۔دنیا ئے فکر میں انقلاب بپا کیجئے اور چودہ سو برس کی الٹی زقند لگائیے۔ چشم خرد کھولیے اور ملاحظہ کیجئے کہ مولائے کائنات سیدنا محمد رسول اﷲ ا اور حضرت بلال رضی اﷲ عنہ لکڑی کے ایک پیالے میں لقمے لگا لگا کر کھارہے ہیں ۔ غلام آقا کے رو برو ہے نظر و توجہ کی نعمتوں سے بھی مالا مال ہو رہا ہے اور معاش و معاد کے لمحے بھی سنواررہا ہے ۔ جی ہاں یہ وہی بلال ہے جسے کفارِ مکہ کا جمہوری نظام او ر جمہوری گماشتے اپنے برابردیکھنا نہیں چاہتے تھے اور اسے غلام ہی مارنا چاہتے تھے ، اسی طرح قربانی کا عمل بھی معاشرے میں امن و سلامتی اور بلندی پیدا کرتا ہے ۔
قربانی تو زمانہ ء جاہلیت میں بھی امن و سلامتی اور سفر کے خطرات سے بچاتی تھی۔ عرب کا معمول تھا کوئی شخص اگر حج کے لیے آمادہ سفر ہے تو اسے اپنے قربانی کے جانوروں کے گلے میں پٹے ڈال کر ساتھ رکھنا پڑتا ۔ اور یہ قربانی کا پٹہ ہی راستے کے خطرات و مشکلات کے بچنے کی علامت ہوتا۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ ایسا مسافر اپنے سازو سامان سمیت منزل مراد پر پہنچ جاتا۔ حج کرتا ،قربانی دیتااور رضاء الہی کی نعمتیں سمیٹتا واپس لوٹ جاتا۔ قربانی کے اس جانور کو ھَدی کہا جاتاہے۔ ویسے عربوں میں یہ دستور تھاکہ دین ابراہیمی کے مطابق وہ چار مہینوں کا بہت احترام کرتے یعنی رجب ، ذی قعد، ذی الحج ، اور محرم…… یہ مہینے پر امن اور عافیت و سلامتی کے مہینے تھے قرآن کریم نے بھی ان مہینوں کے باعزت و باوقار ہونے کا ذکر فرمایا ہے مِنھا اربعۃٌ حُرم ان میں سے چار بہت معزز ہیں(سورۃ التوبہ)۔
انہی چارماہ کے اعزازو اکرام میں عرب اپنی جاہلیت کی عادتیں‘ لڑائی جھگڑے ختم کردیتے تھے۔ ذی الحجہ کا مہینہ بھی انہی مکرم و محترم مہینوں کا حصہ ہے ۔ جس میں قربانی‘ حج اور عبادات اس کا جزو لاینفک ہے ۔ اس لیے بھی یہ امن و امان اور عافیت و سلامتی کا پیغام سرمدی ہے ۔امن عامہ کی نوید الٰہی ہے ۔ مگر ہمارے معاشرہ میں چونکہ اسلام کو ثانوی حیثیت دیدی گئی ہے اور جمہوریت کو پہلی پوزیشن، اس لیے موجودہ معاشرے پر پھٹکار پڑرہی ہے ۔عرب جہلا تو پٹے والے قربانی کے جانوروں کی لوٹ مار نہیں کرتے تھے ۔ ’’یہ جمہوریت زادے ‘‘اور ’’روشن خیال ‘‘ وہ بھی نہیں چھوڑتے ۔ اس عمل خبیث میں یہ اُن سے بھی آگے نکل گئے ۔ لوگوں نے مہندی ، جھانجر، زنجیر اور پٹے قربانی کی تمام نشانیوں سے اپنے قربانی کے جانوروں کو مرصع کیاہوتا ہے، مگر یہ فرزندانِ ناہموار اسے بھی چوری کرنے سے باز نہیں آتے۔ اگر ’’لبرل اسلام‘‘ کے ماننے والے منافقین اپنے رویے تبدیل کرکے حقیقی اسلام کے پیروکار بن جائیں یعنی مکمل مومن بن جائیں تو امت کو یہ روز سیاہ دیکھنا نصیب نہ ہو! اس پر مستزادیہ کہ ان چوروں اور حرام خوروں کو پاکستان کی رسوائے زمانہ تعزیرات سزا نہیں دیتی بلکہ ’’لبرل اسلام‘‘ کی نمائندہ کمیونٹی جو حدود اﷲ کو ’’وحشیانہ ‘‘ سزائیں کہتی ہے وہ وحشی اور جنگلی بھی اس درندگی پر بہت پریشان ہیں مگر امن قائم نہیں کرسکے ۔ جو دن بھی طلوع ہوتا ہے ،وہ فسق و فجور کی تماز ت بڑھادیتا ہے ۔ خود کو ترقی یافتہ کہنے والے یورپ کے اندھے مقلد پاکستان میں خیر پیدا نہیں کرسکے، پاکستان کی سیکو لر سیاسی قوتیں ‘شر ، فتنہ و فساد اور تباہی کی نمائندگی کرتی، اسے پھیلاتی اور حکومت کرتی ہیں ۔ یہ چار پانچ فیصد جو امن کے روح پرور مناظر دیکھنے میں آتے ہیں ۔یہ صرف ان دینی اعمال کی وجہ سے ہیں جو مسلمان انفرادی اور ذاتی ذوق کی بنیاد پر کرتے ہیں ورنہ ریاست کے قانون ِبَد نے تو انکارِاعمال کی کھلی آزادی دے رکھی ہے ۔ اﷲ کی پناہ!
قربانی اپنے شاندار ماضی ، امن و سلامتی پر سچی تاریخی روایت و شہادت رکھتی ہے ۔ دورِ حاضرمیں قربانی نہ صرف یہ کہ امن کا پیغام ہے بلکہ مسئلہ معاش کے حل کا عظیم پہلو بھی اپنے جلو میں رکھتی ہے کہ اس عمل صالح کی بدولت معاشی بدحالی ختم ہوتی اور معاشی امن پیدا ہوتا ہے ۔سینکڑوں غریب امیر ہوجاتے ہیں ۔ قرآن کا حکم ہے:
فکلو ا منھا واطعمو البائس الفقیر۔ (لحج آیت ۲۸) سو کھاؤ اس میں سے اور کھلاؤ محتاج بے حال کو ۔
فکلوا منھا و اطعموالقانع والمعتر۔ (الحج آیت ۳۶)سو کھاؤ اس میں سے اور کھلاؤ صبر سے بیٹھنے والے کو او ر بیقراری کرنے والے کو ۔
ہمارے معاشرہ میں سرمائے کی غیر منصفانہ تقسیم اور یورپ کے معیار ِ زندگی کی نقالی نے معاشرہ کوطبقات میں تقسیم کردیاہے ۔ اعلی طبقہ کہلانے والے لوگ اخلاق سے عاری ، ہمدردی سے محروم ، اخوۃ ، برادری اور برابری کے شائستہ جذبات کو خیر باد کہہ کر دوسرے تیسرے اور چوتھے طبقہ کے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں کہ اﷲ کی پناہ ۔ ہمارے معاشرے کا دوسرا تیسرا اور چوتھا طبقہ زندگی کی راحتوں سے مہجوراور معاشی حالات سے رنجور ہے اور سفید پوشی ، ظاہرداری اور برادریوں کے جذبۂ تقابل میں اس قدر چُور چُور ہے کہ توبہ ہی بھلی ۔معاشرے کے جن لوگوں کے پاس مال و منال زرو جواہر اور دھن دولت موجود ہے ۔ پھراُن میں سے جو اس دولت کو دین کے احکام کے مطابق صرف کرتے ہیں ۔زکوٰۃ دیتے ہیں صدقات دیتے ہیں انفاق عام کرتے ہیں وہ جب قربانی دیں گے تو معاشرہ کے ایسے افراد جوبے چارے مال کی کمی کے سبب ہفتوں اور مہینوں تک گوشت کی شکل سے نا آشنا اور اس کی لذت سے محروم رہتے ہیں ۔ قربانی کرنے والاخود کھائے تو اس کی اجازت ہے اس لیے کہ ’’فکلوا منھا ‘‘ امَرِ استحباب ہے امَرِ وجوب نہیں یعنی اجازت ہے حکم نہیں جیسے واذا حللتم فاصطادوا ۔ (پ۶۔المائدہ ۔آیت ۲) او رجب احرام سے نکلو تو شکار کرسکتے ہو۔
اپنے گھر کے لیے رکھ لے تواجازت ہے اگر نہ رکھے تو بہتر ہے اور واجب ہے کہ وہ قربانی کا گوشت بے حال ، محتاج ،نادار ، بے یارومددگار او رایسا مسکین جو قانع صابر محروم ہو اور ایسا مسکین بھی جو سائل اوربے قرار ہو بھوک کے ہاتھوں تنگ آکر مانگنے لگ جائے سب کو تلاش کرکے پہنچایا جائے ۔ایسے ضرورت مندوں کو زکوٰۃ صدقات وغیرہ کی طرح قربانی کا گوشت پہنچانے سے ان کی طبعی تندی ترشی اور حالات سے پیدا شدہ نفرتیں کم ہوں گی ۔ غضب وانتقام کی جگہ محبت و احترام پیدا ہوگا ۔ لوٹ مارقتل و غارتگری کی بجائے حفاظت و خدمت کے نیک جذبات ظہور پذیر ہوں گے۔ معاشرہ میں امن و سلامتی غالب آئے گی یعنی خیر طالب اور شرمغلوب ہوگا ۔ رودے اور کھالیں بھی معاشرے کے انہی پسے ہوئے لوگوں کا حق ہے ۔ قصاب قطعاً کھال رودے اُجرت میں نہیں لیجاسکتے قربانی کے جانوروں پر ڈالے گئے کپڑے گھنٹیاں زنجیریں جھانجریں وغیرہ سب چیزیں غرباء کا حق ہیں۔ جب غرباء کو ان کا شرعی حق مال کی صورت میں پہنچے گا تو معاشی ناہمواری دور ہوگی اور معاشی ناہمواری کے دور ہونے سے جذبہ ٔحسدو رقابت بھی دور ہوگا جس کانتیجہ ہے خوشحالی مختصر اً ملاحظہ کریں۔
قربانی کے فوائد:
(۱) ایک طبقہ میں گردش زر قائم ہوئی ۔قربانی کے لیے جانور خریدے گئے ۔ بیچنے والے کو مال منتقل ہوا۔ اُسے کچھ روز گھر میں رکھا ، خدمت کی ، گھاس دانہ کھلایا
(۲) دوسرے طبقہ میں گردشِ زر قائم ہوئی ۔ قصاب نے ذبح کیا اور مزدوری لی ۔
(۳) تیسرے طبقہ میں گردشِ زر قائم ہوئی، کھال فروخت ہوئی یا خیراتی اداروں میں تقسیم ہوئی ۔
(۴) چوتھے طبقہ میں گردشِ زر قائم ہوئی ۔ رودے ،زنجیر ،کپڑا، جھانجر فروخت ہوئی۔ان کی قیمت مساکین یتامیٰ ، بیوگان ، محتاج، غریب ، دینی کارکن ، دینی مدارس کے مسافر طلباء و اساتذہ میں مختلف صورتوں میں تقسیم ہوئی۔
(۵) پانچویں طبقہ میں گردش زر قائم ہوئی ۔ سرمایہ انجماد سے بچا ۔ ایک ہاتھ میں نہ رہا مختلف ہاتھوں میں پہنچا ملک و قوم کو فائدہ پہنچا۔ ایسا اہم اور عظیم عمل جس سے معاشرے کے پانچ طبقوں کو فیض ، نفع اور فائدہ پہنچتا ہو اس کی مخالفت کرنا کہاں کی خدمت ِ انسانی اور خدمتِ حیوانی ہے ۔ یادانشمندی ہے؟بجز اس کے کہ
بَک رہے ہیں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
ہاں یہ سیکولرسٹوں کا ’’روشن اور لبرل اسلام‘‘ تو ہو سکتا ہے حقیقی دین اسلام نہیں ۔
قربانی اور قربانی کے جانور : قربانی اور قربانی کے جانور شعائر اﷲ میں سے ہیں ۔ (الحج آیت ۳۶)
ایسے لوگ جوبے رحمی اور حیوانات کے انسداد کی ذیل میں قربانی کے عمل کو رد کرتے ہیں یامال کے ضیاع کی نام نہاد حکمت کی بنیاد پر اس کو غلط قرار دیتے ہیں وہ لوگ بنیادی طور پر جاہل وظالم ہیں۔ اس لیے کہ قرآن حکیم نے قربانی اور قربانی کے جانوروں کی حیثیت دین اسلام کی علامتوں میں سے دوعلامتیں قراردی ہیں ۔ دین کی علامتوں کی تعظیم دلوں کے تقویٰ کی علامت ہے۔ ان شعائر کاا حترام نہ کرنے والے لوگ خلوص سے محروم ہیں ۔ شعائر اﷲ کی باقاعدہ و باضابطہ شرعی حیثیت و عظمت ہے۔ اس عمل کی ایک مذہبی ،شرعی اور قانونی تاریخ ہے اس کی تردید،تغلیط اور توھین ،احکام و مسائل اور قوانین قرآنی سے بے خبری ،لا علمی اور جہالت پر مبنی ہے۔ پھر ایسا آدمی جو قربانی جیسے عمل خیر کو روکتا ہے، اس کے خلاف ذہنوں کو ہموار کرتا ہے اور فضول قسم کی باتیں جویا وہ گوئی اور ہرزہ سرائی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں ‘کرتا رہتا ہے۔ وہ معاشرے کو باہم ایک دوسرے سے کاٹناچاہتا ہے ۔ قربانی کے عمل سے معاشرہ کے تمام طبقات باہم مربوط ہوجاتے ہیں اور یہ حیوانات پررحم کرنے والا نام نہاد مہربان انسانوں کو محبت، موّدت ، ارتباط، معاشرتی ترقی سے محروم کرنے والا ظالم ،سفاک اور خود غرض ہے کہ انسانوں پر رحم نہیں کرتا !
پیغام:
عید ، خوش خوراکی وخوش پوشاکی اور کھیل کود کا نام ہی تونہیں بلکہ عید عبارت ہے ……
اجتماعیت و یکجہتی سے ، قربانی و ایثار سے، عدل وتقویٰ سے، حق شناسی و خداخوفی سے
محبت، ادب اور اخلاص سے، مودّت اور اخوت کے پاکیزہ جذبات سے!
احکام و مسائل
lتمہید: قربانی جدُّالانبیاء اور مجدّد الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ اور سیدنا اسماعیل ذبیح اﷲ علیہم السلام اور سید الاوّلین، قائد المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اﷲ ا کی مقدس یادگار اور ابدی سنت ہے ……حضور ا کا ارشاد ہے کہ ایام قربانی میں اﷲ تعالیٰ کو اپنے نام پر بہائے ہوئے خون ِ قربانی سے زیادہ کوئی چیز اور عمل پسند نہیں ۔ ذبح کے وقت خون کا ہر قطرہ زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی خدا کے ہاں مقبول ہوجاتاہے ۔ نیزفرمایا : ذبیحہ کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ‘ان میں سے ہر ہربال کے بدل میں ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿لَنْ یَّنَا لَ اﷲَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاءُ ہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْویٰ مِنْکُمْ﴾
’’اﷲ کو نہیں پہنچتے ‘ان کے گوشت اور نہ لہو۔لیکن اس کو پہنچتا ہے تمہارے دلوں کاادب (خلوص)۔‘‘(سورۃ حج‘۳۷۔پارہ ۱۷)
قربانی: بعض اسلام دشمن عناصر جن کو مخلوق خدا کی فلاح کا بہت زیادہ’’ درد ‘‘اٹھتا ہے ‘وہ اس نظریاتی مملکت میں برسوں سے زہرپھیلارہے ہیں او رخصوصیت کے ساتھ جدید تعلیم سے روشناس مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ قربانی ’’مولوی ازم‘‘کی ایجادہے ، کتنا بڑا ظلم ہے کہ ہزاروں لاکھوں روپے کا خون بہاد یا جائے ، اس میں انسانیت کی کیا خدمت ہے ؟ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تو صرف ’’مکہ ‘‘ میں ہی فرض ہے اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ حضور ا نے مدینہ منورہ میں قربانی نہیں دی۔ کوئی شخص بھی اس بات کامجاز نہیں کہ دین متین میں ایک حرف کی بھی تبدیلی کرسکے ۔ قربانی انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے اور ہر صاحب نصاب مسلمان پر واجب ہے ۔ جو چودہ سوسال سے ادا کی جارہی ہے۔ خود حضور ا نے اور ان کے بعد ان کے صحیح جانشین خلفائے راشدین نے اور صحابہ کرام ثنے اور امت کی مسلّمہ شخصیتوں نے ادا کی اور کروائی ۔ یہ کہنا کتنا بڑادجل ہے کہ ختم المرسلین انے صرف مکہ میں قربانی کی ۔ حالانکہ احادیث ِ صحیحہ میں اس کا ثبوت موجود ہے کہ مدینہ میں بھی قربانی ہوئی اور لاکھوں مربع میل میں پھیلی ہوئی اسلامی سلطنت میں بسنے والے مسلمانوں نے اس سنت کو ادا کیا ۔
حضور ا نے مدینہ میں قربانی کی :
﴿ عن ابن عمر ‘قال اقام رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بالمدینہ عَشَرسِنِیْنَ یُضَحِّیْ﴾
حضرت ابن عمر صفرماتے ہیں کہ حضور انے دس برس مدینہ میں قیام فرمایا اور قربانی دی:(ترمذی ص۱۸۲،مسند احمد ج۷ص۵۷)
﴿ عن ابن عباس قال کنّا مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی سفر فحضر الا ضحی فاشتر کنا فی البقرۃ سبعۃ وفی البعیر عشرۃ﴾ (ترمذی ص۱۸۱)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ا سفرمیں تھے کہ سفر میں ہی قربانی کا دن آگیا تو ہم قربانی کی گائے کے سات حصوں اور اونٹ کے دس حصوں میں شریک ہوئے ۔
جمہور علماء کے نزدیک اونٹ میں دس حصوں والا حکم منسوخ ہوگیا اور سات حصوں والا حکم جاری ہوا۔اسے شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ نے ذکر کیا ہے ۔(حاشیہ مشکوٰۃ ۔ص۱۲۸)
ان ہر دو روایات کی روشنی میں یہ بات قطعیت کے ساتھ واضح ہوگئی کہ حضور ا نے سفر میں بھی قربانی کی اور مدینہ میں بھی ، اس کے بعد اس قسم کی لغو اور بے بنیاد باتوں کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور یہ حدیث ان کے قول کے بطلان کے لیے دلیل کا ایک طمانچہ ہے ۔اہل اسلام سے التماس ہے کہ وہ اس قسم کی لغویات پر دھیان نہ دیں اور دین متین کی حفاظت کرتے ہوئے اور محبت رسول ا سے سرشار ہوکر اس سنت کو خوب ذوق و شوق سے ادا کریں تاکہ روزِ محشر بارگاہِ رب العزت میں نجات کا سبب اوراﷲ کے محبوب اکی شفاعت کے مستحق بنیں۔ خدا وند ِقدوس ہم سب کو سختی سے اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین ،ثمّ اٰمین
مختصر مسائل قربانی:
lہر آزاد عاقل بالغ مسلمان جو ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا رکھتاہو ،یا ان دونوں سے جتنی مالیت کی جائیدادیا مال ِ تجارت کا مالک ہو ، اس پر عیدالاضحی یعنی ذوالحجہ کی دس تاریخ کو صبح صادق طلوع ہونے سے لے کر بارہویں ذوالحجہ کی شام تک چند مخصوص حلال جانوروں میں سے کسی ایک قسم کے جانور کو حکم ِ الہٰی اور سنت نبی اکی پیروی میں ذبح کرنا واجب ہے ، جسے شرعی زبان میں اُضْحِیَّہ اور ہماری بول چال میں قربانی کہتے ہیں ۔
lقربانی کے لیے مذکورہ بالامالیت پر زکوٰۃ کی طرح سال کا پورا ہونا شرط نہیں ۔
l جن لوگوں پر صدقۃ الفطر واجب ہوتاہے ، انہی پر قربانی واجب ہے اور جیسے صدقۃ الفطر اپنی ذات پر واجب ہوتاہے ، اہل و عیال کی طرف سے ازخودد ینا نفلی عبادت ہے ، ایسے ہی قربانی بھی صرف اپنی ذات پر واجب ہے ۔ البتہ دوسرے کی طرف سے ثواب کے طور پر یا وکیل بن کر قربانی کرنا درست ہے ۔
lکسی کے پاس بالکل مال نہ تھا ،لیکن اچانک کسی طرح دسویں کی صبح کو یا بارہویں کو غروب آفتاب سے پہلے مذکورہ بالا مالیت حاصل ہوگئی تو اس پر قربانی واجب ہے ۔
lایسے شخص نے کسی کی غیر موجودگی میں اس کی طرف سے اجازت کے بغیر قربانی دے دی وہ ادا نہ ہوئی ،بلکہ غائب پر بدستور واجب رہے گی۔
lصاحب مال آدمی اگر مقروض ہے تو ادائے قرض کے بعد مذکورہ بالا مالیت باقی بچے تو قربانی واجب ہے ، ورنہ نہیں ۔
lاگر کسی شخص پر قربانی واجب نہ تھی اور اس نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا اور ایسے ہی کسی نے کوئی منّت مانی کہ میرا فلاں کام ہوگیا تو میں قربانی دوں گا اور اتفاقاً وہ کام بھی ہوگیا ، تو اس پر قربانی واجب ہوگئی لیکن منت والی قربانی کا گوشت خواہ وہ امیر کی طرف سے ہو یا غریب کی طرف سے نہ خود کھانا جائز ہے اور نہ ہی صاحب حیثیت افراد کو کھلانا ، کیونکہ منت بھی ایک صدقہ ہے اور صدقہ مساکین اور فقراء کا حق ہوتا ہے ، اگر بھول کر کھالیا یا کھلادیا ‘تو اتنی ہی مقدار میں مزید گوشت خیرات کرنا واجب ہوگا ۔
lمسافر پر قربانی واجب نہیں۔البتہ سفر میں کسی جگہ پندرہ دن تک ٹھہرنا ہوگیاتو قربانی واجب ہوگی ۔
lدیہات میں رہنے والوں کے لیے نماز عید سے پہلے قربانی جائز ہے ۔
lشہر اور قصبوں میں رہنے والوں کے لیے نماز عید ادا کرنے سے پہلے قربانی جائز نہیں ۔
l اگر کسی شخص نے قربانی میں اتنی تاخیر کردی کہ بارہویں تاریخ کو غروب آفتاب تک بھی قربانی نہ کرسکا ، اگر جانور خرید چکا تھا ، تو وہی جانور خیر ات کردے ، اگر جانور نہیں خریدا تھا، تو ایک بھیڑیا بکری کی قیمت خیرات کردے ۔
lاگرکسی نے قربانی کا جانور پالنے کے لیے کسی کو دے دیاتو پالنے والا اس کا مالک نہیں ہوسکتا ،نہ ہی اسے بیچ سکتاہے۔ بیچنا ہو تو اصل مالک کی اجازت حاصل کرنا ہوگی ۔
lقربانی کے جانور:
بکرا ،بکری، مینڈھا ، بھیڑ ،دنبہ ،دنبی ، بیل ، گائے ، بھینس ، بھینسا ،اونٹ ، اونٹنی ‘ ان چھے حلال جانوروں میں سے ایک قسم کا جانور ہونا ضروری ہے ، ان کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی جائز نہیں ۔
قربانی کے جانور کی عمر:
اس ترتیب کے مطابق ہونی چاہیے ۔بکرا، بکری‘ایک سال ،گائے ،بیل ،بھینس ،بھینسا ‘دوسال ، اونٹ ،اونٹنی پانچ سال کا ہونا ضروری ہے البتہ بھیڑ ،مینڈھا ،دنبہ ،دنبی اگر اتفاقاً تندرست اور موٹے تاز ے ہو ں کہ ایک سال کی عمر والے ہم جنسوں میں چھوڑ دینے سے دونوں میں کوئی فرق معلوم نہ ہو،تو ایسے چھے مہینے کے دنبے ،دنبی ،مینڈھا ،بھیڑ کی قربانی جائز ہوگی بصورت دیگر ان کے لیے ایک سال کا ہونا ضروری ہے ۔
قربانی کے جانور کی کیفیت :
قربانی کاجانور خوب صحت مند موٹا تازہ ،بے عیب ہونا چاہیے ۔ اگر کچھ دبلا پتلا ہو تو جائز ہے لیکن ایسا مریل جانور جس کو سہارا دیکر چلایا جائے ، قربانی کے لیے جائز نہیں۔
قربانی کا جانور ان عیوب سے پاک ہونا چاہیے :
ٹوٹے ہوئے سینگ نہ ہوں ۔ ایک کان کاتہائی سے زائد حصہ کٹا ہوانہ ہو ۔ اندھا نہ ہو، یا اس کی ایک آنکھ کی تہائی یا تہائی سے زائدروشنی ضائع نہ ہو ۔ جس کا ابتداسے کوئی دانت نہ ہو ۔ جس کی تہائی یا تہائی سے زائد دُم کٹی ہوئی نہ ہو ۔ مرض یا چوٹ وغیرہ کے سبب لنگڑا نہ ہو کہ صرف تین پاؤں پر چل سکے اور چوتھا پاؤں زمین پر نہ رکھ سکے اور گھسیٹتا رہے ۔مادہ حاملہ نہ ہو ۔
قربانی کے جانور میں حصہ :
lبکرا ،بکری،بھیڑ،مینڈھا، دنبہ ، دنبی ‘ ان میں حصہ داری نہیں ہوسکتی ، گائے بیل بھینس، بھینسا ، اونٹ، اونٹنی میں سات افراد حصہ دار بن سکتے ہیں ، سات سے زائد کی قربانی جائز نہ ہوگی ۔
lجس جانور میں سات افراد شریک ہوں ‘سب کو برابر تول کر گوشت تقسیم کرنا چاہیے کمی بیشی سے تقسیم جائز نہیں ۔
lقربانی کے جانور کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل سنت اور مستحب ہے ‘خود نہ کرسکتا ہو تو پاس کھڑا ہونا بہتر ہے ، قربانی کے لیے افضل دن دسویں کا ہے۔ باقی دودنوں میں بھی درست ہے ۔قربانی کا صحیح وقت دن کا ہے‘ رات کو کرنا بہتر نہیں۔ کیونکہ بعض اوقات صحیح ذبح نہیں ہوسکتا ، ذبح کرتے وقت یہ دعاپڑھیں۔
lذبح کے وقت دعا:
﴿اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّ مَااَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنO اِنَّ صَلوٰ تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَOلَاشَرِیْکَ لَہ‘ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَااَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ O َ﴾
اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر جانور کو ذبح کرے اور مکمل دعایاد نہ ہو تو صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے ۔ اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَر۔بغیر تکبیرکہے ذبح کرنا جائز نہیں۔ جب ذبح کرچکے توپھر یہ دعا پڑھے :اَللَّہُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِِّیْ’’اے اﷲ! یہ قربانی میری طرف سے پسند اور منظور کرلیجیے۔‘‘اگر اپنے سوا کسی اور کی طرف سے بغرض ثواب یا بطور ادائے فرض دینا ہوتو’’مِنِّیْ ‘‘کی جگہ’’ مِنْ ‘‘کے بعد اس شخص کا نام لے ‘ جس کی طرف سے دے رہا ہے ۔پھر آگے یہ الفاظ کہے :کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدِِ وَّ خَلِیْلِکَ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ۔
’’جیسے کہ آپ نے اپنے پیارے حضرت محمد ااور اپنے خاص دوست حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قربانی پسند فرمائی ۔‘‘
قربانی کی کھال یا اس کی قیمت کامصرف :
قربانی کے جانور کی کھال قصاب وغیرہ کو مزدوری میں دینا جائز نہیں ۔کھال یا اس کی قیمت مستحقین میں خیرات کردیں ۔دینی مدارس کے مسافر طلباء بھی اس کے مستحق ہیں۔عصر ِ حاضر میں طاغوتی اورسامراجی قوتوں کے دینی مدارس کے خلاف عزائم ومنصوبوں کو ناکام بنانے اور مدارس کے مالی استحصال کامقابلہ کرنے کے لیے مدارس ہی ان کا بہترین مصرف ہیں۔
گوشت کی تقسیم :
گوشت کے مختلف حصے کرکے بہتر تویہ ہے کہ تو ل کر تقسیم کرے ۔غرباء،مساکین ، یتامیٰ ، مسافر اور اپنے عزیز واقارب و احباب سب کودے ۔ کھال ،رسی ، زنجیر، گھنگرو ،جھانجر ،دوپٹہ یا گوشت بطور مزدوری دینا جائز نہیں ۔ مزدوری نقد طے کرناچاہیے ۔ یہ تمام چیزیں یا ان کی قیمت صدقہ کردے۔
نمازِ عید کے متعلق کچھ باتیں:
شب عید کو نوافل اداکرنا ،توبہ استغفار کرنا ، عید کے لیے اوّل وقت میں نہانا ،اپنی حیثیت کے مطابق اچھے کپڑے پہننا ،مسواک کرنا ، خوشبو لگانا سنت ہے۔ نماز کے لیے ایک راستہ سے جانا اور راستہ بدل کر آنا سنت ہے ، راستہ میں ان تکبیرات کا مناسب آواز میں پڑھناسنت ہے ۔ اَاللّٰہُ اَکْبَرْ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ، لَآ اِلٰہَ اِلّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ، اللّٰہُ اَکْبَرْ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔قربانی کرنے والے کے لیے بہتر ہے کہ نماز عید سے پہلے کچھ نہ کھائے ۔
نماز ِ عید:
پہلی رکعت : تکبیر تحریمہ یعنی پہلی تکبیر کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر باندھ لیں ، سبحانک اللّٰھم تمام پڑھیں، پھر تکبیریں کہیں پہلی اور دوسری تکبیر کہہ کرکانوں تک ہاتھ اٹھا کر چھوڑدیں ‘ تیسری تکبیر پر ہاتھ باندھ لیں ، پھر امام قرأت کرے گا ،باقی حسبِ معمول پوری کریں ۔
دوسری رکعت:
جب امام فاتحہ اور سورۃ پڑھ چکے ‘تو امام کے ساتھ چار تکبیریں کہیں پہلے تین مرتبہ تکبیر کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدیں اور کھڑے رہیں چوتھی تکبیرکہنے پر رکوع میں جائیں ۔باقی ارکان حسب ِ معمول پورے کریں اور سلام کے بعد دعا مانگ لیں۔
خطبہ عید :
جیسے جمعہ میں نماز سے پہلے خطبہ سننا واجب ہے ۔اسی طرح عیدین میں نماز کے بعد خطبہ سننا بھی واجب ہے۔ خطبہ سنے بغیر عید گاہ سے جاناگناہ ہے ۔عید ین کو جماعت کے ساتھ ہی ادا کرنا چاہیے۔ جماعت چھوٹ جانے کی صورت میں عید قضا نہیں ہوسکتی ۔
تکبیر التشریق : ذوالحجہ کی نویں تاریخ کو نمازِفجر کے بعد سے تیرہویں کی نمازِ عصر تک پانچ دنوں کے وقت کو ’’ایام التشریق‘‘کہتے ہیں ۔ان دنوں میں اکیلے یا باجماعت ہرفرض نماز کے بعداونچی آواز کے ساتھ ایک بار ’’تکبیر التشریق‘‘کہنا واجب ہے۔ تکبیر یہ ہے :اﷲ اکبر ،اﷲ اکبر ،لاالہ الا اﷲ واﷲ اکبر ،اﷲ اکبر ،وﷲ الحمد
عشرہ ذی الحجہ کے فضائل اور یوم الحج کاروزہ:
نبی کریم انے ارشاد فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے لیے عشرہ ذوالحجہ سے بہتر کوئی زمانہ نہیں۔اس عشرہ میں ایک دن کاروزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور ایک رات کی عبادت لیلتہ القدر کی عبادت کے برابر ہے۔‘‘(ترمذی وابن ماجہ)
قرآن کریم میں سورۃ والفجر میں اﷲ تعالیٰ نے دس خاص راتوں کی قسم کھاکر ان کی اہمیت ظاہر فرمائی ہے ۔امت کے جمہورعلماء کے نزدیک ان دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں۔ذوالحجہ کی آٹھویں اور نویں تاریخ کی درمیانی رات عبادت میں مشغول رہنا اور نویں تاریخ میں یوم الحج یا یوم عرفہ کاروزہ رکھنا مستحب ہے ۔اس رات اور دن کی بڑی فضیلت ہے ۔۹؍ذی الحجہ کاروزہ رکھنے سے گزشتہ ایک سال اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کاکفارہ ہوجاتا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں ان عبادات اور فرائض واجبات کو اداکرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔(آمین)
واللّہ الموفق وہو المستعان وعلیہ التکلان