عربی مقالہ: شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ / ترجمہ: مولانا محمد یوسف حسین گجراتی
(پہلی قسط )
(اسلامی ممالک کے اکثر خطوں کے مقتد رعلماء ومفتیان کے غیر مسلم اقلیت ہونے پر اتفاق وبا لخصوص رابطۃ العا لم الا اسلامی سے 1973ء و پاکستان سے 1974ء میں قادنیوں کے غیر مسلم اقلیت کی قرار داد و قانون پاس ہونے کے باوجود جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کی عدالت عظمیٰ میں اس فرقہ نے مسلمانوں کے خلاف کیس دائر کیا، جس کے بعد وہاں کے مسلمانوں کی طرف سے حضرت شیخ الا سلام مفتی محمد تقی عثمانی کی طرف رجوع کیاگیا، حضرت زید مجد ہم نے ایک مفصل فتویٰ صادر فرما کر اس کا مجوزہ مسودہ مجمع الفقہ الاسلامی کو بھیجا، جس کے نتیجے میں مجمع نے قادیانیت کے غیر مسلم اقلیت ہونے کی قرار داد پاس کی ۔ مجمع کی قرار داد اور حضرت کے فتویٰ کے مجوزہ مسودہ کا اردوترجمہ افادہ عام کے لیے نذر قارئین ہے ۔ ادارہ )
قادیانیوں کے بارے میں مجمع الفقہ الاسلامی العالمی کی قرار داد
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالصََّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ اَشْرَفِ الْمُرْسَلِیْنَ وَخَا تَمِ النَّبِیِّیْنَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَاَٰصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ امابعد:
قراردادنمبر۴، بابت قادیانیت
بتاریخ 10تا12؍ربیع الثانی 1406بمطابق22تا28؍ دسمبر 1985ء کو جدہ میں منعقدہ دوسرے کانفرنس کے اجلاس میں منظمۃ المؤ تمرالاسلامی کے ذیلی ادارے مجلس مجمع الفقہ الاسلامی :
جنوبی افرقہ کیپ ٹاؤن میں مجلس الفقہ الا سلامی کی طرف سے قادیانیت اوراس سے الگ نکلے ہوئے لاہوری فرقہ کے مسلمانوں میں شمار کرنے یانہ کرنے کے حکم شرعی اورکسی غیرمسلم کی اس قضیہ میں مداخلت کی اہلیت کے شرعی اعتبار کے حوالے سے پیش کردہ استفتا ہ پر غوروخوض کرنے کے بعد: اور گز شتہ صدی میں ہندوستان میں ظاہر ہونے والے مرزا غلام احمد قادیانی اوراس کی طرف منسوب قادیانی ولاہوری ہردوفرقوں کے شرعی حکم کے موضوع پر مجمع کے اراکین کی طرف سے پیش کیے گئے مقالہ جات اور دستاویزات کی روشنی میں: نیز قادیانیت کے ان ہر دوفرقوں سے متعلق ذکر کردہ معلومات اور اس بات کی مکمل تحقیق وتثبیت کے بعد کہ : مرزا غلام احمد قادیانی نبوت کادعوٰ ی کیاہے کہ وہ نبی مرسل ہے،اس پروحی ناز ل ہوتی ہے ، اورجیسا کہ اس کی تالیفات سے ثابت ہے، جن میں اس نے یہ دعوٰی کیا ہے کہ ان سب باتو ں کی بات بابت اس پروحی نازل کی گئی ہے، اوروہ ساری زندگی اس دعوٰی کو سر عام نشر کرتا رہا ہے اوراپنی کتب وگفتگومیں لوگو ں سے یہ مطالبہ کرتا رہاہے کہ و ہ اس کی رسالت اور نبوت کااعتقاد رکھیں، جیسے کہ اس سے بہت سی ضرورت دین مثلا جہادوغیرہ کاانکار بھی ثابت ہے۔
مجمع الفقہ الاسلامی (مکہ کرمہ ) کی طرف سے اسی موضوع سے متعلق صادر کردہ تحریرپر عالمی مجمع الفقہ الااسلامی کے غور وخوض کے بعد یہ قرار داد پاس کرتی ہے کہ :
۱۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت ورسالت اورنزدل وحی کاجودعوٰی کیا ہے، یہ ضروریات دین میں سے سیدنا محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت اوررسالت اور ان کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہونے کے ثابت شدہ قطعی اور یقینی عقیدہ کا صریح انکار ہے ، اور مرزا غلام احمد قادیانی کے اس دعوٰی کے بعداس سمیت اس کے تمام پیروکارمرتد اور دائر اسلام سے خارج ہیں ۔ نیز لاہوری فرقہ بھی مرتد ہونے کی حیثیت سے شرعی حکم میں قادنیوں ہی کی طرح ہے، کیوں کہ وہ مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی ہونے کے اعتبار سے ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کاسایہ اور پر تو ہونے کاعقید ہ رکھتے ہیں۔
۲۔ کسی غیر اسلامی عدلیہ یاغیر مسلم جج کے لیے جائزنہیں ہے کہ وہ اسلام اورارتداد کا فیصلہ صادرکرے، بالخصوص علماء کی بڑی تعداد کے درمیان موجودامت اسلامیہ کاجس مسئلہ پر اجماع ہو گیا ہو، اس کے خلاف فیصلہ صادر کرنا ، اور وہ اس لیے کہ اسلام اور ارتداد کاحکم لگانا اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوسکتا جب تک کہ یہ ایسے واقف کار کی طرف سے صادر نہ ہو جو کسی کے اسلام میں داخل اور اس سے خارج ہونے کی پوری تحقیق کرے اور اسلا م یاکفر کی حقیقت کی سمجھ بوجھ وادراک رکھتا ہو، اور اس کاعلم کتا ب وسنت اور اجماع سے ثابت شدہ علوم کو محیط ہو، پس اس کافر عدلیہ نے جو حکم صادرکیا ہے وہ باطل اورکالعدم ہے۔ واﷲ اعلم۔
قادنیوں کے بارے میں استفتاء سے متعلق مجوذہ جواب کا مسودہ
محمد تقی عثمانی رکن وفاقی شرعی عدلیہ پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَا لَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ وَعَلٰی کُلِّ مَنْ تَبِعَھُمْ بِاِحْسَانٍ اِلٰی یَوْمِ الدِّ یْنِ اَمَّابَعْدُ!
۱،۲۔ بلاشبہ قرآن وسنت کی واضح اور قطعی نصوص اس عقیدہ پر شاہد ہیں کہ نبی کریم سید نامحمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے اور جو کوئی حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد نبوت یارسالت کاد عوٰع کرے وہ جھوٹا اور ملت اسلامیہ سے خارج ہے اور شک نہیں کہ یہ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ایسا عقیدہ ہے جس میں کسی قسم کی تاویل یا تخصیص کا جتمال سرے سے ہے ہی نہیں، کیوں کہ یہ قرآن کریم کی واضح اور بین نصوص سمیت متواتراور قطعی احادیث نبویہ سے ثابت ہے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۔(۱)
(مسلمان)محمد(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اﷲ کے رسول ہیں۔ اور تما م نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں اوراﷲ ہربات کو خوب جاننے والا ہے۔
جبکہ ایک سو سے متجاوز احادیث متواترہ اس قطعی عقیدہ کو ثابت کرتی ہیں ۔ جن میں سے چند ایک بطورمثال ذکر کی جاتی ہیں۔
الف۔ حَدَّ ثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیْدٍ حَدَّثَنَا أِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عَبْدِ الّٰلہِ بْنِ دِینَارٍعَنْ أَبِی صَالِحٍ عَنْ أَبِیِ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلََّمَ قَالَ: اِنَّ مَثَلِی وَمَثَلَ الاءَ نْبِیاءِ مِنْ قَبْلِی کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بَیْتًا فَأَحْسَنَہُ وَأَجْمَلَہُ اِلََّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ مِنْ زَاوِیَۃٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِہٖٖ وَیَعْجَبُوْنَ لَہٗ وَیَقُوْلُوْنَ ھَلاَّ وُضِعَتْ ھٰذِہ اللَّبِنَۃُ؟ قَالَ: فَأنَا اللَّبِنَۃُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّنَ۔(۲)
حضرت ابوہر یرہ رضی اﷲ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اوراسے خوب آراستہ وپیراستہ کیا مگر اس کے ایک گوشہ میں صرف ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آکر اس کے ارد گرد کھومنے لگے اور تعجب کرنے لگے اور کہنے لگے یہ اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی (تاکہ یہ عیب بھی نہ رہتا ) اس کے بعض الفاظ میں یہ ہے کہ میں نے اکر اس اینٹ کی جگہ کو پُر کردیا ہے اور اب قصر نبوت میری آمد سے مکمل ہوگیا ہے اور مجھ پر تمام رسول ختم کر دیئے گئے ۔
ب۔ عَنْ أَبِیْ حَازَمٍ قَالَ قَاعَدْتُ أبَا ھُرَیْرَۃَ خَمْسَ سِنِیْنَ فَسَمِعْتُہٗ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ کَانَتْ بَنُو إسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْأَ نْبِیَاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہُ نَبِیٌّٔ وَإِ نَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکْثُرُوْنَ قَالُوْا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوْا بِبَیْعَۃِ الْأَوَّلِ فَالأَوَّلِ أَعْطُوْھُمْ حَقَّھُمْ فَإنَّ اللّٰہَ سَائِلُھُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاھُمْ۔ (۳)
ابوحازم رضی اﷲ عنہ سے مردی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے پانچ سال حضرت ابوہر یر ہ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ مجالست کی ہے۔ پس میں نے ان سے سنا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی اصلاح انبیاء کیا کرتے تھے ۔ جب ایک نبی فوت ہو جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہو جاتا اور یقینا میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور خلفا ء ہوں گے۔ صحابہ رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا تو پھر آپ ہمیں کیاحکم فرماتے ہیں؟ (یعنی جب بہت ہوں گے اور اختلاف ہوگا تو ہم اس وقت کس کا حکم مانیں) توآپ نے فرمایا: پہلے کی بیعت پوری کرو اور پہلوں کو ا ن کا حق دو۔ بے شک اﷲ تعالیٰ ان سے ان کی رعیت کے متعلق سوال کرے گا۔
ج۔ عَنِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَیَکُوْنَ بَیْنَھُمَا مَقْتَلَۃٌ، دَعْوَاھُمَا وَاحِدَۃٌ، وَلَاتَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یُبْعَثَ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ، قَرِیْبًا مِنْ ثَلاَ ثِیْنَ کُلُّھُمْ یَذْعُمُ أَنَّہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔ (۴)
حضرت ابوہر ہ یرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ دوجماعتیں آپس میں لڑیں گی، اوران کے درمیان بہت بڑی جنگ ہوگی، کیو ں کہ ہردونوں کا دعوٰ ی ایک ہوگا، اور قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی یہاں تک کہ تیس کے قریب جھوٹے اور دجال آئیں گے، جن میں سے ہر ایک اپنے تئیں یہ سمجھ رہا ہوگا کہ وہ اﷲ کارسول ہے۔
یہ وہ قطعی نصوص ہیں ، جن کی بنیاد پر امت اسلامیہ کا اس بات یہ اجماع ہے کہ ہر و ہ شخص جو نبوت یا رسالت بات کادعوید ار ہو گا چو ں کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے لہذا اس کی اتباع حجت شرعیہ کی حیثیت سے واجب ہے، تو ایسا شخص کافر اور ملت اسلامیہ سے خارج ہے۔
قاضی عیاض رحمہ اﷲ اپنی کتا ب شفاء میں اسی اجماع کی تصریح ان الفاظ میں فرماتے ہیں :
لانہ اخبر صلی اﷲ علیہ وسلم انہ خاتم النبیین لا نبی بعد ہ واخبرعن اﷲ تعالیٰ انہ خاتم النبیین وانہ ارسل کافۃ للناس واجمعت الا مۃ علی حمل ھذا الکلام علیٰ ظاھرہ وانہ مفھومہ المرادبہ دون تاویل ولاتخصیص فلا شک فی کفر ھؤلاءِ الطوائف کلھا قطعا اجماعا وسمعا۔ (۵)
اس لیے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا ۔ اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبردی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، اور آپ کو پوری انسانیت کی طرف مبعوث کو کیا گیا ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے کہ یہ کلام بالکل اپنے ظاہری معنیٰ پر محمول ہے۔ اور جو اس کا مفہوم ظاہری الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے وہی بغیر کسی تاویل یاشخصیصی کے مراد ہے۔ پس ان لوگوں کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔ جو اس کا انکارکریں اوریہ قطعی۔ اجماعی اور ( تواترسے چلا آتا ) سماعی عقیدہ ہے۔
﴿ حواشی ﴾
(۱) الاحزاب، ۴۰
(۲) صحیح البخاری: ۵۰۱/۲ باب خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم، قدیمی کتب خانہ
(۳) صحیح البخاری: ۲/ ۴۹۰ باب ماذکر عن بنی اسرائیل، قدیمی کتب خانہ
(۴) صحیح البخاری: ۲/ ۵۰۴ باب علامات النبوۃ فی الاسلام، قدیمی کتب خانہ
(۵) الشفاء للقاضی عیاض: ۲/ ۲۴۷ ، مطبوعہ مصر
(جاری ہے)