راؤ محمد شاہد اقبال
حکومت نے میاں عاطف کو برطرف کر کے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے غلاموں کے دل جیت لیے
تبدیلی کی حکومت اچھی ہے بلکہ بہت ہی اچھی ہے مگر اتنی بھی اچھی نہیں ہے کہ اس کی آڑ میں وزیر اعظم کی اقتصادی کچن کیبنٹ میں ایک قادیانی مشیر کو قبول کر لیا جاتا، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کے معاشی حالات انتہائی دگرگوں ہیں اور ہمیں اپنی معاشی پالیسیوں پر نظر ثانی کر کے ملکی خزانہ کو ایک بار پھر ڈالرز سے بھرنا ہے مگر اس قیمت کی ادائیگی پر نہیں بھرنا کہ ایک قادیانی مشیر کو ملکی خزانہ کا دربان بنا دیا جائے۔ بلاشبہ ہمیں اپنے ملک کو معاشی طور پر ایک سپر پاور بنانے کے لیے دنیا کے قابل ترین معاشی ماہرین کی ایک ٹیم کی اشد ضرورت ہے لیکن اتنی بھی ضرورت نہیں ہے کہ ذہانت کے دھوکہ میں آ کر کسی عالی دماغ قادیانی کو مشیر قبول کر لیا جائے، ہمیں اپنے وطن عزیز میں اقلیتوں کی جان، مال، عزت و آبرو سب کا تحفظ کرنا ہے اور انھیں اپنے شانہ بشانہ رکھ کر انھیں تحفظ کا احساس دلانا ہے، لیکن اقلیت کو ایسا احساس تحفظ بھی نہیں دلانا کہ ملک کی اکثریت ہی عدمِ تحفظ کاشکار ہو جائے اور اقلیت کی چھتری تلے ایک قادیانی مشیر کو قبول کر لیا جائے، اس تو تو لاکھ درجے بہتر یہ ہو گا کہ ایک عیسائی، ایک ہندو اور ایک سکھ ماہرِ معیشت کو وزیر اعظم پاکستان کا مشیر مقرر کر دیا جائے تاکہ اقلیت کے ہر طبقہ میں ہماری اقلیت نوازی کا پیغام پہنچ جائے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چودھری کی باتیں بہت اچھی ہیں اور ہمیں یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ آپ سے اچھی وزارتِ اطلاعات کم از کم تحریکِ انصاف میں تو کوئی اور دوسرا نہیں چلا سکتا لیکن خدارا میاں عاطف کے مشیر بننے پر تنقید کرنے والوں کو یہ تو نہ بتائیں کہ قائدِ اعظم محمد جناح نے بھی ایک قادیانی سر ظفر اﷲ خان کو پاکستان کا وزیرِ خارجہ مقرر کیا تھا، یہ بات تو ہم سب پہلے ہی سے جانتے ہیں لیکن کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ سر ظفر اﷲ خان نے قائدِ اعظم کے اس احسان کے جواب میں قائدِ اعظم کی نمازِ جنازہ پڑھنے سے بھی انکار کر دیا تھا اور جب ان سے قائد اعظم کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کی وجہ دریافت کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ: ’’یوں سمجھئے کہ میں ایک مسلم ریاست کا غیر مسلم وزیرِ خارجہ ہوں یا ایک غیر مسلم ریاست کا مسلم وزیر خارجہ‘‘۔
اس جواب سے یہ تو بالکل صاف ہو جانا چاہیے کہ قادیانی ہم پاکستانیوں کو کیا سمجھتے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے لیے یہ بات جاننا بھی از حد ضروری ہے کہ میاں عاطف صرف ایک قادیانی ہی نہیں بلکہ وہ ایک مرتد قادیانی ہے۔ اس بات کا انکشاف خود میاں عاطف نے مجلس خدام احمدیہ امریکہ کے تحت شائع کی گئی کتاب ’’بائی دی ڈانز ار لی گلوری لائٹ‘‘ میں کیا ہے، اس کتاب میں میاں عاطف نے اپنے والدین کی ناراضی کا ذکر کرنے کے علاوہ اسلام کے خلاف دشنام طرازی بھی ہے، اس کتاب میں ان امریکیوں کی کہانیاں بھی شائع کی گئیں جو ارتداد یعنی مرتد ہونے کے بعد قادیانی بنے یا جنھوں نے دوسرے مذاہب کو چھوڑ کر قادیانیت قبول کی۔ میاں عاطف کی اپنی کتاب کے مطابق میاں عاطف 1974ء میں نائیجریا میں پیدا ہوا اور پرورش پاکستان میں ہوئی، 3بہنوں کے بعد والدین کی پہلی نرینہ اولاد ہونے کی وجہ سے اسے خوب لاڈ پیار ملا، اس نے والدین کے ایماء پر امریکی تعلیمی اداروں میں داخلے کی درخواستیں بھیجیں۔ میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اسے داخلہ مل گیا اور یوں وہ 1993ء میں امریکہ پہنچ گیا، جہاں انھیں اپنے سکول کے پرانے دنوں کا ایک دوست حامد شیخ مل گیا۔ یہ اسے 8برس سے جانتا تھا لیکن یہ علم نہیں تھا کہ وہ ایک قادیانی ہے، حامد شیخ کی فراہم کردہ کتب اور بتائے گئے ویب ایڈریسز سے ہی میاں عاطف کو قادیانیت کو سمجھنے میں مدد ملی۔ میاں عاطف نے 2001ء میں شکاگو یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر پہلی نوکری کا آغاز کیا۔ بوسٹن میں قیام کے دوران اس نے مسلم علماء کے پیچھے نماز پڑھنے سے بچنے کے لیے مساجد جانا چھوڑ دیا۔ قادیانی عبادت گاہ دور تھی اور کار نہ ہونے کی وجہ سے وہ وہاں نہ جا سکتا تھا۔ شکاگو میں قیام کے دوران کار کے ملنے کے بعد اسے قادیانی عبادت گاہ تک آسان رسائی مل گئی جہاں اس نے جمعہ کے جمعہ جانا شروع کر دیا۔ میاں عاطف نے 2002ء میں قادیانیت کا فارم بھر دیا اور اس وقت سے لے کر وہ آج تک مجلس خدام احمدیہ کا متحرک کارکن ہی نہیں بلکہ اہم ترین رہنما بھی ہے اور سب سے زیادہ خطرناک بات تو یہ ہے کہ میاں عاطف قادیانیوں کے حالیہ خلیفہ یا سربراہ مرزا مسرور احمد کا مالیاتی مشیر بھی ہے یعنی قادیانیوں کا مشیر خزانہ بھی یہی موصوف ہے۔ کیا ایسے شخص کے ہاتھ میں پاکستان کی معاشی پالیسیاں ترتیب و تنظیم کی ذمہ داری دینا خطرناک نہیں ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے حسن ظن سے پوری قوم بخوبی کو آگاہ ہے ، ہم بھی ان سے نیک گمان رکھتے ہیں کہ انھوں نے میاں عاطف کو مشیر بنانے کا فیصلہ جان بوجھ کر یا کسی غیر ملکی طاقت کے دباؤ میں آ کر نہیں کیا ہوگا، بلکہ یہ فیصلہ کسی غلطی سے ہوا ہو گا، لہٰذا دیر آید درست آید کے مصداق حکومت نے اس ’’ناقابلِ قبول غلطی‘‘ کو سدھارنے کا سنہری موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور اس قادیانی مشیر کو برطرف کو برطرف کرنے کا فیصلہ کر کے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے غلاموں کے دل جیت لیے ہیں، ضرورت اب اس امر کی ہے حکومت آئندہ سے قادیانیت کے فتنے سے بچ کر عوامی خدمت کا سلسلہ جاری رکھے۔ کیونکہ یہ وہ پھندہ جس نے میاں نواز شریف کی 35سالہ اقتدار کی پوری بساط ہی الٹ کر رکھ دی تھی جبکہ پی ٹی آئی حکومت کو تو ابھی 2ماہ بھی نہیں ہوئے اس لیے ذرا تفکر سے کام لے کر قدم آگے بڑھائے جائیں، اسی میں ملکی سلامتی کا راز پنہاں ہے۔ حقیقت میں ایسا کرنے سے ہی پاکستانی قوم کا ’’نئے پاکستان‘‘ کا خواب صحیح معنوں میں شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔ بقول بشیر بدر
’’مجھے ایسی جنت نہیں چاہیے، جہاں سے مدینہ دکھائی نہ دے‘‘
(مطبوعہ: ندائے ملت، 13تا 19ستمبر 2018ء)