پروفیسر عبدالواحد سجاد
فیٹف بل (FATF BILL) کی منظوری پالیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کرلی گئی اور اسے حکومت نے اپنی خاص حکمت عملی سے منظور کرایا۔ جس پر کہا گیا کہ جنہوں نے منظور کروانا تھا انہوں نے منظور کروالیا۔ اس سے قبل چیئرمین سینیٹ کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ’’عد دی اکثریت‘‘ کے باوجود نا کامی سے دو چار ہوئی۔ اگرچہ گرے لسٹ میں پاکستان کے ساتھ ساتھ سری لنکا، پانا ما، شام، تیونس اور یمن سمیت کئی اور ممالک شامل ہیں، مگر وہاں اتنی افرا تقری اور گرے لسٹ سے نکلنے کی بے تابی نہیں دکھائی دیتی جتنی پاکستان میں نظرآتی ہے۔
پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کی جوو جوہ بتائی گئی ہیں ان میں اسٹریٹیجک نقائص پر قابونہ پانا، دہشت گرد گرو ہوں کے خطرات کی سنگینی کو نہ سمجھنا، منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد کرنے والے افراد یا اداروں کے خلاف اقدامات نہ کرنا، کرنسی کی غیر قانونی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ پر منتقلی پر قابونہ پانا، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان عدم تعاون اور اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی شخصیات اور اداروں کے خلاف مؤثر کاروائی اور ان کے اثاثے منجمدنہ کرنا شامل ہے۔
اب تک پاکستان نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے جواقدامات کیے ہیں، ان میں کا لعدم تنظیموں پر پابندیاں مذہبی اداروں اور مدارس کو محکمہ تعلیم کے ماتحت کرنا، غیر سرکاری تنظیموں کی امداد پر نظر رکھنا، اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گردی میں شامل کی گئی شخصیات پر پابندی لگانا اور انہیں گرفتار کرنے کے بعد عدالتوں سے سزادلوانا قابل ذکر ہیں۔ گویا
یہاں تک آ گئے آپ کی محبت میں
اب اور کتنا گناہ گار کرنا چاہتے ہیں
امریکا کے ساتھ ہماری ان دنوں ’’گاڑھی دوستی‘‘ ہے۔ دوبارہ عالمی کپ جیتنے کی باتیں بھی ہوئیں مگر اسی دوست کا کیا دھر ا ہے پاکستان کو جب گرے لسٹ میں ڈالا گیا، اس وقت سیاسی نہیں بلکہ نگران حکومت تھی۔ امریکا نے فٹیف کی پہلی بحث کے دوران پاکستان کا نام گرے لسٹ میں نہ ڈالے جانے کے بعد دوبارہ قرار داد پر بحث کے لیے اصرار کیا اور پھر سعودی عرب کو بھی یہ لالچ دے کر غیر جانبدار کرالیا کہ اس وقت تک سعودی عرب فٹیف میں بطور مبصر شامل ہے، اسے اس کی مکمل رکنیت دے دی جائے گی، چین نے بھی اس موقع پر خود کونا کام دیکھنے کی وجہ سے خود کو سائیڈ لائن کرلیا اور قرار داد پر بحث دوبارہ ہونے پر غیر حاضر ہوگیا۔
پاکستان اس کارکن بھی نہیں اگر وہ اس ادارے کی سفارشات پر عملدر آمد نہ بھی کرے تو اس کے اقتدار اعلیٰ پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا، لیکن دوسری طرف پاکستان آئی ایم ایف، ورلڈبینک اور فٹیف ممبران سے قرضے، امداد پا پر وجیکٹ حاصل کرتا ہے، اس لیے وہ قرضے اور امداد دینے سے پہلے فٹیف کی لسٹ پر نظر ڈالتے ہیں کہ پاکستان یا دوسرا امداد یا قرض لینے والا ملک فٹیف کی وائٹ لسٹ میں ہے یا گرے اور بلیک میں؟ اسی لیے پاکستان ’’گرے لسٹ‘‘ سے ’’بلیک لسٹ‘‘ کی جانب سفر کرنے کی بجائے ’’گرے لسٹ‘‘ سے نکلنے کے لیے اتنی بے تابی دکھا رہا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی لیڈر شپ ’’وژن‘‘ سے عاری ہے، کسی بھی معاملے میں ہوم ورک کرنے کی روایت دکھائی نہیں دیتی۔اسی لیے وہ فیٹف اور دوسرے بین الاقوامی اداروں اور ممالک کے سامنے زمینی حقائق بیان کرنے کے فن سے عادی ہیں اور کسی بھی ڈکٹیشن کومن وعن تسلیم کرکے وقت گزاری کرتے ہیں اور اس کے عواقب ونتائج پر بھی غور نہیں کرتے۔ دوسر ی چیز کہ ہر حکومت بین الاقوامی اداروں کی ڈکٹیشن کی بنیاد پر اس لیے کو شاں ہوتی ہے کہ مخالفین کے لیے زیادہ سے زیادہ ایسے قوانین پاس کرائے جائیں، جس سے ان کے اقتدار کو پیش آنے والے خطرات کا سدباب ہوسکے۔ نیب جیسے اداروں کی مثاں ہمارے سامنے ہے، جو پرویز مشرف دور میں اس لیے قائم ہوا کہ احتساب کے نام پر سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کرکے اپنے اقتدار کو استحکام دیا جائے۔ پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد سیاسی حکومتوں نے بھی نیب کو اسی انداز میں چلایا اور اس کے منفی طرزعمل کے تحفظ کے لیے کوشاں رہیں، جس کے نتائج دونوں بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون بھگت رہی ہیں۔ مخالفین کو نشانہ بنانے کا عمل نیب کے ذریعے ہوتا رہا اور اب بھی موجودہ حکومت اسے اپنے مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کے لیے بھرپور استعمال کررہی ہے۔ حکومتی عمائدین اوروزراء پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں، مگر نیب نے انہیں تمام تر مطالبات کے باوجود سائیڈ لائن پر رکھا ہوا، سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ نے بھی اپنے فیصلوں میں نیب کے تحقیقاتی عمل اور بلاشواہد مقدمات پر تنقید کی ہے اور اسے بند کرنے کی بات بھی کی مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی، حکومتی زعماء اور وزراء اور مشیراین آراو نہیں دیں گے، کے نعرے لگا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو امور ملکی مفاد میں ہوں، ان پر مل بیٹھ کر قانون سازی کی جائے تاکہ اس کا نشانہ غلط طور پر کوئی فرد یا ادارہ نہ بنے۔
فٹیف قوانین میں ایک شق یہ بھی ڈالی گئی کہ حکومت کسی بھی شہری کو 180روز تک حراست میں رکھ سکتی ہے، جس پر اپوزیشن نے تحقیقات کا اظہار کیا اور شنید یہ ہے کہ حکومت نے اس شق کو واپس لے لیا، البتہ اس قانون کی منظوری کے ’’طریق کار‘‘ پر حزب اختلاف کے اعتراضات ’’آن دی ریکارڈ‘‘ ہیں، لیکن لگتا یہ ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ نون بھی فٹیف قوانین کی منظور کے حق میں تھیں، پی پی پی کا نقطہ نظر تو واضح ہے البتہ مسلم لیگ نون کے کچھ زعماء جس حالت میں قانون سازی ہوئی، اس پر تنقید کرتے نظر آئے اور یہاں تک شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان ہٹلر بننا چاہتے ہیں۔ جے یو آئی نے اس قانون سازی کی کھل کر مخالفت کی اور اس کے سینیٹرز مولانا عطاء الرحمن اور مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ’’ایف اے ٹی ایف اور بین الاقوامی اداروں کی شرائط اس لیے مانی جا رہی ہیں کہ حکومت کمزور ہے، آزادریا ستیں اس طرح کی ڈکٹیشن قبول نہیں کرتیں۔‘‘ اس قانون سازی میں اوقاف کنڑول پالیسی کی جوشق شامل ہے، اس سے مساجد اور مدارس کی خود مختاری کا قلع قمع کردیا گیا، اس پر ان شاء اﷲ الگ کالم میں بات ہوگی، مگر حیران کن امر یہ کہ اس پر دینی حلقوں نے کسی ردعمل کا اظہار کھل کر نہیں کیا کہ بل میں موجود ایسے مندر جات کے مستقبل میں کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ہماری مقتدر اشرافیہ کہتی کچھ اور کرتی کچھ ہے۔ دوسروں کی ڈکٹیشن پر من وعن عمل کرکے ملکی آزادی کو گروی رکھا جاتا ہے اور اسے ’’ملکی مفاد‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ آغا سائل کا شمیری نے ایسے میں ہم نشینوں کے بارے کہا ہے۔
عجیب خوبیاں کچھ میرے ہم نشین میں ہیں
سخن میں پھول ہیں اور سانپ آستین میں ہے