غلام نبی مدنی،مدینہ منورہ
عید الاضحیٰ کے دوسرے روز فیصل آباد میں قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان تنازعے کو میڈیا پر خوب اچھا لا گیا۔پاکستانی میڈیا سمیت انٹرنیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا پر قادیانیوں پر حملے کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے کہ عام مسلمان بھی یہ سوچنے لگا کہ واقعی قادیانیوں پر ظلم ہوا ہے۔جب کہ معاملے کی اصل تصویر وہ نہیں تھی جو میڈیا پر دکھائی گئی۔چنانچہ راقم نے معاملے کی اصل صورت حال معلوم کرنے کے لیے فیصل آباد میں 22سال سے صحافت سے وابستہ برادرم ذکراﷲ حسنی سے رابطہ کیا تو انہوں نے معاملے کی حقیقت کچھ یوں بتائی کہ یہ معاملہ 23اگست2018شام 4بجے فیصل آباد سے34کلومیٹر دور واقع گھسیٹ پورہ نامی گاؤں میں ہوا۔قادیانیوں کی جانب سے کہا گیا کہ مسلمانوں نے ان کی عبادت گاہ اور قادیانیوں پر حملہ کیا۔جس سے ان کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچا اور قادیانی بھی زخمی ہوئے۔دوسری جانب وہاں بسنے والے مسلمانوں کی طرف سے معاملہ کا اصل رخ سامنے آیا کہ قادیانیوں نے مسلمان شہری محمد مدثر کے گھر پر عصر کے وقت معمولی بات کی وجہ سے حملہ کیا ۔جس کے بعد انہوں نے پولیس کو رپورٹ بھی کی اور پولیس نے جائے وقوعہ کا دورہ بھی کیا۔لیکن مغرب کے بعد جب مسلمان نماز مغرب کے لیے مسجد جارہے تھے تو قادیانی عبادت گاہ سے مسلمانوں پر پتھر پھینکے گئے اور عبادت گاہ سے متصل قادیانی گھروں سے مسلمانوں پر فائرنگ بھی کی گئی جس کے نتیجے میں 17مسلمان زخمی ہوگئے،ایک زخمی مسلمان نوجوان کے والد اپنے بیٹے پر فائرنگ کا سن کر صدمے سے فوت ہوگئے۔
گھسیٹ پورہ میں بسنے والے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے مسلمانوں کو ایف آئی آر درج کروانے کا موقع دیے بغیر سرکار کی مدعیت میں دونوں اطراف کے 80 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے قادیانیوں کو سہولت فراہم کی۔حالاں کہ وہاں بسنے والے عام مسلمان شہریوں کی جانب سے پولیس کو 17زخمی مسلمانوں پر حملے کے خلاف مقدمے کی کئی درخواستیں بھی دی گئیں۔پولیس ذرائع کے مطابق قادیانیوں کی عبادت گاہ میں خفیہ کیمرے حادثے کے وقت کام کررہے تھے،لیکن اب ان کیمروں تک رسائی نہیں دی جارہی ۔جب کہ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ قادیانیوں نے خود قادیانی عبادت گاہ آگ لگائی تاکہ قادیانیوں کو مظلوم ثابت کیا جاسکے۔حیرت انگیز طور پر میڈیا کو بھی مسلمان زخمیوں تک رسائی نہیں دے جارہی تاکہ ان کا موقف سامنے لایا جاتا۔دوسری جانب واقعے کی تحقیقات کے لیے اے آئی جی ابوبکر خدابخش کو مقرر کیا گیاہے۔اے آئی جی ابوبکر خدابخش کی تقرری پر گھسیٹ پور ہ میں بسنے والے مسلمان سخت پریشان ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ابو بکر خدابخش کو پہلے قصور میں زینب زیادتی قتل کیس میں تحقیقات کے لیے مقررکیا گیا تھا،جس پر زینب کے والد نے ابوبکر خدابخش کو قادیانی قراردے کر تحقیقاتی کمیٹی کو نامنظور کردیا تھا۔گھسیٹ پورہ کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ایسے مشتبہ شخص کو تحقیقات کے لیے مقررکرنے سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔اس لیے گھسیٹ پورہ کے مسلمان حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ واقعے کی مکمل تحقیقات کے لیے ایک غیر جانبدارشخص کو مقرر کیا جائے۔
گھسیٹ پورہ نامی گاؤں میں 20سے25 فیصد قادیانی آباد ہیں۔یہاں بسنے والے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس گاؤں میں قادیانی نہ صرف غریب اور سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دہی سے قادیانیت کی تبلیغ کرتے ہیں،بلکہ مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لیے سرعام شعائر اسلامی بھی استعمال کرتے ہیں۔جب کہ آئین پاکستان کی رو سے قادیانی غیر مسلم ہیں،قادیانی خود کو مسلمان کہلاواسکتے ہیں،نہ شعائر اسلامی استعمال کرسکتے ہیں۔قادیانیوں کی جانب سے آئین پاکستان کی خلاف ورزی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جس سے پاکستان مخالف شرپسند عناصر کوپاکستان میں مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان تنازعات بڑھکاکر پاکستان کو بدنام کرنے ،ملک میں فساداور انتشار کوہوادینے کا موقع ملتاہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں آئین کے مطابق تمام حقوق قادیانیوں کو دیے جارہے ہیں،لیکن اس کے باوجو د قادیانیوں کی جانب سے نہ صر ف پاکستان پر الزام لگایا جاتاہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کو حقوق نہیں دیے جاتے ، بلکہ قادیانی آئین پاکستان کی خلاف ورزی کرکے مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔چنانچہ انتخابات2018 میں قادیانیوں نے پاکستان میں الیکشن کا صرف اس لیے بائیکاٹ کیا کہ قادیانیوں کے لیے علیحدہ ووٹرلسٹیں کیوں بنائی گئی ہیں۔جب کہ رواں ماہ اگست ہی میں قادیانیوں کا لندن میں ایک اجتما ع ہوا جس میں قادیانیوں نے برطانوی رکن پارلیمنٹ کو مدعو کیا تو اس نے پاکستان میں قادیانیوں کی حق تلفی کی بات کی اور عمران خان کو چیلنج دیا کہ وہ قادیانیوں کو مکمل حقوق دیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیانی پاکستانی شہری ہیں ۔آئین پاکستان کے تحت وہ تمام حقوق استعمال کرسکتے ہیں جو اقلیتوں کو پاکستان میں دیے گئے ہیں۔مگر اصل جھگڑا تب پیدا ہوتاہے جب قادیانی خود کواقلیت تسلیم نہیں کرتے اور مسلمان ظاہر کرتے ہیں،بلکہ جو قادیانیوں کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کو معاذاﷲ نبی نہ مانے قادیانیوں کے بقول وہ مسلمان کافر ہے۔ یہی بات قادیانیوں کے سربراہ نے 1974میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں کہی تھی جس پر ایوان ہکا بکا رہ گیا تھا۔پاکستان میں قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان ختم نبوت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک ریڈلائن ہے۔قادیانی اس ریڈلائن کو کراس کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے معاملہ خراب ہوتاہے ۔اس لیے عمران خان حکومت کوپاکستان میں قادیانیوں کی آئین مخالف سرگرمیوں پر فی الفور نوٹس لے کر کاروائی کرنی چاہیے، تاکہ ملک میں قادیانیوں کی وجہ سے آئندہ کوئی سانحہ رونما نہ ہو۔