ڈاکٹر عمر فاروق احرار
فلم ’’زندگی تماشا‘‘ عرفان کھوسٹ کے بیٹے سرمد کھوسٹ فلم کے ہدایت کار ہیں اور نرمل بانو اس کی رائٹر ہیں۔ فلم کا موضوع عدم برداشت ہے اور یہ عدم برداشت کی کہانی صرف مذہب کے گرد گھومتی ہے۔
فلم کے ٹریلر میں عندیہ دیا گیا تھا کہ فلم میں مذہب کا لبادہ اوڑھے لوگ کس طرح اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں ۔
فلم میں ایک نعت خواں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ جس سے ایک غلطی ہوجاتی ہے اور اس غلطی کے باعث اس کی زندگی کو فلم میں تماشا بنا کر مذہب کو بازیچہ اطفال بنا دیا گیا ہے۔
فلم کے ٹریلر اور اس کے مندرجات نے مسلمانوں کے دل دکھا دیے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدم بر داشت کو صرف مذہبی طبقہ کے ساتھ ہی کیوں مخصوص کرکے پیش کیا گیا ہے۔ پاکستان جہاں قانون توہین رسالت اور قادیانیوں کا غیر مسلم قرار دیا جانا بیرونی قوتوں کے نزدیک عدم برداشت اور ظالمانہ رویہ کا ترجمان ہے۔
اب اس بیرونی ایجنڈے کو فلم کے پردہ میں پاکستانی عوام کے ذہنوں پر مسلط کرنے کی ایک قابل مذمت کوشش ہے۔ یاد رہے کہ بیرونی قوتیں اس فلم پر اس حد تک جی جان سے قربان ہو رہی ہیں اور اس پر اس قدر صدقے اور واری نیا ری ہیں کہ فلم کے ریلیز ہونے سے چار ماہ پیشتر ہی فلم کو بوسان فیسٹیول میں دیے جانے والے ایوارڈ کم جیسوئک‘ کے لیے نامزد کر لیا گیا ہے جو دنیا بھر سے پیش کی جانیوالی سب سے نمایاں فلم کو دیا جائے گا۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ہمارے وزیراعظم پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔ کیا ایسے فلمی بلاسٹ پاکستان کے نظریاتی تشخص کو برباد کرنے کے مترادف نہیں ہیں۔ یہ قوم آٹے اور چینی کے بحران کو برداشت کر سکتی ہے، مگر اسلام کی توہین اور وطن عزیز کی سلامتی کے منافی کسی بھی اقدام کو ایک لمحہ کے لیے برداشت نہیں کر سکتی۔ اگر سیاست دانوں کے کردار کے خلاف 2016 میں بننے والی فلم ’’مالک‘‘ پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے تو اسلام اور مسلمانوں کی تضحیک اور توہین کرنے پر فلم ’’زندگی تماشا‘‘ کیوں قانون کی گرفت میں نہیں لائی جا سکتی؟(تازہ اطلاعات کے مطابق سرکار کی جانب سے سندھ اور پنجاب میں عارضی طور پر نمائش روک دی گئی ہے، مگر ضرورت پورے ملک میں مکمل اور مستقل پابندی کی ہے۔ادھر سرمد کھوسٹ نے پنجاب حکومت کے حکم کو عدالت میں چیلنج بھی کر دیا ہے)