امام ابو عبداﷲ احمد بن حنبل رحمہ اﷲ (ترجمہ: نوید احمد بشار )
سیدنا جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے منبر پر تشریف فرما ہو کر ارشاد فرمایا: بے شک میرا پاؤں جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں یا حوضِ کوثر کے دہانے پر ہے اور بے شک اﷲ نے اپنے کسی بندے کو (دو باتوں میں ایک بات کا) اختیار دیا ہے؛ وہ جی بھر کر دنیا میں رہے اور اس میں من پسند کھائے۔ یا اﷲ سے ملاقات کے لیے کمر بستہ ہو جائے ۔ اور اس بندے نے لقائے الٰہی کو پسند کر لیا ہے۔
راوی کہتے ہیں کہ منبرِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے پہلو میں تشریف فرما سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اشک بار ہوئے تو ایک بزرگ انصاری فرمانے لگے: انھیں کس چیز نے رُلا دیا ہے؟ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تو بنی اسرائیل میں سے یا عام لوگوں میں سے ایک آدمی کا ذکر فرمایا ہے۔
سیدنا جابر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اس حقیقت کو بھانپ گئے تھے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے نفسِ نفیس کو ہی مراد لیا ہے پس جب آپ رضی اﷲ عنہ کے آنسو تھم گئے تو عرض کیا۔ میرے ماں باپ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر قربان ہوں بلکہ ہم اپنے آبا و اجداد اور جانوں کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر فِدا کر دیں گے تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا: اپنی صحبت و مال کے اعتبار سے ابن ابی قُحافہ سے بڑھ کر مجھ پر کوئی استحقاق نہیں رکھتا۔ نیز میں لوگوں میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو انھی کو بناتا، لیکن ایمانی محبت و اخوت قائم ہے۔ (۱)
َ ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے ہمراہ گھر سے نکلے تو دونوں نے غارِ ثَور کا راستہ لیا، اثنائے سفر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کبھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے آگے اور کبھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیچھے چلتے تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے دریافت فرمایا: ایسا کیوں کر رہے ہو؟ عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! مجھے جب عقی جانب خطرہ لگتا ہے تو پیچھے ہو جاتا ہوں اور جب اگلی جانب خدشہ لاحق ہوتا ہے تو آگے آ جاتا ہوں، جب دونوں غار کے پاس پہنچے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! آپ ﷺ رکیے! میں پہلے اندر جھاڑو دے لیتا ہوں۔
نافع رحمہ اﷲ کہتے ہیں کہ مجھے ایک آدمی نے ابن ابی ملیکہ کے حوالے سے بیان کیا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے غار میں ایک سوراخ دیکھا اور اس پر اپنا پاؤں جمایا اور عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! اگر بالفرض کوئی چیز ڈسے یا کاٹے تو وہ مجھے ہی کاٹے۔ (۲)
َ سیدنا انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، انھیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے حدیث بیان کی کہ میں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو حالت غار میں عرض کیا اور ایک مرتبہ یوں بیان کیا کہ ہم غار میں تھے (میں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کی) اگر ان لوگوں میں سے کسی ایک نے اپنے قدموں کی جانب دیکھ لیا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابوبکر! آپ کا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اﷲ سبحانہ و تعالیٰ ہو۔ (۳)
َ عروہ یا عمرہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابوبکر صدیق کے مال سے جتنا نفع ہمیں ہوا کسی اور کے مال سے نہیں ہوا۔ (۴)
َ سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابوبکر صدیق کے مال کی طرح کوئی دوسرا مال میرے لیے نافع نہیں ہوا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اس پر اشک بار ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ! میری جان و مال آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ہی نثار ہے۔ (۵)
َ سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے جوڑا خرچ کیا اور یا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: جس نے اپنے مال سے جوڑا خرچ کیا۔ راوی کا خیال ہے کہ ساتھ یہ بھی فرمایا: اﷲ کی راہ میں۔ تو اس کو دربانِ جنت آواز دے گا۔ اے مسلمان! یہ بہتر ہے اس طرف آؤ۔ ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا: یہ آدمی تو خسارے میں نہیں رہ سکتا؟ تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے کسی بھی شخص کے مال نے ابوبکر صدیق کے مال سے بڑھ کر فائدہ نہیں پہنچایا۔ راوی کہتے ہیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ آب دیدہ ہوئے اور گزارش کی: من جانب اﷲ میری منفعت و رفعت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے توسط سے ہے۔ (۶)
﴿ حواشی ﴾
(۱) تحقیق: اسنادہ ضعیف لاجل مجالد بن سعید وہو ضعیف، والحدیث صحیح من طرق اخری: سنن الترمذی: ۳۶۵۹۔ مسند الامام احمد: ۲۶۶/۲۵۔ ح: ۱۵۹۲۲۔ المعجم الکبیر للطبرانی: ۳۲۸/۲۲۔ ح: ۸۲۵۔ (۲) تحقیق: اسنادہ ضعیف لارسالہ و رجالہ ثقات۔(۳) تحقیق: اسناد صحیح، تخریج: مسند الامام احمد، ۴/۱ ۔ صحیح البخاری: ۸/۷۔ صحیح مسلم: ۱۸۵۴/۴۔(۴) تحقیق: رجال الاسناد ثقات لکنہ مرسل، والحدیث صحیح بطریق اخری، انظر: سنن الترمذی، ۳۶۶۱۔ سنن ابن ماجہ: ۹۴۔ مسند الامام احمد: ۴۱۴/۱۲، ح: ۷۴۴۶۔ (۵) تحقیق: اسنادہ صحیح، تخریج: سنن الترمذی: ۳۶۶۱۔ سنن ابن ماجہ: ۹۴۔ مسند الامام احمد: ۲۵۳/۲،۳۶۶۔( ۶) تحقیق: اسنادہ صحیح، تخریج: موطا امام مالک: ۳۷۸/۳، ح: ۸۹۲۔ سنن الترمذی: ۳۶۷۴۔ مسند الامام احمد: ۷۲/۱۳، ح: ۷۶۳۳۔ صحیح ابن حبان: ۳۰۸۔ صحیح ابن خزیمہ: ۲۴۸۰۔