مولانا مفتی محمد عبد اﷲ شارق
ایمان بالملائکہ سے مقصود؟
اﷲ کی وہ بہت سی غیبی مخلوقات جو ہمیں نظر نہیں آتیں اور ہم بحیثیت مسلمان ان کی موجودگی پر یقین رکھتے ہیں، ان میں فرشتے، جن اور شیاطین شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی نہ جانے خدا کی کیا کیا اور کون کون سی مخلوقات ایسی ہوں گی جو اس کائنات میں موجود ہوں گی، لیکن ہم ان کے نام تک سے واقف نہیں۔ہم انسانوں کو، نظر نہ آنے والی ان غیبی مخلوقات میں سے بطورِ خاص صرف فرشتوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ ایمان کیا ہے تو ارشاد فرمایا: ’’یہ کہ تو اﷲ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، روزِ قیامت پر، اچھی بری تقدیر کا خالق خدا کو ماننے پر اور موت کے بعد پھر سے زندہ ہونے پر ایمان لے آئے۔‘‘ اسی طرح قرآن میں ہے: ’’مومن سب کے سب ایمان رکھتے ہیں اﷲ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔‘‘
ایمان کا لغوی معنی یوں تو دل سے کسی چیز کو فقط مان لینا اور تسلیم کر لینا ہے، مگر قرآن وحدیث میں ہمیں ان چیزوں پر ایمان لاکر گویا ان کے ساتھ ایک قسم کا تقدس، احترام اور قلبی تعلق قائم کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، اسی وجہ سے ان سب کی نسبت اﷲ کی طرف بھی کی گئی ہے کہ اﷲ کے فرشتے، اﷲ کی کتابیں اور اﷲ کے رسول، نیز اسی وجہ سے جنوں اور شیاطین پر ’’ایمان‘‘ لانے کا ہمیں کوئی حکم نہیں دیا گیا، حالانکہ وہ بھی غیبی مخلوقات ہیں اور رسول ہی کے بتانے سے مومنین ان مخلوقات کی بھی فی الواقع موجودگی پر یقین رکھتے ہیں، وجہ یہ کہ ان کے ساتھ احترام اور تقدس کا کوئی قلبی رشتہ قائم کروانا مقصود نہیں ہے۔
ایمان بالملائکہ (فرشتوں پر ایمان) کا ایک بہت بڑا مقصود یہی تھا اور اسی وجہ سے قرآن میں ان فرشتوں کے ایسے ایسے احوال بتائے گئے ہیں کہ جن سے فرشتوں کے ساتھ مومنین کے اس قلبی تعلق کی مزید آبیاری ہوتی ہے اور اسے مزید پختگی حاصل ہوتی ہے، نیز احادیث میں بہت سے اعمال کا شوق دلانے کے لیے محض یہ بتایا گیا ہے کہ ان اعمال کو کرنے سے انسان کو خدا کی اس مقرب اور مقدس نورانی مخلوق کا ساتھ، معیت اور قرب حاصل ہوتا ہے اور ان کی دعائیں حاصل ہوتی ہیں، جبکہ کئی اعمال کی نحوست بتلانے کے لیے صرف اتنا ہی کہا گیا ہے کہ ان کی وجہ سے فرشتے انسان سے دور ہوجاتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ فرشتوں کا تقرب حاصل کرنے کا شوق اس آدمی کو ہوگا جس میں فرشتوں کے لیے تقدس اور احترام کا کوئی جذبہ موجود ہے اور وہی آدمی ہی ان کے دور ہوجانے کو اپنے لیے نقصان اور محرومی کی بات بھی سمجھے گا۔ جبکہ جس آدمی کے دل میں ان کے لیے یہ جذبات واحساسات موجود نہیں ہیں تو اسے ظاہر ہے کہ اس سے بھی کوئی غرض نہیں ہوگی کہ فرشتے اس کے پاس ہیں یا اس سے دور۔
فرشتے افضل یا بشر؟
علماء کے ہاں ایک بحث عرصہ دراز سے چلی آرہی ہے کہ آیا فرشتے انسانوں سے افضل ہیں یا انسان فرشتوں سے اور دونوں طرف کے علماء نے اپنے اپنے حق میں دلائل بھی دیے ہیں، مگر جیسا کہ ایک شافعی عالم تاج الدین سبکی نے لکھا ہے: ہم سے اس بارہ میں کوئی سوال نہیں ہوگا کہ تم فرشتوں کو انسانوں سے افضل سمجھتے تھے یا انسانوں کو فرشتوں سے (النبراس۔ صفحہ 602) اور خود جن حضرات نے اس موضوع پر دادِ تحقیق دی ہے تو خود انہی کے نزدیک اس موضوع پر بحث کرلینے کے بعد بھی کوئی قطعی اور حتمی نتیجہ فراہم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس سلسلہ میں کوئی قطعی دلیل موجود ہے۔ چنانچہ تفتازانی لکھتے ہیں: ’’لاخفاء فی أن ہذہ المسئلۃ ظنیۃ یکتفی فیہا بالأدلۃ الظنیۃ‘‘ یعنی ’’اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ یہ مسئلہ بہرحال ایک غیر یقینی مسئلہ ہے اور اس کا تمام تر دار ومدار غیر یقینی دلائل ہی پر ہے۔‘‘ (شرح العقائد النسفیہ مع شرحہ النبراس۔ صفحہ 598) اور شاہ ولی اﷲ لکھتے ہیں: ’’ہذہ المسئلۃ من قسم ما لم ینطق بہ الکتاب ولم یستفض الحدیث ولم یتکلم فیہ الصحابۃ‘‘ (حجۃ اﷲ البالغہ بحوالہ حاشیہ برخوردار ملتانی علی النبراس) شاید یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ نے بھی اس مسئلہ میں کوئی رائے دینے سے گریز کیا ہے اور سکوت وتوقف اختیار کیا ہے۔ (النبراس۔ صفحہ 602)
بے شک انسان بہت سی مخلوقات سے افضل ہے اور یہ بات قرآن میں بھی موجود ہے اور اس نسبت سے اسے اشرف المخلوقات کہنے میں بھی شاید کوئی حرج نہیں ہے، مگر کیا انسان فرشتوں سے بھی افضل ہے تو آپ جان چکے ہیں کہ یہ مسئلہ غیر یقینی ہے اور امام ابوحنیفہ کی طرح اس میں توقف اختیار کرنا ہی درست معلوم ہوتا ہے۔ نیز احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم فرشتوں کا احترام فرمایا کرتے تھے، چنانچہ منقول ہے کہ ایک موقع پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کسی جنازہ میں شرکت کے لیے تشریف لے جانے لگے تو سواری پیش کی گئی کہ اس پر سوار ہو کر آپ تشریف لے چلیں، لیکن آپ نے انکار کردیا، جنازہ سے جب واپسی ہوئی تو دوبارہ سواری پیش کی گئی اور اب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے قبول کرلیا اور اس پر سوار ہوکر واپس تشریف لائے، جب پوچھا گیا کہ پہلے سواری قبول نہ کرنے اور بعد میں کرلینے میں کیا کوئی خاص حکمت تھی تو ارشاد فرمایا کہ جی ہاں! جنازہ کے ساتھ جانے والوں میں پہلے فرشتے بھی شریک تھے اور مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ وہ پیدل چل رہے ہوں اور میں سوار ہوکر جاؤں، جنازہ کے بعد چونکہ وہ چلے گئے تھے، اس لیے میں سوار ہوگیا۔ (ابوداود۔ حدیث نمبر 3177)
حضرت آدم علیہ السلام کا فرشتہ ہونے کو قابلِ رشک چیز سمجھنا اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرشتوں کے احترام میں سواری پر سوار نہ ہونا ہمیں بتلاتا ہے کہ فرشتے اﷲ کے مقربین کی نظر میں بھی قابلِ رشک اور قابلِ احترام مخلوق ہیں اوراس کا سبب یہ ہے کہ اﷲ نے ہم انسانوں کے سامنے ان کا تعارف ہی اس طریقہ سے کرایا ہے کہ خود بخود ہمارے دل میں ان کے لیے احترام کے جذبات پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں، نیز ان پر ایمان لانے کا خصوصی حکم دے کر گویا ان کے ساتھ ایک احترام کا رشہ قائم کرنے کا ہمیں حکم دیا ہے۔ہمیں آج یہ تو یاد رہتا ہے کہ اﷲ نے فرشتوں کو آدم کی طرف سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اﷲ ہی نے ہمیں پھر ان فرشتوں پر ایمان لانے کا حکم بھی دیا ہے، ان کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی ہے کہ یہ میرے فرشتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ متقاضی ہے ان کے احترام کا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اﷲ کے رسولوں کا معاملہ تو فرشتوں کے بارہ میں وہ ہو جس کا اوپر ذکر ہوا اور ہم گنہ گاروں کی حالت یہ ہو کہ ہمارے سامنے جب بھی ان کا تذکرہ ہو تو بس یہ کہہ کر ساری بات ہی ختم کردیں کہ انسان فرشتوں سے افضل ہیں۔ واضح رہے کہ جو علماء انسان کو فرشتوں سے افضل بتاتے ہیں تو وہ بھی فرشتوں کے لیے شاید ایسے روکھے رویہ کے قائل نہیں جیساکہ آج ہم میں سے بعض میں پیدا ہوچکا ہے۔ فرض کیجئے کہ اگر انسان فرشتوں سے افضل ہو بھی تو یہ معاملہ آخرت کے متعلق ہے اور آخرت کا سارا دارومدار حسنِ خاتمہ پر ہے، جبکہ حسنِ خاتمہ کی کسی کو خبر نہیں۔ہمیں فرشتوں کے متعلق اپنے رویوں کا احتساب کرنا چاہئے تاکہ ان کے حوالہ سے وارد شدہ آیات واحادیث کا نور ہم پوری طرح حاصل کرسکیں اور ان سے پورا پورا مستفیض ہوسکیں۔
یہ کہنا کہ انسان چونکہ آزمائش میں ہے اور فرشتے کسی آزمائش میں نہیں، اس لیے آزمائش کے اندر پورا ترنا انسان کو فرشتوں سے افضل بناتا ہے، یہ کوئی پختہ استدلال نہیں کیونکہ شرف وفضیلت ان علمی نکات کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اﷲ کی عطاء سے حاصل ہوتی ہے اور وہ جسے چاہے، جیسے چاہے، جتنی چاہے فضیلت عطاء فرمائے، یہ کوئی ناانصافی کی بات نہیں۔ کم درجہ والے کو بھی وہ جو کچھ عطا فرماتا ہے، وہ محض اس کا احسان ہوتا ہے اور احسان کرنے والے کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ جس پر چاہے، جتنا چاہے کرے۔ ہم یہاں پر اس بحث میں نہیں پڑ رہے کہ فرشے انسان سے افضل ہیں یا انسان فرشتوں سے، بلکہ ہم صرف یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ غیر یقینی ہے اور اس بحث میں پڑے بغیر فرشتوں سے متعلق اپنا رویہ درست کرنے میں ہماری بھلائی ہے۔ آخرت میں ہمارا جو اور جتنا حصہ ہوگا، وہ ہمیں ہر حال میں ملے گا۔ ہمیں اس معاملہ میں فرشتوں کی تقلید کرنا چاہئے کہ جب انہیں آدم کو سجدہ کرنے کو کہا گیا تو ’’ہم افضل یا آدم افضل‘‘ کی کسی بحث میں پڑے بغیر انہوں نے بلاتوقف اﷲ کے حکم کو پورا کیا، بعینہ اسی طرح ہمیں بھی کسی غیر ضروری بحث میں الجھے بغیر فرشتوں پر ایمان کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔
فرشتے؛ قابلِ رشک مخلوق
آسمانوں میں رہنے والی مخلوق، نافرمانی سے پاک اور توجہ الی اﷲ کے نور سے سرشار رہنے والی مخلوق، خدا کے کارکنان بننے کا جنہیں اعزاز حاصل ہو، جنہیں صرف خدا پرستی اور خدا مستی کی دھن ہو، رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم جن کی آمد کا انتظار کرتے ہوں، جن کا آنا خدا کے حکم کا آنا اور جن کا جانا خدا کے حکم کا جانا ہو، جو سر سجدہ میں رکھیں تو سر اٹھانا بھول جائیں، جن کی تعریف خود ان کا پروردگار کرے کہ وہ محترم ہیں، میری فرماں برداری میں مصروف رہتے ہیں، اور تھکتے نہیں، نومولودوں کی قسمت لکھنا، زندوں کی نگرانی کرنا، بوقتِ موت ارواح کو قبض کرنا، زمین کے معاملات کو اٹھا کر اوپر لے جانا اور اوپر کے احکام کو نیچے لے آنا اور خدا کی اطاعت میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا، نظامِ عالم کی تدبیروتنظیم کے لیے خدا نے جن کاا نتخاب کیا ہو، یادِ الہی کے موقعوں کی جو تلاش میں رہتے ہوں، جھوٹ سے جن کو بدبو آتی ہو، شیطان کے مقابلہ میں جو انسان کو نیکیوں کی تلقین کریں، عذاب نازل کرنے کے لیے یا کسی کی مدد فرمانے کے لیے خدا جنہیں اپنا کارندہ بناکر روانہ کرے، جن کے تذکرہ سے قرآن وحدیث کا کوئی جزو خالی نہ ہو، جن کی دوستی خدا کی محبت کی علامت اور جن کی دشمنی خدا کی دشمنی کے مترادف ہو، ان کا ساتھ پانے، ان کے قریب رہنے اور ان کا دوست بننے کا شوق کس مومن کو نہیں ہوگا۔ قرآن وحدیث میں کثرت سے ہونے والا ان کا تذکرہ اسی لیے ہے کہ ہم ان کے بارہ میں سوچنے کے عادی بنیں، ان کے بارہ میں سوچنا خدا کے بارہ میں سوچنا اور ان کو بھول کر اس کائنات کو محض مٹی گارا سمجھنا جس کے دکھ سکھ، صحت وبیماری، موت وحیات، دن رات، سردی گرمی، جوانی اور بڑھاپا، نر ومادہ، اندھیرا اور اجالا کسی غیبی نظام کے بغیر چل رہے ہیں، خدا کو بھولنا ہے۔
جن کو دوست بنانے، جن کا قرب پانے، جن کی طرف توجہ رکھنے اور جن کی دعاؤں میں شامل ہونے کی ترغیب رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی ہو، ان کی دوستی، انکا قرب اور ان کی دعائیں کتنی بابرکت ہوں گی؟ نیز جن کی دوری کا ذریعہ بننے والے اعمال سے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کراہیت فرمائی ہو اور ان سے روکا ہو، ان ہستیوں کی دوری کتنی محرومی کا ذریعہ ہوگی؟ جن کا زمین پر آنا زمین والوں کے لیے برکت کا ذریعہ بتلایا گیا ہو اور جن کی آمد کی خبر ملنے پر ہمیں خدا سے اس کا فضل مانگنے کو کہا گیا ہو، چنانچہ اﷲ جل شانہ نے لیلۃ القدر کے فضائل کے ضمن میں ایک فضیلت یہ ارشاد فرمائی ہے کہ اس شب فرشتے اور جبریل زمین پر اتر آتے ہیں، نیز ارشادِ نبوی کا مفہوم ہے کہ گدھا جب ہینگتا ہے تو شیطان کو دیکھتا ہے، اس وقت اﷲ سے حفاظت کی دعا مانگ لو، جبکہ مرغا بانگ دیتا ہے تو فرشتہ کو دیکھتا ہے، اس وقت اﷲ سے اس کا فضل مانگ لو (جامع الترمذی)، ذرا سوچئے کہ ہمیں ان فرشتوں کی طرف متوجہ رہنے، ان کے نظام پر غور کرنے اور ان کا احترام کرنے کی کتنی ضرورت ہوگی۔
فرشتوں کا جہاں کیسا ہے؟
فرشتوں کا جہان کیسا جہان ہے، اس کے بارہ میں کچھ نہ کچھ تو ہم نے سن رکھا ہے، کچھ کا اندازہ گذشتہ گفتگو سے ہوگیا، ذیل کی سطور میں ہم اس معاملہ کو کچھ زیادہ تنقیح اور تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ فرشتوں کے بارہ میں ہمیں قرآن کے اندر بتایا گیا ہے کہ یہ پروں والی مخلوق ہے، ان میں سے بعض کے پر دو، بعض کے تین، بعض کے چار اور بعض کے اس سے بھی زیادہ ہیں۔ حضرت جبریل علیہ السلام کے بارہ میں روایت کے اندر منقول ہے کہ ان کے چھ سو پر ہیں، اگر ان میں سے صرف دو پروں کو پھیلادیں تو اس پوری دنیا پر چھت بنادیں۔ پروں والی یہ نیک وپاک مخلوق کتنی خوب صورت ہوگی، یہ تو دیکھنے کے بعد ہی معلوم ہوگا، اور اس کے لیے ایمان واعمالِ صالحہ کو سینے سے لگائے ہوئے مرنا ہوگا، ورنہ بدکار کے سامنے موت کا فرشتہ جس شکل میں آتا ہے، کہا گیا ہے کہ اس کے لیے اور کوئی عذاب نہ بھی ہو تو محض اس کو اس شکل میں دیکھ لینا ہی کافی ہے۔ تاہم فرشتوں کو دیکھنے کے لیے موت ہی ضروری نہیں، بلکہ خدا اگر چاہے تو اپنے بعض نیک بندوں کو اس زندگی میں ہی دکھا دیتا ہے اور دیکھنے والے کو معلوم بھی ہوتا ہے کہ یہ فرشتہ ہے، چنانچہ یہ دیکھنا کبھی اصل شکل میں اور کبھی انسانی شکل میں ہوتا ہے، بعض انبیاء کا انہیں اصل شکل میں دیکھنا ثابت ہے، نیز ایک صحابی کا سورہ کہف کی تلاوت کے دوران انہیں روشنیوں کی شکل میں دیکھنا بھی ثابت ہے، نیز حضرت مریم کے پاس فرشتوں کا آنا اور اﷲ کی طرف سے خوش خبریاں سنانے کے ساتھ ساتھ انہیں نیکیوں کی تلقین کرنا قرآن میں مذکور ہے (آلِ عمران: 42) نیز بدر میں فرشتوں کو انسانی شکل میں دیکھا گیا اور دیگر بھی کئی مواقع پر دیکھنا ثابت ہے۔
اﷲ جل شانہ نے ان کو بھیس بدلنے کی طاقت بھی دی ہے، چنانچہ حضرت جبریل علیہ السلام کو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے صرف دومرتبہ اصل صورت میں دیکھا، ورنہ وہ انسانی شکل میں آتے تھے اور اکثر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت دحیہ کلبی کی شکل میں آتے تھے، نیز ابو جہل نے حضرت جبریل علیہ السلام کو اس وقت ایک بپھرے ہوئے اونٹ کی شکل میں دیکھا جب وہ برے ارادہ سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف بڑھ رہا تھا اور آپ اس وقت کعبہ کے قریب نماز ادا فرمارہیتھے۔ اسی طرح ایک فرشتہ کے بارہ میں خود نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بتایا کہ وہ پہلے ایک درویش کی شکل میں اور پھر بھکاری کی شکل میں تین آدمیوں کے پا س گیا جن میں سے ایک گنجا، ایک برص والا اور ایک نابینا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان تینوں میں سے ایک نے اس فرشتہ سے نیک سلوک کیا اور وہ کامیاب ہوا، جبکہ باقی دو نے برا سلوک کیا اور وہ ناکام ہوئے۔ اس حدیث میں گویا سبق دیا گیا ہے کہ بھکاریوں سے بلکہ ہر انسان سے معاملہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے، کیا خبر کہ وہ تمہاری آزمائش کے لیے آیا ہو اور اگر وہ فرشتہ نہ بھی ہوا تو بہرحال اﷲ تو دیکھ رہا ہے۔
فرشتے کیا کام کرتے ہیں؟
یہ فرشتے مختلف کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ ارشادِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے کہ کئی فرشتے ایسے ہیں کہ جب سے انہیں اﷲ نے پیدا کیا ہے، تب سے لے کر آج تک حالتِ سجدہ میں ہیں اور کچھ تب سے لے کر آج تک حالتِ رکوع میں ہیں۔ اﷲ کی حمد وثناء کرنا اور بلا تکان کرنا تو گویا فرشتوں کی قدرِ مشترک ہے۔ کچھ فرشتے ایسے عظیم وبرتر ہیں کہ اﷲ کا عرش اٹھانے کی فضیلت اور عزت انہیں حاصل ہے، ان فرشتوں کے بارہ میں خدا نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے کہ یہ فرشتے جو اﷲ کی بارگاہِ خاص کا ایسا عظیم قرب رکھتے ہیں، یہ اﷲ کی حمد وثناء کے ساتھ ساتھ مومنوں کے لیے دعاؤں میں بھی مصروف رہتے ہیں ان کی دعائیں قرآن میں منقول ہیں:
’’الَّذِینَ یَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُونَ بِہِ وَیَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَۃً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِینَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِیلَکَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیمِo رَبَّنَا وَأَدْخِلْہُمْ جَنَّاتِ عَدْنِ نِ الَّتِی وَعَدتَّہُم وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِہِمْ وَأَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ إِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُoوَقِہِمُ السَّیِّئَاتِ وَمَن تَقِ السَّیِّئَاتِ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہُ وَذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ‘‘ (سورۃ غافر۔ آیت7۔9)
یعنی ’’جو فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو ان کے ارد گرد موجود ہیں، وہ اپنے رب کی حمد وتسبیح کرتے ہیں، رب پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو اپنی وسعت میں لیے ہوئے ہے، سو جو لوگ توبہ کریں اور تیرا راستہ اختیار کریں، (ان کی دل کی ندامت وصداقت کو دیکھتے ہوئے) انہیں معاف فرما دے اور انہیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرمادے۔ اے ہمارے رب! انہیں عدن کی جنات میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے، نیز ان کے آباء اور ازواج میں سے جو لوگ صالح ہوں، انہیں بھی، بے شک تو بڑی عزت کا مالک بڑی حکمت والا ہے۔ نیز انہیں برے اعمال واحوال سے بچا اور روزِ قیامت تو جسے برے احوال سے بچائے گا، وہی تیری رحمت کا مورد ہوگا اور یہی سب کچھ مل جانا عظیم کامیابی ہے۔‘‘
یہ فرشتے خدا کی منشاء سے سرِ مو انحراف نہیں کرتے، حتی کہ یہ دعا اور سفارش بھی اسی کے لیے کرتے ہیں جس کے لیے آسانی کا ارادہ خود پروردگار رکھتا ہو۔ قرآن میں ہے: ’’وَلَا یَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَی‘‘ یعنی ’’وہ صرف اسی کے حق سفارش کرتے ہیں جس کے لیے سفارش کرنے پر خود خدا راضی ہو۔‘‘ فرشتے جو کچھ مانگتے ہیں، وہ خود خدا کی منشاء ہوتی ہے، مثلا ایک فرشتہ صبح کے وقت دعا کرتا ہے کہ ’’اﷲم أعط منفقا خلفا وممسکا تلفا‘‘ یعنی ’’اے اﷲ! خرچ کرنے والوں کو مزید دے اور بخیل کا مال ضائع کردے۔‘‘ خدا کا نظام شاہانہ ہے، کرنا تو سب کچھ اسی نے ہے، مگر جو کچھ کرنا ہوتا ہے، اس کے لیے پہلے ہی سے آسمان وزمین میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھوا دیے جاتے ہیں کہ یا اﷲ ایسا کردے، یا اﷲ ایسا کردے، پھر جب وقتِ موعود آتا ہے تو وہ کام ہوجاتا ہے۔
کچھ فرشتے ایسے ہیں جن کی ٹولیاں بنی ہوئی ہیں، ایک ٹولی صبح سے لے کر شام تک زمین پر رہتی ہے اور دوسری ٹولی شام سے لے کر فجر تک، اور یہ بندوں کی کارکردگی کی رپورٹ اوپر پہنچاتے رہتے ہیں، حدیث کا مفہوم ہے کہ انسانوں کے دن کے اعمال رات کا عمل شروع ہونے سے پہلے پہلے خدا کی طرف اٹھادیے جاتے ہیں اور رات کے اعمال صبح کا عمل شروع ہونے سے پہلے پہلے اٹھا دیے جاتے ہیں، حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے اور فرشتوں سے بڑھ کر جانتا ہے، مگر اس کا نظام شاہانہ ہے۔ کچھ فرشتے ایسے ہیں کہ ذکر اﷲ، یعنی یادِ الہی کی مجالس کی تلاش میں رہتے ہیں، جب انہیں ایسی کوئی مجلس نظر آتی ہے تو باقی ساتھیوں کو بھی بلا کر ادھر جمع ہوجاتے ہیں کہ آؤ، ہمارا مقصود یہاں ہے، پھر جب مجلس برخواست ہوجاتی ہے تو آسمانوں میں جاکر بتلاتے ہیں۔ کچھ فرشتے درود پڑھنے والے کی تلاش میں رہتے ہیں اور درود لے کر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس پہنچاتے ہیں۔
بعض فرشتوں کا ہوش ربا قدوقامت
سیدنا حضرت اسرافیل علیہ السلام کے بارہ میں ایک روایت کے اندر منقول ہے کہ ان کے بارہ پر ہیں، جن میں سے ایک پر مشرق میں اور دوسرا مغرب میں ہے، ان کا کندھا عرش کے نیچے ہے اور پیر آخری زمین میں، لیکن کبھی کبھی خدا تعالی کے عظمت وجلال کا اتنا استحضار ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے دبلے ہوکر ’’الوضع‘‘ (چھوٹی چڑیا) کی طرح ہوجاتے ہیں۔ انہی کے ذمہ قربِ قیامت کے اندر صور کا پھونکنا ہے اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے شبِ معراج کے اندر کیا گیا اپنا ایک مشاہدہ بتایا کہ میں نے اسرافیل کو دیکھا کہ وہ تعمیلِ ارشاد کے لیے ایسے مستعد بیٹھے ہیں کہ صور کو ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے، منہ اس کی طرف جھکا ہوا ہے اور نگاہیں عرش پر ٹکی ہوئی ہیں، مستعدی کا یہ عالم ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ شاید ابھی پلک جھپکنے سے بھی قبل اﷲ پاک صور پھونکنے کا حکم دیں گے، اس لیے پوری طرح تیار بیٹھے ہیں۔
ایک اور صحیح السند روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مجھے اجازت دی گئی ہے کہ تمہیں حاملینِ عرش میں سے ایک فرشتہ کے بارہ میں بتاؤں جس کے پیر آخری زمین میں ہیں اور سینگ کے اوپر عرش ہے، اس کے صرف کانوں کی لو اور گردن کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ پرندہ سات سو سال تک اڑتا رہے تو تب کہیں جاکر اس فاصلہ کو طے کرسکتا ہے، یہ فرشتہ اﷲ کی تسبیح کر رہا ہے اور یوں کہتا ہے: ’’سبحانک حیث کنت‘‘ یعنی ’’اے مالک! تو جہاں بھی ہے، میں تیری تسبیح کہتا ہوں، تو پاک ہے ہر عیب سے۔‘‘ (صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ۔ رقم 853)
فرشتوں کی تعداد
خدا کے فرشتوں کی تعداد صرف خدا ہی کو معلوم ہے۔ جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے لیے عیادت کو جاتا ہے تو صرف اس آدمی کے لیے اﷲ تعالی ستر ہزار فرشتے بھیجتے ہیں جو شام تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور اگر شام کو جائے تو صبح تک دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ (غالبا یہ حدیث صحیح بخاری میں ہے) ایک اور روایت کے مطابق آسمان پر اتنے فرشتے ہیں کہ ایک حدیث کے مطابق جگہ ہی خالی نہیں۔ ایک اور حدیث کی رو سے جب فرشتے لیلۃ القدر میں زمین پر نازل ہوتے ہیں تو پوری زمین بھر جاتی ہے۔
فرشتوں سے ہمارا تعلق
فرشتوں کے جہان کی یہ ساری باتیں محض سننے سنانے کی باتیں نہیں ہیں، بلکہ جیساکہ ہم نے پہلے عرض کیا، یہ دراصل ہمیں ایک زاویہء نگاہ دیتی ہیں کہ جب ہم اپنے گرد وپیش میں پھیلے ہوئے جہان کو دیکھیں تو صرف مٹی گارے کو ہی نہ دیکھتے رہ جائیں، ہمارا ذہن خدا کے غیبی نظام اور اس کے مقدس کارکنان کی طرف بھی مبذول ہو، اپنے لیے ان کی دعاؤں کو یاد کریں، ان کی عبادت کو یاد کریں اور ان کو اپنے ایک قابلِ رشک مثال سمجھیں، نیز قرآن کے بتائے ہوئے اس وقت کو یاد کریں کہ جب وہ جنت میں آکر مومنوں کو مبارکباد دیں گے اور بتائیں گے کہ ہم دنیامیں بھی تمہارے دوست ہوا کرتے تھے اور اب بھی تمہارے دوست ہیں۔ ملائکہ پر بشر کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے پر تکلف استدلالات اختیار کرنے کی بجائے، ہمارے لیے بہتر یہ ہے کہ اپنے قلب ودماغ کو کرنے کے اصل کاموں کی طرف پھیریں۔ ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ ہم فرشتوں کا احترام کریں، ان کی صحبت ومعیت اور دعاؤں سے مستفیض ہونے کا شوق اپنے اندر پیدا کریں اور ان کی نیکوکاری کے خیال کو اپنے دل میں بسائیں، سو ہمیں ان سے متعلق یہی تصورات اپنے اندر پختہ کرنے چاہییں، ہمیں ان سے محبت ہو، عقیدت ہو، ان کی قابلِ رشک معصومیت پر رشک آئے، نظامِ عالم میں خدا کے ان غیبی کارکنان کی کارفرمائی کے واقعات ہمارے سامنے ہوں اور ہم بھی ان کو یاد کرکے ان کی طرح خدا کے سچے پکے فرماں بردار بندے بننے کی چاہت اور کوشش میں لگ جائیں۔ ان کے بارہ میں یہ باتیں بار بار سوچنا اور فرشتوں کے غیبی جہان کے بارہ میں بتلائی گئی باتوں کو ہر وقت پیشِ نظر رکھنا ہی گویا اﷲ اور اس کے رسول کو مطلوب ہے جس کی وجہ سے مومنین کو ان پر بطورِ خاص ایمان لانے اور ان سے قلبی تعلق قائم کرنیکا حکم دیا گیا ہے اور نظامِ عالم میں ان کی کارفرمائی کے مختلف واقعات ہمیں قرآن وحدیث میں بار بار سنائے گئے ہیں۔ یہ سب کرنے سے یقینا خدا کی رحمتیں ہماری طرف متوجہ ہوں گی اور اس کا قرب حاصل ہوگا۔
مثال کے طور پر اگر کبھی نمازکے اخیر میں دائیں بائیں سلام پھیرتے ہوئے یہ سوچ لیں کہ میں تو دورانِ نماز خدا کے آگے ہاتھ باندھ کر بھی نہ جانے کہاں کہاں کی سیریں کرتا رہا، مگر میرے دائیں بائیں میری نگرانی کے لیے موجود فرشتے کتنے اچھے اور اﷲ کے کتنے فرماں بردار ہیں کہ بغیر کسی دوسرے تیسرے تاثر کے، بالکل یکسو ہو کر پورے انہماک کے ساتھ اﷲ کے حکم کی تعمیل اور میری نگرانی میں مصروف ہیں، یہ سوچ کر ان پر رشک آجائے، ان کی فرماں برداری کی وجہ سے ان کے لیے محبت وعقیدت کے جذبات دل میں پھوٹ پڑیں اور یہ آہ دل سے نکل جائے کہ کاش میں بھی ایسے ہی کامل انہماک ویکسوئی کے ساتھ اپنے پروردگار کی عبادت وطاعت کرپاتا تو ذرا سوچئے کہ فرشتوں کی طرف توجہ مبذول ہونے سے اس موقع پر جتنے پاکیزہ احساسات ہمارے اندر پیدا ہوئے ہیں، کیا وہ رحمتِ الہی کو ہماری طرف متوجہ نہیں کریں گے اور اگر اﷲ نے چاہا تو کیا یہی احساسات نماز میں ہونے والی ہماری کوتاہیوں کا ازالہ نہیں کردیں گے؟ فرشتوں کے بارہ میں جو مختلف معلومات ہمیں قرآن وحدیث میں دی گئی ہیں تو ان سے مقصود گویا یہی ہے کہ وقتا فوقتا ہماری توجہ ان کی طرف مبذول ہو، ان کی طرف ہمارا یہ قلبی التفات ہمارے لیے رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا ذریعہ بنے گا اور اس التفات میں انسان کے لیے بہت سی خیریں چھپی ہوئی ہیں۔ وآخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العلمین!