سعود عثمانی
فراق کیا ہے کسے خبر ہے
حدِ مدینہ تھی جس پہ اک شہسوار پابستہ چل رہا تھا
یمن کی جانب سفر کی خاطر
ضروری زاد سفر سبھی بار ہوچکا تھا
وداع کرنے وداع ہونے کا وقت سر پرتھا
رنج آزار ہو چکا تھا
دیا رِدل دار ہولے ہولے قدم اٹھاتے بچھڑ نے والوں کو دیکھتا تھا
سوار تھا دور جانے والا
اور اس کو رخصت کے لفظ کہتا
سوار کے ساتھ ساتھ پیدل وداع کرنے کو چل رہا تھا
وہ دوست جو اس کو بھیجتا تھا
وہ دوست اک عام دوست کب تھا
یہ کب ہوا ہے کہ ہر کسی شہسوار کا یہ نصیب بھی ہو
کہ ایسا سردار دوست ہو جو نبی بھی ہو اور حبیب بھی ہو؟
جودل کے اتنے قریب بھی ہو
وہ جس نے اک بار جانے والے کا ہاتھ پکڑا تھا اور کہا تھا
کہ ’’مجھ کو اﷲ کی قسم، اے معاذ! تم سے مجھے محبت ہے ‘‘
اور یہ الفاظ اس سے بارِ دِگر کہے تھے
کسی کو یہ بخت کب ملا ہے
حبیب پروردگار کایوں حبیب ہونا
نبی کے دل کے قریب ہونا
وہ خوش مقدر سوار تھا جس کی خوش نصیبی
سواری کے ساتھ ساتھ پیدل وداع کرنے کو چل رہی تھی
ہدایتیں اور نصیحتیں پوری ہوچکی تھیں
تو پھر توقف کے بعد اس کے خلیل نے اس سے یہ کہا تھا
کہ’’ اے معاذ! اب یہ سال گزرا
تو شاید اب اس کے بعد مجھ سے نہ مل سکو گے
تو عین ممکن ہے تم پھر آؤ تو میری مسجد سے اور مری قبر ہی سے گزرو ‘‘
معاذ ابن جبل مدینہ کی حد پہ تھے اور یہ ضبط کی بھی حد تھی
تو بند ٹوٹا اور ان کی آنکھوں نے آنسوؤں کو سفر پہ بھیجا
وہی سفر جس کے بعد آنکھیں پھر آنسوؤں سے نہ مل سکیں گی
بچھڑنے والا ہی جانتا تھا
سفر سے پہلے کا یہ سفر اختتام ہونا
سوان کا دل تھا کہ پھٹ رہا تھا
ہوائے شہر نبی کا جھونکا تھا اور گلے سے لپٹ رہا تھا
معاذ ابن جبل کو معلوم ہی نہیں تھا
کہ ان کی رخصت در اصل رخصت حبیب کی تھی
کہ عارضی ہجر دائمی تھا
کہ یہ ملاقات آخری تھی
وادع کرنا وداع ہونے کی اک کڑی تھی
جو دونوں سمتوں میں کھینچتی تھی عجب گھڑی تھی
معاذ ابن جبل سے پوچھو
کہ قربِ محبوب کاشدید اشتیاق کیا ہے
معاذ ابن جبل سے پوچھو
اطاعتوں اور محبتوں میں سے اس جگہ فوقیت کسے ہے
جو اپنے جلتے چراغ کے ساتھ جل رہا ہو وہ طاق کیا ہے
معاذ ابن جبل سے پوچھو فراق کیا ہے