غلام مصطفی
(آخری قسط )
سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہاکے مرض الوفات میں سیدہ اسماءؓ بنت عمیس زوجہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہم کی خدمات:
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد سیدہ اسماء بنت عمیس زوجہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہما کے حبالہ عقد میں تھیں۔ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا بیمار ہوئیں تو انھی سیدہ اسما نے بی بی صاحبہ کے مرض الموت میں اُن کی تیمار داری بھی کی اور اُن کی بیماری کی ہر خدمت میں حاضر رہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ وہ اپنے شوہرِ نام دار سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی اجازت اور رضا سے ہی کرسکتی تھیں۔ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے انتقال کے وقت سیدہ اسماء نے ایک با پردہ چار پائی تیار کی جو بی بی صاحبہ کو بہت پسند آئی۔ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے انتقال کے بعد اسی با پردہ چار پائی پر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کو رات کے وقت دفن کیا گیا۔ (طبقات ابن سعد، جلد نمبر 8صفحہ نمبر 18)
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی اہلیۂ محترمہ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا کا انتقال کے قریب کے زمانے میں سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت کرنا دونوں خاندانوں کے رشتۂ محبت کی دلیل ہے اور یہ کہنا کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور اُن کے خاندان سے ناراض تھیں بالکل غلط اوردُور ازحقیقت ہے۔
واضح ہو کہ سیدہ اسماء کا مرض الموت میں سیدہ فاطمۃ الزہراء کی خدمت کرنا پھر اُن کے انتقال کے بعد اُن کو غسل دینا نہ صرف اہل سُنت علماء کی کتابوں میں مندرج ہے بلکہ شیعہ علماء کے ہاں بھی یہ حقیقت مسلَّم ہے۔ بطورِ مثال درج ذیل حوالے قابلِ غور ہیں: جلاء العیون صفحہ نمبر 175,172ملاّ باقر مجلسی، امالی شیخ ابی جعفر محمد بن حسن طوسی صفحہ نمبر 107، کشف الغمہ جلد نمبر 2صفحہ نمبر 129۔
سیدہ فاطمہ بنت رسول اﷲ علیہما الصلوات والتسلیمات کی نماز جنازہ:
بعض کہنے والے کہتے ہیں کہ باغِ فدک کے مسئلہ میں سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے ناراض ہوگئی تھیں لہٰذا جب سیدہ فاطمہ کا انتقال ہوا تو سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر کو اطلاع دیئے بغیر سیدہ فاطمہ کو رات کی تاریکی میں دفن کردیا۔
یہ بات عقلاً اور نقلاً غلط ہے، عقلی طور پر اوَّلاً تو اس لیے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی وفات کے وقت سید ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی اہلیہ محترمہ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنھا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی اجازت اور اُن کے کہنے پرسیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت اورتیمار داری کرتی رہیں۔ پھرثانیاً یہ کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے غسل کی بھی اُنھی کو وصیت کی، اگر وہ ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہا سے ناراض ہوتیں تو ان کی بیوی سے اپنی خدمت کیوں کرواتیں اور غسل کی بھی کیوں وصیت کرتیں؟ نقلی طور پر اس لیے کہ کتابوں میں واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا جنازہ ہی سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے کہنے پرسیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے پڑھایا تھا۔ روایت ملاحظہ فرمائیں:
چنانچہ لکھا ہے کہ عَنْ جَعْفِر بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ مَاتَتْ فَاطِمَۃُ بِنْتُ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ اَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ لِیُصَلُّوْا فَقَالَ اَبَوْبَکْرٍ لِعَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ تَقَدَّمْ، فَقَالَ مَاکُنْتُ لأاتَقْدَّمَ وَاَنْتَ خَلِیْفَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَقَدَّمَ اَبَوْبَکْرٍؓ وَصَلّٰی عَلَیْھَا۔
ترجمہ: سیدنا امام جعفر صادق اپنے والدِ ماجد سیدنا محمد الباقر سے روایت کرتے ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ بنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا نتقال ہوا تو ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہمادونوں نماز جنازہ پڑھنے کے لیے آئے ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ سے کہا کہ آگے بڑھ کر نماز جنازہ پڑھائیے۔ تو سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا کہ آپ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلیفہ ہیں، میں آپ کی موجودگی میں آگے نہیں ہوسکتا۔ پس سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے آگے بڑھ کر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی۔ (کنز العمال روایت 5299)
اسی کتاب میں باب فضائل فاطمہ رضی اﷲ عنہا میں اسی مضمون کی ایک اور روایت ان الفاظ سے آئی ہے:
جب سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا انتقال فرماگئی تو سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے اُن کورات کے اندھیرے میں دفن کیا اور سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو دونوں بازؤں سے پکڑ کر نماز جنازہ پڑھانے کے لیے آگے کیا۔(کنز العمال جلد نمبر 7صفحہ نمبر 114)
اسی طرح کی روایت ابن سعد نے طبقات میں بیان فرمائی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں( صلّٰی اَبوبکرؓ الصدیق علیٰ فاطمہؓ بنتِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم فکبر اربعاً )
ترجمہ: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے سیدہ فاطمہ بنتِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی نماز جنازہ پڑھائی اور اُس پر چار تکبیریں پڑھیں۔ (طبقات ابن سعد، جلد نمبر 8صفحہ نمبر 29)
اس بارے میں کئی اور روایات بھی کتابوں میں درج ہیں ملاحظہ ہوں:السنن الکبریٰ کتاب الجنائز، حلیۃ اولیاء جلد نمبر 4صفحہ 96تذکرہ میمون بن مہران، ریاض النضرۃ فی مناقب العشرہ المبشرہ جلد نمبر 1صفحہ نمبر 156۔
ایک شبہ اور اُس کا ازالہ:
بعض حضرات اس بارے میں ایک شبہ پیش کرتے ہیں کہ بعض روایات میں ہے کہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو رات کے وقت دفن کیا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو اس کی اطلاع نہ دی اور خود سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس شبہے کا آسان اور سیدھا جواب یہ ہے کہ اس مضمون کی جس قدر بھی روایات ہیں، ان سب کی سندمیں محمد بن مُسلم المعرف ’’ابن شہاب زہری‘‘ شیعہ راوی ہیں، لہٰذا اُن سب روایات میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا نماز جنازہ میں شامل نہ ہونا یا نماز جنازہ نہ پڑھنا ابن شہاب زہری شیعہ کا تفرد اور ادراج ہے، جوکہ قابل قبول نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابنِ شہاب زہری نے اس بات سے اندازہ لگا کر کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو رات میں دفن کیا گیا تھا،یہ سمجھ لیاکہ اس وجہ سے شاید سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو اطلاع نہ دی گئی ہو۔ یہ اُن کا اپنا قیاس معلوم ہے جوکہ غلط ہے۔ اس قیاس کی غلطی اس بات سے بھی واضح ہے کہ کہ جب سے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا بیمار تھیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی زوجہ محترمہ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا اُن کی تیمار داری میں مصروف تھیں، وہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کی بیماری کی پَل پَل کی خبر خلیفہ الرسولؐ کو دیتی ہوں گی۔ کیا اُنہوں نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کے انتقال کی خبر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو نہ دی ہوگی؟
لہٰذا یہ کہنا کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے انتقال کی خبر سیدنا ابوبکر صدیق کو نہ دی گئی۔ خلاف عقل بھی ہے اور خلاف نقل بھی۔ اور وہ روایات جن میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو اطلاع نہ دینے کا ذکر ہے ابن شہاب زہری متشیع کا ادراج ہے جیسا کہ معلوم ہی ہے کہ ابن شہاب زہری کی عادت ہے کہ روایات میں اکثر ادراج کردیتے ہیں۔ جیسے معاملہ فدک میں سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کا سیدنا ابوبکر صدیق سے کلام نہ کرنا وغیرہ بھی ابن شہاب زہری کا ادراج اور تفرد ہے۔ وگرنہ حقیقت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی نماز جنازہ سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ ہی نے پڑھائی اور سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے اُن کو نماز جنازہ پڑھانے کے لیے آگے کیا تھا۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں دلائل سے ذکر کیا گیا ہے۔