غلام مصطفی
(تیسری قسط)
اگر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کوبنو نضیر فدک اور خیبر وغیرہ زمینیں جن میں کھجوریں وغیرہ تھیں وراثت میں نہیں دی تو اُن کا یہ فیصلہ تو فقہ جعفریہ کے نام سے مشہور مذہب کے بھی عین مطابق ہے۔ کیونکہ اس مذہب اس عورتوں کو زمین سے کچھ حصہ نہیں ملتا۔ پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ پر یہ الزام واعتراض کا کیا مطلب؟
حضرت اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کے ہاں قرآن مجید کے بعد چھ کتابیں صحاح ستہ کہلاتی ہیں اور بیشتر دینی مسائل کامدار اُن پر ہے۔
اسی طرح مکتبِ تشیع کے نزدیک چار کتابیں ہیں جن کو وہ صحاح اربعہ یا اصول اربعہ کہتے ہیں۔
(1) کتاب اصول کافی ،مصنفہ، ابوجعفر کلینی متوفی 330ھ
(2) کتاب من لایحضرہ الفقیہ۔ مصنفہ، محمد بن علی ابن بابویہ قُمی متوفی 381ھ
(3) کتاب الا ستبصار، مصنفہ محمد بن حسن طوسی متوفی 460ھ
(4)کتاب تہذیب الأحکام، یہ بھی مصنفہ محمد بن حسن طوسی متوفی 460ھ
ان چاروں میں تصریح ہے عورتوں کو وراثت میں زمین میں سے کچھ بھی نہیں ملتا
اصول کافی میں ہے باب ان النساء لایرثن میں العقار شیاء، یہ باب اس مسئلے کے اثبات میں کے زمین میں عورتوں کا کچھ حق وراثت نہیں ہوتا۔
محمد بن مسلم المعروف ابن شہاب زہری اور زرارہ کی الا حکام سے روایت ہے کہ امام محمد الباقر نے فرمایا عورتوں کو وراثت میں زمین سے کچھ بھی نہیں ملتا۔ (بحوالہ تہذیب لا حکام، جلد نمبر 9صفحہ نمبر 29)
بعینہ اسی سند اور الفاظ کے ساتھ یہ روایت الا ستبصار میں بھی موجودہے۔ اب جب معترضین کے اپنے اصول کے مطابق عورتوں کو زمین سے کچھ حصہ نہیں ملتا تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے فدک کی جاگیر اگر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کو نہیں دی تو کیا ظلم کیا۔
علاوہ ازیں سیدنا علی رضی اﷲ عنہ بھی تو چار سال نو ماہ خلیفہ رہے کیا حضرت علی رضی اﷲ عنہ بھی اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں؟ اب آپ ٹھنڈے دل سے سوچئے اعتراض صرف سیدنا ابوبکر صدیق پر ہی کیوں؟ کیا یہی انصاف ہے۔
سیدنا علی رضی اﷲ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کاعقدِ نکاح اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم :
سیدنا علی رضی اﷲ عنہ پورے شباب پر تھے۔ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاں ہی رہتے تھے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُنہیں اپنی دامادی کاشرف بخشا اور اپنی صاحبزا دی سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کو اُن کے حبالہ عقد میں دے دیا۔ شادی کے وقت سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی عمر 21سال اور سیدہ فاطمہ کی عمر ساڑھے 15پندرہ سال تھی۔ (البدا یۃ والنھا یۃ ، جلد نمبر 6صفحہ نمبر 332، زرکانی، جلد نمبر 2صفحہ نمبر 203، تفسیر قرطبی، جلد نمبر 4صفحہ نمبر 151)
سیدنا علی رضی اﷲ عنہ اورسیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کا یہ نکاح سنہ 3 ہجری میں غزوہ اُحد کے بعد ہوا۔چنانچہ مشہور شیعہ محدث ومؤرخ ملا باقر مجلسی نے لکھا ہے:
شیخ مفید وابن طاؤس واکثر اعاظم علماء ذکر کردہ اندکہ این مزاوجت باسعادت درشب پنجشنبہ بیست ویکم ماہ محرم از سال سویم ہجرت واقع شد۔ ترجمہ: شیخ مفید اور ابن طاؤس اور اکثر بڑے علماء نے ذکر کیا ہے کہ یہ نیک شادی جمعرات کی رات 21محرم 3ھ کو ہوئی۔ ( جلاء العیون، جلد نمبر 1صفحہ نمبر 166،مُلاباقر مجلسی)
سیدنا علی اور سیدۃ فاطمہ الزہراء کی شادی کیسے ہوئی؟ فریقِ مخالف کی کتابوں میں:
سیدنا علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر رضی اﷲ عنھم میرے پاس آئے اور کہا کہ کیاہی اچھا ہوتا اگر آپ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کی خوا ستگاری کے لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت گرامی قدر میں حاضر ہوتے۔ میں ان حضرات کی ترغیب پررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تومسکرا کر فرمایا! علی کس طرح آنا ہوا؟ میں نے اپنی نسبی قرابت اور دیرینہ قبولیت اسلام، نصرت دینی اور مساعی جہاد کا ذکر کیا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا:علیؓ جو کچھ تونے کہا تو اُس سے بہتر ہے۔
پھر میں نے عرض کیا اگر آپ فاطمہؓ کا نکاح مجھ سے کردیں تو بہتر ہوگا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، تم یہیں ٹھہرو، میں ابھی گھر سے ہوکر آتا ہوں، چنانچہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھ کر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کھڑی ہوگئیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے۔ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی چادر مبارک اور نعلین اُتار کر رکھیں۔ پھر وضو کے لیے پانی لاکر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو وضو کرا یا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک دھوئے۔ پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہ بیٹھ گئیں۔
اُس کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فاطمہ!علی نے تیرے نکاح کے بارہ میں ذکر کیا تھا، تمہارا کیا خیال ہے؟ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا خاموش رہیں لیکن چہرے پر ناپسندیدگی کے کوئی آثار نہ تھے اور نہ ہی رُخ پھیرا،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ اکبر کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اورفرمایا فاطمہ رضی اﷲ عنھا کا خاموش ہوجانا ہی اقرار اوررضا مندی کی علامت ہے۔(ا لامالی: محقق طوسی جلد نمبر 1صفحہ نمبر 38)
مُلاّ باقر مجلسی ایرانی نے بھی اپنی کتاب جلاء العیون کے باب’’ تزویج امیر المومنین سیدۃ فاطمہ‘‘ میں شیخ طوسی کی معتبر سند سے یہی نقل کیا ہے کہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کو سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا سعد رضی اﷲ عنھم نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا سے نکاح کے لیے آمادہ کیا۔ چنانچہ ملا باقر مجلسی نے لکھا ہے: پس ایشاں بہرطوریکہ بود آں حضرت را راضی کر دند کہ بخدمت حضرت رسول رود و فاطمہ را ازاں حضرت خواستگاری نماید۔ ترجمہ: پس اِن تینوں (ابوبکر، عمر، سعد بن معاذ) رضی اﷲ عنھم جس طرح بھی ہوسکا سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کو اس کام کے لیے راضی کر لیا کہ وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کی خواستگاری کریں۔ (بحوالہ: جلاء العیون ، جلد نمبر 1صفحہ نمبر170)
چنانچہ ان حضرات کی آمادگی پر سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کی خواستگاری کی جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبول فرمائی،لیکن یہ پوچھا کہ شادی کے مصارف کے لیے کوئی رقم ہے۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا کہ صرف ایک زرہ ہے۔
یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے والد نہایت مفلوک الحال اور تنگ دست تھے۔ چنانچہ اسی تنگ دستی کی وجہ سے تعاون کی نیت سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کو اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس رضی اﷲ عنہ نے سیدنا علی کے بڑے بھائی سیدنا جعفر رضی اﷲ عنہ کو اپنی زیر کفالت رکھا تھا۔
سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی زندگی بھی نہایت فقر و ترکِ دنیا کی زندگی تھی۔ آپ کا ذریعہ معاش اپنے اونٹ کے ذریعے کاشتکاروں کے کنووں سے پانی نکال کر ان کے کھیتوں کوسیراب کرنا تھا۔ ایک دوسری روایت میں ایک گھوڑے کا ذکر بھی ہے۔
چنانچہ مُلاّ باقر مجلسی ہی نے لکھا ہے کہ جب ابوبکر صدیق، سیدنا عمر، اور سیدنا سعد بن معاذ رضی اﷲ عنھم سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کی خواستگاری کے لیے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کوآما دہ کرنے کے لیے اُن کے ہاں گئے تو راوی یہ بتاتے ہیں:
’’درآں وقت حضرت شتر خود را بردہ بود در باغ یکے ازانصار آب می کشید با جرت ‘‘ ترجمہ:سیدنا علی رضی اﷲ عنہ گھر پر موجود نہ تھے بلکہ آپ اُس وقت اپنا اونٹ لے کر ایک انصاری کے باغ میں اجرت پر آب کشی کے لیے گئے ہوئے تھے۔ (جلاء العیون جلد نمبر 1صفحہ نمبر 169، کشف الغمہ جلد نمبر 1صفحہ نمبر 354)
غرض کہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی معاشی اور اقتصادی حالت کچھ آسائش کی نہ تھی۔ لہٰذا آپ کے پاس سرما یہ صرف ایک زرہ تھی۔جس کے بارہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم فرمایا:
’’حضرت رسول مرا امر فرد مودہ کہ یا علیؓ بر خیزو زرہ رابفروش ‘‘۔ ترجمہ: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا اے علیؓ اُٹھ اور زرہ کو (شادی کے مصارف) کے لیے فروخت کردو۔ (بحوالہ جلاء العیون جلد نمبر 1صفحہ نمبر 176، ملا باقر مجلسی )
سیدنا علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں میں نے وہ زرہ فروخت کردی اور قیمت لے کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بار گاہ میں پہنچا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا: کتنے درہم ہیں؟ میں نے( غالبا قلت کی وجہ سے) نہ بتایا بلکہ خاموش رہا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس رقم میں کچھ درہم سیدنا بلال رضی اﷲ عنہ کو دیئے کہ سیدہ فاطمہؓ کے لیے خوشبو خرید لائیں۔
پھرآپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ بھر کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو دیئے کہ فاطمہ کے لیے کپڑا وغیرہ اور دیگر سا مان شادی لے کر آئیں۔ عماربن یاسر رضی اﷲ عنہ اور دوسرے کئی اصحاب کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے ساتھ سامان لانے کے لیے بھیجا۔ یہ سب حضرات بازار گئے۔ جو چیز یہ خریدنا چاہتے وہ پہلے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو دکھاتے اگر وہ اس کا خریدنا بہتر سمجھتے تو پھر اُس کو خریدتے۔
سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے لیے جو اشیاء خرید گئیں وہ حسب ذیل ہیں:
’’ایک قمیض، ایک اوڑھنی، ایک خیبری سیاہ چادر، ایک بُنی ہوئی چادر، بستر کے دو گدے ایک گدا کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تھا، دوسرے گدے کی بھرائی بھیڑ کی اون سے کی گئی تھی۔ ایک تکیہ جس کی بھرائی اذخر (گھاس) سے کی ہوئی تھی۔ ایک صوف(اون) کا کپڑا، ایک چمڑے کا مشکیزہ، دودھ کے لیے ایک گلاس، ایک لکڑی کا پیالہ، سبز قسم کا ایک گھڑا اور چند مٹی کے کوزے‘‘
اس خرید کردہ سامان میں سے کچھ سامان سید ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اُٹھایا اور باقی اشیاء دوسرے حضرات نے اٹھائیں۔ جب یہ سامان آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے ہاتھوں میں لیکر ملاحظہ فرمایا اور فرمایا: ’’خدا وندا مبارک گرداں ایں رابر اہل بیت من‘‘ اے اﷲ اس سامان کو میرے گھرو الوں کے لیے برکت والا بنا۔(بحوالہ، العیون جلد نمبر 1صفحہ نمبر 176،کشف الغمہ جلد نمبر 1ص 359)
جس زرہ کے فروخت سے سیدہ فاطمہؓ کے لیے سامان خریدا گیا وہ زرہ کہاں بیچی گئی اور کتنے میں بیچی گئی؟ اس بارے میں خود سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی زبانی سُنیے!
فرماتے ہیں کہ جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ ابھی جاؤ اور اس زرہ کوابھی بیچ کر اُس کی قیمت میرے پاس لاؤ۔ تاکہ میں اُس سے وہ سب اشیاء تیار کرواؤں جوتیرے اور میری بیٹی فاطمہ رضی اﷲ عنھا کے نکاح کے لیے ضروری ہیں۔ میں گیا اور اپنی زرہ چار سو درھم میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ فروخت کردی۔ میں نے جب درھم لے لیے، تو سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نے مجھ سے زرہ لے لی اور کہا: اے علیؓ زرہ اب میری ہو گئی اوردرھم آپ کے ہوگئے۔ میں نے کہا:بالکل درست۔ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نے کہا:یہ زرہ اب میری طرف سے آپ کے لیے ہدیہ ہے۔ سیدنا علی فرماتے ہیں: میں نے وہ درھم اور زرہ لے لی اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر وہ زرہ اور درھم آپ کے سامنے پیش کردیے اورسیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نے جو سلوک میرے ساتھ کیا تھا یعنی رقم بھی مجھے دے دی اور زرہ بھی دے دی اس کی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کواطلاع دی، ’’فدعالہ بخیر‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان کے لیے دعائے خیر کی۔ (بحوالہ کشف الغمہ۔جلد نمبر 1صفحہ نمبر 359)
جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ، سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کی شادی کاسامان خرید کر لے آئے۔ تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کا نکاح سیدنا علی رضی اﷲ عنہ سے کردیا۔ اس نکاح کے گواہوں میں سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا سعد بن ابی وقاص سیدنا زبیر بن عوام رضی اﷲ عنھم اور بہت سے انصار تھے۔ (بحوالہ، کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ، جلد نمبر 1صفحہ نمبر 358,348، ریاض النضرۃ فی مناقب عشرۃ مبشرہ جلد نمبر 2صفحہ241، زرکانی، جلد 2صفحہ نمبر 7,2) (جاری ہے)