عتبان محمد چوہان
اُٹھ گیا تیرے آستانے سے
تجھ کو نسبت ہی کیا دوانے سے
ہم کو کچھ فرق ہی نہیں پڑتا
اُن کے آنے سے، اُن کے جانے سے
تیری یادوں کے سلسلے جاناں
جان جاتی ہے ٹوٹ جانے سے
کچھ مہذب نہ ہوسکا انسان
صرف بستی نئی بسانے سے
تو جسے سنگِ راہ سمجھا تھا
ہم ہی بیٹھے تھے وہ، زمانے سے
بس درندے نکل رہے ہیں اب
بَن کے دنیا کے کارخانے سے
تم یہ سمجھے، رقیب جیسے ہیں!
’’ہم بھی مر جائیں جان جانے سے‘‘
وہ مرے منتظر ہیں خلوت میں
آ ہی جائے کسی بہانے سے
آدمی معتبر نہیں ہوتا
سر کو دستار میں چھپانے سے
گر یہ عتبانؔ ہی نہ ہو لوگو
باز آجاؤ گے ستانے سے؟
(۱۳؍ اپریل ۲۰۱۶ء، مطابق ۵؍ رجب المرجب ۱۴۳۷ھ)