سید محمدکفیل بخاری
جدید سیاسی تاریخ میں موجودہ رجیم واحد مثال ہے جو حکومت کی بجائے حکومت کی پیروڈی نظر آتی ہے۔کسی حکمران نے اپنا ٹھٹھا اڑانے کے لیے مخالفوں کو اتنا مواد نہیں دیا جتنا موجودہ حاکم فراہم کر رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی قیادت کوجناب عمران خان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہیں تو اناوطاقت ور کرنے کے لیے وہ اُن سے زیادہ محنت کر رہے ہیں۔
وزیرا عظم عمران خان نے حسب معمول ایک بار پھر دُر فنطنیاں چھوڑی ہیں۔ انہوں نے 23دسمبر کو وزارتوں اور 24دسمبر کو پولیس لائنز اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا قومی پریس کے مطابق اس کا خلاصہ یہ ہے:
’’بغیر تیاری کے حکومت نہیں لینی چاہیے۔ باہر سے جو دیکھ رہے تھے، اندر آکر مختلف نکلا۔ چیزیں سمجھنے میں ڈیڑھ سال لگا۔
پاکستان میں امریکی نظام لانے اور موجودہ نظام پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ نئی حکومت آئے تو امریکی طرز پر پریفنگ دی جائے۔
وزار کا ر کردگی دکھائیں۔ کسی وزیر کوکوئی لابی تنگ کرے تو مجھے بتائیے۔ سوا دو سال رہ گئے۔ یہ بہانہ نہیں چلے گا کہ نئے ہیں، تجربہ نہیں ہے۔ وزارتوں نے پَر فارم نہ کیا تو گورننس بہتر نہیں کرسکیں گے۔
پنشن بوجھ ہے، مہنگائی زیادہ اور تنخواہیں کم ہیں۔ آمدنی بڑھنے تک قوم صبر کرے۔ملک کو صرف اوورسیز پاکستانی ہی آٹھا سکتے ہیں، مگر انہیں اعتماد نہیں۔ رات کو نیند نہیں آتی‘‘
یہ انجام ہے اس تبدیلی اوروژن کا کہ خان صاحب ڈیڑھ دہائی سے جس کی پبلسٹی کرتے پھرتے تھے ۔جب موقع دیا گیا تو اڑھائی برس میں اس ساجھے کی ہنڈیا کو بیچ چورا ہے خود ہی چکنا چور کردیا۔ اسے نا اہلی کے اعتراف کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟ تیاری نہیں تھی تو حکومت کیوں لی؟ اپنے طویل دھرنے میں تو آپ کو سب کچھ صاف نظر آرہا تھا جسے درست کرنے کے لیے بلند بانگ دعوے کیے اور عوام کو نوے دن میں تبدیلی کے سہانے سپنے دکھائے لیکن اڑھائی سال میں ہر شعبہ برباد کرکے ملک کو تباہی کی بھینٹ چڑھادیا۔ یادش بخیر ایک محترم دوست کہا کرتے تھے کہ سیاسی لیڈر اقتدار سے پہلے سبز باغ دکھاتے ہیں اور اقتدار ملنے پر قوم کو کالا باغ میں چھوڑ کر فرار ہو جاتے ہیں۔
ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر امریکی نظام لانے کی باتیں اﷲ اوررسول صلی اﷲ علیہ وسلم اورعوام سے دھوکہ ، آئین سے روگردانی اور حلف شکنی کے مترادف ہے۔ ویسے تو امریکی صدارتی نظام ہو یا بر طانوی پارلیمانی دونوں انسانیت کا استحصال ہیں۔حقیقی فلاح سے خالی، مفاد پرستی، سرمایہ کی پرستش اور دنیا و آخرت کی بربادی کے حامل ہیں۔یہ بھی دلچسپ ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو امریکی تبدیلی اقتدار کے طریقے کا علم اب ہوا ہے جب ان کے اپنے اقتدار کو اڑھائی برس گزرنے کے بعد امریکہ میں نئے انتخابات کے نتیجے میں تبدیلی اقتدار کے مراحل جاری ہیں، گویا یہ بات بھی ٹی وی سے ہی پتہ چلی ۔
خان صاحب نے جس ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا اور جس آئین کا حلف اٹھایا اس کی پاسداری کا تقاضا تھا کہ وہ آئین کی طلب کے مطابق ملک میں اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت اور اسلامی نظام کے نفاذ کا اعلان کرتے، بلکہ خود آئین میں ہی جو غیر اسلامی شقیں گھسائی جا چکی ہیں ان سے نظمِ حکومت کو پاک کرتے، مگرافسوس ان کا اپنا کوئی ایجنڈہ ہے نہ سوچ۔ وہ اُنہی کے مطلب کی کہہ رہے ہیں جو اِنہیں اقتدار میں لائے۔ زبان اِن کی ہے، بات اُن کی۔ عوام کسی خوش فہمی میں نہ رہیں ’’مرگِ امید کے آثار نظر آتے ہیں۔‘‘ عالمی طاغوت کے غلاموں کی سلطنت میں کوئی بہتری آسکتی ہے نہ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
پنشن بوجھ ہے تو غریب پنشنرز کو ’’کورونا‘‘ میں ڈال دیجئے۔ جنہوں نے تمام عمر ملک اور حکومت کی خدمت کی اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو وطن عزیز کی ترقی واستحکام کے لیے وقف کیا، آخری عمر میں انہیں یہ صلہ ملا کہ تم ملک پر بوجھ ہو۔ دنیا میں احسان فرا موشی کی اس سے بدتر کوئی مثال نہیں۔
مہنگائی زیادہ اورتنخوا ہیں کم ہیں تو اس کے ذمہ دار آپ ہیں، عوام نہیں۔ آمدنی کب بڑھے گی اور قوم کب تک صبر کرے گی؟ آخر صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ عوام کے چولہے ٹھنڈے کرکے معاشی طورپر انہیں نچوڑ دیا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو آپ پرکیوں اعتماد نہیں؟ آپ کا یہ اعتراف خود آپ کی دیانت وکارکردگی پرسوالیہ نشان ہے۔ معیشت تباہ، کاروبار کا ستیاناس اور تعلیم کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ دوست ممالک ناراض ہیں، پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ سعودی عرب نے اپنا قرض فوری واپس طلب کر لیا جسے چین سے مانگ کر ادا کیا گیا۔ خارجہ، داخلہ اورخزانہ سمیت ہر اہم ادارے کی زمامِ کارعالمی استعمار کے پشتینی وفاداروں اور سکہ بند گماشتوں کے ہاتھوں میں تھما کر بربادی وتباہی اور خسارے کے سوا حاصل بھی کیا ہوسکتا تھا۔
نا اہل وزرا اورمشیروں کی فوج ظفر موج اکٹھی کرکے اُن سے بہتر کار کردگی کا مطالبہ بجائے خود نالائقی وجہالت ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ہیجڑ وں سے مردانگی کا مظاہرہ کرنے کا تقاضا کیا جائے۔ ایسے بے حس و حرکت اور نیم مردہ وزیروں کوکوئی لابی کیوں تنگ کرے؟ اور اگر کوئی کرے بھی تو وہ آپ کو کیوں بتلائے؟ کہ صورت ِحال تو یہ ہے کہ آپ خود ان سے پوچھ رہے ہیں، کچھ تو بتلاؤ میں کیا کروں؟ وزیرِ اعظم کے مذکورہ بالا عجیب و غریب بیان سے اگلے ہی روز اخبارات میں رپورٹ ہوا کہ خان صاحب نے متعدد وزارتوں سے رپورٹ لینے کے لیے ایک اجلاس شروع کیا مگر غالباً جلد بور ہو جانے کی وجہ سے تفصیلی بریفنگ لیے بغیر اجلاس برخاست کر دیا۔
بے خوابی کا شکوہ کر کے بھی آپ نے اپنے احساسِ جرم کا اعتراف کیا۔عوام کی نیندیں حرام کرکے آپ کو کیسے نیند آسکتی ہے اور عوام کا سکھ چھین کر آپ کیسے سکون پا سکتے ہیں؟یہ مکافات عمل ہے جسے ہر حال میں آپ کو بھگتنا ہے۔
جناب وزیر اعظم آپ کی ناکامی خود آپ پر عیاں ہو چکی ، آئندہ سوا دو برس میں بھی آپ کے ہاں بہتری کی کوئی امید نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ لانے والوں سے معذرت کرکے سجا میدان اور بھرا میلہ چھوڑ کر ’’بیک ٹوپویلین‘‘ کاکوئی باعزت راستہ تلاش کریں۔ زندگی کا آخری حصہ گھر میں آرام سے گزاریں۔ تحریک انصاف کوئی نظریاتی یا مستقل جماعت نہیں۔ اس کی حادثاتی تولید نظریۂ ضرورت کے تحت ہوئی اور ضرورت مندوں نے وقتی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کی پرداخت کی، اس کا کوئی مستقبل نہیں۔ ’’پولیٹیکل لاج‘‘ کے ’’سیلیکٹڈ پرندے‘‘ آئندہ انتخابات میں اڑکر کسی اور قصر کی منڈیر پر بیٹھ جائیں گے اور آپ بنی گالہ میں اپنے ’’ٹائیگرز‘‘ کے ساتھ وقت گزاریں گے، اپنی ناکام حسرتوں پر آنسو بہائیں گے۔ تب شاید آپ کو یہ راز معلوم ہوجائے کہ ’’نیند کیوں رات بھر نہیں آتی‘‘ ۔
یوم تاسیس احرار (29؍ دسمبر 1929 …… 29 ؍دسمبر 2020 ء )
تحریک خلافت کی ناکامی کے بعد حریت پسند رہنماؤں مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، چودھری افضل حق، مولانا ظفر علی خان، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا محمد داؤد غزنوی، مولانا مظہر علی اظہر، عبد الرحمن غازی، شیخ حسام الدین رحمتہ اﷲ علیہم اور دیگر نے 29؍ دسمبر 1929ء کو لاہور میں دریائے راوی کے کنارے ’’مجلس احرار اسلام‘‘ کی بنیاد رکھی۔ بنیادی مقاصد قیام حکومت الٰہیہ، انگریز سامراج کے ہندوستان سے انخلاء اور عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ طے ہوئے، پھر ہندوستان کے عوام کے دلوں سے برطانوی سامراج کا خوف اتار پھینکا اور آزادیٔ وطن کے لیے ہر مشکل کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ پاکستان بن جانے کے بعد تمام اختلافات کو ختم کر کے حفاظت وطن کے لیے سربکف ہو گئے، انتخابی سیاست سے علیحدگی اختیار کر کے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور ملک کو قادیانی ریاست بننے سے بچانے کے لیے مارچ 1953ء میں تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت چلائی، دس ہزار فرزندان اسلام کی قربانی دی، جماعت پر پابندی لگ گئی، 1958ء میں چند روز کے لیے پابندی اٹھی تو حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ نے بیماری وضُعف کے باوجود سرخ قمیض پہن کر، احرار رضاکار کا بیج اپنے بازو پر سجا کر ملتان میں پرچم کُشائی فرمائی اور جماعت کے احیاء کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا ’’مسلمانو! پرچم ختم نبوت گرنے نہ پائے اور عقیدۂ ختم نبوت پر آنچ نہ آئے‘‘۔
احرار آج بھی حضرت امیر شریعت رحمہ اﷲ کے اس فرمان کو حرز جان بنائے ہوئے ہیں۔ یہ قافلۂ سخت جاں نئی صف بندی کر کے محض اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے جہاں تک پہنچا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ مجلس احرار اسلام کے رہنما اور مبلغین کی شبانہ روز کوششوں سے الحمد ﷲ ملک بھر میں بیسیوں قادیانی، عیسائی، بہائی اورہندو مسلمان ہوچکے ہیں۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ، فتنہ قادیانیت کی سرکوبی اور غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت جیسے اہم عنوانات پر ملک بھر میں سرگرمیاں جاری ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں مفت لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے۔ مرکز احرار تلہ گنگ سے مفت ختم نبوت خط کتابت کورس کروایا جاتا ہے۔ جبکہ جماعت کے شعبہ خدمت خلق کے تحت نومسلمین کی کفالت، فری ڈسپنسریاں، اجتماعی قربانی کے ذریعے خاص طور پر چناب نگر کے غریب مسلمانوں کا تعاون اور ملک بھر میں سیلاب، زلزلہ اور کرونا جیسی قدرتی آفات سے متاثر افراد کی مدد کی جاتی ہے۔
الحمد ﷲ! ہم روز بروز قدم بقدم آگے بڑھ رہے ہیں، اﷲ کی مدد ہمارے ساتھ ہے اور یہی ہماری کامیابی ہے۔ وفادارانِ احرار نے 29؍ دسمبر 2020ء کو ملک بھر میں حسب روایت ’’یوم تاسیس احرار‘‘ پورے جوش جذبے سے منایا اور تجدید عہد کیا کہ بقاء احرار ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔ اِس قافلۂ ختم نبوت کو ہم سب نے مل کر چلانا ہے۔ جب تک دم میں دم ہے اس راستے پر جمے رہیں گے۔ اِن شاء اﷲ۔ اﷲ تعالی نصرت ارزاں فرمائیں، آمین!
نیند کے ماتو اٹھو! ظلمت لگی ہے ہارنے زندگی کا صور پھونکا ہے مجلس احرار نے
حافظ حبیب اﷲ چیمہ رحمۃ اﷲ علیہ
مجلس احراراسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل جناب عبداللطیف خالد چیمہ اور جناب محمد جاوید چیمہ کے چھوٹے بھائی حافظ حبیب اﷲ چیمہ 5جمادی الاوّل 1442ء ؍ 21دسمبر 2020ء بروز پیر حرکت قلب بند ہونے سے اچانک انتقال کرگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
حافظ حبیب اﷲ مرحوم انتہائی متحرک دینی وسیاسی کارکن تھے۔ وہ جمعیت علماء اسلام پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات تھے۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمۃ اﷲ علیہ کے خلیفہ مجاز حضرت حافظ حکیم عبدالرشید رحمۃ اﷲ علیہ کے تیسرے اور سب سے چھوٹے فرزند تھے۔ بیعت کا تعلق بھی حضرت مولانا خان محمد رحمۃ اﷲ علیہ سے تھا۔ 1970ء میں پیدا ہوئے تقربیاً پچاس سال عمر پائی۔ جب وہ پیدا ہوئے تو ابن امیر شریعت قائدا حرار حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہ تب اُن کے گاؤں 42/12.Lچیچہ وطنی میں مقیم تھے۔ حضرت پیر جی نے ہی اُن کوگھٹی دی۔ والد ماجد رحمہ اﷲ خود جیّد حافظ قرآن اور حکیم وطبیب تھے۔ انہوں نے حبیب اﷲ صاحب کو قرآن حفظ کرایا۔ سکول کی تعلیم دلائی اور پھر حافظ حبیب اﷲ مرحوم نے اپنے موروثی اور طبعی ذوق کے تحت طبیہ کالج ملتان سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ والد ماجد ’’سراجیہ دواخانہ‘‘ پرطبابت کرتے تھے۔ اور حافظ حبیب اﷲ چیمہ مرحوم اس شعبہ میں اُن سے رہنمائی لیتے رہے اور خوب فیض پایا۔ والدین کی دعائیں ہمیشہ ان کے شامل حال رہیں۔ والد ماجد اور والدہ ماجدہ رحمۃ اﷲ علیھما کے ساتھ حج پر گئے تو حضرت حافظ عبدالرشید رحمۃ اﷲ علیہ کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوگیا اور جنت البقیع میں تدفین کی سعادت سے مشرف ہوئے۔
والد ماجد کے انتقال کے بعد اُن کی دونوں نسبتوں کے امین بنے۔ گاؤں کو بستی سراجیہ کے نام سے موسوم کیااور والد ماجد کے قائم کیے ہوئے حفظ قرآن کے مدرسے کو تعمیر کیا۔ اس وقت پچاس سے زائد طلباء وہاں قرآن کریم حفظ کر رہے ہیں۔ سراجیہ دواخانے پر باقاعدہ طبابت کرکے اپنے اباجی کی اس مسند کو بھی آباد وشاد رکھا۔ اپنے بڑے بھائی جناب عبداللطیف خالد چیمہ کا مضبوط سہارا اور بازو تھے۔ اُن کا بے حد احترام کرتے اور جمیع اُمور میں اُن کا ساتھ دیتے۔
حضرت حافظ عبدالرشید رحمۃ اﷲ علیہ جمعیت علماء اسلام سے وابستہ تھے۔ اسی نسبت سے حافظ حبیب اﷲ مرحوم بھی جمعیت میں شامل رہے اور جمعیت علماء اسلام پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات تھے۔ تمام دینی جماعتوں سے محبت کرتے۔ جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں کے مستقل میزبان تھے۔ میزبانی کی نسبت بھی موروثی تھی۔ حضرت مولانا خان محمد رحمۃ اﷲ علیہ ہمیشہ اُن کے گھر قیام فرماتے اور کئی کئی روز ٹھہرتے۔ حضرت کے انتقال کے بعد حضرت مولانا خلیل احمد دامت برکا تہم سے تجدید بیعت کی، بستی سراجیہ میں حضرت کے قیام کے لیے مستقل کمرہ تعمیر کیا اور خانقاہ کا سلسلہ قائم کیا۔ مولانا خلیل احمد مدظلہ بڑی محبت سے تشریف لاتے اور حافظ حبیب اﷲ مرحوم کی مکمل سرپرستی فرماتے۔ دوماہ قبل خانقاہ بستی سراجیہ میں حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کی حیات وخدمات پر بڑی پُروقار تقریب منعقد کی۔ حضرت مولانا خلیل احمد مدظلہ تشریف لائے۔ اور تقریب میں شریک ہو کر حافظ صاحب کی حوصلہ افزائی بھی کی اور دعاؤں سے بھی نوازا۔ راقم کو خاص فرمائش کرکے اس تقریب میں مدعو کیا اور چند کلمات کہنے کی سعادت سے مشرف کیا۔
حافظ حبیب اﷲ چیمہ رحمۃ اﷲ علیہ کے دوست احباب کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ شرم وحیاء ، ادب واحترام، دوست نوازی، وضع داری وملنساری اور اعلیٰ اخلاق سے متصف تھے۔ اسی وجہ سے تمام حلقوں میں محبوب ومقبول تھے۔
حافظ صاحب کی اچانک موت نے دل ودماغ کو ہلا کر رکھ دیا۔ خاص طورپرخاندان اور حلقۂ احباب انتہائی گہرے صدمے سے دو چار ہوئے ہیں۔ ان کا یوں اچانک چلے جانا ناقابل تلافی نقصان ہے۔
مجلس احرار اسلام پاکستان کے امیر مرکزیہ حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری، مولانا محمد مغیرہ، ڈاکٹرمحمد عمرفاروق ، مولانا سید عطاء المنان بخاری ،مفتی صبیح الحسن ہمدانی ، تمام رہنماؤں اور کارکنوں نے جناب عبداللطیف خالد چیمہ، محمد جاوید چیمہ، ڈاکٹر محمد اعظم چیمہ، آصف چیمہ، محمد قاسم چیمہ اور خاندان کے تمام لواحقین سے اظہار تعزیت کیا ہے۔ مرحوم حافظ صاحب کے لیے مغفرت اور پسماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔
حافظ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی نماز جنازہ حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد دامت برکا تہم نے پڑھائی۔ شہر کے تمام حلقوں سے تعلق رکھنے والے احباب، جمعیت علماء اسلام، مجلس احرار اسلام اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنماؤں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
مجلس احرار اسلام کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید عطاء اﷲ ثالث بخاری، میاں محمد اویس، ملک محمد یوسف، قاری محمد یوسف احرار، چودھری محمد ظفر اقبال ایڈووکیٹ ، مولانا تنویر الحسن، ڈاکٹر محمد آصف، مجلس احرار اسلام لاہور، ملتان، ساہی وال، چیچہ وطنی، وہاڑی، بورے والا ، گڑھا موڑ اور دیگر کئی شہروں سے رہنماؤں اور کارکنوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی ۔
قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن مدظلہ نے فون پر جناب عبداللطیف خالد چیمہ اور جناب ڈاکٹر محمد اعظم چیمہ سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے حافظ حبیب اﷲ مرحوم کے لیے دعاء مغفرت کی۔ جمعیت علماء اسلام پنجاب کے ترجمان محمد اقبال اعوان، مفتی عبدالرحمن، چودھری ضیاء الحق اور پیر فیاض شاہ صاحب کے علاوہ دیگر کارکنان جمعیت کی بڑی تعداد نماز جنازہ میں شریک ہوئی۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما حضرت مولانا اﷲ وسایا صاحب مدظلہ اور مقامی مجلس کے کارکنان بھی نماز جنازہ میں شریک ہوئے ۔
اﷲ تعالیٰ حافظ حبیب اﷲ چیمہ کی مغفرت فرمائے، خطائیں معاف اور حسنات قبول فرمائے۔ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور اپنا جوار رحمت عطاء فرمائے۔ تمام لواحقین و پسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔ ان کی بیوہ، بیٹی اور بیٹے حافظ سعید احمد کو اس گہرے صدمے پر صبر جمیل اور اجرعظیم عطاء فرمائے۔ (آمین یارب العالمین)