مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ
علمائے حق، حضرت انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے وارث و جانشین ہیں: ’’العلماء ورثۃ الأنبیاء‘‘ (بخاری) ان کی وراثت اور نیابت اسی وقت صحیح اور مکمل ہوگی، جب ان کی زندگی کامقصد اور ان کی کوششوں کامرکز وہی ہوگا، جو انبیائے کرام کا تھا۔ وہ مقصد زندگی اور وہ مرکز سعی وعمل کیاہے؟ دولفظوں میں ’’دین خالص‘‘ یا ایک لفظ میں ’’توحید‘‘ یعنی اﷲ تعالیٰ کی خالص عبادت اورکامل اطاعت،جو تنہا اسی کا حق ہے۔ اس کو اپنی ذات سے عمل میں لانا اور دوسروں میں اس کے لیے جد وجہد کرنا ’’الا للّٰہ الدین الخالص‘‘ اور’’ ویکون الدین للّٰہ‘‘۔’’اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا، مگر اس کو یہی حکم بھیجا کہ میرے سوا کسی کی بندگی نہیں،پس میری ہی بندگی کرو‘‘۔ (انبیاء، رکوع:2)
دین خالص سے غفلت:
دینِ الٰہی سے انحراف کا ایک عام سبب غفلت ہے۔ اﷲ سے بے تعلقی اور اس کے احکام وفرائض کی طرف سے بے تو جہی کا سبب ہمیشہ بغاوت وکفر ہی نہیں ہوتا، بلکہ اکثر اوقات دنیا پرستی اور مادیت ہوتی ہے، عزت وجاہ کا سودا، دولت کا عشق اور معاش میں سرتاپا انہماک آدمی کو معاد سے بالکل غافل کردیتا ہے۔ مادیت کا ایسا غلبہ ہوتا ہے کہ سرے سے نجات کا خیال، رضائے الٰہی کے حصول کا شوق اور اس کے عذاب کا خوف دل سے بالکل نکل جاتا ہے اور کھانے پینے اور پہننے کے سوا دنیا میں کوئی فکر باقی نہیں رہتی۔ خدا سے غافل لوگوں کی صحبت اور گناہوں اور عیش میں انہماک دل کو ایسا مردہ کردیتا ہے کہ اخلاقی حس باطل ہوجاتی ہے۔ نیک و بد اور حلال و حرام کی تمیز جاتی رہتی ہے۔ ایسے غافل اپنے اخلاق واعمال، سیرت وکردار، معاشرت وآداب اور وضع وصورت میں کافروں اور اﷲ کے باغیوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں رہتے۔ شراب کے بے تکلف دور چلتے ہیں۔ منہیات ومحرمات کا آزادی سے ارتکاب کیا جاتا ہے، جرائم اور فسق وفجور میں نئی نئی ایجادات کی جاتی ہیں اور ان میں ایسی ذہانت اور ہنر مندی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ پر انی امتیں ان کے سامنے مات ہوجاتی ہیں۔ شرع ودین کی کوئی حرمت باقی نہیں رہتی۔ ایسی خدا فراموشی اور خود فراموشی طاری ہوجاتی ہے کہ بھول کر بھی خدا یاد نہیں آتا اور اپنا بھی حقیقی ہوش نہیں رہتا۔
’’ان لوگوں کی طرح نہ ہو، جنہوں نے اﷲ کو بھلا دیا سو اﷲ نے ان کو خود فراموش بنا دیا۔‘‘(حشرر کوع:3)یہی وہ لوگ ہیں جن کا حال اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کیا ہے: ’’بے شک جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی میں مگن اور مطمئن ہیں اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔‘‘ (یونس ع:1)
نتیجتاً وعملاً ایسے غفلت شعار اور آخرت فراموش، منکرین آخرت اور اﷲ تعالیٰ ورسول سے بغاوت کرنے والوں سے ممتاز نہیں ہوتے۔ پیغمبر و ں کی دعوت کے لیے ان کا وجود بھی اسی قدر بے سود اور بعض اوقات سنگ راہ ہوتا ہے، جس طرح مکذبین ومنکرین کا۔ اور بعض اوقات میں مدعیان اسلام، اسلام کے خلاف حجت اور تبلیغ اسلام کی راہ میں غافلین یا منافقین اپنی کثرت یادنیاوی لیاقت یا کوششوں یامحض وراثت سے مسلمانوں کی مسند حکومت پر قابض ہوجاتے ہیں اور مسلمانو ں کی امامت ان کے ہاتھ میں آجاتی ہے۔ یا مسلمانوں کی زندگی میں اتنا اثر ورسوخ پیدا کرلیتے ہیں کہ ان کے اخلاق واعمال عوام کے لیے نمونہ بن جاتے ہیں اور ان کی عظمت اور وقعت دل و دماغ میں جاگز یں ہوجاتی ہے۔ اس وقت ان’’اکابرین مجر مین‘‘ کی وجہ سے غفلت وخدا فراموشی اور غیر اسلامی زندگی کا ایسا دور دورہ ہوجا تا ہے کہ مسلمانو ں کی عملداری میں جاہلیت کی حکومت قائم ہوجاتی ہے۔ اور بعض اوقات اس طرزِ زندگی کو کچھ زیادہ مدت گزر جاتی ہے تو اسی کا نام اسلامی تہذیب وتمدّن پڑجاتا ہے، جس کی مخالفت غیر اسلامی تمدن سے زیادہ مشکل ہوتی ہے۔
ان تمام حالات میں پیغمبروں کے جانشینوں کو کام کرنا پڑتا ہے۔ شاید انسانوں کی کوئی جماعت اتنی مشغول اور فرائض وذمہ داریوں سے اتنی گراں بار نہیں،جتنی نائبانِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم علماء ومصلحین اسلام کی جماعت ہے۔ جسمانی امراض کے طبیبوں کو بھی کبھی آرام اور فرصت کا موقع میسر آجاتا ہوگا، لیکن ان اطبائے روح کے لیے کوئی موسم اعتدال وصحت کا نہیں۔ بہت سی جماعتیں ایسی ہیں کہ جب ان کی اپنی حکومت قائم ہوجاتی ہے تو ان کی جدوجہد ختم ہوجاتی ہے اور ان کا مقصود حاصل ہوجا تا ہے، لیکن علمائے حق اور’’قوَّامین لِلّٰہِ شُھَداءَ بِالْقِسْطِ‘‘(اﷲ کی طرف سے منتظم اور انصاف کی گواہ) جماعت کا کام بعض مرتبہ مسلمانوں کی حکومت میں ختم ہونے کی بجائے کچھ بڑھ ہی جاتا ہے۔ کچھ چیزیں ہیں جو حکومت وطاقت اور دولت وفراغت ہی کے زمانہ میں پیدا ہوتی ہیں اور علمائے اسلام ہی کا فرض ہوتا ہے کہ ان کی نگرانی کریں۔ وہ اپنے فریضۂ احتساب، نگرانی اور اخلاقی و دینی راہ نمائی کے منصب سے سبک دوش نہیں ہوتے۔ اس وقت بھی ان کاجہاد اور ان کی جدوجہد جاری رہتی ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں آپ کو زندہ اور ربانی علماء جو حکومت وقت کے دامن سے وابستہ نہیں تھے یاحقیر جھگڑوں میں مشغول نہیں تھے، دینی مشاغل میں منہمک نظر آئیں گے اور مسلمانوں کا کوئی دور حکومت ان علمائے حق اور ان کی جدوجہد سے خالی نہیں رہا۔
بنی امیہ کا دور مسلمانوں کا شاہانہ عہد ہے۔ بظاہر مسلمانوں کو تمام کامو ں سے فرصت ہوگئی ہے۔ مگر علماء کو فرصت نہیں۔ حضرت حسن بصریؒ کی مجالسِ وعظ گرم ہیں۔ جن میں اپنے زمانہ کے منکرات وبدعات کے خلاف تقریر ہور ہی ہے۔ اپنے زمانہ کی معاشرت، نظام اور اہل حکومت کی بے دینی پر تنقید ہے۔ نفاق کی علامات اور منافقین کے اوصاف وسیع پیرایہ میں بیان ہو رہے ہیں اور موجودہ زندگی پرا ن کو منطبق کیا جارہا ہے۔ خشیت الٰہی اور آخرت کابیان ہے، جس سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگ گئی ہیں اور روتے روتے حاضرین کی ہچکیاں بند ھ گئی ہیں۔ سورۃ فرقان کے آخری رکوع ’’وعباد الرحمن الذین یمشون علی الأرض ھونا‘‘ کی تفسیر ہورہی ہیں اور صحابہ کرامؓ کے چشم دید حالات اور واقعات اس طرح بیان کیے جارہے ہیں کہ اس مبارک دور کی تصویر کھنچ گئی ہے اور صحابہ کرامؓ چلتے پھرتے نظرآرہے ہیں۔ لوگ مجلس سے توبہ کرکے اٹھتے ہیں اور سیکڑوں آدمیوں کی اصلاحِ حال ہو رہی ہے۔
بنی عباس کادور ہے اور امام احمد بن حنبل شاہِ وقت کے ذوق ورحجان اور مسلک کے خلاف مذہبِ اعتزال کی صاف صاف تردید کررہے ہیں اور بدعات کا رد اور سنت کا اعلان کرتے ہیں۔ علمِ کلام اور فلسفہ کے بڑھتے ہوئے رجحان کے مقابلہ میں، خالص سنت اور عقائدِ سلف کی تبلیغ فرمار ہے ہیں اور یہ سب اس جرأت واطمینان کے ساتھ کہ گویا مامون ومعتصم کی حکومت نہیں ہے، بلکہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی خلافت ہے۔
بغداد اپنے اوج پر اور بغداد کی تہذیب، دولت، بے فکری اور آزادی عروج پر ہے۔ ہر طرف عیش و غفلت کا سمندر رواں ہے۔ کرخ اور صافہ کے میدانوں میں اور مسجدوں کے سامنے میلے لگے ہوئے ہیں۔بازاروں میں بڑی چہل پہل ہے لیکن سیکڑوں آدمی، ان تمام دلچسپیوں اور تفریحات سے آنکھ بند کیے ایک طرف چلے جا رہے ہیں۔ آج جمعہ کا دن ہے، محدث ابن جوزیؒ کا وعظ ہے۔ سیکڑوں آدمی تائب اور بیسیوں غیر مسلم مسلمان ہو رہے ہیں۔ لوگ خلاف شرع امور سے توبہ کررہے ہیں۔
ایک طرف اسی پرُ شور اور ہنگامہ زدہ بغداد میں نہایت سکون واطمینان کے ساتھ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کادرس، وعظ اور روحانی فیض جاری ہے۔ جس سے عرب وعجم کے لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں۔ بڑے بڑے امراء اور شہزادے اپنے عیش ودولت کو خیر باد کہہ کر زہد و فقر کی زندگی اختیار کرتے ہیں۔ بڑے بڑے سرکش اور نشۂ دولت میں مخمور تائب ہوتے ہیں۔ خلافت عباسی کے عین دارالخلافہ میں اور خلیفہ بغداد کی حکومت کے بالکل مقابل اس درویش کی روحانی اور دینی حکومت قائم ہے جس کا سکہ عرب وعجم پر رواں ہے۔
بعد کے تمام عہدوں میں اور حکومت اسلامی کے تمام اطراف واکناف میں، سلاطین وامراء کے بالمقابل تمام دوسری دلچسپیوں، دعوتوں، تحریروں اور مشاغل کے ساتھ علماء حق کی یہ کو ششیں اور ان کے مراکز، مساجد، مدارس، خانقاہوں میں مجالس وعظ کے اندر باضابطہ اور بے ضابطہ احتساب جاری رہا۔
علمائے حق کا یہی بدقسمت یا خوش قسمت گروہ ہے جس کو مسلمان بادشاہوں اور ان کے کارکنان کے ہاتھوں (جب کہ دوسروں کو سیم وزر کی تھیلیاں اور عہدوں کے پروانے ملتے تھے) دار و رسن اور تازیانوں کے انعامات ملے۔ اسی گروہ کے کتنے افراد کو ایک مسلمان حاکم (حجاج) کے ہاتھوں شہادت کی سرخ خلعت ملی۔ پھر اسی گروہ کے ایک مقتد رفرد حضرت امام ابوحنیفہؒ کو منصور عباسی کے ہاتھوں زہر کا جام نوش کرنا پڑا۔ پھر اسی گروہ کے دوسرے امام حضرت امام احمد بن حنبلؒ کو سب سے بڑے روشن خیال مسلمان بادشاہ مامون کے زمانہ میں پابہ جولاں اور اسیرزنداں ہونا پڑا اور اس کے جانشین معتصم کے ہاتھوں تاز یانے کھانے پڑے۔ آخر زمانہ میں بھی کیسے کیسے عادل و داد گر مسلمان فرماں رواؤں کے ہاتھوں کیسے کیسے جلیل القدر علماء پر بیداد ہوئی، جہانگیر کی زنجیرِ عدل مشہور ہے، مگر حضرت شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانی کے پاؤں میں بھی زنجیر پڑی اور ان کو اپنے اظہارِ حق کے صلہ میں گوالیا ر کے قلعہ میں محبوس ہونا پڑا۔
ان کار ناموں اور خدمات کے علاوہ(جوحاملین دین اور محافظین شریعت کے فرائض مبنی ہیں ) جن کو ہم اس حیثیت سے دفاعی کہہ سکتے ہیں کہ وہ شرک وکفر، بدعت اور غفلت کے مقابلہ میں اسلام کی حفاظت کی کوششیں ہیں اور دین کی مسلسل جدوجہد ہے، جوقیامت تک جاری رہے گی۔ ’’لا یزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق لایضرھم من خذلھم‘‘ (أوکما قال) ’’الجھاد ماض الی یوم القیامۃ‘‘:میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر علانیہ قائم رہے گا، کسی کے مدد نہ کرنے سے اس کو کچھ نقصان نہ پہنچے گا‘‘۔ ’’جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔‘‘لیکن ان کے علاوہ اور خدمتیں ہیں، جوہر زمانہ کے علماء کے ذمہ ہیں اور علمائے ربانی ان کو انجام دیتے رہے ہیں۔
(1)اسلامی فتو حات سے کم تراور مبلغین، صلحاو صوفیاء اور بعض مسلمانوں کے اخلاق اور محبت کے اثر سے بیشتر مسلمانوں کے مفتوحہ ممالک میں لاکھوں آدمیوں نے اسلام قبول کیا اور پوری پوری برادریاں اور بڑے بڑے خاندان اسلام میں داخل ہوگئے۔ لیکن ان کی تعلیم وتربیت کا کوئی انتظام نہ کیا جاسکا اور ان پر اسلام کی تعلیمات کا کوئی اثر نہ پڑسکا یا اگر ان پر کوئی اثر پڑا توان کے بعد کی نسلوں میں یہ اثر باقی نہ رہ سکا اور رفتہ رفتہ اس کے سوا ان کوکچھ یاد نہ رہا کہ ہمارے باپ دادا مسلمان تھے اور انہوں نے کسی زمانہ میں اسلام قبول کیا تھا اور سوائے اسلامی نام اور کلمہ طیبہ کے الفاظ کے ان کے پاس اسلام کا کوئی نشان باقی نہ رہا۔ کچھ دنوں کی اور بے تو جہی کے بعد اسلامی نام بھی باقی نہ رہا اور کلمہ طیبہ سیکڑوں میں سے چند کے سوا کسی کو یاد نہ رہا، مگر اپنے مسلمان ہونے کا اعتراف باقی رہا، پھر وہ بھی مٹنے لگا اور اس وقت با قاعدہ ان کاارتداد عمل میں آنے لگا۔
ہندوستان جیسے ملک میں، جہاں خاص حلقہ کے باہر اسلام کی بنیاد ہمیشہ کم زور رہی، اس کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں۔ بعض علمائے ربانی نے اپنے زمانہ میں، ان علاقو ں اور دیہاتی رقبوں کی طرف توجہ کی اور بعض مسلمان قوموں اور برادریوں کو ازسر نو مسلمان بنایا، ان میں تبلیغی دور ے کیے،وعظ ونصیحت، اختلاط، آمد و رفت اور اپنے اخلاق وتالیف قلب سے ان کے دل مٹھی میں لیے۔ ان کو مرید کر کے ان کو توحید واتباع سنت کے راستہ پرلگایا، شرک وبدعت سے تائب کیا، جاہلانہ رسمیں،غیر مسلموں کی وضع وصورت اور کفر وجاہلیت کے شعار چھڑائے،ان میں اخلاق وانسانیت پید اکی، پابند فرائض اور خوش اوقات بنایا، علم کا شوق دلایا اور تعلیم کورائج کیا اور ان میں سے لائق افراد کو چھان کر اور اپنے پاس رکھ کران کی تربیت وتعلیم کی۔ پھر ان سے اپنی قوم اور دوسری جماعتوں کی تبلیغ واصلاح کا کام لیا۔ یہ تبلیغی کام جو انبیاء علیہم الصلوٰ ۃ والسلام کے طریق کار سے سب سے زیادہ ظاہری مشابہت رکھتے ہیں ان کے دوسرے کارنا موں کے مقابلہ میں کسی طرح کم اہم نہیں۔
(2)قرآن وحدیث اسلام کی طاقت کا اصلی سرچشمہ ہیں، جن سے ہمیشہ طاقت اور روشنی حاصل کی جاسکتی ہے اور جن کے ذریعہ سے ہر زمانہ میں مسلمانوں کے کم زور سے کم زور ڈھانچہ میں روح پھو نکی جاسکتی ہے۔ شرک وکفر، بدعت وغفلت کے خلاف سب سے کار گر حربہ، قرآن وحدیث کاعلم اور ان کی اشاعت ہے، ان کا صحیح علم اور ان کی روشنی جس قدر پھیلتی جائے گی، کفرو جہالت کی تاریکیاں دور ہوتی جائیں گی، اس لیے ہزار تبلیغوں کی ایک تبلیغ ان کی نشرواشاعت ہے۔
انبیائے کرام کی بڑی خصوصیت ان کی ہم آہنگی اور یک آہنگی ہے،یعنی وہ سب ایک بات کہتے ہیں اور ایک ہی بات کہتے رہتے ہیں،وہ کیا؟ ’’اے میری قوم اﷲ کی بندگی کرو، تمہارا معبود اس کے سواکوئی نہیں۔‘‘ (سورۃ ہود، ع:8) ان کے جانشینوں کی بھی یہی خصوصیت ہوتی ہے کہ ان کی تمام کوششوں اور ان کی زندگی کے متنوع مشاغل کا ہدف بھی ایک ہوتا ہے۔جو ’’دعوت الی اﷲ‘‘ ہے درس وتدریس ، وعظ وتقریر، تبلیغ وتذکیر ، تصنیف وتالیف، سلوک وتصوف،بیعت وارشاد، سب سے غرض خلق خدا کو اﷲ کی طرف بلانا، اﷲ سے ملانااور اﷲ ہی کا بنانا ہوتا ہے، ان کے مشاغل متنوع اور مختلف ہوسکتے ہیں، مگر سب کامرکز اور مقصد ایک ہوتا ہے، وہ سب کچھ کہتے ہیں، مگر درحقیقت ایک ہی بات کہتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں۔
فطرت کا سرود ازلی اس کے شب وروز
آہنگ میں یکتا صفت سورۂ رحمن
حضرت نوح علیہ السلام کی طرح وہ بھی ان مشاغل اور مختلف طریق تبلیغ کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں: ’’اے رب! میں بلاتا رہا اپنی قوم کو رات اور دن، پھر میں نے ان کو بلایا برملا، پھر میں نے ان کو کھول کر اور چھپ کرکہا ، چپکے سے کہا۔ ‘‘ (سورۂ نوح، ع:1) یہ وعظ ، یہ درس اور یہ انفرادی واجتماعی کو ششیں، یہ ظاہری ومخفی تدبیریں، یہ تذکیرو تز کیہ اور یہ توجہات اور انفاس قدسیہ (سب دین کی دعوت وتبلیغ کے) اعلان واسرارہی کی شکلیں ہیں۔