مفتی سمیع الرحمن، جامعہ فاروقیہ کراچی
عالم عرب کے معروف عالم دین صالح احمد شامی نے ملفوظاتِ صحابہ کرامؓ کا ایک مجموعہ ’’مواعظ الصحا بۃؓ‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس مجموعے میں سے حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے ایسے منتخب ملفوظات ترجمہ وتشریح کے ساتھ پیش خدمت ہیں، جن کا براہِ راست تعلق طلباء اور علماء کرام سے ہے۔
طلباء کی صفات
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ جب نوجوانوں کو طلبِ علم میں مشغول دیکھتے تو خوش ہو کر فرماتے:
’’مرحباً بینابیع الحکمۃ، ومصابیح الظلم، خلقان الثیاب، جدد القلوب، حبس البیوت، ریحان کل قبیلۃ۔‘‘
’’اے حکمت ودانش کے چشمو! جہالت کے اندھیروں میں علم کے روشن چراغو! حصولِ علم کی کوششیں تمہیں مبارک ہوں۔ تمہارا لباس بوسیدہ، لیکن دل تروتازہ رہتا ہے۔ بے مقصد گھومنے پھرنے کے بجائے اپنی اقامت گاہوں تک محدود رہتے ہو، تم ہر قبیلے کے پھول ہو۔‘‘
فوائد:
۱:- طلباء کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ اپنے رویوں سے انہیں دل برداشتہ کرنے کی بجائے ان کی نادانی پر صبر وتحمل سے کام لینا چاہیے۔ مولانا فضل امام خیر آبادی ۲۴۲۱ھ / ۴۲۸۱ء ہندوستان کے معروف عالم گزرے ہیں، ان کے صاحبزادے فضلِ حق کا ایک واقعہ معروف ہے۔ ان کے پاس بڑی عمر کا ایک پٹھان طالب علم پڑھتا تھا، جو غبی اور کندذہن تھا، مولانا کا عنفوانِ شباب تھا، تحمل اور بردباری کی کمی تھی، ایک دن پڑھاتے پڑھاتے تنگ آ کر غصے میں کتاب اس کے سر پر دے ماری، وہ منہ بسورتا ہوا اُن کے والد مولانا فضل امام کے پاس گیا اور شکایت کی، وہ سیدھے درس گاہ میں آئے اور بیٹے کے سر پر اس زور سے تھپڑ رسید کیا کہ دستارِ فضیلت دور جا گری اور غصے میں فرمایا:
’’تو تمام عمر بسم اﷲ کے گنبد میں رہا، نازونعم میں پرورش پائی، جس کے سامنے کتاب رکھ دی، اس نے خاطر داری سے پڑھایا۔ طالب علمی کی قدر تو کیا جانے؟ اگر مسافرت اختیار کرتا، بھیک مانگتا، مسجدوں میں قیام کرتا اورطالب علم بنتا تو تجھ کو حقیقت معلوم ہوتی، طالب علمی کی قدر ہم سے پوچھو۔‘‘
(مسلمان مثالی اساتذہ، مثالی طلباء، ص: ۱۴)
اس مادی دور میں مستقبل کے سہانے خوابوں کو فراموش کر کے علومِ نبوت کو اپنے سینے سے لگانے والے مہمانانِ رسول کی عزت افزائی اور ان کے علمی افادے کو اپنا شرف سمجھنا چاہیے۔
۲:- طلباء دین کو اپنی ظاہری شکل وصورت کی تزئین میں منہمک ہونے کی بجائے دل کی دنیا کو باطنی گندگی: تکبر، بغض، حسد، خود پسندی، قومی، لسانی، علاقائی تعصب اور عشقِ مجازی سے پاک کرنے اور اخلاقِ حسنہ، تواضع، عاجزی، ادب، اُخوت، ایثار سے سنوارنے کی کوششوں میں لگے رہنا چاہیے۔
۳:- بے مقصد گھومنے پھرنے اور تفریح میں پڑنے کے بجائے طالب علم کو اپنی فکر ونظر اور چلت پھرت کا محور محض ’’علم‘‘ کو بنانا چاہیے۔
حصولِ علم کا مقصد:
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:
’’تَعَلَّمُوا العلم، فإذا علمتم فاعملوا۔ وقال: ویل لمن لا یعلم ولو شاء اللّٰہ لعلمہٗ، وویل لمن یعلم، ثم لایعمل سبع مرات۔‘‘
’’علم دین حاصل کرو، جب حاصل کر لو تو اس پر عمل بھی کرو۔ پھر فرمایا: جاہل کے لیے ایک ہلاکت ہے اگر وہ جاہل ہی رہے اور اﷲ چاہے تو اسے علم دے کر اس ہلاکت سے نکال بھی سکتا ہے، مگر جو شخص علم رکھنے کے باوجود عمل نہ کرے اس کے لیے سات مرتبہ ہلاکت ہے۔‘‘
فائدہ:
سات کا عدد محض کثرت کے لیے بھی بولا جاتا ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اس کے لیے ہلاکتیں ہی ہلاکتیں ہیں، کیونکہ بے عمل ہر لمحے رحمتِ الٰہی سے دور ہوتا جاتا ہے۔ لہٰذا مقصدِ علم، عمل ہونا چاہیے۔ علم برائے علم، یا علم برائے اسناد اور اسناد برائے ذ ریعہ معاش اس دور کا بہت بڑا فتنہ ہے۔ تصحیح نیت کے ساتھ تبعاً ان اُمور سے واسطہ پڑے تو کوئی حرج نہیں۔
علم سیکھنے سے آتا ہے:
’’إن الرجل لا یولد عالما وإن العلم بالتعلم۔‘‘
’’انسان ماں کے پیٹ سے عالم بن کر پیدا نہیں ہوتا، علم تو سیکھنے سے آتا ہے۔‘‘
فائدہ:
: علم کسی صاحبِ فضل وعلم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے سے آتا ہے، کسی کی راہنمائی کے بغیر علمی مدارج طے کرنے کے خواب دیکھنا احمقوں کا کام ہے۔ بعض اوقات طالب علم کی خود پسندی اور اس کا مصنوعی وقار اس کے تحصیلِ علم میں آڑ بن جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات علمی خانوادوں کے چشم وچراغ ’’پدرم عالم بود‘‘ کے زعم میں مبتلا ہو کر علم وفضل سے محروم رہ جاتے ہیں۔ علمی استفادے کی لذت اس وقت تک حاصل نہیں کی جاسکتی، جب تک طالب علم اپنا مصنوعی وقار اور خودپسندی کا لباس اُتار نہ دے اور اصحابِ علم سے استفادے میں کسی قسم کی جھجھک محسوس نہ کرے۔
علم بھولنے کی وجہ:
’’إنی لأحسب الرجل ینسی العلم کان یعلمہٗ لخطیئۃ یعملھا۔‘‘
’’جو شخص علم دین کی کوئی چیز جاننے کے بعد بھول جائے، میرے خیال میں یہ اس کے کسی گناہ کا اثر ہے جو اس سے صادر ہوا ہے۔‘‘
فائدہ: بھول پن کے کئی مادی اسباب بھی ہوسکتے ہیں، جو انسان کو مختلف احوال میں لاحق ہوتے رہتے ہیں، لیکن اگر انسان کو دنیاوی دھندے تو نہ بھولنے پائیں، مگر علم دین کے وہ مسائل جنہیں وہ جان چکا تھا، بھول پن کا شکار ہوجائیں تو یقینا یہ کسی گناہ کا ثمرۂ بد ہے جو اس سے صادر ہوا ہے۔ یہی نسیان کا روحانی سبب ہے، علم دین کی حفاظت گناہوں سے محفوظ ہونے میں ہے۔
علم خشیتِ الٰہی کا نام ہے:
’’لیس العلم بکثرۃ الروایۃ ولکن العلم الخشیۃ۔‘‘
’’علم خشیت الٰہی کا نام ہے، نہ کہ کثرتِ روایات کا۔‘‘
فائدہ: ایک صحابیِ رسول کی فراستِ ایمانی کا اندازہ لگائیے۔ خیر القرون میں رہتے ہوئے انہوں نے جس علمی فتنے کی نشاندہی فرمائی ہے، آج اُسے فتنہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔
علمِ دین کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ معرفتِ الٰہی حاصل ہو، اس معرفت کے نتیجے میں انسان کا رواں رواں خشیتِ الٰہی میں ڈوب کر سراپا اطاعت بن جائے۔ خشیت معرفت سے حاصل ہوتی ہے اور معرفت علم سے، انبیاء کرام علیہم السلام کو یہ معرفت سب سے مستند علم وحی سے براہِ راست حاصل ہوئی تھی، اس لیے ان میں خشیتِ الٰہی بھی بکمال پائی جاتی ہے۔ اس تعلقِ علم کی وجہ سے علماء کرام کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ وہ عام لوگوں کے مقابلے میں اﷲ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والے ہوتے ہیں: ’’إِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہٖ الْعُلَمَاءُ‘‘ (فاطر: ۸۲)’’اﷲ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔‘‘
جو علم انسان کو خشیت سے دوچار کرنے کے بجائے محض جستجو کے لیے مہمیز کا کام دے، اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ ایسا شخص قابلِ رحم ہے جس کی معلومات تو وسیع ہوں، مقالے، مضامین، علمی تحقیقات نوکِ قلم پر ہوں، ہر عہد کی کتابوں سے نام بہ نام واقفیت ہو، مگر دل خشیتِ الٰہی سے خالی ہو۔ ایک اضافی خوبی کے لیے حقیقی مقصد کو نظر انداز کر دینا، پانی کی تلاش میں سراب کے پیچھے جان گنوانے کے مترادف ہے۔
علماء پر شہداء کا رشک:
’’علیکم بالعلم قبل أن یرفع، ورفعہ موت رواتہ، فو الذی نفسی بیدہٖ! لیودن رجال قتلوا فی سبیل اللّٰہ شھداء أن یبعثھم اللّٰہ علماء لما یرون من کرامتھم، فإن أحدا لم یولد عالما، وإنما العلم بالتعلم۔‘‘
’’علم کو اس کے اُٹھ جانے سے قبل ہی حاصل کر لو، اہلِ علم کا فوت ہو جانا ہی علم کا اُٹھ جانا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، قیامت کے دن اﷲ کی راہ میں قتال کرتے ہوئے شہید ہوجانے والے لوگ جب اپنی آنکھوں سے علماء کی قدرومنزلت کا مشاہدہ کریں گے تو حسرت کریں گے کہ کاش! اﷲ تعالیٰ انہیں بھی علماء کی صف میں اُٹھاتا، کوئی شخص بھی عالم بن کر پیدا نہیں ہوتا اور علم‘ علم حاصل کرنے سے آتا ہے۔‘‘
فائدہ:
سلام کی سربلندی اور دفاعِ اُمت کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنا قابلِ قدر قربانی ہے، لیکن علماء حق کی قربانیاں اپنے پہلو میں ’’افضل الجہاد‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس مقدس جماعت کے افراد اُمتِ مسلمہ کی ایمانی دولت کے محافظ بن کر پوری زندگی شیطانی قوتوں سے نبردآزما رہتے ہیں۔ حق گو عالم دین دشمنوں کی بھیڑ میں رہ کر صبح وشام اپنی آرزوؤں کا خون کر کے گلستانِ اسلام کی آبیاری کرتا رہتا ہے۔ نیز جہاد انسانوں کے حق میں سراپا رحمت بننے کے لیے آئینِ شریعت کا محتاج ہے۔ گویا جہاد کی بقاء علمِ شریعت کی بقاء پر موقوف ہے، اس سے فضیلتِ علم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم عمل کے لیے اُترا ہے، نہ کہ محض پڑھنے کے لیے:
’’أنزل القرآن لیعمل بہٖ فاتخذتم دراستہٗ عملاً، وسیأتی قوم یثقفونہٗ مثل القناۃ لیسوا بخیارکم۔ والعالم الذی لا یعمل کالمریض الذی یصف الدواء، وکالجائع الذی یصف لذائذ الأطعمۃ ولا یجدھا، وفی مثلہٖ قولہٗ تعالٰی: [وَلَکُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ]۔‘‘ (الأنبیاء: ۸۱)
’’قرآن کریم عمل کی غرض سے نازل کیا گیا ہے، لیکن تم نے اس کے نازل ہونے کا مقصد محض پڑھاناسمجھ لیا ہے۔ عنقریب ایسے لوگ آ کر رہیں گے جو قرآن کریم کے الفاظ کو نیزے کی طرح سیدھا کرنے کو مقصدِ زندگی سمجھ لیں گے، ایسے لوگوں کا شمار تمہارے اچھے لوگوں میں نہیں ہوگا۔ جو صاحبِ علم اپنے علم پر عمل نہ کرے، اس کی مثال اس مریض کی طرح ہے جو مرض کی دوا بیان کرتا ہے، مگر خود اس سے شفا نہیں پاتا، یا اس بھوکے کی طرح ہے جو کھانوں کے ذائقے بیان کرتا ہے، مگر لذتِ دہن سے محروم رہتا ہے۔ ایسے بے عمل کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تم جو باتیں بناتے ہو وہ تمہارے لیے باعثِ خرابی ہیں۔‘‘
حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمہ اﷲ نے بعض عارفین کا قول نقل کیا ہے کہ لوگ تجوید کے قواعد میں اس قدر منہمک ہوجاتے ہیں کہ قرآن کریم کی حقیقی روح ’’خشیت‘‘ پسِ پردہ چلی جاتی ہے۔ (الفوز الکبیر، ص: ۵۳)
اعترافِ جہالت:
’’إن الذی یفتی الناس فی کل ما یستفتونہٗ لمجنون۔ وقال: جُنۃ العالم:’’لا أدری‘‘؛ فإن أخطأھا فقد أصیبت مقاتلہ۔‘‘(الاحیاء،ج: ۱،ص: ۱۹)
’’جو شخص ہر سوال کا دھڑلے سے جواب دیتا چلا جائے وہ بے وقوف ہے۔ پھر فرمایا: عالم کی ڈھال یہ کلمہ ہے: ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘ پھر اگر کسی مسئلے سے ناواقف ہونے کے باوجود اعتراف ِجہالت کرنے کی بجائے جواب دینے کی غلطی کر بیٹھا تو برباد ہوگیا۔‘‘
فائدہ: کسی مسئلے کا جواب انتہائی سوچ سمجھ کر اور صورتِ مسئلہ کو جان کر دینا چاہیے۔ اس لیے محتاط اہلِ علم پیچیدہ مسائل کا جواب تحریری صورت میں دیتے ہیں، اس میں خطا کا امکان کم ہوتا ہے۔ مسئلے کا جواب کسی قاعدے اور نظیر کو سامنے رکھ کر دینے میں ٹھوکر لگتی ہے، اس لیے جب تک یقینی مسئلہ معلوم نہ ہو، جواب سے گریز کرنا چاہیے، اس سے اعتماد بھی بڑھ جاتا ہے۔
عالمِ دین مسلسل نماز میں ہوتا ہے:
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: ’’لا یزال الفقیہ یصلی‘‘ ۔فقیہ ہمیشہ نماز میں ہوتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: کیسے؟ آپ نے فرمایا: ’’ذکر اللّٰہ تعالٰی علٰی قلبہٖ ولسانہٖ‘‘۔’’اس کا دل اور اس کی زبان ذکرِ الٰہی سے معطر رہتے ہیں۔‘‘
فائدہ: یادِ الٰہی اور حضوری ایک والہانہ ڈھنگ ہے۔ دینی مسائل کا تکرار، استحضار بھی درحقیقت اﷲ کی یاد ہے، اس لیے اسے نماز سے تشبیہ دی ہے کہ فقیہ ہمیشہ یادِ الٰہی میں مصروف رہتا ہے۔