تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

علامہ اقبال ؒ کا فلسفۂ عشق

پروفیسر خالد شبیراحمد

کبھی کبھی عالمِ خیال میں علامہ اقبال رحمتہ اﷲ علیہ سے ملاقات ہوجاتی ہے تو کئی دنوں تک دل و دماغ ایک عجیب کیفیت سے سرشار رہتے ہیں۔ ان تصوراتی ملاقاتوں کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ یہ سوال و جواب پر مبنی ہوتی ہیں۔ حضرت اقبال سے مکالمہ اپنی جگہ خیال و خواب کی بات سہی مگر کئی سوال جو صرف انھی کی ذات سے منسوب ہیں ان کے جواب ضرور مل جاتے ہیں۔ اسی نوعیت کی ایک تازہ ملاقات میں علامہ اقبال سے مکالمہ ہوا تو عرض کیا:
آپ کو شاعر مشرق کیوں کہتے ہیں؟
جواب میں فرمایا:
‘‘میں نے تو کسی کویہ نہیں کہا تھا کہ آپ مجھے شاعر مشرق کہیں۔ اگر لوگ مجھے شاعرِ مشرق کہتے ہیں تو اس میں عزت افزائی کے یہ لفظ اس لیے قبول کر لیتا ہوں کہ آفتاب ختم نبوت بھی مشرق سے طلوع ہوا تھا۔ اور میرے افکار کا مرکز اور محور بھی اﷲ کی آخری کتاب آخری رسول ہیں اور جہاں تک میرے شاعر ہونے کا معاملہ ہے تو یہ بات واضح ہے کہ صرف شاعری میرا مقصد ہرگز نہیں ہے۔ ہاں حصول مقصد کا ذریعہ ضرور ہے۔ کیا تم نے میرا وہ خط نہیں پڑھا جو میں نے علامہ سید سلیمان ندوی رحمتہ اﷲ علیہ کو تحریر کیا تھا۔ اس خط میں اعتراف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا۔ اس میدان میں کوئی میرا رقیب نہیں ہے اور نہ ہی میں کسی کو اپنا رقیب سمجھتا ہوں۔ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہاں مقاصد خاص رکھتا ہوں جس کے لیے شاعری کو اختیار کیا ہے کہ شاعری اظہار کا حسین ترین ذریعہ ہے۔ شدت احساس صرف شعروں میں ہی بیان کی جاسکتی ہے کہ جس طرح اشعار کے ذریعے بات یا بیان مؤثر بنایا جا سکتا ہے تحریر کے ذریعے نہیں۔ میرے اس خیال کا ترجمان میرا ہی ایک شعر ہے۔
نغمہ کجا و من کجا ساز سخن بہانہ است                                     سوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را
میرا دوسرا سوال تھا کہ آپ کے فکر کی بنیاد کیا ہے؟
جواب ملا ‘‘میرے فکر کی بنیاد عشق ہے’’ میں نے ایک اور سوال کر دیا کہ لوگ کہتے کہ آپ عقل کے خلاف ہیں۔ اس بارے آپ کیا ارشاد فرمائیں گے؟ علامہ نے قدرے حیرت سے مجھے دیکھا اور معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا: ‘‘آپ سے کس نے کہا ہے کہ میں عقل کے خلاف ہوں’’
عرض کیا کہ میں نے کئی محفلوں میں عہد حاضر کے دانش وروں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اقبال نے کئی اشعار عقل کی مذمت میں کہے ہیں۔ پھر میں نے ان کے جواب میں کہا کہ اقبال جیسا عظیم مفکراور مدبر عقل کے خلاف کیسے ہوسکتا ہے؟ لیکن آپ کے نقاد بضد ہیں کہ انھیں اپنی بات پر اصرار ہے۔
علامہ اقبال اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے گویا ہوئے
‘‘میں نے تو وہ بات اپنے اشعار میں صرف عقل مند لوگوں کے لیے ہی کہی تھی، ان شعروں کا مقصد تو فقط عقل پر عشق کی فضیلت کو ثابت کرنا تھا جو میرے افکار کی بنیاد ہے۔ اس سے یہ تأثر کہاں ملتا ہے کہ میں عقل کی اہمیت اور اس کی فضیلت کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا۔ عقل کے بغیر تو جذبۂ عشق تک پہنچا ہی نہیں جاسکتا۔ عقل سے ہی تو عشق کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔پھر وہ چیز جو ذریعۂ عشق کے لیے ضروری ہے اس کی مخالفت کیا معنی؟ بحث صرف اتنی ہے کہ آدمی عقل کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ نہ جائے۔ بلکہ اس عقل سے کام لے کر جذبۂ عشق اختیار کرے کہ عشق کے بغیر کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا جاسکتا۔
دیکھو میرا یہ شعر اس کی وضاحت کرتا ہے۔
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں                                   عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تارِ رفو
میں نے صرف یہ بات کہی ہے کہ جو مقام عشق کا ہے عقل کا نہیں۔ عقل عشق تک پہنچنے کی راہ ہے۔ کچھ کر گزرنے والوں کی منزل نہیں ہے۔ ان کی منزل تو عشق ہی ہے۔ اب وہ عقل مند جو راہ کوہی منزل سمجھ بیٹھے ہیں ان کا منزل تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ عقل منزل کا پتہ تو ضرور دیتی ہے مگر خود منزل نہیں۔ یعنی آپ عقل کو چراغ راہ تو کہہ سکتے ہیں،جیسے کہ میرا یہ شعر اس کی وضاحت کرتا ہے۔
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور                               چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
علامہ فرما رہے تھے کہ میری تمام شاعری حرکت و عمل کی شاعری ہے جس کا مرکز و محور جذبۂ عشق و جنون ہے اور میری شاعری کا مقصد بھی نسل نو میں یہی جذبۂ عشق پیدا کرنا ہے۔ کیونکہ میرے خیال کے مطابق اہل عشق و جنوں ہی قومی زندگی میں کار ہائے نمایاں سرنجام دیتے ہیں۔ عقل سوچ پر آمادہ کرتی اور عشق عمل پر، محض سوچ تو کچھ نہیں ہے۔ کون سا مسئلہ عمل کے بغیر حل ہوسکتا ہے۔ آپ اگر فضول بحث میں پڑجائیں تو میرا اس میں کیا قصور ہے۔ اسی لیے تو میں نے کہا تھا۔
حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے                             ورائے عقل ہیں اہل جنوں کی تدبیریں
ماحول اور معاشرے سے ہٹ کر بات کی جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ میں نے تو اس جذبۂ عشق کو موضوع سخن بنایا ہے۔ جسے دریا راہ دیتے ہیں، جس کے سامنے پہاڑ سرنگوں ہوجاتے ہیں، وسعتیں سمٹ کر ایک نکتہ میں مرکوز و مجتمع ہوجاتی ہیں اور دنیا کی گردش رک جاتی ہے۔ عشق ہی وہ جذبہ ہے جس سے زندگی سرگرم کار ہوتی اور کائنات کے رخ پر رعنائی آجاتی ہے۔ عشق سے مراد وہ جوش ووجدان ہے جوایک قدرتی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کے تانے بانے سے ذات اپنی قبائے صفات بناتی ہے اور جس کی بدولت انسان تکمیل ذات کے لیے ہر قسم کے موانع پر قابو پاتا ہے۔ یہ جذبۂ عشق ایک خاص قسم کا انہماک مستی اور جذبِ کلّی ہے۔
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر وبم                                    عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دم بدم
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق                                شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نم
حضرت اقبال کی زبان سے عشق کے مفہوم و تشریح پر مبنی جملے سماعت میں اتر رہے تھے کہ دفعتاً میرے ذہن میں اپنے معاشرے کی تصویر گھوم گئی۔ میری سوچوں کا رخ تبدیل ہوا اور اپنے گرد و پیش کے احوال سوالیہ نشان بن کر سامنے آگئے۔ میں سوچنے لگا کہ ہمارے زاویۂ فکر ونظر کیوں بگڑ گئے۔ تعلیم و تعلم کے حوالے، مذہب و سیاست کے اصول کیسے ہیئت ہوگئے۔ آتشِ عشق کیسے برفاب ہوگئی؟ جس کا ذکر اقبال کر رہے ہیں ۔ میں چشم تصور سے جدوجہد آزادی کے مناظر دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ عشق کا یہ مقصود و مفہوم کیوں مفقود ہو کے رہ گیا ہے۔ میرے سامنے تحریک آزادیٔ ہند کے وہ ہیرو اور آزادی پاک و ہند کی پوری تحریک وہی تصویر پیش کر رہی تھی جسے علامہ اقبال بیان کر رہے تھے۔ میں چشم تصور سے دیکھ رہا تھا کہ سات دہائیاں بیت گئیں لیکن مصور پاکستان علامہ اقبال کے ان خیالات کے برعکس پاکستان کے ارباب اختیار اگرچہ حکمرانی کا تاج اپنے سر پر سجائے پھرتے ہیں لیکن ان کے دل و دماغ ایسے جذبات عشق سے خالی ہیں جن کی بدولت قوموں کے مسائل حل ہوتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ قوم ایسی مرض کا شکار ہو چکی ہے جسے سوائے نسخۂ عشق شفا نہیں ہوسکتی۔ اقبال نے تو عشق کے مفہوم و مقاصد سے قوم کو آشنا کرنے کی کوشش کی لیکن قوم کے رہنما عقل اور عقل کی دلیلوں کی بھول بھلیوں میں اس قدر پھنس کے رہ گئے ہیں کہ انھیں کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے کہ کیا کریں؟
صورت حال یہ ہے کہ اب مسائل کے لیے نشستند، گفتند، برخاستند کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ پورا معاشرہ مایوس اور متفکر ہے کہ اگر حالات اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو مستقبل کیا ہوگا؟ جبکہ اقبال کا ایک صدی پہلے بھی یہ خیال تھا، شدید احساس بھی تھا کہ قومیں عشق کے جذبے سے سرشار ہو کر ہی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتی ہیں ورنہ غلامی کی زد میں آکر اپنا سب کچھ برباد کر لیتی ہیں۔ ہم نے ایک طویل جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کے بعد برطانوی استعمار کی غلامی سے آزادی حاصل کی تھی لیکن غلامی کی عادت نہ گئی اور نتیجہ سامنے ہے کہ برطانوی غلامی کے بعد ہم اب امریکہ کی غلامی میں پھنس چکے ہیں۔ جبکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ غلامی میں پھنسی ہوئی قومیں اپنی تہذیب و تمدن، اپنی روایات، اپنی ثقافت اور دینی اقدار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔ غلامی ایک ایسا روگ ہے کہ اگر لگ جائے تو دماغ، دل اور ہاتھ پاؤں شل ہوجاتے ہیں۔ اعتماد کی دولت ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور عقل و شعور ابہام کا شکار ہوجاتے۔ یہی بات علامہ اقبال نے دورِ غلامی کہی تھی۔
از غلامی دل بمیرد در بدن                        از غلامی روح گرد و بار تن
از غلامی ضعفِ پیری در شباب                           از غلامی شیر غاب افگندہ ناب
از غلامی بزم ملت فرد فرد                                 ایں و آں بایں وآں اندر نبرد
از غلامی مرد حق زنار بند                            از غلامی گوہرش نا ارجمند
میں اپنے خیالوں میں افکار اقبال میں محو تھا کہ دفعتاً علامہ اقبال نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘قوموں کے عروج و زوال کی پوری داستاں میرے سامنے ہے۔ جس کی روشنی میں میں نے تحقیق کے بعد حالات و مشکلات پر قابو پانے کے لیے جذبۂ عشق اختیار کرنے کی تلقین کی تھی تاکہ مسلمانوں کے اندر عشق کی آگ جلتی رہے جس کے بغیر مسلمان ایک راکھ کے ڈھیر کے سوا اور کچھ نہیں’’
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے                                مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
میں نے کہا حضرت یہ تو دنیاوی ترقی و منزلت کی بات ہے آپ نے توعشق کو دین کی بنیاد بھی قرار دے دیا ۔ کیا آپ نے یہ نہیں کہا کہ دین سے جذبۂ عشق جدا کر دیا جائے تو دین کی پوری عمارت ڈھے جاتی ہے۔ عشق کے بغیر پورا دین بت کدۂ تصورات ہے میں نے انھیں ان کا یہ شعر سنایا۔
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اوّلین ہے عشق                                     عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات
اقبال نے کہا کہ میرے نزدیک ایمان کا جزو اوّل یقین و عشق ہے، دین کی بنیاد عقل نہیں ہے بلکہ عشق ہے، کیونکہ ایمان دعویٰ ہے اور عمل اس کی دلیل ہے۔ دلیل کے بغیر دعویٰ خارج از بحث ہوجاتا ہے اور عمل کا محرک بھی عشق ہے۔ مسلمان کا سینہ جب تک نور عشق سے منور نہیں ہوتا اس وقت تک مسلمان مؤمن کہلانے کا سرے سے حق دار ہی نہیں ہے۔ عقیدے کی اہمیت اپنی جگہ مگر محض عقیدہ تو اس تقاضے کو پورا نہیں کرتا جو دین کا خالق دین والوں سے کرتا ہے۔ عمل سے ہی آپ نے ثابت کرنا ہے کہ آپ ایک خاص عقیدے کے پیروکار ہیں۔ صرف زبانی اقرار عقیدہ جس کے حق میں عمل نہ پیش کیا جائے منافقت کی طرف لے جاسکتا ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
زباں سے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل                                  دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
میں چشم تصور سے دیکھ رہا تھا کہ علامہ اقبال مجھ سے ہمکلام ہیں اور ان کی باتوں کو غور سے سن رہا تھا اور دل کی گہرائی میں سمیٹ بھی رہا تھا۔ ان کے چہرے پر نظر یں جمائے ایک ایسی کیفیت جس میں دل کی شادمانی اپنے عروج پر تھی۔ علامہ اقبال کہہ رہے تھے
‘‘مومن کی زندگی میں ہر لمحہ اور ہر قدم کے پیچھے جذبۂ عشق ہوتا ہے۔ مومن کا بازو قوت عشق سے قوی اور اس کی زندگی جذبۂ عشق کے نور سے پر نور ہوتی ہے، حتیٰ کہ اس کی موت کمال عشق سے دوبارہ زندگی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اگر عشق کو کبھی موت نہیں ہے تو کہنا پڑتا ہے کہ صاحب عشق کو بھی حیاتِ جاوید اور بقائے دوام حاصل ہے۔ آج بلال حبشی رضی اﷲ عنہ زندہ ہیں تو محض اپنی ادائے عشق سے، جو انھیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے تھا۔ ایسے لوگوں کو موت چھو نہیں سکتی اور فنا ان کے پاس سے بھی نہیں گزرتی۔ جذبۂ عشق و جنوں سے وہ سرشار ہوجاتے ہیں اور موت کے بعد بھی ایسے لوگ زندہ رہتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اسی عشق کی بھٹی سے کندن بن کے نکلے اور قیامت تک کے لیے زندہ ہوگئے۔
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ                            عشق ہے اصلِ حیات موت ہے جس پر حرام
صحابہ کرام کے دل میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے معبود برحق اﷲ تعالیٰ کی ذات پر لازوال یقین پیدا کردیا تھا اور یہی عشق انھیں قیامت تک کے لیے زندہ کر گیا۔ اسی عشق سے سرشار ہو کر دنیا کو انھوں نے ولولۂ تازہ عطا کیا اور ایسا انقلاب برپا کیا کہ جس پر آج بھی نوع انسانی فخر سے اپنا سر اونچا کر لیتی ہے۔ صدق صدیق رضی اﷲ عنہ ہو کہ عدالت عمر رضی اﷲ عنہ، سخاوت عثمان رضی اﷲ عنہ ہو کہ شجاعت علی رضی اﷲ عنہ،تدبر حسن رضی اﷲ عنہ ہو کہ سیاستِ معاویہ رضی اﷲ عنہ، سب داستان عشق کے مختلف باب ہیں جو قرطاس دہر پر موتیوں کی طرح سجے ہوئے ہیں اور آسمان انسانیت پر قیامت تک چمکتے دمکتے رہیں گے۔ آنے والوں نسلوں کو اپنی منزل کا پتا دیتے رہیں گے’’۔
صدقِ خلیل بھی ہے عشق صبرِ حسین بھی ہے عشق                                 معرکۂ وجود میں بدرو حنین بھی ہے عشق
علامہ اقبال کہے جارہے تھے اور میں بڑے غور سے سن رہا تھا۔ علامہ فرما رہے تھے ‘‘یہ تو ان لوگوں کا تذکرہ ہے جن کے ایمانوں کو جذبۂ عشق نے چار چاند لگا دیے تھے، دوسری طرف کفار کی حالت یہ تھی کہ وہ حضورختمی مرتبت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہر بات کو عقل کے ترازو پہ تولتے تھے۔ کہتے تھے کہ ہمیں یہ شخص ان دیکھے اﷲ کی طرف بلاتا ہے۔ فرشتوں کی بات کرتا ہے۔ جنت و دوزخ کی داستانیں سناتا ہے۔ مرنے کے بعد زندہ ہونے کو جزو ایمان قرار دیتا ہے اور یہ سب باتیں ایسی باتیں ہیں جو عقل کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ ایسے عقلمندوں میں ابولہب بھی تھا جو عقل پر ستی میں اس قدر آگے بڑھا کہ اس کا شمار کفر کے بدترین سرکش سالاروں میں ہوا۔ انھی بدبخت سرکشوں کی مثال دے کر میں نے کہا تھا۔
تازہ میرے وجود میں معرکۂ کہن ہوا                            عشق تمام مصطفی عقل تمام بولہب
اقبال کی گفتگو نے میرے خیال کا رخ آزادیٔ ہند کے ہر ایک رہنما کی طرف دوڑ دیا۔ ہر ایک شہادت گاہ پر میں اپنی عقیدتوں کے پھول نچھاور کرتا، ماضی کے دھندلکوں میں روپوش ایک ایسی دنیا میں گم ہوگیا جو اہل خرد کی نہیں اہل عشق کی دنیا تھی۔ جس میں مجھے نواب سراج الدولہ، سلطان ٹیپو شہید، سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، جنرل، جنرل احمد ، بہادر شاہ ظفر، شیخ الہند محمود حسن ، سید حسین احمدمدنی، ابوالکلام آزاد،مولانا حسرت موہانی ، امیر شریعت سید عطا اﷲ بخاری ، مولانا ظفر علی خان ، مفکر احرار چودھری افضل حق ، صیغم احرار شیخ حسام الدین، مولانا محمد گل شیر شہید رحمہم اﷲ اور ان جیسے کئی اور اہل عشق و اہل خرد کے فہم و شعور پر آنسو بہاتے نظر آئے۔ ایسے تمام لوگ میری نظر میں ایک ایک کر کے آنے لگے جنھوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی۔ ہر مشکل سے دیوانہ وار ٹکرا گئے لیکن اپنے مؤقف سے دستبردار نہ ہوئے۔ ایسے لوگوں کے تصور سے فضا خوش کن، دل و دماغ روشن، روح معطر ہورہی تھی۔ مجھے ہر شے پر مسرت و انبساط رقص کرتی نظر آئی۔ انھی دل آویز تصورات میں کھویا ہوا تھا کہ علامہ اقبال نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا:
‘‘حقیقت تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو اپنے مؤقف کی صداقت پر لازوال یقین ہوتا ہے وہ پوری دنیا سے لڑ جاتے میں اور غلط مؤقف کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ جس طرح دورِ غلامی میں حریت پسند قبیلے نے کردیا تھا۔ یادرکھنا جماعتیں، تحریکیں اور شخصیتیں ہوتی ہی اس لیے ہیں کہ بوقت ضرورت مشن اور موقف پر قربان کر دی جائیں۔ جو لوگ اپنے مشن اور مؤقف کو قربان کر کے شخصیتیں بچا لیتے ہیں وہ جنون و عشق کے نہیں عقل و خرد کے تابع ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے ارد گرد عقل و خرد کے تانے بانے اس طرح بنتے ہیں کہ خود انھی میں الجھ کے رہ جاتے ہیں، جبکہ اہل جنوں اور اہل عشق یہ کہہ کے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔
لکھتے رہے جنون کی حکایاتِ خونچکاں                        ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.